مزدوری سے 9روپئے روزکماکر بڑی مشکل سے پڑھائی کرنے والی آرتی آج پڑھارہی ہیں سینکڑوں لڑکیوں کو مفت

مزدوری سے 9روپئے روزکماکر بڑی مشکل سے پڑھائی کرنے والی آرتی آج پڑھارہی ہیں سینکڑوں لڑکیوں کو مفت

Wednesday March 02, 2016,

6 min Read

ممبئی کے سلم علاقے میں رہنے والی وہ لڑکی جو دسویں جماعت میں فیل ہوگئی تھی اسے اس کے گھروالوں نے مزید نہیں پڑھنے دیا۔اس کے بعد اس لڑکی نے یومیہ مزدوری کرکے ہردن9روپئے کمائے اور ان پیسوں کو جمع کرکے کچھ برسوں بعد مزید تعلیم حاصل کی۔ آج وہی لڑکی اپنی تنظیم ’سکھی‘ کے ذریعے سلم میں رہنے والی دوسری لڑکیوں کو پڑھانے کاکام کررہی ہے تاکہ ان لڑکیوں کی تعلیم درمیان میں نہ چھوٹے۔

image


کسی بھی معاشرے کی ترقی میں تعلیم کااہم کردار ہوتاہے۔ ہمارے ملک میں آزادی کے 69سال بعد بھی سماج کے کئی حصوں میں تعلیم کا معیار بہت ہی خراب ہے اور ساتویں وآٹھویں جماعت کے بچوں کو تعلیم کا بنیادی علم جیسے گنتی، پہاڑے، جوڑ۔ گھٹانا اور انگریزی کے الفاظ کا علم بھی نہیں ہوتاہے جس کے سبب دسویں جماعت میں بورڈکے امتحان میں بچے فیل ہوجاتے ہیں۔ بچوں کی انھیں پریشانیوں کو دور کرنے کی کوشش کررہی ہیں ممبئی کے ملنڈمیں رہنے والی آرتی نائک۔ آرتی اپنی تنظیم ’سکھی‘ کے ذریعے سلم میں رہنے والی تقریباً 400لڑکیوں کو تعلیم کی مبادیات سے واقف کرارہی ہیں۔ آرتی کے مطابق :

’’مجھے اس تنظیم کو شروع کرنے کا آئیڈیا اس وقت آیاجب مجھے دسویں جماعت میں فیل ہونے کے سبب اپنی پڑھائی چھوڑنی پڑی۔ کیوں کہ میرے والدین کی مالی حالت ایسی نہیں تھی کہ میں آگے کی پڑھائی کرسکوں۔ پڑھائی چھوٹنے کے بعد تقریباً چارسال تک میں نے گھر پر رہ کر چوڑیاں اور فرینڈ شپ بیڈ بنانے کاکام کیا۔ اس کے لئے مجھے ہر روز9روپئے ملتے تھے۔ اس طرح چارماہ تک پیسے جمع کر نے کے بعد میں نے اپنی پڑھائی جاری رکھنے کا فیصلہ کیا اور بارہویں جماعت میں اول مقام حاصل کیا۔‘‘

آرتی یہیں نہیں رکیںبلکہ انھوںنے اس کے بعد سماجیات میں بی اے کی تعلیم ناسک کی یشونت راؤ اوپن یونیورسٹی سے مکمل کی۔ فی الحال وہ انٹرنیشنل مانٹیسری ٹیچر ٹریننگ کا کورس کررہی ہیں۔ آرتی کے مطابق:

’’سال2008میں میں نے پانچ لڑکیوں کے ساتھ اپنی تنظیم ’سکھی‘ کی بنیاد رکھی۔ شروع میں لوگ میرے پاس لڑکیوں کو پڑھنے کے لئے نہیں بھیجتے تھے کیوں کہ میں بچوں کو تعلیم کا صرف بنیادی علم ہی دیتی تھی او رسلم میں رہنے والی لڑکیوں کے والدین کا کہنا تھا کہ ان کی لڑکیاں پڑھنے کے لئے اسکول جاتی ہیں اوریہی ان کے لئے کافی ہے۔‘‘
image


ایک سال بعد انھوںنے انھیں لڑکیوں کے ساتھ ایک روڈ شوکا اہتمام کیا جسے آرتی نے نام دیا ’بال میلاوا‘۔ اس میں لڑکیوں کو اپنے خواب کے بارے میں بتاناتھا کہ وہ زندگی میں کیا بننا چاہتی ہیں۔ لڑکیوں نے اپنے اپنے خواب بیان کئے۔ کوئی لڑکی ٹیچر بننا چاہتی تھی توکوئی نرس بن کر لوگوں کی خدمت کرناچاہتی تھی۔ خاص بات یہ تھی کہ ان کی اس مہم کالوگوں پر بہت ہی مثبت اثر پڑا۔ ساتھ ہی کچھ مہینے بعد جب ان لڑکیوں کا رزلٹ آیا تو وہ کافی اچھا تھا۔ اس کے بعد ان کے پاس آنے والی لڑکیوں کی تعداد بڑھنے لگی۔ آج تقریباً 400لڑکیوں کو یہ پڑھانے کاکام انجام دے رہی ہیں۔ لڑکیوں کو وہ دونشستوں میںپڑھاتی ہیں۔ پہلی نشست شام کو 5سے7بجے کے درمیان ہوتی ہے جب کہ دوسری نشست 7سے9بجے تک۔

آرتی ایک واقعہ کویاد کرتے ہوئے بتاتی ہیں:

image


’’ ایک لڑکی جس کانام ساکشی ہے، اس کی ماں جب بازار سے اس سے کچھ سامان منگواتی تھی توبازار پہنچنے تک وہ سب کچھ بھول جاتی تھی۔ یہ دیکھ کر اس کی ماں بہت ہی پریشان رہتی تھی۔ میں نے اس کی ماں سے کہا کہ وہ ساکشی کو میرے پاس پڑھنے کے لئے بھیجے۔ آج میں تقریباً پانچ سال سے اسے پڑھارہی ہوں اور اس وقت وہ گیارہویں کلاس میں پڑھتی ہے۔‘‘

آرتی پڑھائی کے ساتھ لڑکیوں کے لئے سال2010سے گرلزسیونگ بینک بھی چلارہی ہیں۔ اس کے تحت یہاں ہر لڑکی کے پاس ایک گلک ہوتاہے۔ اس گلک میں لڑکیوں کو اپنی بچت کے پیسے ڈالنے ہوتے ہیں اور مہینے کے آخر میں لڑکیوں کے والدین کی موجود گی میں گلک کوکھول کر اس کی جمع شدہ رقم کودیکھا جاتاہے۔ ساتھ ہی جمع رقم کاحساب رکھا جاتاہے۔ لڑکیوں کو اس بات کی چھوٹ ہوتی ہے کہ اپنی پڑھائی کی ضرورتوں کو پوراکرنے کے لئے اس میں سے جب چاہیں وہ پیسے نکال سکتی ہیں۔

image


آرتی سال 2011سے ایک انگریزی گرلز لائبریری بھی چلارہی ہیں جس میں بیسک علوم کی تقریباً 400کتابیں رکھی گئی ہیں۔ لڑکیوں کو روٹیشن کے حساب سے ہر ہفتے کتابیں ملتی ہیں۔ آرتی کے اس نیک کام میں سی جے ہیڈن نامی خاتون مدد کرتی ہیں۔ انھیں کی مدد سے آرتی نے اپنے سلم ایر یا میں ایک کمیونٹی ہال کو کرائے پر لیا ہے،جس میں انھوںنے لائبریری کھول رکھی ہے۔ یہاں آکر سلم میں رہنے والی لڑکیاں مفت میںکتابیں پڑھ سکتی ہیں۔

آرتی یہیں نہیں رکیں بلکہ وہ لڑکیوں کو تعلیم اور لائف اسکل کے ساتھ کھیل کود کاعلم بھی دینا چاہتی تھیں۔ اس کے لئے انھوںنے گذشتہ سال جولائی میں اپنے یوم پیدائش کے موقع پر گرلزاسپورٹس اسکول قائم کیا۔ اس میں وہ لڑکیوں کو انڈوراور آؤٹ ڈور دونوں طرح کے کھیل کھلاتی ہیں۔ انڈور کھیل کے تحت لڑکیوں کو کیرم اورشطرنج کھلایاجاتا ہے جب کہ آؤٹ ڈور کھیل میں وہ بیڈمنٹن، بیلنسنگ بیلونی اور دوسرے کھیل کھلاتی ہیں۔ جگہ کی کمی کے سبب وہ انڈور گیم کو کمیونٹی ہال کے اندراور آؤٹ ڈور گیم کو وہ کمیونٹی ہال کے نزدیک کی روڈ پر کھلاتی ہیں۔ آرتی پڑھائی اور کھیل کود کے ساتھ بچوں کی صحت کا بھی پورا دھیان رکھتی ہیں۔ دومہینے پہلے ہی انھوںنے لڑکیوں کے لئے پروٹین ایکٹیوٹی شروع کی ہے تاکہ ان کا جسمانی ارتقاء صحیح طریقے سے ہوسکے۔ اس کے تحت وہ ماؤں کو مقوی غذا کھانے کا مینو دیتی ہیں۔ جس میں وہ بتاتی ہیں کہ کس کھانے میں کتنا پروٹین ہوتاہے۔
image


اپنی دشواریوں کے بارے میں آرتی کا کہنا ہے کہ جگہ کی کمی کے سبب وہ 85لڑکیوں کو دوشفٹ میں پڑھاپاتی ہیں۔ باقی 400لڑکیوں کو وہ سنیچر کو ان کے گھر گھر جاکر ان کی تعلیم میں آرہی دقتوں کو دور کرنے کاکام کرتی ہیں۔ ساتھ ہی ان لڑکیوں کو وہ گرلز بک بینک سے کتابیں بھی دیتی ہیں۔ کتابیں تقسیم کرنے میں دوخواتین اور ایک مرد ان کی مدد کرتے ہیں۔

image


ابھی حال میں آرتی کو تعلیم کے شعبے میں ان کے کام کو دیکھتے ہوئے ممبئی میں منعقد ایشین کانفرنس میں انھیںاسپیکر کی حیثیت سے مدعوکیا گیا اور وہاں انھیں سلورمیڈل سے سرفراز کیا گیا۔ مستقبل کے منصوبوں کے بارے میں ان کاکہنا ہے کہ وہ آئندہ تین برسوں کے اندر تقریباً ایک ہزار لڑکیوں تک رسائی حاصل کرنا چاہتی ہیں۔ اس کے لئے وہ تین گرلز لرننگ سینٹر اور گرلز بک بینک کھولنا چاہتی ہیں تاکہ لڑکیوں کو اچھی تعلیم مل سکے۔ اس کے علاوہ وہ اپنا اسٹاف بڑھانا چاہتی ہیں کیوں کہ ابھی پڑھائی کا ساراکام وہ خود ہی کررہی ہیں۔ آرتی پیسے کی کمی کو دیکھتے ہوئے فنڈ جمع کرنے کی کوشش بھی کررہی ہیں تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ لڑکیوں تک اپنی پہنچ بناسکیں۔

ویب سائٹ:www.sakhiforgirlseducation.org

...................

قلمکار : ہریش..... مترجم : محمد وصی اللہ حسینی... Writer : Harish.. Translation by : Mohd.Wasiullah Husaini

...................

کچھ اور دلچسپ کہانیوں کے لئے FACEBOOK پر جائیں اور لائک کریں۔

یہ کہانیاں بھی ضرور پڑھیں۔

شعلہ سا لپک جائے ہے آواز تو دیکھو....غزل گائیکی کی نئی ادا جنیوارائے

ارادے مضبوط ہوں تو ’دیپا‘کی طرح آپ بھی اپنی زندگی میں جلاسکتے ہیں دیپ