والدین کو مشعلِ رہ بنانے والی کامیاب بیٹی

والدین کو  مشعلِ رہ بنانے والی کامیاب بیٹی

Tuesday October 13, 2015,

8 min Read

غربت کہاں نہیں ہے، ہرملک میں غریب لوگ رہتے ہیں۔ کہیں کم ہیں تو کہیں زیادہ۔ یہ بھی اتنا ہی سچ ہی کہ دنیا بھر میں غریبوں کی فلاح و بہبود اور ترقی کے لئے کئی پروگرام چلائے جا رہے ہیں، کئی اسکیمیں لاگو کی جا رہی ہیں۔ کچھ کام حکومتوں کی جانب سے ہو رہا ہے. اس کے علاوہ غیر سرکاری ادارے، خانگی و رضاکار تنظیمں اور دیگر لوگ بھی غریبوں کی امدادکر رہے ہیں۔ ایسے ہی لوگوں میں ایک ملکہ گھوش ہیں۔ ملکہ گھوش 'پرینام' نامی غیر سرکاری تنظیم کی چیف ایگزیکٹو آفیسر اور سربراہ ہیں۔ ہندوستان کے 20 ریاستوں میں شہری غریب لوگوں کے معیارزندگی کو اوںچا اٹھانے لے لئےیہ ادارہ کام کر رہا ہے۔ ملکہ نے انتہائی غریب لوگوں کی تعمیرنو کے لئے ایسے پروگرام شروع کئے ہیں۔ ہندوستان میں ایک نئی مثبت تبدیلی لائی ہے۔اس سے بہت سے غیر سرکاری اداروں کی ترجیحات اورسوچ کو بدلنے میں کامیابی ملی ہے۔ ملکہ نے اپنے والدین سے تحریک حاصل کی اور معاشرے کی خدمات کا بیڑہ اٹھایا –

ملکہ کے والدین اليانےاورسمت گھوش نے اپنی اپنی ملازمتیں چھوڑ کرسماجی خدمت کا راستہ اپنایا تھا۔ دونوں بینکنگ سیکٹر میں تھے اور دنیا بھر میں کئی ممالک کا دورہ کر خوب تجربہ حاصل کیا تھا۔

image


ملکہ کے والد سمت نے دنیا کے مختلف مقامات پر غربت کو کافی قریب سے دیکھا۔ بہت غریبوں سے بات چيت کر ان کے حالات معلوم کئے۔ ان کے مسائل کے حل تلاش کرنے کی کوشش کی۔ غریب لوگوں کے مسائل، ان کے دکھ درد نے سمت گھوش کے دل پر گہرا اثر چھوڑا۔ سمت نے ملازمت چھوڑ کر ہندوستان میں غریب لوگوں کی زندگی سنوارنے کے لئے خود کو وقف کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ چونکہ سمت بینکنگ کے شعبے کے ماہر تھے انہوں نے اپنے تجربے کی بنیاد پر ہی غریبوں کی مدد کرنے کا منصوبہ بنایا۔ سال 2005 میں سمت نے ujjivan کے نام سے ایک مائیکرو فائنانس ادارے کی شروعات کی۔ 'اُججيون' نے شہری غریب لوگوں کی مدد کرنا شروع کیا۔ اس تنظیم نے شہری غریبوں خصوصاً خواتین کو کم سود پر قرض دیا۔ وہ چاہتے تھے کہ ان روپیوں سے کاروبار شروع کرخواتین اپنی زندگی کو بہتر بنا سکیں گے۔ سمت جانتے تھے کہ غریب لوگوں کو اگرروزگار یا کاروبار کے مواقع دیے جائیں تو ان کے بہت سارے مسائل تواپنے آپ حل جائیں گی۔

روزگار نہ ہونے یا پھر کاروبار کرنے کی طاقت نہ ہونے کی وجہ سے بہت سے لوگ غریب بن کر رہ جاتے ہیں۔ سمت گھوش نے'اُججيون' کے ذریعہ غریبوں کو کم سود پر روپے دے کر انہیں چھوٹے موٹے کاروبار کرنے اور روپے کمانے کا موقع دیا۔

مارچ 2014 تک 'اُججيون'نے 13 لاکھ سے زیادہ لوگوں کو قرض دے کر ان کی مالی مدد کی تھی۔ آج 'اُججيون' ایک بہت بڑی تنظیم، ایک کامیاب تاجربہ بن کر سامنے ہے۔ ملک کی 22 ریاستوں میں اس کی قریب 350 شاخیں ہیں۔

image


سمت کی بیگم کو لگا کہ صرف ما لی مدد سے غریبوں کی تعمیرنو ممکن نہیں ہے۔ غریبوں کی ترقی کے لئے اور بہت سارے کام کرنا ضروری ہے۔ غریبوں کو دوسری ساری ضروری سہولیات اور امداد کے مقصد سے انہوں نے 'پرینام' کے نام سے ایک غیرسرکاری ادارہ شروع کیا۔ اس ادارے نے تعلیم اور صحت کی سہولتیں غریبوں فراہم کرانے کا بیڑا اٹھایا-

شروع میں تو اليانے نے خود اپنے دم پر ہی سارا ادارہ چلاتے، لیکن بعد میں انہیں ان کی بیٹی ملکہ سے کافی مدد ملی۔ 2010 ء میں ملکہ نے من بنایا کہ وہ بھی اپنے والدین کی طرح غریبوں کی تعمیرنو کے لئے کام کریں گی۔

ملکہ گھوش کی اسکولی تعلیم انگلینڈ میں ہوئی۔ انہوں نے امریکہ سے اعلی تعلیم حاصل کی۔ انھیں بچپن سے ہی ٹی وی اور فلموں کا شوق تھا۔ اس وجہ سے انہوں نے فلموں کی دنیا میں ہی اپنا کیریئر بنانے کا فیصلہ کیا تھا۔

فلم بنانے کا فن بھی سیکھا۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد ملکہ نے سات سال تک آیڈورٹائزنگ انڈسٹری میں کام کیا۔ ملکہ نے مشہور بین الاقوامی تشہیری ایجنسی 'میكان ایركسن' میں ملازمت کی۔ وہ اس کمپنی میں فلمز ڈپارٹمنٹ کی جنوبی انڈیا ہیڈ بھی رہیں۔

ملازمت کرتے وقت ایک دن اچانک ملکہ کو احساس ہوا کہ ان کے ماں باپ رات دن غریبوں کی ترقی کے لئے محنت کرتے ہیں۔ ان کا سارا دھیان غریبوں کی ترقی میں ہی لگا رہتا ہے-غریبوں کی زندگی بھی کامیاب اور خوشحال بنانے میں والدین کا سآتھ دینے کا خیال کے بعد ملکہ نے سوچا کہ جس تشہیری انڈسٹری میں تھی، وہاں 30 سیکنڈز کی ایک فلم بنانے کے لئے لاکھوں کروڑوں روپے خرچ کر دئے جاتے ہیں۔ کروڑوں روپے خرچ کرفلم بنانے کے بعد بھی نہ فلم بنانے والے پوری طرح خوش ہوتے نہ ہی جس کے لئے فلم بنا ئی جاتی ہے وہ۔

اپنے والدین کے کام کاج سے اپنے کام کا تقابل کرتے کرتے ملکہ کو لگا کہ اب ان کا بھرم ٹوٹنے لگا تھا- اور اسی عمل کے دوران انہوں نے فیصلہ کر لیا کہ وہ بھی اپنے ماں باپ کی راہ پر ہی چلیں گی۔

چونکہ ملکہ کو بچے بہت پسند تھے انہوں نے بچوں کے لئے کام کرنے میں اپنی دلچسپی دکھائی۔ نرسری اسکول سے شروعات کی۔ لیکن، دو ہی ہفتوں میں ملکہ ہر روز ایک ہی طرح کے کام کاج اور پروگراموں سے بور گئیں۔ نرسری اسکول چھوڑ دیا اور بچوں کے لئے کام کرنے والےغیرسرکاری تنظیموں کے بارے میں معلومات حاصل کرنی شروع کی۔ اسی دوران والد نے ملکہ کو مشورہ دیا کہ ان کی ماں خود ایک غیر سرکاری ادارہ چلا رہی ہیں اور ملکہ کو اپنی ماں کے کام میں ہاتھ بٹانا چاہیے۔ ملکہ نے والد کا مشورہ مان لیا اور ‘پرینام’ کے لئے کام کرنا شروع کیا۔

ماں نے ملکہ کو اپنی تنظیم میں انٹرن رکھا۔ لیکن، ملکہ خود كنسلٹنٹ بتانے لگیں۔ ملکہ کو ایڈ انڈسٹری میں سات سال کا تجربہ تھا اور وہ جنوبی ہند کی ہیڈ کی طرح کام کر چکی تھیں، ایسے میں انہیں خود کو انٹرن کہنا اچھا نہیں لگا۔

ماں نے ملکہ کو بڑے منصوبوں پر کام کرنے کا موقع دیا۔ ملکہ نے ابتدائی دنوں میں بچوں کی تعلیم کے حکمت عملی تیار کی۔ بچوں کے سمر کیمپ کی ذمہ داری بھی انھیں سونپی گئی۔ یہ ‘پرینام’ کا پہلا سمر کیمپ تھا۔ ملکہ نے محنت اور لگن سے اس کیمپ کو کامیاب بنایا۔ یہ کامیابی کا پہلا قدم تھا۔

کام میں ملکہ کی بڑھتی ہوئی دلچسپی کو دیکھ کر ماں نے انہیں ادارے کے آپریشن کی اہم ذمہ داری سونپی۔

ملکہ بتاتی ہیں کہ ‘پرینام’ کی رجسٹریشن میں ہی بہت ساری دقتیں آئی تھیں۔ متعلق حکام نے رجسٹریشن کے لیے رشوت مانگی تھی۔ ماں رشوت دینے کے شخت خلاف تھیں۔ اسی وجہ سے رجسٹریشن میں تین سال کا وقت لگ گیا۔ بڑی جدوجہد کے بعد کمپنیز ایکٹ کے سیکشن 25 کے تحت ‘پرینام’ کی رجسٹریشن کے غیر سرکاری ادارے کے طور پر ہوا۔

یہ ادارہ عطیات اور گرانٹ کی رقم پر ہی چلتا ہے۔ ‘پرینام مائیکل اینڈ سوزین ڈیل فاؤنڈیشن، سٹی فاؤنڈیشن، یچ ایس بی سی بینک اور کچھ لوگ ذاتی طور پرعطیہ-گرانٹ دیتے ہیں۔ انہی کی دی ہوئی رقم کے بل پر پرینام کے سارے کام کاج ہوتے ہیں۔

ملکہ کی پہل کا ہی یہ نتیجہ تھا کہ ‘پرینام’ نے اپنے مالی معاملات کو بغیر کسی رکاوٹ اور غلطیوں کے چلایا۔

'پرینام’ کی سب سے بڑی خاصیت یہ ہے کہ وہ غریبوں سے کوئی فيس یا رقم نہیں لی جا تی۔

2010 میں جب ملکہ ادارے میں کم کرنا شروع کیا تھا، ادارہ تعلیمی پروگرام اور سمر کیمپ چلاتی تھی۔ ملكہ نے ‘پرینام’ کے پروگراموں توسیع کرنئے پروگرام شروع کئے۔ نئی اسکیمیں لاگو کیں۔ کئی بڑے اور انقلابی قدم اٹھائے۔ ملکہ کی کوششوں اور محنت نے ہی 'الٹرا پوئرپروگرم' کو کامیاب بنایا۔ یہ پروگرام آج دوسرے اداروں کے لئےبھی ایک ماڈل ہے۔

سب سے غریب یعنی انتہائی غریب لوگوں کی مالی مدد کرنا ان کا خاص مقصد ہے۔ ملکہ کی ماں کوان کے کام کاج کے دوران یہ پتہ چلا کہ لوگ غریبوں کی مدد تو کرتے ہیں، لیکن انتہائی غریب کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتا۔ اداروں اور بینکوں کو لگتا ہے کہ انتہائی غریب لوگ قرض کے پیسے ادا نہیں کر سکتے۔ لیکن اس ادارے نے انتہائی غریب لوگوں کو سود پر رو پے دیتے ہوئے انہیں بھی کاروبار کرنے اور روپے کمانے کا موقع ديا ۔

ملکہ نے اپنی ماں اور اپنے ادارے ‘پرینام’ کا اپنے والد سمت کی تنظیم 'اججيون' سے رسمی معاہدہ کرایا اور انتہائی غریب لوگوں کی ما لی طور پر مدد شروع کی۔ 'پرینام' نے پچاس ہزار کے بینک اکاؤنٹ كھلوائے ہیں اور غریبوں لوگوں کو بچانے کے لئے حوصلہ افزائی کی ہے۔ 700 سے زیادہ انتہائی غریبپسماندہ خاندان 'الٹرا پوئرپروگرم' سے فائدہ اٹھا چکے ہیں۔

‘پرینام’ کا ایک اور منصوبہ 'دیکشا' بہت کامیاب رہا۔ اس منصوبہ کے ذریعہ غریب اور انتہائی غریب خاندانوں کے بچوں کوتعلیم حاصل کرنے کا موقع دیا گیا۔ 75 ہزار سے زیادہ بچے اس اسکیم کا فائدہ اٹھا کر تعلیم حاصل کرچکے ہیں۔

'پرینام’ اور بھی کئی پروگرام چلا رہا ہے۔ مقصد ایک ہی ہے - انتہائی غریب اور غریب لوگوں کو خود مکتفی بنانا، انہیں روزگار کے مواقع دلانا، کاروبار کے لئے حوصلہ افزائی کرنا، تعلیم اور صحت کی ضروریات کو پورا کرنا۔

‘پرینام’ نے جھگی بستیوں میں رہنے والے اور دوسرے بہت سے خاندانوں کو غربت سے باہر نکالا ہے ان کی زندگی کی سطح کو اوچا اٹھایا ہے۔ ‘پرینام’ قائم کرنے والی اليانے نومبر 2013 میں اس دنیا سے کوچ کرگئیں۔

ملکہ اکیلے ہی ‘پرینام’ کو آگے بڑھا رہی ہیں۔ نئے خیالات اورانتھک کوشش سے ملکہ اپنی ماں کے دکھائے راستے پر چلتے ہوئے انتہائی غریب اور غریب لوگوں کی زندگی میں بھی خوشحالی لانے کا کا کام کررہی ہیں۔