زندگی مشکل ہے مگر حوصلے کی بدولت اپنا قد بڑھانے میں مصروف پونم شروتی
Friday April 22, 2016,
7 min Read
وہ مثال ہیں ان لوگوں کے لئے جو اپنی ناکامی کے لئے زندگی بھر دوسروں کو کوستے رہتے ہیں ۔ وہ ہمت ہیں ان لوگوں کے لئے جو مشکل حالات میں ٹوٹ جاتے ہیں ۔ وہ امید ہیں ان لوگوں کے لئے جو جسمانی کمزوری کے سبب آگے بڑھنا چھوڑ دیتے ہیں ۔ اگرچہ سوشل ویلفیئر سوسائٹی کی منتظمہ پونم شروتی اوسٹیو جینسس جیسی سنگین بیماری میں مبتلاہیں ،مگر اس کے باوجود پونم شروتی دیہی ترقیات کے علاوہ خواتین تفویض اختیارات اور معذور لوگوں کو اعلیٰ تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ ان کا حوصلہ بڑھانے کی کوشش کررہی ہیں ۔ اوسٹیو جینسس میں مبتلا31سالہ پونم شروتی کو اگر ہلکی سی ٹھوکر لگ جائے تو ان کی ہڈیاں ٹوٹ جاتی ہیں ۔ حالاں کہ یہ بیماری لاکھوں میں سے ایک یا دو کو ہوتی ہے ۔ اپنی بیماری کے بارے میں پونم بتاتی ہیں :
’’میری جتنی عمر ہے اس سے کئی گنامجھے فریکچر ہوچکے ہیں ۔ اس کی وجہ سے اتنے آپریشن ہوچکے ہیں کہ مجھے بھی یاد نہیں ۔ ‘‘
ان سب آپریشنوں کے باوجود انھوں نے عام بچوں کے ساتھ اپنی تعلیم مکمل کی ۔ انھوں نے بارہویں جماعت تک کی پڑھائی بھوپال کے ایک سینٹرل اسکول سے کی اور فائنانس جیسے مضمون میں ایم بی اے کی پڑھائی کی ۔ وہ بتاتی ہیں :
’’میں پڑھائی میں کافی ہوشیارتھی۔ میرے پتانے مجھے معذوربچوں کے اسکول میں پڑھانے کے بجائے عام بچوں کے ساتھ ہی پڑھایا۔ اس لئے میں نے کبھی بھی اپنے کو دوسروں سے الگ نہیں پایا۔ میرے خاندان میں ماتاپتاکے علاوہ دو بھائی ہیں ۔ ‘‘
حالاں کہ پونم کا کہناہے کہ ان کو سماج میں اچھے اور برے دونوں طرح کے لوگ ملے۔ اس لئے جب بھی ان کے ساتھ بھید بھاؤ ہوتاتھاتو انھوں نے اس چیز کو مثبت طور پر لیا۔ وہ کہتی ہیں :
’’اگر کوئی میرے سے کہتاہے کہ تم اس کام کو نہیں کرسکتی ہوتو میں اس کام کو پوراکرکے ہی دم لیتی ہوں ۔ یہی وجہ ہے کہ ایسی سوچ نے مجھے پازیٹیو انرجی دی ہے۔ ‘‘
اپنی مشکلوں کے بارے میں پونم بتاتی ہیں کہ جب پڑھائی پوری کرنے کے بعد وہ جہاں بھی نوکری کے لئے گئیں وہاں ان کے ساتھ امتیاز برتاجاتا۔ جب کہ ان کی قابلیت دوسروں کے مقابلے بہتر ہوتی تھی۔ لیکن جسمانی فرق کے سب ان کو موقع نہیں ملتاتھا۔
متعدد بار نظر انداز کئے جانے کے بعد آخر کار ایک کمپنی میں پونم کو بطور ایگزیکٹیو کام کرنے کا موقع ملا۔ حالاں کہ یہ ان کی صلاحیت کے مطابق عہدہ نہیں تھا۔ لیکن انھوں اسے ایک چیلنج کی طرح لیا۔ پونم شروتی سماج کوثابت کرناچاہتی تھیں کہ وہ بھی عام لوگوں کی طرح 9گھنٹے کی شفٹ پوری کرسکتی ہیں ۔ تقریباً پانچ سال تک اس کمپنی میں رہنے اور ڈپٹی منیجر کے منصب تک پہنچنے کے بعد انھوں نے وہاں کچھ نیاکرنے کے بارے میں سوچااور اس کمپنی سے استعفیٰ دے دیا۔
نوکری کے دوران پونم نے تفریق کاسامنا کیاتھااس لئے وہ چاہتی تھیں کہ جس طرح کی مشکلوں کو سامنا ان کو کرناپڑاویسادوسرے معذور لوگوں کو نہ کرناپڑے ۔ اس لئے انھوں نے سال 2014میں ادیپ سوشل ویلفیئر سوسائٹی کی تشکیل کی۔ تاکہ دوسرے معذور لوگ اپنی مرضی کے مطابق کام کرکے سماج میں اپنی الگ پہچان بنا سکیں ۔ آج پونم اپنے ادارے کے ذریعے تین الگ الگ شعبوں میں کام کررہی ہیں ۔ وہ جہاں دیہی ترقیات پر زور دے رہی ہیں وہیں وہ خواتین کو با اختیاربنانے کے ساتھ ساتھ معذور لوگوں کے لئے کام کررہی ہیں ۔ گذشتہ دوبرسوں سے پونم نے معذوروں کے تفویض اختیارات کے لئے ’کین ڈو‘ نام سے ایک مہم چلارہی ہیں ۔ اس کے ذریعے وہ لوگوں سے کہتی ہیں کہ وہ معذورلوگوں کی ذمہ داری اٹھانے کے بجائے انھیں اپنے پیروں پر کھراہونے کا حوصلہ دیں ۔ انھیں سماج میں برابری کا درجہ دلانے کے لئے پونم کئی ٹریننگ پروگرام اور بیداری سے متعلق پروگرام چلارہی ہیں ۔ خواتین کے تفویض اختیارات سے جڑاپروگرام بھوپال کے آس پاس کے دیہی علاقوں میں چلایاجارہاہے۔ اس میں ان کا ادارہ خواتین کو تعلیم یافتہ بنانے کےساتھ ساتھ وکیشنل ٹریننگ تو دے ہی رہی ہیں اس کے علاوہ صاف ہندوستان مہم کے تحت مختلف گاؤں میں صفائی مہم سے وابستہ ہیں ۔
یہ پونم کی کوششوں کا ہی نتیجہ ہے کہ انھوں نے بھوپال کے مضافات کے دو گاؤں میں 15-15خواتین کے دو سیلف ہیلپ گروپ تیارکئے ہیں ۔ جہاں پر خواتین کو پیپر بیگ اور دوسری چیزیں بنانا سکھایاجاتاہے جس سے ان کی آمدنی میں اضافہ ہوسکے ۔ اس کے لئے پونم کا ادارہ ادیپ ان خواتین کو خام مال مہیا کراتاہے۔ ساتھ ہی وہ ان خواتین کو پڑھنے کے لئے راغب کرتاہےجن کی تعلیم مختلف وجوہ سے درمیان میں چھوٹ جاتی ہے۔ اس کے علاوہ وہ گاؤں کے بچوں کا تعلیمی معیاربڑھانے کی کوشش کررہی ہیں ۔ اس کے ذریعے وہ ان کو کتابوں سے مدد کرتی ہیں ۔ ساتھ ہی انھیں کمپیوٹر کی تعلیم بھی دیتی ہیں ۔
پونم کا کہنا ہے کہ وہ شروعات سے ہی معذور لوگوں کو نوکری دلانے کا کام کرنا چاہتی تھیں ۔ لیکن جب وہ ایسے لوگوں سے ملیں تب تب انھیں لگا کہ ایسے لوگوں میں خوداعتمادی کافی کم ہوتی ہے ،بھلے ہی وہ پڑھائی میں کتنے ہی ذہین کیوں نہ ہوں ۔ وہ اپنے کو دوسروں کمتر سمجھتے ہیں ۔ اسی کے بعد انھوں نے ٹریننگ پروگرام کے ذریعے ایسے لوگوں میں خوداعتمادی پیداکرنے کی کوشش کی اور کچھ حد تک وہ اپنی کوششوں میں کامیاب بھی ہوئیں ۔ وہ کہتی ہیں :
’’جو بچے بی ٹیک ،بی سی اے کررہے ہیں اور اگر ان کو کسی طرح کی تعلیم میں دقت ہوتی ہے تو ہمارے والنٹیئر ان کی مدد کرتے ہیں ۔ ‘‘
پونم کہتی ہیں کہ جب معذور لوگوں کی پڑھائی پوری ہوجائے گی تو ان کے لئے پلیسمنٹ دلانے میں بھی وہ وہ مدد کریں گی۔ اس دوران ایک کمپنی نے معذور لوگوں کی نوکری کے لئے پونم کے ادارے سے سمجھوتہ بھی کیاہے۔
اپنی پریشانیوں کے بارے میں پونم کا کہنا ہے کہ ان کا سب سے بڑامسئلہ فنڈنگ کا ہے۔ فی الحال وہ اپنی بچت کا پیسہ ہی اپنے اس نیک کام میں لگارہی ہیں ۔ اس کے علاوہ دوسرامسئلہ مین پاورکا ہے۔ پونم کے مطابق :
’’اس شعبے میں جو دل سے کام کرناچاہتے ہیں وہی اس شعبے میں آتے ہیں یا پھر جن کو بہت اچھی تنخواہ ملے تبھی وہ کام کرنے کو راضی ہوتے ہیں ۔ ‘‘
پونم کی ٹیم میں زیادہ تر لوگ ان کے دوست ہیں ۔ فی الحال ٹیم میں کل 11 لوگ کام کررہے ہیں ۔ اس میں سے بھی 5-6لوگ ہی فعال رکن کے طور سے وابستہ ہیں ۔ مشکلوں سے بے پرواپونم کے کام کو دھیرے دھیرے شناخت ملنے لگی ہے۔ ابھی حال ہی میں صدر جمہوریہ پرنب مکھرجی نے ملک کی 100معزز خواتین کو انعامات سے سرفراز کیاہے ان میں سے ایک پونم بھی تھیں ۔ وہ بتاتی ہیں :
’’انعام ملنے کے بعد مجھ پر زیادہ ذمہ داری آگئی ہے۔ فی الحال میراسارادھیان اپنے ان سب کاموں پر جو میں نے شروع کئے ہیں ۔ اب میری کوشش اپنے اس کام کو بین الاقوامی سطح پر لے جانے کی ہے۔ ‘‘
........
قلمکار : گیتا بشٹ
مترجم : محمد وصی اللہ حسینی
Writer : Geeta Bisht
Translation by : Mohd.Wasiullah Husaini
........
کچھ اور کہانیاں پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں .