’ایچ آئی وی ‘ میں مُبتلابچّوں کی تقدیر سنوارنےکی خاطر ... چھوڑدی بینک منیجر کی نوکری ...

’ایچ آئی وی ‘ میں مُبتلابچّوں کی تقدیر سنوارنےکی خاطر ...
 چھوڑدی بینک منیجر کی نوکری ...

Thursday December 24, 2015,

6 min Read

’ایچ آئی وی ‘میں مبتلا 17بچّوں کی اٹھا رہے ہیں ذمہ داری ...

’ایچ آئی وی‘ سے متاثر دیگر100 بچّوں کی کر رہے ہیں دیکھ بھال ...

گزشتہ6 سالوں سے ’ ایچ آئی وی‘ کے شکار بچّوں کے لئے کر رہے ہیں کام ...


ایک مشہور ہندی فلم کا مقبول نغمہ ہے ’’ننھے مُنّے بچّے تیری مُٹھّی میں کیا ہے ... مُٹھّی میں ہے تقدیر ہماری ‘‘ ...کچھ ایسی ہی سوچ ہے اُن17 ایچ آئی وی میں مبتلا بچّوں کی، جن کی ذمّہ داری اٹھا رہے ہیں مہاراشٹر کے شہر’ پونے ‘میں رہنے والے میاں بیوی، سجاتا اور مہیش۔ یہ دونوں نہ صرف اِن بچّوں کی ذمّہ داری اٹھا رہے ہیں بلکہ’ پونے‘ شہر کے آس پاس کے گاؤں میں رہنے والےتقریباً100 دیگر ایچ آئی وی میں مبتلا بچّوں کی دیکھ بھال بھی کر رہے ہیں ۔ایک زمانے میں بینک میں منیجر رہ چکے مہیش نے اِن بچّوں کی خاطراپنی ملازمت تک کو ٹھوکر مار دی ۔ اتنا ہی نہیں ’سجاتا ‘سے شادی کرنے کے لئے بھی ’مہیش ‘ کواپنے والدین کی کافی مخالفت جھیلنی پڑی، کیونکہ ’سجاتا‘ کے والدین کی موت ایڈز کی وجہ سے ہوئی تھی۔

image


مہیش اور سجاتا مہاراشٹر کے ’ستارا ‘ضلع کے ایک گاؤں کے رہنے والے ہیں ۔ سجاتا کے والدین کو ایڈز جیسی سنگین بیماری تھی اور جب انہیں اِس بیماری کا پتہ چلا، تب تک کافی دیر ہو چکی تھی ۔ اِس کے بعد سجاتا کے والدین چھ ماہ میں ہی چل بسے ۔ حالانکہ سجاتا کو ایسی کوئی بیماری نہیں تھی لیکن ایڈز کے متعلق کم علمی اور ناواقفیت کے سبب گاؤں والوں نے سجاتا سے ناطہ توڑ لیا ۔ اُسی دوران مہیش ایک بینک میں منیجر بن گئے تھے ۔ جب مہیش کو سجاتا کے مسئلے کا علم ہوا تو انہوں نے فیصلہ لیا کہ وہ اس لڑکی سجاتا کی مدد کریں گے اوراس سے شادی کریں گے۔ مہیش کے گھر والوں نے اُن کے اِس فیصلے کی شدید مخالفت کی اور انہیں سمجھانےکی کافی کوشش کی ۔ مہیش کا خاندان صاحبِ حیثیت تھا جبکہ سجاتا غریب خاندان سے تھی، اِس لئے اُن کے والدین نے کہا کہ’ یہ شادی نہیں ہو سکتی۔‘

خاندان والوں کی مخالفت کے باوجود مہیش نے سجاتا سے شادی کرنے کے بعد یہ سوچ کر گاؤں چھوڑ دیا کہ بھلے ہی اُن کا خاندان اُن کو نہ سمجھے لیکن مہیش کے رشتہ دار اور دوست احباب اُن کے جذبات کو سمجھیں گے ۔ مگر مہیش کو اُس وقت شدید صدمہ پہنچا جب اُن کی سوچ غلط ثابت ہوئی اور ایک بار تو انہیں بھی یہ خیال آیا کہ کہیں اُن سے کوئی بڑی غلطی تو نہیں ہو گئی۔

تب مہیش کے ذہن میں خیال آیا کہ اگر طبّی اعتبار سے صحت مند بچّوں کے ساتھ ایسا سلوک ہوتا ہے تو جو بچّے ایچ آئی وی سے متاثر ہیں اُن کا کیا حال ہوتا ہوگا؟ اِس کے بعد مہیش اور سجاتا’ پونے‘ شہر میں آ گئے اور فیصلہ کیا کی وہ اپنی نوکری چھوڑکر ایسے ایچ آئی وی متاثرین بچّوں کے لئے کام کریں گے۔ ساتھ ہی لوگوں کو آگاہ کریں گے کہ ایچ آئی وی کے متعلق اُن کی جو سوچ ہے وہ کتنی غلط ہے۔

اِس طرح وہ’ پونے‘ آکر ایک رضاکار تنظیم سے منسلک ہو گئے جو ایڈز سے متعلق شعبےمیں کام کر رہی تھی ۔ اسی اِدارے کے توسط سے مہیش گاؤں گاؤں جاتے اورایچ آئی وی کے تعلق سے عوام میں بیداری پھیلانےکا کام کرتے ۔ اِس دوران انہوں نے ایک قبائلی گاؤں میں دیکھا کہ گاؤں والوں نے ایک لڑکے کو گاؤں سے باہر رکھا ہوا تھا کیونکہ اس کا جسم سڑ گیا تھا اور گاؤں کا کوئی بھی شخص اس کو اسپتال لے جانے کو تیار نہیں تھا ۔ تب مہیش اور ان کی بیوی سجاتا اس لڑکے کو ’پونے‘ لے کر آئے اور اس کا علاج کروایا۔

اس کے بعد مہیش اور سجاتا نے طئے کیا کہ وہ گاؤں گاؤں جا کر ایسے بچّوں کو ڈھونڈ كر لائیں گے جن کا اپنا کوئی نہیں ہے ۔ اس کے بعد انہوں نے گاؤں گاؤں جا کر ایسے قبائلی بچّوں کو اپنے ساتھ شامل کر لیا جو ایچ آئی وی سے متاثر ہیں اور اُن کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ آج یہ دونوں شوہر اور بیوی 17 بچّوں کو اپنے بچّوں کی طرح پال رہے ہیں ۔

مہیش کا کہنا ہے کہ ’’میَں اپنے بچّوں سے کہتا ہوں کہ ہمیں مانگ مانگ کر نہیں بلکہ لڑ کر مرنا ہے۔‘‘ یہی وجہ ہے کہ مہیش کبھی بھی مدد مانگنے کے لئے کسی کے پاس نہیں گئے ۔

آج یہ اپنے بچّوں کی مدد سے پرفیوم، فنائل، گُلدان، گریٹنگ کارڈ، چراغ اور موم بتّی بنانے کا کام کرتے ہیں تاکہ یہ بچّے خود کفیل بن سکیں ۔ یہ سارا سامان آئی ٹی کمپنیوں کو فروخت کیا جاتا ہے ۔ مہیش کے مطابق ’’اِن بچّوں کو دو وقت کے کھانے سے زیادہ خاندان کی محبت چاہئے، اِن بچّوں کو یہ نہیں پتہ کہ خاندان ہوتا کیسا ہے۔‘‘

image


آج مہیش اور سجاتا کے ساتھ رہنے والے تمام 17 قبائلی بچّے جو ایچ آئی وی سے متاثر ہیں، وہ سرکاری اسکول میں جاتے ہیں ۔ اِن بچّوں میں 7 لڑکیاں اور 10 لڑکے ہیں ۔ یہ تمام بچّے 6 سال سے 16 سال تک کی عمر کے ہیں ۔ خاص بات یہ ہے کہ یہ تمام بچّےپڑھائی میں ہوشیار بھی ہیں ۔ اِن بچّوں میں سے دو لڑکیاں 10 ویں کلاس میں ہیں ۔ مہیش کے مطابق اِن بچّوں کا علاج قریب ہی کے ایک سرکاری اسپتال میں چل رہا ہے ۔

گزشتہ 6 سالوں سے ایچ آئی وی میں مبتلا بچّوں کے ساتھ وابستہ مہیش اور سجاتا بتاتے ہیں کہ جب انہوں نے اِس کام کی شروعات کی تھی تو ’پونے‘ میں ایک مکان کرایہ پر لیا تھا، جس کے بعد آس پڑوس کے لوگوں نے اُن کے ساتھ بہت بُرا سلوک کیا لیکن گزرتے وقت کے ساتھ اُن کے رویے میں تبدیلی آنے لگی اور آج وہی لوگ نہ صرف اُن کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے ہیں بلکہ ضرورت پڑنے پر مدد کے لیے بھی تیار رہتے ہیں۔

مہیش اور سجاتا نہ صرف اپنے ساتھ رہنے والے 17 بچّوں کی دیکھ بھال کا ذمّہ اٹھا رہے ہیں بلکہ’ پونے‘ شہر کے اطراف کے کئی گاؤں کے 100 دیگر ایچ آئی وی سے متاثر بچّوں کی دیکھ بھال بھی کر رہے ہیں ۔ یہ بچّے بھلے ہی اپنے خاندان کے ساتھ رہتے ہوں لیکن مہیش اور سجاتا اُن کی ہر طرح کی مدد کے لئے تیار رہتے ہیں ۔ یہ لوگ اِن بچّوں کی تعلیم اور صحت کے علاوہ ان کے کھانے پینے کا بھی خیال رکھتے ہیں ۔ مہیش اور سجاتا کی شادی کوتقریباً 9 سال ہو گئے ہیں ۔ آج اُن کا ایک 7 سال کا بیٹا بھی ہے جو ایچ آئی وی متاثرین بچّوں کے ساتھ اسکول جاتا ہے، ان کے ساتھ کھیلتا ہے، کھانا کھاتا ہے ۔ اب مہیش کی کوشش ہے کہ اِن بچّوں کے لئے اپنا کوئی آشیانہ ہو جہاں پر یہ بِلا روک ٹوک اپنی زندگی زیادہ بہتر طریقے سے جی سکیں۔

قلمکار : ہریش بِشٹ

مترجم : انور مِرزا

Writer : Harish Bisht

Translation by : Anwar Mirza