امید اور یقین کا ایک دور

آج جب میں یہ مضمون لکھ رہا ہوں تو ہندوستان اقتصادی اصلاحات کی25 ویں سالگرہ منا رہا ہے۔ میں نے گزشتہ 25 سالوں میں ہندوستان کو بدلتے ہوئے دیکھا ہے۔ آج ہندوستان کو غریب ملک کے طور پر نہیں جانا جاتا، بلکہ اسے مستقبل کا سوپر پاور سمجھا جاتا ہے۔ معاشرے میں ایک نیا درمیانہ طبقہ پیدا ہوا ہے۔ عام آدمی کی قوۃ خريد کی طاقت میں اضافہ ہوا ہے۔ آج باہر جا کر کھانا عیش و آرام نہیں سمجھا جاتا۔ لوگ دنیا بھر کے مہنگے برانڈ خرید رہے ہیں۔ ملک میں کہیں نہ کہی روز نئے مآل کھل رہے ہیں۔ ہندوستان صارفین کےمرکز کے طور پر تبدیل کر رہا ہے۔ آج ہندوستانی کمپنیاں بیرون ملک میں جا کر بین الاقوامی کمپنیوں کو سخت ٹکر دے رہی ہیں۔ ہندوستانی سی ای اوز کو بیرون ملک میں کافی احترام حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ غیر ملکی ملٹی نیشنل کمپنیوں کی طرح گوگل، مائیکروسافٹ، پیپسی جیسی کمپنیوں کو ہندوستانی سی ای او ہی چلا رہے ہیں۔ وہیں سلیکون ویلی میں آئے انقلاب میں ہندوستانیوں نے اہم کردار ادا کیا ہے۔

امید اور یقین کا ایک دور

Saturday July 23, 2016,

8 min Read

میں ایک ایسی یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کر رہا تھا، جو کمیونسٹ نظریات کے لئے مشہور تھی۔ جب میں نے کیمپس میں داخلہ لیا، تب مارکسزم، لیننزم گردش میں تھا۔ تب سوویت یونین کو معروف عالمی طاقت کے طور پر جانا جاتا تھا، تاہم اس کے ٹوٹنے کے کافی اشارے بھی مل رہے تھے۔ سوویت یونین کی کمیونسٹ پارٹی کے جنرل سکریٹری میخائل گورباچوف سوویت سماج اور سیاست کی تنظیم نو کے لئے پیرسترویكا کے بارے میں بات کر رہے تھے۔ باوجود اس کے کسی کو بھی اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ اچانک اتنی جلد سوویت یونین مشرقی یورپ کے دوسرے کمیونسٹ بلاک کے ساتھ ٹوٹ کا سامنا کرے گا۔ اس دوران ہندوستان میں خانگیانے اور بازار کی معیشت کے بارے میں کوئی زیادہ بات نہیں کرتا تھا۔ بھارت کامیابی کے ساتھ تیسری دنیا کے ممالک کو ایک ماڈل کے طور پر مخلوط معیشت کے لئے حوصلہ افزائی کر رہا تھا، لیکن جب میں نے سال 1994 میں جے این یو کو چھوڑا تو قومی بحث کے مسئلے بدل چکے تھے۔ بازار کو اب لعنت نہیں سمجھا جاتا تھا۔ پرائوٹائزیشن کو فروغ دیا جا رہا تھا۔ صنعتوں کو چھوٹ دی جا رہی تھی اور معیشت کو لائسنس اور پرمٹ راج سے چھٹکارا مل رہا تھا۔ ہندوستانی معیشت اب پرواز کو تیار تھی۔

image


جب میں نے 80 کی دہائی کے آخری سالوں میں یونیورسٹی میں داخلہ لیا تھا، تب ایس ٹی ڈی بوتھ لوگوں کے لئے نئی چیز تھی۔ دہلی کے ہر علاقے میں یہ مشروم کی طرح پیدا ہو گئے تھے۔ کیمپس کے اندر لوگ رات کے 11 بجنے کا انتظار کرتے تھے، تاکہ ایس ٹی ڈی کی قیمت گھٹ کر ایک چوتھائی رہ جائیں۔ یہ وہ زمانہ تھا، جب موبائل فون، وهاٹس ایپ نہیں تھا۔ آج کی طرح یہ وہ دور نہیں تھا، جب کوئی آپ کے اسمارٹ فون سے دنیا کے کسی بھی کونے میں رہنے والے شخص سے بات کر سکتا ہے۔ اس وقت ایک شہر سے دوسرے شہر میں بات کرنے کا مطلب دو تین گھنٹے ضائع کرنا تھا۔ اپنےجاننے والوں سے بات کرنے کے لئے تب لوگ ٹرنک کال بک کرتے تھے اور اس کے لئے بھی ان کو گھنٹوں انتظار کرنا پڑتا تھا۔

تب ملک میں چند ایئرپورٹ تھے، جن کی حالت زیادہ بہتر نہیں تھی۔ باوجود دہلی کا بین الاقوامی ایئرپورٹ، نئی دہلی ریلوے اسٹیشن سے تھوڑا بہتر حالت میں تھا۔ تب متوسط طبقہ کا کوئی شخص بمشکل کبھی ہوائی سفر کرتا تھا۔ ہوائی سفر عیش و آرام کی چیزوں کی فہرست میں شامل تھا اور ایسا مانا جاتا تھا کہ یہ صرف ہائی کلاس کے لئے ہی ہے۔ اس وقت آج کی طرح ڈھیروں ذاتی ایئر لائنز کمپنیاں نہیں ہوا کرتی تھیں۔ اس وقت ایئر انڈیا اور انڈین ایئر لائنز ہی پرواز کرتے تھے اور یہ بھی کافی کم شہروں کے ساتھ منسلک ہوئے تھے۔ اس دور میں ہم نے کبھی بھی ملٹی پلیکس سنیما ہال کے بارے میں سنا تک نہیں تھا، کیونکہ اس وقت سنگل اسکرین والے سنیما ہال ہی چلتے تھے۔ میں اس وقت جوان لڑکا تھا اور پھر میں فلموں کے صرف چار شو 12 سے 3، 3 سے 6، 6 سے 9 اور 9 سے 12 کے بارے میں جانتا تھا۔

خاندان کے ساتھ فلمیں دیکھتے تب بڑی بات مانی جاتی تھی۔ تب کہیں بھی کیبل ٹی وی نہیں تھا اور صرف دوردرشن اکیلا چینل تھا، جس پر ہفتے میں ایک دن اتوار کو فلم دکھائی جاتی تھی۔ خبروں کاایکلوتا ذریعہ دوردرشن ہی تھا۔ تب کہیں کوئی پرائم ٹائم ڈبیٹ نہیں ہوتی تھی۔ آج کی طرح ٹی وی اسٹوڈیو میں کہا سنی نہیں ہوتی تھی۔ ٹی وی اسکرین میں نیوز ریڈر بڑے ہی سلیقے سے پیش آتے تھے۔ کوئی ٹی آر پی کی دوڑ بھی نہیں ہوتی تھی۔ میں نے پہلی بار اگر کسی کیبل نیوز چینل کا نام سنا تو وہ تھا سی این این۔ یہ پہلے خلیجی جنگ کی بات ہے۔ اس وقت ہندوستان نے پہلی بار اس طرح کوئی لائیو کوریج دیکھی تھی۔

اس وقت ہندوستان ایک بڑھتی ہوئی معیشت نہیں تھا، بلکہ اس کی شناخت ایک ایسے غریب ملک کے طور پر تھی، جو سپیروں، سادھو اور سڑکوں پر ٹہلتی گایوں کے لئے مشہور تھا۔ دنیا دو گروپوں سوویت یونین اور امریکہ کے درمیان بنٹی ہوئی تھی۔ یعنی کمیونسٹ اور سرمایہ دارانہ۔ تب بھی بھارت میں بدعنوانی اتنا ہی تھا اور بوفورس اسکینڈل کانگریس پارٹی کے لئے لعنت بن گیا تھا۔ 1991 سے حالات بدلنے شروع ہوئے جب نرسمہا راؤ ملک کے وزیر اعظم بنے۔ تب ملک دیوالیہ ہونے کے دہانے پر تھا اور بین الاقوامی بازار میں قرض ادا کرنا مشکل ہو رہا تھا۔ تب کئی سخت فیصلے لئے گئے اور اس وقت تک کمیونسٹ ماڈل بھی توجہ کھو چکا تھا۔ ہندوستان کی مخلوط معیشت کا تجربہ بھی بری طرح فیل ہو گیا تھا۔ ایسے میں معیشت کو کھولنے کے علاوہ دوسرا کوئی چارہ نہیں تھا۔ تب لائسنس اور پرمٹ راج پرانی بات ہو گئی تھی۔ بازار میں مقابلہ اور منافع اصل مقصد ہو گیا۔ تب نرسمہا راؤ نے ایک بڑا قدم اٹھایا اور ملک کے وزیر خزانہ کے طور پر ایک ٹیکنوکریٹ کو بیٹھا دیا۔ میری نظر میں یہ ایک کافی اہم فیصلہ تھا۔ جس نے آزادی کے بعد ملک کی تصویر ہی بدل ڈالی۔

راؤ کے لیے یہ اتنا آسان نہیں تھا۔ اس وقت میں ایک نوجوان صحافی ہوا کرتا تھا اور مجھے اب تک اچھی طرح یاد ہے کہ اس وقت ملک میں کمپیوٹر کی کافی مخالفت ہو رہی تھی۔ اس مخالفت میں صحافی بھی شامل تھے۔ اس وقت یہ سمجھا جاتا تھا کہ کمپیوٹر لاکھوں نوکریاں کھا جائے گا۔ عام طور پر لوگوں کا خیال تھا کہ کمپیوٹر سے بے روزگاری پیدا ہوگی۔ اس وقت یہ سمجھا گیا کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ، عالمی بینک، عالمی تجارتی تنظیم ہندوستان کو سرمایہ داری کی طرف دھکیل کر اسے پھر سے بسانے کے طور پر تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ یہ سمجھا گیا کہ مارکیٹ کچھ سرمایاکاروں کے ہاتھ میں رہ جائے گا۔ اتنا ہی نہیں کوئی ایک بڑی ملٹی نیشنل کمپنی ایک بار پھر ہندوستان کو ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرح اپنا غلام بنا لے گی، جیسا تین سو سال پہلے ہوا تھا، لیکن راؤ اپنے فیصلے پر قائم تھے۔ اس کے بعد انہوں نے خود سیاست کو سنبھالنے کا کام کیا اور منموہن سنگھ معیشت کو سنبھالنے کا کام کرنے لگے۔ باوجود اس کے بعد میں نرسمہا راؤ اپنی پارٹی کے ساتھ ملک کے عوام کا اعتماد کھو چکے تھے۔ وہیں ہندوستانی معیشت اب اس راستے پر چل پڑی تھی، جہاں سے لوٹنا مشکل تھا۔

یہی وجہ تھی کہ ایچ ڈی دیوگوڑا اور اندر کمار گجرال حکومت نے بھی اسی پالیسی پر عمل کیا، جبکہ ان دونوں کی حکومت نے خانگیانے کی مخالفت کرتے ہوئے حکومت بنائی تھی۔ اتنا ہی نہیں ان حکومتوں کو کمیونسٹ پارٹیوں کی حمایت حاصل تھی۔ ان کے بعد واجپئی حکومت نے بھی اسی رفتار کو برقرار رکھا اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی پر زیادہ زور دیا۔ سال 2004 میں واجپئی حکومت نے عوام کا اعتماد کھو دیا۔ وہیں ہندوستانی معیشت پروان چڑھ رہی تھی۔ اگر سال 2008 کو چھوڑ دیا جائے جب عالمی معیشت کساد بازاری پر تھی تو ملک کی معیشت سال 2011 تک 9 فیصد کی رفتار سے بڑھ رہی تھی۔ آج ملک کی معیشت دنیا کی تیزی سے بڑھتی ہوئی معیشتوں میں سے ایک ہے۔

آج جب میں یہ مضمون لکھ رہا ہوں تو ہندوستان اقتصادی اصلاحات کی25 ویں سالگرہ منا رہا ہے۔ میں نے گزشتہ 25 سالوں میں ہندوستان کو بدلتے ہوئے دیکھا ہے۔ آج ہندوستان کو غریب ملک کے طور پر نہیں جانا جاتا، بلکہ اسے مستقبل کا سوپر پاور سمجھا جاتا ہے۔ معاشرے میں ایک نیا درمیانہ طبقہ پیدا ہوا ہے۔ عام آدمی کی قوۃ خريد کی طاقت میں اضافہ ہوا ہے۔ آج باہر جا کر کھانا عیش و آرام نہیں سمجھا جاتا۔ لوگ دنیا بھر کے مہنگے برانڈ خرید رہے ہیں۔ ملک میں کہیں نہ کہی روز نئے مآل کھل رہے ہیں۔ ہندوستان صارفین کےمرکز کے طور پر تبدیل کر رہا ہے۔ آج ہندوستانی کمپنیاں بیرون ملک میں جا کر بین الاقوامی کمپنیوں کو سخت ٹکر دے رہی ہیں۔ ہندوستانی سی ای اوز کو بیرون ملک میں کافی احترام حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ غیر ملکی ملٹی نیشنل کمپنیوں کی طرح گوگل، مائیکروسافٹ، پیپسی جیسی کمپنیوں کو ہندوستانی سی ای او ہی چلا رہے ہیں۔ وہیں سلیکون ویلی میں آئے انقلاب میں ہندوستانیوں نے اہم کردار ادا کیا ہے۔

سال 1991 تک ہمارے آس پڑوس میں کچھ لوگوں کے پاس کاریں ہوتی تھی، لیکن آج ہر کسی کے پاس کار ہے۔ بہت سے خاندان تو ایسے ہیں جہاں پر ایک سے زاید کاریں ہیں۔ ہندوستان آج ایک قابل اعتماد ملک ہے، جو مقابلے سے نہیں گھبراتا اور آج کوئی یہ بات بھی نہیں کرتا کہ کوئی ایم اینسی ملک کو غلام بنا لے گی۔ دنیا بھر میں ہندوستان کا احترام بڑھا ہے یہی وجہ ہے کہ آج غیر ملکی سرمایہ کاری کے معاملے میں ہندوستان اہم ملک کے طور پر ابھر رہا ہے۔ بازار کو اب کوئی برا نہیں کہتا۔ باوجود اس کے اب بھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ یہاں بڑے پیمانے پر بدعنوانی ہے، امیر اور غریب کے درمیان فرق دنوں روز بڑھتا جا رہی ہے، بنیادی ڈھانچہ خستہ حال ہے اور افسر شاہی بڑھتی جارہی ہے۔ ہندوستان کو اگر دنیا جیتنی ہے تو اسے تعلیم اور صحت پر زیادہ توجہ دینی ہو گی۔ ہماری جمہوریت میں بہت گڑبڑياں ہیں، لیکن گزشتہ 25 سال امید اور اعتماد کا ایک دور رہا ہے۔ فی الحال تمام پریشانیوں کے باوجود میں ملک کے بہتر مستقبل کو لے کر امید ہوں۔

مصنف اور صحافی اشوتوش عام آدمی پارٹی کے لیڈر ہیں۔

انگریزی سے ترجمہ- ایف ایم سلیم

    Share on
    close