اخبار کی ملازمت چھوڑ کربنےمورخ ...سید نصیر احمد

 تیلگو صحافت اور ادب سے مورخ بننے   تک کا دلچسپ سفر

اخبار کی ملازمت چھوڑ کربنےمورخ ...سید نصیر احمد

Friday April 15, 2016,

7 min Read

''مجھے تاریخ سے محبت ہے اس لئے کہ دنیا میں وہی قومیں تاریخ رقم کر سکتی ہیں جو خود اپنی تاریخ اور اپنے اسلاف کے کارناموں سے واقف ہوں ۔ جو قوم اپنے اسلاف کے کارناموں کو بھول جائے وہ کیسے تاریخ کے اوراق میں یاد کی جا سکتی ہیں۔  تاریخ سے واقفیت ہی ہر قوم کے عروج و زوال کا سبب ہے۔ کیونکہ مستقبل میں شاہراہ زندگی پر ترقی کے منازل طئے کرنے کے لئے تاریخی معلومات ہی انسان کی صحیح رہنمائی کر سکتی ہیں۔ بر خلاف اس کے تاریخ کی فراموشی کی صورت میں ترقی کا تصور بھی ممکن نہیں ہے۔''

اس نظریہ پر جناب سید نصیر احمد پختہ یقین رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ پچھلے سولہ سال سے فن تاریخ سے جڑے ہیں اور انہوں نے اس شعبہ میں بہت سارے خدمات کو انجام دیا اور تاریخ کا ایسا خزانہ ملک کے عوام کو دیا جو تاریخ کے میدان میں اہم کارنامہ کہا جا سکتا ہے۔

ذاہد علی خان، ایڈیٹر سیاست کے ساتھ<br>

ذاہد علی خان، ایڈیٹر سیاست کے ساتھ


جیسے ہی ان کے دل میں تاریخ کے میدان میں کچھ بڑا کام کرنے کی خواہش پیدا ہوئی تو انہوں نے ہندوستان کی تاریخ ‘ اس کی تہذیب و ثقافت اس کا پس منظر ‘ جنگ آزادی کے مجاہدین اور مسلم مجاہدین کے کردار کو روشن کرنے اور اس کو نہ صرف اپنے قوم بلکہ دیگر برادران وطن تک پہونچانے کا بیڑہ اٹھایا۔ریاست آندھرا پردیش کے ضلع گنٹور کے جناب سید نصیر احمد نے تلگو زبان میں اس عنوان پر 13سے زائد کتابیں لکھیں اور وہ اپنے قلم سے ان پوشیدہ حقائق کا انکشاف کر تےرہے ہیں۔

ان کی پیدائش ضلع نیلور میں سید میران محی الدین اور سیدہ بی بی جان صاحبہ کے گھرانہ میں ہوا۔ بچپن سے ہی ان کے دل میں ہندوستان اور مسلمانوں کی تاریخ کو حاصل کرنے کا بڑا شوق تھا۔ اور وہ پچھلے سولہ سال سے اس عظیم مشن میں مصروف ہیں۔ انہوں نے ان سولہ سالوں میں تحریک آزادی ہند مسلم خواتین ‘ تحریک آزادی ہند ‘ مسلم ہیروز ‘ تحریک آزادی ہند مسلمانوں کی جد وجہد ‘ تحریک آزادی ہند آندھرا پردیش کے مسلمان ‘ تحریک آزادی ہند ٹیپو سلطان ‘ تحریک آزادی ہند مسلم مجاہدین ‘ تحریک آزادی ہند تاریخ ساز شخصیتیں ‘ شہید اشفاق اللہ خان ‘ 1857ء اور مسلمان ‘ یادگار شخصیتیں ‘ اور تلگو مصنفین جیسے سلگتے ہوئے اہم عنوانات پر 13سے زائد کتابیں لکھیں ۔ انکی تعلیم ایم کام کے ساتھ ساتھ ‘ تاریخ میں ایم اے بھی کیا۔اسکے علاوہ انہوں نے ایل ایل بی کی ڈگری بھی حاصل کی۔

 وہ پیشہ کے اعتبار سے وکیل ہیں۔ تاہم وہ ابتدا سے تلگو صحافی اور مصنف ہیں۔ تصنیف اور تالیف سے قبل تلگو کے مشہور روزنامہ وارتا ‘ رزنامہ ادیم میں اور سٹی کیبل نیٹ ورک پرائیویٹ لمیٹڈ میں کئی ذمہداریوں کو ادا کیا۔ لیکن انہوں نے اس عظیم مشن کے لئے تمام کاموں کو چھوڑ دیا۔ان کا کہنا ہے کہ تاریخ کے میدان میں اگر کام کرنا ہے تو تحقیق و تالیف کے لئے مکمل طور پر وقت کو وقف کردینا ضروری ہے ۔

image


انہوں نے کہا

'' تاریخ سے واقفیت حاصل کرنا ہر شخص کی ذمہداری ہے اگر وہ تاریخ سے واقفیت حاصل نہ کرے تو کیسے کسی انسان کی ترقی کا تصور کیا جا سکتا ہے۔ جس کے پاس اپنے ماضی کا علم نہ ہو۔ تاریخ سے عدم واقفیت کی بنا پر آج اقوام میں جھگڑے ہوتے ہیں۔ اقوام میں امن کے قیام اور آپسی پیام و محبت کے ماحول کو فروغ دینے میں تاریخ کا بہت اہم رول ہوتا ہے۔''

انہوں نے کہا کہ تاریخ سے نا بلد ہونے کی وجہ سے ہی کئی غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں ‘ کئی طریقوں سے منفی نظریات کو مسلط کرتے ہوئے ذہن سازی کی جاتی ہے۔ جسکے سد باب کے لئے اسی انداز میں ہمیں بھی ذہن سازی کرنا ہوگا اور یہ بتانا ہوگا کہ ہندوستان کیا ہے اسکی تاریخ کیا ہے۔

سید نصیر احمد سے جب یہ سوال کیا گیا کہ انہوں نے تصنیف اور تالیف کا سلسلہ کب سے شروع کیا۔ ؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ 1998میں انہوں ایک تہنیتی تقریب میں مہمان خصوصی کی تاخیر سے آمد کی وجہ سے خطاب کا موقع ملا تو انہوں نے آزادی کی جنگ میں مجاہدین کے کردار پر جب تفصیلات پیش کیں تو تو چنداصحاب نے طنزیہ انداز میں ان کے خطاب پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ جب آپ تقریر کریں تو مدلل تقریر کریں ۔آپنے جو کچھ کہا ہم نے اس کے بارے میں آج تک کسی کتاب میں نہیں پڑھا۔ چنانچہ اس واقعہ کے بعد انہوں نے تاریخ ہندوستان اور جنگ آزادی میں مجاہدین کے کردار سے متعلق تفصیلات کو جمع کرتے ہوئے کتاب لکھنے کا پختہ عزم کر لیا۔ اور 6سال تک اس کوشش میں لگے رہے ۔یہاں تک کہ2004میں میں تلگو روزنامہ وارتا کے ضلع گنٹور کے بیورو چیف کے عہدہ پر فائز تھے اور ان کو بیک وقت نوکری اور یہ تصنیف و تالیف کا سلسلہ جاری رکھنا مشکل ہوگیا اور ایک کو چھوڑنا ناگزیر ہوا تو انہوں نے اپنا نوکری کو چھوڑ د ی اور تصنیف و تالیف کے سلسلہ میں مصروف ہوگئے۔ انہوں نے بتایا کہ جب انہوں نے اسکے بارے میں اپنے والدہ اور اہلیہ سے مشورہ کیا تو انہوں نے انکے اس فیصلہ کا دل و جان سے خیر مقدم کیا۔

ان کی اہلیہ نے انکو حوصلہ دیتے ہوئے کہا کہ آپ برابر اپنے مشن میں لگے رہیں ۔انکی اہلیہ سرکاری اسکول میں ٹیچر ہیں۔ اور قدم قدم پر ہمیشہ انکا حوصلہ بلند کیا۔ انہوں نے کہا کہ اب تک تیرہ کتابیں چھپ چکی ہیں اور متعدد اڈیشن اسکے شائع ہوچکے ہیں۔ اور ہر اڈیشن میں کتاب میں برابر اضافہ کرنے کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔اب تک ملک بھر سے 5000تاریخ کے شائقین کی جانب سے انکی درخواست پر ان تمام کو جناب سید نصیر احمد کی کتابوں کے پی ڈی ایف کاپیاں بھیجے گئے ہیں۔

image


انہوں نے کہا کہ انکے اس کام میں ہندوستان کے بڑے بڑے یونیورسٹیز کے پروفیسرس نے برابر انکا ساتھ دیا ۔ جب انسے سوال کیا گیا کہ آج کے دور میں تاریخ کے مضمون سے بہت کم افراد دلچسپی رکھتے ہیں اور ہندوستان کی تاریخ ‘ اسکی تہذیب ‘ تمدن و ثقافت ‘ جنگ آزادی میں مسلم مجاہدین اور مسلم خواتین کے کردار جیسے مشکل عنوانات پر آپ تحقیق کا کام کیسے انجام دیتے ہیں تو انہوں نے اسکا جواب دیتے ہوئے کہا کہ وہ تحقیق کے لئے راست طور پر متعلقہ لوگوں کے افراد خاندان سے جاکر ملاقات کرتے ہوئے معلومات حاصل کیں ہیں‘ اسکے لئے انہوں نے چھوٹی چھوٹی معلومات حاصل کرنے کے لئے دور دراز کا بھی سفر کیا ہے ۔ اور انہوں نے اسکے لئے ہندوستان کے تقریبا بڑے یونیورسٹیز کا سہارا لیا ہے۔ اور بڑے لائبریز کے ذمہ داران سے بھی ملاقات کی ہے۔ انہوں نے تحقیق کا اعلی طریقہ اختیار کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اب تک کئی غیر مسلم دانشوران نے اس بات کا اعتراف کیا غیر مسلم برادران وطن کے درمیان مسلم مجاہدین کے کردار کو پیش کرنے کی صورت میں آپس میں بھائی چارگی اور مذہبی ہم آہنگی کو فروغ ملتا ہے۔

سید نصیر احمد نے کہا کہ زندگی دو قسم کی ہوتی ہے ایک مر کے جینا ہے اور دورا جی کے مرنا ہے ۔ یعنی جو شخص اپنی زندگی کو ذاتی مفادات تک محدود رکھے اسکی زندگی اور موت دونوں برابر ہے۔ اور جو شخص اپنی زندگی کو اپنی قوم کی ترقی کے لئے وقف کردے اسکی موت بھی اسکی زندگی کے برابر ہے۔ نصیر احمد صاحب کی کتابوں میں نہ صرف جنگ آزادی میں مسلم مجاہدین کا کردار اور مسلم خواتین کا کردار جیسے عنوانات ہیں بلکہ اس میں ہندوستان کے مسلمانوں کی ترقی ‘ انکا عروج و زوال ‘ انگریزوں کے دور میں مسلمانوں کے خلاف سازشیں ‘ مسلمانوں کی ثقافت ‘تہذیب انکی زبان کو مٹانے کی سازشیں ‘ جیسے پس پردہ عناصر کا بھی انکی تصانیف میں انکشاف ہوتا ہے۔ ان تصانیف کے ذریعہ آزادی کے بعد ہندوستان کے مسلمانوں کی پسماندگی کے اسباب کا بھی علم ہوتا ہے۔

image


http://urdu.yourstory.com/