شالینی نے اپنے دادا کی تکلیف کو محسوس کرتے ہوئے بنایا نئی طرح کا 'واکر'
اپنے دادا کی تکلیف کو محسوس کرتے ہوئے ایک طالبہ نے سیڑھیاں چڑھنے میں مددگار ثابت ہونے والا واکر بنایا یہ واکر تقریباً ڑھائی ہزار روپے میں ملنے کی امید ہے۔
Thursday September 15, 2016,
4 min Read
ایک لڑکی جس کے دماغ میں آیا ایک انوویٹو خیال اور اب اس خیال کی وجہ سے لاکھوں افراد کی زندگی بدل سکتی ہے۔ بہار کے دارالحکومت پٹنہ میں رہنے والی شالنی کماری نے ایک ایسے واکر کا ڈیزائن تیار کیا ہے، جس کی آگے کی دو ٹاںگے چھوٹی بڑی کی جا سکتی ہیں۔ اس طرح اس ایڈجیسٹبل واکر کی وجہ اسکو استعمال کرنے والا شخص نہ صرف آسانی سے ادھر ادھر آ جا سکتا ہے، بلکہ وہ سیڑھیوں پر بھی چڑھ سکتا ہے۔ اپنے اس آئڈیا کی بدولت شالینی کئی ایوارڈ بھی جیت چکی ہیں۔ جب شالینی نے یہ واکر بنانے کی شروعات کی تھی تو وہ صرف ۱۲ سال کی تھی۔
شالینی پٹنہ میں ایک درمیانے طبقے کے خاندان سے تعلق رکھتی ہیں اور فی الحال وہ ڈاکٹر بننے کے لئے امتحانات کی تیاری میں مصروف ہیں۔ يورسٹوری کو انہوں نے بتایا،
"مجھے واکر بنانے کا خیال اپنے دادا کو دیکھ کر آیا جو واکر کا استعمال کرتے تھے۔ تب میں دیکھتی تھی کہ ان کو واکر پر چلنے کے دوران کئی طرح کی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ جیسے وہ واکر کے سہارے سیڑھی نہیں چڑھ پاتے تھے۔ اگر واپس مڑنا ہو تو ان کو پریشانی ہوتی تھی۔ اسی طرح ان کی کئی دوسری تکلیفوں کو میں نے دیکھا اور سمجھا۔ "
جس کے بعد شالینی نے سوچا کہ اگر اس واکر میں تھوڑ ی بہت تبدیلیاں کر دی جائیں تو مشکل آسان ہو سکتی ہے۔ جس کے بعد انہوں نے واکر کے ڈیزائن پر کام کرنا شروع کیا۔
شالینی نے ایک کے بعد ایک کئی طرح کے ڈیزائن تیار کئے، لیکن زیادہ تر میں خامیاں دیکھنے کو ملتی تھیں۔ شالینی کے مطابق جب وہ 8 ویں کلاس میں تھیں اس کے بعد سے ہی انہوں نے اس کے ڈیزائن پر کام کرنا شروع کر دیا تھا۔ آخر کار کافی کوششوں کے بعد ان کے دماغ میں کیمرے کا ٹرايپوڈ ڈیزائن آیا۔ جس کو ذہن میں رکھتے ہوئے انہوں نے واکر کے لئے نیا ڈیزائن تیار کیا۔ تاکہ اسے بڑا چھوٹا کیا جا سکے۔ اس کے علاوہ انہوں نے واکر کو کئی طرح کی سہولیات سے بھی لیس کرنے کی کوشش کی جیسے دیکھیئے کا انتظام، پانی کے بوتل رکھنے کا انتظام وغیرہ۔
ان کے اس خیال کو اس وقت اور رفتار ملی جب انہوں نے اس کو گجرات کے احمد آباد میں نیشنل انوویشن فاؤنڈیشن کے سامنے رکھا۔ اس کے بعد وہاں پر ان کے بنائے ڈیزائن پر اور کام ہوا۔ جس کے بعد واکر کے لئے بنائے ان کے ڈیزائن میں کچھ تبدیلیاں کی گئیں اور جب یہ بن کر تیار ہوا تو شالینی کو احمد آباد بلایا گیا۔ آج اس واکر کے ڈیزائن پر کام مکمل ہو چکا ہے۔ اس واکر کی خوبی کو دیکھتے ہوئے ناگپور کی ایک کمپنی نے اس پروجیکٹ کو خرید لیا ہے۔ جس کے بعد کمپنی نے شالینی کے بنائے ڈیزائن پر واکر بنانے کا کام شروع کر دیا ہے۔ شالینی کے مطابق یہ واکر ڈھائی ہزار روپے کے آس پاس قیمت میں مارکیٹ میں مل جائے گا۔
اس واکر کو بنانے میں ایلومینیم کا استعمال کیا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ استعمال میں نہ صرف کافی ہلکا ہے بلکہ یہ آرام دہ اور پرسکون بھی ہے۔ اس کے علاوہ اس واکر کے ذریعے دائیں بائیں کسی بھی سمت میں جایا جا سکتا ہے۔ اتنا ہی نہیں اس واکر کے ذریعے سیڑھیوں پر آسانی سے اوپر نیچے چڑھا یا اترا جا سکتا ہے۔ تاہم اب تک مارکیٹ میں موجود واکر سے سیڑھیوں چڑھی یا اتری نہیں جا سکتی ہیں، لیکن اس واکر نے اس کام کو آسان بنا دیا ہے۔ شالینی کے اس کام کی نہ صرف قومی سطح پر بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی کافی تعریف ہو چکی ہے۔ اس لئے ان کو کافی سارے اعزاز سے نوازا جا چکا ہے۔
نئے طریقوں کا واکر ایجاد کرنے کے لئے شالینی کو سب سے پہلے سابق صدر عبدالکلام نے انعام سے نوازا۔ جبکہ 2015 میں شالینی کو اسٹوڈنٹ کونسل ایوارڈ سے بھی نوازا جا چکا ہے۔ ان کی اس کامیابی کے لئے ان کو نہ صرف ملک میں بلکہ غیر ملکی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا ہے۔ جنوبی کوریا کی ایک تنظیم نے ان اس کامیابی پر ان کو کاروباری ماڈل ایوارڈ سے نوازا۔ اب شالینی کی کوشش ہے کہ ان کا ڈیزائن کیا ہوا یہ واکر ہر ضرورتمند تک آسانی سے پہنچ چائے، تاکہ چلنے پھرنے میں اس کی مشکل تھوڑی کم ہو۔