اپنی تنخواہ کے ذریعہ تلسی رام بچا رہے ہیں 1250 نایاب درخت

اپنی تنخواہ کے ذریعہ تلسی رام بچا رہے ہیں 1250 نایاب درخت

Wednesday December 09, 2015,

5 min Read

بچوں کی طرح پودوکی پرورش کرتے ہیں تلسی رام

بوندی ضلع کے ایک اسکول میں چوتھے درجہ کے ملازم ہیں تلسی رام ...

کسی بڑی تبدیلی کے لئے ہمیشہ کسی بڑے کام کو کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ کئی بار اپنی طرف سے کی گئیں چھوٹی چھوٹی سی کوششیں بہت بڑے کام کی بنیادیں بن جاتی ہیں ۔ وہ کام معاشرہ میں مثبت پیغام دینے میں ذریعہ بن جاتے ہیں ۔ راجستھان کے بوندی ضلع کے ایک اسکول میں چوتھے درجہ کے ملازم تلسی رام بھی ایک ایسی ہی کوشش کر رہے ہیں جس کی وجہ سے آج بوندی ضلع کے لوگ ان کی مثال دیتے ہیں ۔ تلسی رام نے اپنی انتھک کوشش کے ذریعہ اپنے علاقہ میں ماحولیات کو سرسبز رکھنے میں اہم کردار ادا کیاہے ۔

image


تلسی رام ایک غریب شخص ہیں - وہ ایک سرکاری اسکول میں کام کرتے ہیں ۔ اسکول کا کمپاؤنڈ کافی بڑا ہے ۔ اس کمپاؤنڈ میں ایسی زمین تھی جو خالی پڑی رہتی تھی جس پر لوگ کوڑاکچرا پھینک دیتے تھے ۔ یہاں پر ہمیشہ گندگی بنی رہتی تھی ۔ اندھیرا ہوتے ہی غیرسماجی عناصر یہاں پر شراب وغیرہ پینے آیا کرتے تھے ۔ سن 2007 میں بوندی ضلع کے اس وقت کے کلکٹر ایس ایس بسسا نے اس پورے علاقہ میں تقریبا 1250 پودے لگوائے اور علاقے کو ہرا بھرا کرنے کی کوشش کی ۔ انہوں نے اس جگہ کا نام پنچوٹی رکھا ۔ کچھ عرصہ بعد ہی ان کا وہاں سے ٹرانسفر ہو گیا ۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ کون ان پودوں کی دیکھ بھال کرے گا اور پھر اس جگہ کو کوڑے دان میں تبدیل ہونے سے کون روکے گا ۔ ایسے میں تلسی رام آگے آئے اور انہوں نے پنچوٹی کی بحالی کی ذمہ داری قبول لی اور عہد کیا کہ وہ اس علاقے کی ہریالی اور خوبصورتی کو کم نہیں ہونے دیں گے ۔

image


ماحولیات کی اہمیت سے تلسی رام پہلے ہی سے باخبر تھے اور اس کا شعور رکھتے تھے ۔ فطرت سے اور درخت پودوں سے انہیں بہت شغف تھا ۔ انہوں نے بچوں کی طرح پودوں کی پرورش شروع کی' لیکن جسمانی خدمات کے علاوہ اتنے بڑے علاقے کی بحالی کے لئے پیسے کی بھی ضرورت تھی ۔ تلسی رام کے سامنے مسئلہ یہ تھا کہ وہ پیسے کہاں سے لائیں ۔ تلسی رام کا کہنا ہے :''جب مجھے کسی سے مدد نہیں ملی تو میں نے فیصلہ کیا کہ میں خود ہی پنچوٹی کی بحالی کروں گا لیکن میری خود کی تنخواہ بہت کم تھی تو گھر چلانے اور پنچوٹی کو سنبھالنے میں کافی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ۔ اس وقت میں نے طے کیا کہ سال میں ایک ماہ کی تنخواہ پنچوٹی کی دیکھ بھال میں لگاؤں گا''۔

تلسی رام کے گھر والوں اور دوستوں نے انہیں اس ذمہ داری کو نہ ادا کرنے کا مشورہ دیا' لیکن تلسی رام نہیں مانے اور ہریالی بچانے اور ماحول کے تحفظ کے اپنے اس کام میں لگے رہے ۔

تلسی بتاتے ہیں کہ درخت پودوں کا تحفظ انسان کا فریضہ ہے ۔ ہم صرف بڑے بڑے کارخانے لگا کر ملک کو آگے نہیں بڑا سکتے' اس کے ساتھ ساتھ ماحول کا بھی خیال رکھنا ہوگا ۔ وہ ان درختوں اورپودوں کی اپنے بچوں کی طرح پرورش کرتے ہیں اور جیسے ہی وقت ملتا ہے وہ باغ میں آکر وہاں پر کام کرنے لگتے ہیں ۔

تلسی رام مانتے ہیں کہ اگر ہم درخت پودوں کو بچاتے ہیں تو اس سے ہم آنے والی نسلوں کو ایک صحت مند ماحول فراہم کرنے کے قابل ہوجائیں گے ۔ آج کل ہر جگہ ڈیولپمنٹ کے نام پر درختوں کو کاٹا جا رہا ہے ۔ پیڑوں کو کاٹ کر فیکٹریاں بنائی جا رہی ہیں جن سے ماحول اور آلودہ ہو رہا ہے ۔ اس سے نئی نئی بیماریاں جنم لے رہی ہیں ۔ تلسی رام ترقی کے مخالف نہیں ہیں لیکن وہ ماحول کی قیمت پر ترقی کے سخت مخالف ہیں ۔

image


اپنی اس کوشش میں تلسی رام کو کافی محنت کرنی پڑتی ہے وہ پہلے اسکول کی نوکری کرتے ہیں اس کے بعد پنچوٹی میں آکر وہاں صاف صفائی اور باغبانی کے کام میں غرق ہو جاتے ہیں ۔

تلسی رام کی انتھک کوشش سے جو پودے 2007 میں لگائے گئے تھے وہ آج پھل دار درخت بن چکے ہیں ۔ پنچوٹی میں لیمو' امرود' آملہ' انارکے علاوہ کئی اقصام کے پھل دار درخت لگائے گئے ہیں' جن کی تعداد 1200 سے زیادہ ہے ۔ تلسی رام بتاتے ہیں کہ ان پودوں کی دیکھ بھال میں انہوں نے کافی پسینہ خرچ کیاہے' بہت جدوجہد کی ہے۔ جانور پودوں کو نقصان پہنچاتے تھے 'ان کی حفاظت کرنی پڑتی تھی ۔ کام کے بعد چلچلاتی دھوپ میں پسینے سے شرابور وہ پودوں کی دیکھ بھال کرتے تھے اور آج بھی تلسی روزانہ یہاں پر سخت ترین محنت کرتے ہیں ۔ یہی ان کی زندگی کا معمول بن چکا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ اس کام میں انہیں بہت لطف آتا ہے۔

پنچوٹی کے اطراف و اکناف دیوار ہے ' خار دار تار نصب کی گئی تھی تاکہ غیرسماجی عناصر وہاں نہ آ سکیں اور کوئی یہاں پر کوڑا بھی نہ پھینک سکیں ۔

تلسی رام کہتے ہیں کہ ان کے پاس زیادہ پیسہ نہیں ہے لیکن درخت پودوں کی افزائش کے لئے فنڈز سے زیادہ ٹھوس عزم کی ضرورت ہے ۔ لوگوں کو سمجھنا ہوگا کہ ماحول کو پاک صاف برقرار رکھنا کتنا ضروری ہے' لہٰذا ہر کسی کو آگے آنا ہوگا اور ماحول کے تئیں اپنی ذمہ داری پوری کرنی ہوگی ۔

قلمکار:آشوتوش کھنتوال

مترجم:شفیع قادری