لائٹس!کیمرہ!ایکشن ! ’چلڈرن آف ٹومورو‘

لائٹس!کیمرہ!ایکشن ! ’چلڈرن آف ٹومورو‘

Monday January 04, 2016,

6 min Read

جب مقامی سروس اسٹیشن نے نریندرجے کی بائک کا مرمت کے دوران کباڑاکردیاتوانھیں بہت غصہ آیا۔ وہاں پہنچ کر انھوں نے اس شخص کو طلب کیا، جس نے اتنا گھٹیاکام کیاتھا۔ وہ ’شخص ‘ ڈرسے لرزہ براندام گیارہ سالہ لڑکانکلا۔اس کے ہاتھ الکترااور گیسولین سے آلودہ تھے۔ لڑکا خوف زدہ نظر آرہاتھا۔

جلد ہی نریندر اور ان کے دوست گومتیش نے بنگلورمیں انفارمیشن ٹیکنالوجی کی پرکشش ملازمتیں چھوڑدیں اور ایسے موضوعات پر کہانیاں کہنے کے لئے وقف چھوٹی فلم کمپنی ’سمفونی فلمز‘کے قیام کے لئے کمربستہ ہوگئے۔

ان کی تازہ ترین پیشکش ’چلڈرن آف ٹومورو‘ ہے ۔ خراب زندگی گذارنے والے بچوں پر ایک تیکھی نظر۔گذشتہ دنوں یوراسٹوری نے نامساعدحالات سے دوچارایسے لاوارث بچوں کے بارے میں لکھاتھاجنھوں نے اپنی زندگی میں کچھ حیرت انگیز کام کئے تھے۔ایسی کہانیاں زبردست تحریک تو دیتی ہیں لیکن یہ یاد رکھناضروری ہے کہ ایسی زندگی گذارنے والے بچے لاکھوں میں ایک دوہوتے ہیں۔کافی بچے تاریک جگہوں میں سڑتے رہتے ہیں اور کنارے کردیئے جاتے ہیں۔ ’چلڈرین آف ٹومورو‘کے ذریعے فلم ساز ہماری آنکھیں کھولنے،زندگی میں تبدیلی لانے اور سرگرم ہونے کے لئے جھٹکادینے کی امید کررہے ہیں۔ نریندرجےنے ابتدائی ایام پر یوراسٹوی سے بات چیت کی کہ یہ فلم بنانے کے سواان کے پاس کوئی متبادل کیوں نہیں تھا۔کام کتنامشکل تھا اور مستقبل کیساہے۔سمفونی فلمز اور ’چلڈرین آف ٹومورو‘دونوں کے لئے۔

image


سمفونی فلمز کس طرح وجود میں آئی ؟

جب میں کارپوریٹ (انفارمیشن ٹیکنالوجی) سیکٹرمیں نوکری کرتاتھاتو میں اپنے کلیگ گومتیش اپادھیائے کے ساتھ روز دفتر کی گاڑی میں سفرکیاکرتاتھااور بنگلور کے ٹریفک اور دوری دونوں کے سبب ہم لوگوں کو روزانہ تقریباً تین گھنٹے کا سفرکرناپڑتاتھا۔اس دوران ہم لوگ متعدد موضوعات پر بات چیت کیاکرتے تھے۔ وہ فوٹوگرافی میں تھے اور میں ڈرامہ لکھنے اور تھیٹر میں ۔اس لئے ہم لوگ فلم ،فلم سازی اور متعلقہ تخلیقی معاملوں پر گفتگوکیاکرتے تھے۔ہم لوگ مستقل ادائیگی والے کام میں تھے۔ حالاں کہ ہم لوگ مطمئن نہیں تھے ،کیوں کہ ہماری تخلیقی صلاحیتوں کا استعمال نہیں ہورہاتھا۔دوبرسوں کی مدت اور طویل غور وفکر کے بعد میں نے طے کیاکہ مجھے اپنے ضمیرکی آواز سننی چاہئے۔مجھے پتہ تھاکہ اس میں بہت سارے چیلنجز کاسامنا کرناپڑے گا،ہر روز جوکھم مول لینا ہوگااور مستقل ادائیگی والا کام نہ ہونے کے سبب میں پریشان ہوا۔میں سوچتاہوں کہ ایسا فیصلہ کن وقت ہرآدمی کی زندگی میں آتاہے اور ان کا کیریئر /زندگی اس دوران کئے گئے فیصلے پر منحصر ہوتی ہے۔ میں نے کافی حوصلے سے کام لیااور تخلیقی امنگوں کی تکمیل کے لئے کارپوریٹ جاب چھوڑدی۔اس کے بعد میں اگلے قدم کےبارے میں سوچنے لگا۔کچھ مہینے بعد گومتیش نے بھی میرا راستہ اپنایااور اس کے بعد سے ہم لوگوں نے پیچھے مر کر نہیں دیکھا۔

کیا ’چلڈرن آف ٹومارو‘حقیقی زندگی پر مبنی ہے ؟

ہاں ،کچھ سال پہلے میں اپنی بائک لانے مقامی سروس اسٹیشن گیاتھا۔میں نے جب بائک دیکھی تو کام کا معیار دیکھ کر مجھےسخت غصہ آیا۔میں نے اس شخص سے بات کرناچاہی جس نے سروسنگ کی تھی۔ میرے سامنے گیارہ سالہ ایک لڑکاآکھڑاہوا۔جس وقت میں نے اسے دیکھاوہ جیسے عرفان ِ ذات کا لمحہ تھا۔ایک طاقتور جذبہ میرے اندر پیداہواکہ جب اس عمر کے بچے نے اپنا بچپن کھودیاہے تو ایک سماج کے طور پر ہم ناکام ہوگئے ہیں۔

’چلڈرن آف ٹومورو‘فلم بنانے کے دوران آپ کے سامنے سب سے مشکل چیلنجز کیارہے ہیں اور کیاچیزیں داؤ پر لگانی پڑیں؟

فلم کے لئے رقم جمع کرنا بہت مشکل رہا اور ہماراسب سے بڑاچیلنج اب بھی وہی ہے ۔چوں کہ فلم کی شوٹنگ گیت ورقص جیسے عام پیشہ ورانہ عناصر کے بغیرہوئی ہے اس لئے ہم لوگ فلم کے لئے پروڈیوسر کا انتظام کرپانے سے قاصر ہیں۔زیادہ تر لوگ محسوس کرتے ہیں کہ اس طرح کی سرمایہ کاری سے پیسہ نکالنا مشکل ہوتاہے۔

image


اس فلم کے بارے میں سوشل میڈیا کا کیساردعمل ہے؟ کیاتنقیدنگاروں اور تجزیہ کاروں نے آپ کو اپنا فیڈ بیک دیاہے؟

چوں کہ ہم لوگ انڈی فلم رہے ہیں ،اس لئے مارکیٹنگ کا بجٹ ہے ہی نہیں۔لیکن ہم لوگوں کو سوشل میڈیاسے زبردست پیاراورتعاون ملاہے اور اس کے لئے ہم لوگ ممنون و مشکورمحسوس کرتے ہیں۔

ممتاز کنڑ فلم ڈائریکٹر پون کمارنے اپنی لوکیشن پر کشادہ دلی سے شوٹنگ کرنے کی اجازت دے کر ہمارا تعاون کیاہے ۔ساتھ ہی انھوں نے ہماری مہم کو سوشل میڈیا پر پرموٹ بھی کیاہے۔کنڑ فلم اداکارشرتی ہری ہرن نے مہم کے لئے فراخ دلی سے عطیہ کیاہے اور مہم کو سوشل میڈیاپر پرموٹ کیاہے۔اگر کوئی ناقد یاناظر فلم کو دیکھنا چاہے تویہ ہمارے لئےباعث مسرت ہوگا۔

یہ فلم ریلیز کرکے آپ کون سا قلیل مدتی ہدف حاصل کرنے کی امید کرتے ہیں ؟

ہم لوگ بچہ مزدوری اور مہذب سماج کی ناک کے نیچے خطرناک زندگی جینے والے چھوٹے بچوںکے بارے میں مکالمہشروع کرناچاہتے ہیں۔ہم عام آدمی کو یہ بھی بتاناچاہتے ہیں کہ کوئی بھی شخص فلم بناسکتاہے۔اس شعبے پر کچھ خاص فلم سازوں کی جاگیرداری نہیں ہے۔ اگر آپ کے پاس کہنے کے لئے کوئی کہانی ہے اور آپ کو لگتاہے کہ یہ اسے کہنے کا صحیح ذریعہ ہے تو آپ کون ہیں اور کہاں سے ہیں اس سے بے پرواہوکر فلم بناسکتے ہیں۔

ہم ایسے ہم خیال افراد کا ایک گروپ بناناچاہتے ہیں جو بہترماحول سازی کےلئے باہمی تعاون کرسکیں۔اپنی صلاحیتوں اور وسائل کو آپس میں شیئر کرسکیں۔

فلم انگریزی میں کیوں ہے ؟

اطفال مزدوری ایک عالمی موضوع ہے اور ہم لوگ چاہیں گے کہ ہماری فلم ان سارے لوگوں تک پہنچے جو پوری دنیامیں اس موضوع پر مبنی کوششوں کی ستائش کرتے ہیں۔ساتھ ہی اس وقت علاقائی زبانوں میں اس قسم کی حقیقی فلم سازی کوپذیرائی نہیں ملتیہے اور ’آرٹ فلموں‘ کے نام پر انھیں نظر اندازکر دیاجاتاہے۔ ہمیں لگتاہے کہ انگریزی میںہونے کے سبب ’چلڈرین آف ٹومورو‘کو ہندوستان کے سارے علاقوں میںپسندکیاجائے گا کیوں کہ یہ سب سے عام زبان ہے اور ہم لوگ یہ بھی چاہتے ہیں کہ فلم دنیابھر میں زیادہ سے زیادہ ناظرین تک پہنچے۔

اگر آپ کی مہم اسے نہیں بناتی ہے توکیاآپ کے پاس کوئی کنٹی جینسی پلان ہے ؟

ہماری فلم میں پرائیویٹ پروڈیوسر نہیں ہیں اس لئے ہمیں اسے اتنی ہی رقممیں بناناہوگاجتنی ہم جمع کرپائیں گے۔لیکن اس سے یہ ہمارے مطلوبہ معیارپرکھری نہیں اترپائے گی۔ہمیں پوری امید ہے کہ ہماری مہم کامیاب ہوگی۔

سمفونی فلمز کے پاس اورکن فلموں /پروجیکٹوں کا آئیڈیاہے ؟

ہم لوگ مختلف حقیقی ،سماجی ،علمی اور سوانحی موضوعات پر زیادہ حقیقت پسندانہ فیچر فلمیں بنانا چاہیں گے۔

اس سنیما پر کام شروع کرنے کے معاملے میں سب سے اچھی چیز کیارہی ہے ؟

’چلڈرن آف ٹومورو‘ بنانے کے معاملے میں سب اچھی چیز تعاون کا جذبہ رہاہے جسے ہم لوگ پانے میں کامیاب رہے۔مختلف پیشوں سے وابستہ لوگ اس مقصد سے ساتھ آئے ہیں جس سے انھیں کوئی مادی فائدہ نہیں ہونے والا ہے۔ اگر ہم ایمان داری ،باہمی تعاون اور معاشرے کے لئے مفید کوششیں کریں توجس طرح یہ عام رابطہ حاصل ہوجاتاہے بہت حیرت انگیز بات لگتی ہے۔

قلمکار : راج بلبھ

مترجم : محمد وصی اللہ حسینی

Writer :Raj Ballabh

Translation by : Mohd. Wasiullah Husaini