مجھے بتا کہ مرا حوصلہ کہاں کم ہے مری اُڑان کے آگے تو آسماں کم ہے

خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرنا بھی جانتا ہے یہ نا بینا نوجوان

مجھے بتا کہ مرا حوصلہ کہاں کم ہے                                                    
مری اُڑان کے آگے تو آسماں کم ہے

Wednesday October 28, 2015,

9 min Read

کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو زندگی میں کچھ کر دکھانے کے جذبے سے سر شار ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے عزائم جواں ہوتے ہیں اور وہ کسی بھی رُکاوٹ کو خاطر مٰیں نہیں لاتے۔ ایسے ہی لوگوں میں کارتک ساہنی کا شمار ہوتا ہے۔

کارتک ساہنی اس ہندوستانی نوجوان کا نام ہے جو اس دنیا کو دیکھ نہیں سکتا، لیکن اس نے اس دنیا کے کئی لوگوں کو راستہ دکھایا ہے ۔ یقین نہیں آتا نہ ؟ تو آ ئیے ہم کارتک کی کہانی جاںتے ہیں۔ کارتک نے بچپن ہی میں اپنی آنکھوں کی روشنی کھودی تھی۔ اس نے اپنی بینائی کے کھونے کا بہت زیادہ غم نہ کرتے ہوئے زندگی کو اپنے عزائم کی آنکھوں سے دیکھنے کا فیصلہ کر لیا۔ وہ کبھی مایوس اور نا امید نہیں ہوا۔ اور نہ ہی زندگی میں کبھی اس نے ہار مانی۔ اس نے عام لوگوں کی طرح ہی اپنے پڑھنے لکھنے کے شوق کو جاری رکھا۔ وہ دنیا کی رنگینی اور مختلف لوگوں اور اشیاء کو اپنی آنکھوں سے تو دیکھ نہیں سکتا تھا، لیکن اس نے سنہرے خوابوں کو دیکھنا بند نہیں کیا۔ کارتک کی خوبی اسی میں ہے کہ اس نے اپنے خوابوں کی تعبیر تلاش کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔اس نے نابینا افراد کے لئے تیار کردہ ہر ٹکنالوجی کا استعمال کیا اور اپنے پُختہ عزم اور ارادے کے ساتھ ساتھ زندگی کی جدوجہد جاری رکھی جس نے اس کی کامیابیوں میں اہم کردار ادا کیا۔ اس کی یہ کامیابیاں ایسی ہیں جن کے حصول میں بہت سے دیگر لوگ ناکام رہے۔ کارتک کی اس جدوجہد اور کامیابی کی کہانی صرف نابینا لوگوں کے لئے ہی نہیں بکہ عام لوگوں کے لئے بھی تحریک افزاء ہے۔

کارتک ساہنی 22 جون 1994 کو دہلی کے ایک متوسط خاندان میں پیدا ہوا۔ اس کے والد رویندر ساہنی کی دہلی میں ایک دوکان ہے اس کے علاوہ وہ کاروبار بھی کرتے ہیں۔ ماں اندو ساہنی گھر سنبھالتی ہیں۔ کارتک کو ایک جڑواں بہن اور ایک بڑا بھائی بھی ہے۔ کارتک کی پیدائش کے کچھ ہی دنوں بعد ان کے خاندان میں یہ علم ہوا کہ کارتک کو 'ریٹینو پیتھی آف پری میچورِٹی' نامی بیماری ہے جس کی وجہ سے کارتک کی آنکھوں کی روشنی ہمیشہ کے لئے چلی گئی اور یوں کارتک بچپن ہی میں نابینا ہوگیا۔

ماں باپ نے کارتک کی پرورش میں کوئی کمی نہیں کی اور تعلیم حاصل کرنے کے لئے اس کو تحریک دی۔ چھوٹی سی عمر میں ہی کارتک کو نیشنل اسوسی ایشن آف بلائنڈ یعنی قومی تنظیم برائے نابینا میں ٹریننگ کے لئے بھیجا گیا۔ اس تنظیم میں تربیت حاصل کرنے کی وجہ سے کارتک کا حوصلہ بلند ہوگیا اور وہ خود اعتماد ہوگیا۔ نیز اس نے ہمت نہ ہارتے ہوئے حصولِ تعلیم کے اپنے خواب کو زندہ رکھا۔ اس کی قابلیت اور پڑھائی میں دلچسپی کو دیکھتے ہوئے اس کے والدین نے اس کا داخلہ عام بچوں کے ایک مشہور اور بڑے اسکول 'دلی پبلک اسکول' میں کروادیا۔

image


اس اسکول میں داخلہ کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا۔ دلی پبلک اسکول جیسے باوقار تعلیمی ادارے میں عام بچوں کے بیچ ایک نابینا بچے کا داخلہ ایک نہایت غیر معمولی اور خاص بات تھی۔ اس ے پہلے شائد ایسا کبھی نہین ہوا تھا۔ دلی پبلک اسکول نے بھی کارتک کو اپنے اسکول میں داخلہ دے کر ایک جرات مندانہ قدم اُٹھایا تھا۔ اسکول کا انتظامیہ بھی اس کی صلاحیتوں سے متاثر ہوا تھا جس کی وجہ سے انہوں نے یہ فیصلہ لیا۔

عمومی طور پر نابینا بچوں کو عام بچوں کے اسکولوں میں داخلہ نہیں دیا جاتا بلکہ انہیں نابینا بچوں کے لئے قائم کردہ خصوصی اسکولوں میں داخل کیا جاتا ہے۔ لیکن کارتک نے اپنی صلاحیت اور تیز دماغ کی وجہ سے سبھی کا دل جیت لیا تھا ۔ کارتک نے وہ کر دکھایا تھا جو دیگر نابینا بچے ابھی تک نہیں کرپائے تھے۔ کارتک نے دلی پبلک اسکول کی ایسٹ آف کیلاش برانچ میں پڑھائی شروع کی۔ کام بہت مشکل تھا ۔ ایسے بچوں کے ساتھ تعلیم حاصل کرنا جو دیکھ سکتے تھے، ایک مشکل کام ضرور تھا۔ کارتک کتابیں پڑھ نہیں سکتا تھا جب کہ اسکول کے دوسرے طلباء اپنی آنکھوں سے کتابیں پڑھ سکتے تھے۔ کارتک کی پڑھائی کے لئے اس کی ماں نے اسے بریل رسم الخط میں تمام درسی کتابیں مہیا کروائیں۔ بریل رسم الخط در اصل نا بینا افراد کے لئے تحریری سلسلہ ہے جسے چھو کر پڑھا جاتا ہے۔ اس طریقے کو 1821 میں ایک فرانسیسی نا بینا شخص لوئی بریل نے ایجاد کیا تھا۔

اب کیا تھا! کارتک نے درسی کتابوں کا علم عام بچوں کی طرح ہی حاصل کرنا شروع کیا۔ چونکہ اس کے حوصلے کافی بلند تھے اور اس کے عزائم پختہ تھے اس لئے اس نے 'اکسس ٹکنالوجی' کی مدد سے اور پرشانت رنجن ورما نامی شخص کی معاونت سے کمپیوٹر استعمال کرنا بھی سیکھ لیا۔ کچھ ہی مہینوں میں اس نے کمپیوٹر پر ہی اپنے اسکول کے سارے کام انجام دینے شروع کردئے ۔ دوم جماعت کا امتحان اس نے کمپیوٹر کے ذریعے ہی دیا تھا۔ کمپیوٹر اور بریل رسم الخط کے ذریعے کارتک کی پڑھائی آگے بڑھی۔ وہ اگلی جماعتوں کی سیڑھیاں طے کرتا گیا۔ دسویں جماعت میں بھی اس نے امتیازی نمبروں سے کامیابی حاصل کی تھی جو واقعی ایک قابلِ تعریف کام تھا۔

جب انٹر میں داخلہ لینے کا وقت آیا تو کارتک کے پاس اپنی پسند کے مضامین کے انتخاب کا اختیار موجود تھا۔ اس نے اپنی دل چسپی کے مطابق ریاضی، سائنس اور کمپیوٹر جیسے مضامین کا انتخاب کیا۔ مضامین کے اس انتخاب نے بہت سے لوگوں کو دنگ کردیا کہ ایک نابینا طالبِ علم کس طرح اتنے مشکل مضامین کا انتخاب کرسکتا ہے؟ لیکن کارتک کا فیصلہ اٹل تھا۔ ابتداء میں مرکزی ثانوی تعلیمی بورڈ کو بھی حیرانی ہوئی اور اس کے افسران نے کارتک کو داخلہ دینے سے انکار کردیا لیکن بعد میں اس کا عزم دیکھ کر انہون نے کارتک کو اجازت دے دی۔ ریاضی اور سائنس کی جماعتوں میں داخلہ کارتک کے لئے ایک بڑی کامیابی تھی۔ عام طور پر سائنس اور ریاضی کی جماعتوں میں نا بینا بچوں کو داخلہ نہیں دیا جاتا اس لئے انہیں لا محالہ فنون یعنی آرٹس کے شعبے میں داخلہ لینا پڑتا ہے۔ لیکن کارتک کے معاملے میں ایسا نہیں ہوا اور وہ ان مشکل سمجھے جانے والے مضامین کی جماعتوں میں داخلہ حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔ 

گیارھویں جماعت میں کارتک نے 4۔93 فی صد اور بارھویں جماعت میں 8۔95 فی صد نمبرات حاصل کئےجس کی وجہ سے کارتک پورے ہندوستان میں سائنس اور ریاضی میں ایسی غیر معمولی کامیابی حاصل کرنے والا ملک کا واحد نابینا طالبِ علم بن گیا۔ دلی پبلک اسکول ، رام کرشنا پورم میں گیارھویں اور بارھویں جماعت میں تعلیم حاصل کرنے والے کارتک نے وہ کردکھایاتھا جو بہت سے آنکھیں رکھنے والے بچے بھی نہیں کرپاتے ہیں۔ اس نے کمپیوٹر سائنس میں 99، انگریزی ، ریاضی، فزکس اور کیمسٹری میں 95 نمبرات حاصل کئے تھے۔ یہ اس کے عزمِ محکم اور مضبوط قوتِ ارادی کا ہی کمال تھا کہ وہ مسلسل کامیاب ہوتا آرہا تھا۔

بارھویں کا امتحان دینے سے قبل ہی کارتک نے آئی آئی ٹی جیسے ملک کے موقر ادارے میں داخلہ لینے کی ٹھان لی تھی جس کے لئے اس نے جے ای ای یعنی جوائنٹ انٹرنس اکزام کی تیاری بھی شروع کردی تھی لیکن آئی آئی ٹی کے ضوابط کے مطابق کسی نابینا کو آئی آئی ٹی میں داخلہ نہیں دیا جاسکتا تھا۔ اس کے باوجود کارتک نے آئی آئی ٹی میں تعلیم حاصل کر نے کے اپنے خواب کو پورا کرنے کی کوششیں جاری رکھیں۔ کارتک نے اس ادارے میں تعلیم حاصل کرنے کی اپنی قابلیت کو پرکھنے کے بعد ہی یہاں داخلہ لینے پر اصرار کیا۔ لیکن اس ادارے کے افسران اصول و ضوابط کے حوالے دیتے رہے اور کارتک کو یہاں داخلہ نہیں مل پایا۔ کارتک تھوڑا مایوس ضرور ہوا لیکن پھر اس نے اپنا ہدف تبدیل کرلیا۔

اس نے اپنی صلاحیت کے بل بوتے پر امریکہ کی اسٹین فورڈ یونیورسٹی میں داخلے کے لئے اہلیت حاصل کرلی۔ اہم بات یہ بھی ہے کہ کارتک نے یونیورسٹی کے امتحان میں کامیابی کے ساتھ ساتھ 'فل اسکالرشپ' بھی حاصل کرلی یعنی یہاں تعلیم حاصل کرنے کے لئے اسے کوئی فیس نہں دینی تھی بلکہ اب وہ تعلیمی وظیفہ حاصل کر رہا تھا۔ وظیفہ کا حصول بھی کارتک کی انگنت کامیابیوں میں سے ایک اہم کامیابی تھی۔

اس کے والد اپنے نابینا بیٹے کی ان کامیابیوں پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ وہ کمپیوٹر سائنس کی پڑھائی کر رہا ہے۔ اس نے ابھی سے طے کرلیا ہے کہ وہ اپنے گریجویشن کے بعد نابینا افراد کے ارتقاء اور فروغ کے لئے کام کرے گا اور ان کی تعلیم اور انہیں خود کفیل بنانے میں بھی بھر پور معاونت کرے گا۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ کارتک کی کہانی عام کہانی نہیں ہے۔ یہ جدوجہد اور محنت کی ایسی کہانی ہے جو دنیا بھر کے لوگوں کو یہ پیغام دیتی ہے کہ ہار مان لینے سے زندگی تھم جاتی ہے اور مشکلات کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے سے ہی غیر معمولی کامیابی ہاتھ آتی ہے۔

کارتک صرف نابینا افراد کے لئے ہی ایک تحریک اور حوصلہ نہں ہے بلکہ دیگر عام لوگ بھی اس کی اس کہانی سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ نابینا ہونے کے باوجود جس طرح کارتک نےپڑھائی لکھائی کی اور بڑے بڑے امتحانات میں اول نمبر حاصل کیا، اس کی ان کامیابیوں نے ہندوستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے لوگوں کی توجہ کارتک کی طرف مبذول کردی۔ اسے قومی اور بین الاقوامی سطح پر انعامات سے بھی نوازا گیا۔ اس کی کامیابیوں کی کہانی دنیا بھر میں سنی اور سنائی جانے لگی۔

کارتک کی زندگی میں اس کے والدین کا کردار بہت اہم رہا۔ جب انہیں کارتک کی بینائی گم ہوجانے کا علم ہوا تو ان پر مصیبتوں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا تھا۔ اپنی اولاد کے لئے انہوں نے جو سنہرے خواب دیکھے تھے، وہ ایک لمحے میں ہوا ہوگئے ۔ انہیں اندیشہ ہوا کہ اب ان کا بیٹا زندگی بھر پریشانیوں سے الجھتا رہے گا۔ لیکن جیسے جیسے کارتک ﷽بڑا ہوتا گیا، اس کے حوصلے بھی بلند ہوتے چلے گئے۔ اس میں جو قابلیت اور عام بچوں کی طرح تعلیم حاصل کرنے کی خواہش تھی اسے دیکھ کر اس کی ماں کے دل میں بھی نئے خواب جاگ اُٹھے تھے۔ ماں نے کارتک کو پڑھانے کے لئے خوب محنت کی تھی۔ ماں نے کارتک کے لئے جو کچھ کیا وہ بھی کئی لوگوں کے لئے ایسی مثال ہے جس سے زندگی کی مشکلات سے مقابلہ کرنے کے سلسلے میں رہنمائی حاصل ہوتی ہے۔

کارتک ان تمام لوگوں کے لئے ایک تحریک اور حوصلہ افزاء شخصیت ہے جو اپنی کسی طبعی معذوری کو اپنی کمزوری بنالیتے ہیں ۔ کارتک کی کہانی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ اگر انسان کے دل میں خواہش ، کچھ کرنے کی لگن اور عزمِ محکم ہو تو کچھ بھی ناممکن نہیں ہوتا۔