انّا نے پولیس والے کو اسی کے ڈنڈے سے اتنا پیٹا تھا کہ اس کے سر پر آٹھ ٹانکے پڑ گئے، جانئے کیوں تین ماہ تک انّا کو زیر زمین رہنا پڑا تھا ؟

پڑھیَے انّا ہزارے کی دلچسپ کہانی کی اگلی کڑی...

انّا نے پولیس والے کو اسی کے ڈنڈے سے اتنا پیٹا تھا کہ اس کے سر پر آٹھ ٹانکے پڑ گئے، جانئے کیوں تین ماہ تک انّا کو زیر زمین رہنا پڑا تھا ؟

Wednesday August 24, 2016,

6 min Read

انّا کو ان کے مامو اپنے ساتھ ممبئی لے گئے۔ ممبئی میں انّا نے ساتویں تک تعلیم حاصل کی۔ گھر کے خستہ حالات اور خاندان کی اقتصادی تنگی کی وجہ سے انّا کو چھوٹی عمر میں ہی ملازمت کرنی پڑی۔ انّا نے ممبئی میں پھول کا کاروبار شروع کیا۔ پھولوں کا کاروبار کرنے کے پیچھے بھی ایک خاص وجہ تھی۔ انّا اسکول سے چھٹی کے بعد پھول کی ایک دکان پر جاکر بیٹھتے تھے۔ وہاں انہوں نے دوسرے مزدوروں کو کام کرتا ہوا دیکھ کر پھول کی ہار اور گلدستے بنانا سیکھ لیا تھا۔ انّا نے دیکھا کہ دکاندار نے پھولوں کی اپنی دکان پر پانچ مزدور لگائے تھے اور وہ ان کی محنت کا فائدہ اٹھاتا تھا۔ انّا کو لگا کہ اپنی دکان کھولنے میں ہی بھلائی ہے اور فائدہ بھی۔

ممبئی میں انّا کی زندگی میں انقلابی تبدیلی آئی۔ ایک لحاظ سے كسن بابو راؤ ہزارے ممبئی میں ہی پہلی بار انّا ہزارے بنے تھے۔ ممبئی میں ہی وہ ایک سماجی کارکن اور انقلابی بنے۔ بڑی بات تو یہ ہے کو نوجوانی میں ہی انّا نے ناانصافی اور ظلم کے خلاف آواز اٹھانی شروع کر دی تھی۔ عمر میں چھوٹے تھے، لیکن ناانصافی اور ظلم کے خلاف ان کے تیور اور تحریکی رویہ، قیادت کی صلاحیت کو دیکھ کرظلم کے شکار لوگ ان کے پاس مدد مانگنے آنے لگے تھے۔

انّا جہاں پھول فروخت کرتے تھے وہاں دوسرے مزدور اور اپنے کاروبار پھل، پھول، سبزیاں جیسے سامان بھی فروخت کرتے تھے۔ انّا عموماً ہر دن دیکھتے تھے کہ پولیس والے ان غریب اور بے یار ومدمگار مزدوروں سے 'ہفتہ' وصول کرتے ہیں۔ 'ہفتہ' نہ دینے پر پولیس والے زور زبردستی کرتے تھے۔ یونیفارم کے رعب میں کئی بار پولیس والے ان مزدوروں اور چھوٹےکاروباریوں کو پیٹتے بھی تھے۔ انّا سخت تھے، ہفتہ دینے کے خلاف تھے، پولیس والے بھی ان کے تیو سے واقف تھے۔ ہفتہ وصولی کے خلاف انّا کی مخالفت کو دیکھ کر بہت سے لوگ اپنے کاروبار کی مدد کے لئے انّا کے پاس آنے لگے۔ انّا پولیس والوں کو سمجھاتے تھے کہ ہفتہ وصولی غلط بات ہے اور غریب لوگوں کے لیے ہفتے کے نام پر پریشان نہیں کرنا چاہئے۔ کچھ پولیس والے بات سنتے تھے تو کچھ نہیں سنتے تھے۔ انّا کہتے ہیں، "ان (پولیس والوں کے) دماغ پر اتنا اثر نہیں پڑا کیونکہ عادت پڑ گئی تھی نہ۔"

لیکن، انّا کچھ ہی وقت میں پولیس والوں کے ہاتھوں استحصال میں مبتلا لوگوں کے ہیرو بن گئے۔ نوجوان تھے، لیکن كسن 'انّا' بن گئے تھے۔ ناانصافی برداشت کرنا اور کسی کے ساتھ ناانصافی ہوتی دیکھ کر چپ رہنا ان کی فطرت میں ہی نہیں تھا۔ نوجوان تھے، خون گرم تھا، ذہن میں جوش تھا، ماں کی سكھائی وہ بات یاد تھی کہ جتنی ممکن ہو سکے لوگوں کی مدد کرنا، انّا ناانصافی کے خلاف جنگ کے لیڈر بن گئے۔

اس جنگ کے دوران ایک ایسا واقعہ ہوا جس نے انّا کو ممبئی چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔ ایک دن ایک پولیس والے نے ایک پھلوالے کو ہفتہ نہ دینے پر پیٹ دیا۔ پولیس کے ہاتھوں پیٹنے والا شخص انّا کے پاس آیا۔ انّا اس کو ساتھ لے کر اس پولیس والے کے پاس گئے۔ جب انّا نے اس پولیس والے کو ایک غریب شخص کو تنگ نہ کرنے کی بات کہی تو اس پولیس والے نے انّا سے بھی اونچی آواز میں بات کی۔ انّا کے الفاظ میں، ''میں وہاں گیا اور اس پولیس والے سے پوچھا ۔۔ ارے! کیوں، کیوں تکلیف دیتے ہیں آپ، یہ غریب لوگ ہیں۔ تو وہ مجھ بھی گرگر کرنے لگا۔ اس کے ہاتھ میں ایک ڈنڈا تھا، وہ ڈنڈا میں نے اس سے چھینا اور اس سے اس کو اتنا پیٹا کہ اس کے سر میں آٹھ ٹانکے پڑ گئے۔ "

اس بات کا یقین کرنا مشکل ہے عدم تشدد اور امن کے رسول مانے جانے والے انّا ہزارے نے ایک پولیس والے کو لہولہان کر دیا تھا۔ پولیس کے ڈنڈے سے ہی پولیس والے کو پیٹ دیا تھا۔ گاندھی وادی نظریہ پر یقین رکھنے والے انّا نے اس واقعہ کی یادیں تازہ کرتے ہوئے کہا، "اصل میں تشدد ہو گیا تھا، لیکن اس ٹائم پر گاندھی جی میری زندگی میں نہیں تھے۔ میں تو چھترپتی شیواجی کو دیکھ رہا تھا۔ ان کے حساب سے تو بادشاہ یا پٹیل غلطی کرتا ہے تو اس کا ہاتھ کاٹنا چاہئے۔ "

پولیس والے کی پٹائی کرنے پر انّا کے خلاف گرفتاری کا وارنٹ نکالا گیا۔ گرفتاری سے بچنے کے لئے انّا زیر زمین ہو گئے۔ پولیس کو چکما دینے کے لئے وہ مختلف اوقات پر مختلف جگہ رہنے لگے۔ انّا نے بتایا، "دو تین ماہ تک میں زیر زمین رہا، میری پھول کی دوکان کا بہت نقصان ہو گیا۔ پھل فروخت کرنے والے یہ لوگ کوئی میرے رشتہ دار نہیں تھے - لیکن ظلم کے خلاف لڑنا میرا فرض تھا - میں نے اپنا فرض پورا کیا۔ "

انّا کے مطابق ان کے لئے زیر زمین والے وہ دن بڑی مشکل بھرے تھے۔ پولیس سے بچنے کے لئے وہ کئی بار ریلوے اسٹیشن پر سوئے تھے۔ دوستوں کے گھروں پر رات گزاری تھی۔ انہیں بہت چوکنا رہنا پڑتا تھا۔ پولیس والے کو پیٹا تھا اسی لئے سارے پولیس والے انہیں ہر حال میں پکڑنا چاہتے تھے۔ پھولوں کی دکان بند تھی، اسی وجہ سے روزی روٹی بھی جٹانا مشکل ہو گیا تھا۔ انّا کہتے ہیں، "وہ دن بڑے پریشانکن تھے۔ بہت خطرہ تھا اور بہت ساری دقتیں تھیں، لیکن پولیس مجھے پکڑ نہیں پائی۔"

انّا جب زیر زمین تھے، تب انہیں پتہ چلا کہ حکومت ہند نے نوجوانوں کی فوج میں بھرتی کا اعلان کیا ہے۔ اس اعلان پر انّا نے بھی فیصلہ کر لیا کہ وہ فوج میں بھرتی ہوں گے اور فوجی بنیں گے۔ انّا فوج میں بھرتی بھی ہوئے اور اس سے وہ گرفتاری سے بھی بچ گئے۔

لیکن ۔۔۔ ممبئی نے انہیں استحصال اور شکار لوگوں کا ہیرو بنا دیا تھا۔ وہ تحریک اور سماجی کارکن بن چکے تھے۔ پولیس والے کی پٹائی اور گرفتاری کا وارنٹ والے واقعہ سے پہلے انّا نے ممبئی میں کرایہ داروں پر ہونے والے ظلم کے خلاف بھی احتجاج شروع کیا تھا۔ ان دنوں ممبئی میں کچھ غنڈے اور بدمعاش کرایہ داروں کے پاس جاتے تھے اور انہیں مکان خالی کروا دینے کی دھمکی دیتے ہوئی ان سے وصولی کرتے تھے۔ جب انّا کو اس ظلم کے بارے میں پتہ چلا تو انہوں نے اپنے کچھ ساتھیوں اور ان کی سوچ سے مطابقت رکھنے والے لوگوں کے ساتھ مل کر ایک تنظیم بنائی۔ انّا نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ جاکر کرایہ داروں سے وصولی کرنے والے غنڈوں کو انہی کی زبان میں دھمکی دی کہ اگر وصولی بند نہیں کی تو دیکھ لیں گے۔ انّا کی دھمکی، ان کا مزاج، ان کے تیور، ان کی آواز اتنی بااثر تھی کہ بڑے بڑے غنڈے گھبرا گئے۔ بڑے فخر کے ساتھ انّا کہتے ہیں، "میں نے بچپن میں ہی ظلم کے خلاف جنگ شروع کی ہے۔ ناانصافی کے خلاف بچپن سے ہی لڑتا آیا ہوں۔ میں چھوٹا تھا، لیکن ان غنڈوں سے کہہ دیا تھا کہ غنڈاگردی ہمیں بھی آتی ہے۔ اس بات سے وہ ڈر گئے تھے۔ "