" اوبر" کے سی۔ای۔او ٹریوس کلانک کیسے بنے ایک کامیاب کاروباری" آئیے جانیں!


" اوبر" کے سی۔ای۔او ٹریوس کلانک کیسے بنے ایک کامیاب کاروباری"   آئیے جانیں!

Tuesday January 19, 2016,

7 min Read

وہ آئے، انہوں نے دیکھا اور قلب مسخر کرلئے !

دہلی میں حکومتِ ہند کی 'اسٹارٹپ انڈیا پہل تقریب" میں اوبر کمپنی کے سی۔ای۔او ٹریوس کلانِک کا تالیوں کی گڑگڑاہٹ کے ساتھ استقبال کیا گیا۔ وہ اس تقریب میں ' اَ گیک گائیڈ ٹو بی کمنگ این آنتر پرینیور' ٹاک شو میں گفتگو کرنے کے لئے یہاں پہنچے تھے۔

محض 20 منٹ میں کے وقفے میں اجلاس گاہ میں بیٹھے زیادہ تر مقامی کاروباریوں کو ٹریوس اپنی کمپنی اوبر کے سفر پر لے گئے یعنی اپنی کمپنی کے اس مقام تک پہنچنے کی کہانی سنائی۔ اوبر کے ابتدائی دنوں سے لے کر گیک ساکھ کے قیام اور ناظرین کو یہ بتایا کہ کس طرح ایک فاتح کی تفسیاتی اپنے اندرون میں فروغ دی جاسکتی ہے۔ کہانی سنانے کے جادوئی فن کا استعمال کرتے ہوئے انہوں نے کسی بھی شخص کے دماغ میں کوئی شک یا شبہ باقی نہیں رہنے دیا جو ایک کاروباری کے لئے نہایت اہم چیز ہے، "سب سے پہلے سفر کا لطف اُٹھانا۔" ٹریوس کلانِک کے اس سیشن کی کچھ اہم باتیں پیش ہیں۔
image


1۔ ایک اچھے 'گیک' بنیں:

گیک اوراس شخص کو کہتےہیں جو صرف سائنس یا کمپیوٹر میں دلچسپی لیتا ہے۔ ٹریوس نے اپنے پریزینٹیشن کی ابتداء ایسی تصویر کے ساتھ کی جس میں ایک بچہ کمپیوٹر کے سامنے بیٹھا ہے۔ اس تصویر کی تفصیل بیان کرتےہوئے انہوں نے اپنے بچپن کے بارے میں مزاقاً کہا،

" میں بچپن سے ہی کمپیوٹر میں دلچسپی لیتا تھا اور کم عمر میں ہی کوڈنگ کرنے لگا۔ میرے والد سِوِل انجینئر تھے۔ میرے لئے گیک کی طرح بڑا ہونا آسان نہیں تھا۔"

2۔ ایسی چیزوں کی تلاش کریں جو آپ کو جذباتی بنادیتی ہوں:

اوبر کے قیام کے بارے میں بات کرتے ہوئے ٹریوس نے کہا،"ہم پیرس کا سفر کرنا چاہ رہے تھے لیکن ہمیں ٹیکسی نہیں ملی۔" تو انہوں نے وہاں ایک بڑا بازار دیکھا جس میں طویل عرصے سے کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی تھی۔ نیویارک میں بھی اتنی ہی تعداد میں ٹیکسی کو 60 برس کا لائسنس ملا ہوا تھا۔ کیب مالکوں نے اپنی لابی اور گروہ بناتے ہوئے عارضی کمی پیدا کی۔ چیزیں اتنی خراب ہوگئیں کہ کوئی اور شخص اس کاروبار میں نہیں کود پایا۔ ڈرائیور کو ایک دن ٹیکسی چلانے کے لئے 150 ڈالر دینے پڑتے تھے تب کہیں جاکر اسے ٹیکسی چلانے لے لئے لائسنس ملتا تھا اور وہ ٹیکسی چلاپاتا تھا۔ اس نظام کی وجہ سے ٹیکسی ڈرائیوروں اور گاہکوں ، دونوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا تھا۔ ڈرائیور اپنی روزی کمانا چاہتے تھے اور گاہک کم سے کم وقت میں اپنی مطلوبہ جگہوں تک پہنچنا چاہتے تھے۔ لیکن حقیقت میں ایسا ہو نہیں پا رہا تھا۔ اس پس منظر کے ساتھ اوبر ایک متبادل بن کر سامنے آئی جو ڈرائیور کے ساتھ ساتھ گاہک کےلئے بھی چیزوں کو آسان بنانا چاہتی تھی۔

3۔ مسئلہ کتنا ہی سنگین ہو، اسے آپ ہی حل کریں گے:

اوبر میں اپنے موقف کے بارے میں بات کرتے ہوئے ٹریوس نے بتایا،" میں اوبر میں مسائل کے حل تجویز کرنے والے شعبے کا صدر ہوں۔ جس طرح ریاضی کے پروفیسر پیچیدہ سوالات حل کرنے میں مزہ لیتے ہیں اسی طرح ہم مسائل کو سلجھانا چاہ رہے تھے۔"

انہوں نے مزید بتایا کہ اوبر نے کس طرح ہیٹ میپس کو استعال کرنا شروع کیا جو کاروں کو ٹیک اور رائیڈر پیٹرن کی پیشن گوئی کرتا ہے تاکہ کیب ڈرائیور کو صحیح وقت پر صحیح جگہ پہنچنے میں مدد مل سکے۔ انہوں نے کہا،" استعمال کنندگان کو سہل تجربہ فراہم کرنے کے لئے ہمیں یہ پتا لگانے کی ضرورت ہوتی ہے کہ طلب کتنی ہے اور گاہک کب ٹیکسی تلاش کر رہے ہیں۔ یہ سب 15 منٹ سے پہلے ہوجانا چاہئے۔اسی وجہ سے ہم آمد کی توقع کم سے کم سطح تک لے جاسکیں گے۔" اوبر نےبازار کی طلب اور رسد کے مسئلے کو دور کرنے کے لئے قیمت میں بھاری اضافے کا استعمال کیا جس سے زیادہ طلب کے اوقات میں مناسب تعداد میں ٹیکسیاں موجود رہیں۔ ٹریوس کو لگتا ہے،"جب آپ ایک مسئلے کو سلجھانے کے بعد مطمئن ہوکر بیٹھ رہیں تو پھر آپ ایک اچھے کاروباری نہیں ہوسکتے۔ چیلینجز ہمیشہ بڑے ہوتے ہیں۔ کاروبار کی دنیا میں اگلا چیلینج ہم اور دیگر کمپنیاں قبول کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بالکل ویسے ہی جیسے گوگل اور ٹیسلا بغیر درائیور والی کار کے مسئلے کو سلجھانے کی کوشش کررہے ہیں۔

4۔ تجزیہ نگار اور تخلیقیت پسند بنیں:

تخلیقیت کے بغیر کمپیوٹنگ بے معنی ہے۔ البرٹ آئنسٹائن نے کہا تھا کہ "تخلیقیت ہی در اصل عقل کا لطف ہے۔" ٹریوس کا ماننا ہے کہ جادو تب ہوتا ہے جب آپ تخلیقیت کے ساتھ تجزیاتی صلاحیت کے بھی حامل ہوں۔ وہ کہتے ہیں،" کمپیوٹر کسی بھی چیز کا حساب کتا ب کر سکتا ہے لیکن تخلیقیت کے بغیر حساب کتاب کوئی معنی نہیں رکھتا۔ جب دونوں ایک ساتھ ہوں تب مزہ آتا ہے اور پھر کھیل تبدیل ہونے میں وقت نہیں لگتا۔ "

اوبر میں کچھ تخلیقی پہل کے بارے میں بات کرتے ہوئے ٹریوس نے اوبر آئس کریم کی مثال دی جہاں انہوں نے آئس کریم لوگوں کے گھروں تک 'ڈرون' اور 'اوبر چاپر' کی مدد سے کی۔ یومِ والد کے موقعے پر کمپنی نے ہیلی کاپٹر کی پرواز مہیا کروائی۔

5۔ حقیقت اور تصور کا درمیانی فرق:

وہ کہتے ہیں،

" حقیقت اور تصور کے درمیان ہمیشہ بڑا فرق ہوتا ہے اور یہی فرق اختراعی کام کرنے والوں کےلئے کھیل کا میدان ہوتا ہے۔ یہیں جادو ہوتا ہے۔ "

ٹریوس مانتے ہیں کہ جو بھیڑ کا پیچھا کرتے ہیں وہ کبھی بھیڑ کے آگے نہیں بڑھ سکتے اور جو اپنا علاقہ بناتے ہیں وہی کچھ الگ کرنے کا موقع حاصل کرپانے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ وہ مزاقاً کہتے ہیں،

"ایسی کچھ چیزیں کرو جو ایک دم نا موافق ہوں۔ لچکدار بنو چاہے لوگ آپ کو پاگل سمجھیں۔ جب آپ حقیقت اور تصور کے درمیانی فرق تو دیکھیں گے تو آپ صحیح ہوں گے ورنہ آپ کا پانسہ اُلٹا پڑجائے گا۔"

عظیم کاروباری ، خطرات کو سمجھنے اور انہیں کم کرنے میں عظیم ہوتے ہیں۔ تب کہیں جاکر دنیا نیاگرا آبشار کے اوپر رسی پر چلنے کے جوکھم کو دیکھتی ہے۔ کاروباری لوگ اپنی صلاحیت کی بنیاد پر کامیابی حاصل کرتے ہیں۔

6۔ جادو:

ٹریوس نے کہا،"مناسب لوگوں کو ملازمت پر رکھیں۔ مستقبل کر دیکھیں اور اپنی ٹیم کو مسحور کردیں۔ اسٹیو جابس کے پاس آئی فون کا پیٹنٹ تھا ارو انہوں نے اسمارٹ فون کا مستقبل تب دیکھا جب کسی اور نے یہ ہمت نہیں کی تھی۔" جادو کرنے کا سب سے اچھا طریقہ یہ ہے کہ لوگوں کو لطف بخشا جائے یا پھر انہیں پیسے دئے جائیں، ان کی مدد پیسے بچانے میں کریں یا پھر انہیں ، ان کے پیسوں کی بدلے مناسب خدمات دی جائیں۔

7۔ اپنی کہانی اچھے طریقے سے کہنا سیکھیں:

حالانکہ ایک کمپنی کو تکنیک اور اپنے پروڈکٹ پر دھیان دینا چاہیے۔ گاہک سے وابستگی بڑھانےکے لئے سب سے اچھا طریقہ یہ دھکیلنا سیکھنا اور اچھی کہانی بتانا۔ اس کے بعد ٹریوس نے ایک ویڈیو چلایا جس میں ایک ٹیکسی ڈرائیورکی نظروں سے دنیا کو دکھایا گیا جس میں روزمرہ کے نظارے اور کرشمے شامل تھے۔

8۔ سنسنی:

ٹریوس کا ماننا ہے کہ ناممکن کو ممکن کر دکھانا ہی ہمت کا کام ہے۔ انہوں نے اپنے سابقہ اسٹارٹپ کی مثال پیش کی جہاں وہ اور ان کے دیگر معاونین، ورکلا، ترواننت پورم کےلئے نکل پڑے۔ وہاں روم بُک کرکے کچھ ہفتوں تک ساحلِ سمندر پر وقت گزارا۔ انہوں نے بتایا کہ ان لوگوں نے ایسا کیوں کیا۔ وہ کہتے ہیں،

"ہم ایسا کرسکتے تھے۔ دنیاآفاقی ہورہی ہے۔ ساحلی علاقہ، بیجنگ اور بنگلور۔ ایکشن یہیں ہے۔ " ہمت کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اوبر نے چین میں گھُس کر ناممکن کوممکن کردکھانے کی کوشش کی۔ ایک ایسا بازار جہاں کوئی بھی غیر ملکی کمپنی اپنے قدم جمانے میں ناکام رہی۔ انہوں نے ہندوستانی آنتر پرینیورس کے لئے ان الفاظ میں کچھ تجاویز پیش کیں،"یہ صرف آپ کے شہر یا پھر ملک کی تعمیر کے بارے میں نہیں ہے لیکن بس یہی وقت ہے جب اختراع آفاقی ہونے جارہی ہے۔

9۔ ایک فاتح کی تفسیات:

ٹریوس نے آنترپرینیورس سے کہا کہ وہ جو کچھ بھی کرتے ہیں اس میں سب کچھ لگادینا چاہئے۔ ذرا سی بھی کمی ناکامی کو دعوت دے سکتی ہے۔ انہوں نے کہا،"آپ کے پاس جوکچھ بھی ہے اسے جھونک دیجئے۔ اگر آپ کے پاس توانائی ہوگئ اور پھر بھی آپ ناکام ہوجائیں تو آپ بار بار ٹھوکر کھاکر گر جائیں گے اور اٹھ جائیں گے تو یہ پھر یہ ناممکن ہے کہ آپ ناکام ہوں۔"

تحریر: ایس۔ابراہیم

مترجم: خان حسنین عاقبؔ