انگریزی مصنفین کی صف میں کھڑا ہندی کا ٹیکنالوجی اسٹار: نکھل سچان

انگریزی مصنفین کی صف میں کھڑا ہندی کا ٹیکنالوجی اسٹار: نکھل سچان

Wednesday October 14, 2015,

9 min Read

ایک دن ہندی کے ایک نوجوان مصنف نے دارالحکومت دہلی میں فٹ پاتھ پر کتابیں فروخت کرنے والے ایک شخص سے پوچھا کہ آخر وہ ہندی کی کتابیں کیوں نہیں فروخت کرتا؟ اس سوال کے جواب میں کتب فروش نے بتایا کہ اس کے پاس سے گزشتہ ڈیڑھ ماہ میں ہندی کی ایک کتاب بھی کسی نے نہیں خریدی۔ اور تو اور ایک دن ایک پولیس والا آیا اور ہندی کی ایک کتاب اٹھا کر لے گیا۔ اس نے پولیس والے سے کتاب کے روپے مانگنے کی ہمت نہیں کی اور یہ کہہ کر خود کو تسلي دی کہ کم ازکم کوئی تو ہے جو ہندی کی کتاب پڑھ رھا ہے۔یہ واقعہ نوجوان مصنف نکھل سچان کے دل پرگہری چوٹ کر گیا- نکھل ہندی ادب اور ہندی کی کتابوں کے تئیں لوگوں کی مسلسل کم ہوتی دلچسپی سے بہت اچھی طرح واقف ہیں، لیکن اس کے باوجود انہیں ہندی ادب سے بے حد محبت ہے۔ چونکہ ہندی زبان پر ان کی گرفت مضبوط ہے اوروہ ہندی میں مؤثر طریقے سے جذبات اور خیالات کا اظہار کر سکتے ہیں، اسلئےانہوں نے ہندی میں لکھںے میں ہی دلچسپی لی۔

image


نکھل کا ذریعہ تعلیم انگریزی رہا- وہ اپنے ہم عمر نوجوانوں کی طرح انگریزی میں کتابیں لکھ کر خوب شہرت اوردولت حاصل کر سکتے تھے۔ اعلی سطح کی تکنیکی تعلیم حاصل کرنے اور آئی آئی ٹی - آئی آئی ایم جیسے اداروں میں تعلیم کے باوجود کچھ نوجوانوں نے لاکھوں روپیوں کا روزگار ٹھكرکرقلم نگاری کو اپنا پیشہ بنایا۔ چیتن بھگت، اميش ترپاٹھی، رشمی بنسل کی طرح کئی نوجوانوں نے انگریزی میں کتابیں لکھ کر خوب نام کمایا۔ ان لوگوں نے موجودہ دور کے لوگوں خاص طور پر نوجوانوں کو ذہن میں رکھ کر اپنا ادب تخلیق کیا اور مختلف موضوعات پرکتابیں لکھیں۔ ہندوستان میں انگریزی کتابیں پڑھنے والوں کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے اور ہندی کے قاری کم ہوتے جا رہے ہیں۔ ان حالات میں ہندی زبان میں فلموں اور ٹی وی سیریلوں کی بجائے کتابیں لکھنےکا فیصلہ کرنا کوئی معمولی بات نہیں ہو سکتی۔ ہندی کو اپنانے کے پیچھے بھی ایک بڑی وجہ تھی - ہندی سے محبت تو تھی ہی، ساتھ ہی ہندی ادب بھی انہونے خوب پڑھا تھا۔

کہانیوں کی پہلی ہی کتاب سے انتہائی مقبول ہوئے نکھل سچان کی پیدائش اتر پردیش کے فتح پورضلع میں ہوئی۔ اسکولی تعلیم کانپور میں ہوئی۔ آئی آئی ٹی، بي یچ يوسے انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کی اور بعد میں آئی آئی ایم كوجھيكوڈ سے ایم بی اے کی ڈگری حاصل کی۔ ان کی اعلی تعلیم کا موضوع بھی ٹیکنالوجی اور مینجمینٹ رہے۔ ان کی ساری تعلیم انگریزی میں ہوئی۔ پھر بھی انگریزی میں لکھنے کی بجائے انہوں نے ہندی کا انتخاب کیا۔

نکھل کو بچپن سے ہی ہندی زبان، ہندی ادب اور فن میں دلچسپی رہی۔ جب چھٹی کلاس میں تھے تب ہی انہوں نے اردو میں نظمیں لکھنا شروع کر دیا تھا۔ بارہویں کلاس تک کی تعلیم کے دوران نکھل کو ہندی ادب پڑھنے کا خوب موقع ملا۔ انہوں نے کئی ادیبوں کی کہانیاں، نظمیں اور دوسری کتابیں پڑھیں۔ ادب پڑھتے پڑھتے ہی ان کے ذہن میں ادیب بننے کی خواہش غالب آتی گئی۔

چھوٹی سی عمر میں ہی ادیبوں کی زبان، اظہارخیال اور ان کی خصوصیات کو سمجھنا شروع کر دیا۔ ہندی سے محبت اورلگاؤ بڑھتا گیا۔ چونکہ آرٹسٹ دماغ بہت کچھ کرنا چاہتا تھا، نکھل نے تھئیٹر اور ڈرامہ نگاری میں بھی دلچسپی دکھائی اور اس میں کام بھی کرنا شروع کیا۔ کالج کے ہی دنوں میں انہوں نے کچھ ہندی ڈراموں کی ہدایت بھی کی۔ ڈرامے میں بطورآرٹسٹ اداکاری بھی کی۔ مباحثوں کے مقابلوں میں حصہ لیا اور اپنی زبان اور خیالات سے لوگوں کو خوب متاثر کیا۔ نظموں کے ذریعہ بھی انہوں نے لوگوں کا دل جیت لیا۔

یونیورسٹی، ریاست اور قومی سطح پر فن و ادب کے کئی مقابلوں میں حصہ لے کر نکھل نے اپنے فن اور صلاحیتوں کے بل پر کئی ایوارڈ جیتے۔ بنارس ہندو یونیورسٹی میں تعلیم کے دوران نکھل کی قلم نے زور پکڑا۔

مینجمینٹ کی تعلیم کے دوران نکھل کا لکھا ڈرامہ 'کیشو پنڈت، کافی مشہورہوا۔

دریں اثنا، وہ کہانیاں بھی لکھتے رہے۔ ادب پڑھنا، ادب کی ادب و فن کی خدمت کرنا ان کا مشغلہ بن گیا۔ ہندی میں دلچسپی رہنے کے باوجود انگریزی ذریعہ تعلیم میں وہ دوسروے طلبہ سے آگے رہے۔ قابلیت کی بنا پر آئی آئی ٹی،بی یچ يو اور آئی آئی ایم كوجھيكوڈ جیسے بڑے اداروں میں داخلہ حاصل کیا۔ ان اداروں میں داخلے کے لئے ہونے والے امتحانات میں بہت طالباء علم حصہ لیتے ہیں اوررینک کے بنیاد پر ہی داخلہ ملتا ہے۔

نکھل کو قابلیت کی بنیاد پر آئی بی ایم جیسی بڑی اور مشہور بین الاقوامی کمپنی میں ملازمت ملی۔ دفتر میں سارا کام کاج انگریزی میں ہوتا ہے۔ ساتھیوں سے بات چیت بھی اکثر انگریزی میں ہی ہوتی ہیں۔ باوجود اس کے نکھل لکھتے ہندی میں ہیں۔

انہوں نے لیک سے ہٹ کر ہندی میں لکھا۔ جبکہ ان کی طرح ہی تکنیکی تعلیم حاصل کرنے اور آئی آئی ٹی،آئی آئی ايم جیسے اداروں سے پڑھنے والے دوسرے نوجوانوں نے انگریزی کو ترجیح دیکر خوب نام کما یا اور روپے بھی کمائے۔ چیتن بھگت، امیش ترپاٹھی، رشمی بنسل ان نوجوان ادیبوں کے نام ہیں، جنہوں نے انگریزی میں لکھا اور بہت کم وقتوں اپنی کتابوں کی وجہ سے مقبول ہو گئے۔

تکنیکی پس منظر والے نکھل نے ہندی کو اپنے اظہار اورتخلیق کا ذریعہ بنایا۔ اور آپ کی تحریر سے ہندی ادب میں نیاپن لایا.

نکھل یہ مانتے ہیں کہ وہ انگریزی میں لکھنے والے اپنے ہم عمر کے ہندوستانی مصنفین کی طرح صرف ادب کے زریعہ اپنی روزی روٹی نہیں کما سکتے۔ ان کا خیال ہے کہ ہندی میں لکھنے سے روزی روٹی چلانا ناممکن ہے۔ اس کے لئے یا تو مصنف کو سریندر موہن پاٹھک بننا پڑے گا یا پھر اودئے پرکاش کی طرح اونچا قد حاصل کرنا ہوگا۔ اودئے پرکاش کی کہانیوں کا اب تک 30 سے زائد زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔

اس سے بڑی بات یہ بھی ہے کہ ہندی کے کئی تخلیق کاروں اور مصنفین نے پیسہ کمانے کے مقصد سے فلم انڈسٹری کا رخ کیا۔

کئی بار نکھل کے ذہن میں بھی آیا کہ وہ بھی ممبئی جاکر فلم انڈسٹری یا ٹی وی کے لئے کام کریں، لیکن انہوں نے آزاد مصنف کے طور پر ہی اپنی شناخت قائم رکھنے کی ٹھان لی۔ نکھل کہتے ہیں، "اگرچہ مجھے دام نہ ملے، لیکن میں اردو میں ہی لکھتا رہوں گا۔ ذریعہ معاش چلانے کے لئے میں ایک کمپنی میں کام کر رہا ہوں۔ ایک سچ یہ بھی ہے کہ انگریزی زبان کے مقابلے میں ہندی زبان میں لکھی گئی کتابوں کو رائلٹی برائے نام ملتی ہے۔ "

ہندی کی کتابوں کی مسلسل کم ہوتی مقبولیت کے بارے میں پوچھے جانے پر ایک بار نکھل نے یہ کہا تھا، "ہندی کتابیں آسانی سے صحیح لوگوں کے درمیان ڈسٹری بیوٹ نہیں ہو پاتی ہیں۔ موضوعات عمدہ ہونے کے باوجود ان کی پہنچ عام لوگوں تک نہیں ہو پاتی۔ پبلیشر کافی زیادہ قیمت رکھ دیتے ہیں۔ ان کی دلچسپی کتابوں کو ایک محدود طبقے تک پہنچانے میں ہی ہوتی ہے۔ اگر آپ کسی بک اسٹال پر جائیں تو دو سو کتابوں میں 190 کتابیں انگریزی زبان کی ملیں گی۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہندی کی کہانیاں اب بھی پرانے ڑھرے پر چل رہی ہیں۔ زیادہ تر کردار بھی گھسے پٹے ہوتے ہیں۔ آج بھی عورتوں کی حالت اور بے روزگاری جیسےموضوعات پر ہی کہانیاں لکھی جا رہی ہیں۔ وہیں انگریزی میں نیے نیے تجربے خوب کئے جا رہے ہیں۔ اسلئے وہ کہانیاں قارئین کو اپنی طرف کھینچ پاتی ہیں۔ ہندی کے مصنفین کو نئی باتیں، نئے انداز میں کہنی ہوگی۔ ہندی میں تھوڑی اردو، تھوڑی کھڑی بولی، تھوڑی بھوجپوری یا انگریزی کا بھی بلا جھجھک استعمال کیا جائے، تبھی عام قاری کہانیوں سے نزدیکی محسوس کرے گا انہیں یہ یقین ہو سکے گا کہ یہ ان کے ارد گرد کی ہی کہانی ہیں۔ "

ان کا یہ بھی کہنا ہے، "ادب میرے لئے ذاتی چیز ہے۔ میں اس میں اپنی فيلگس شئیرکرتا ہوں۔ روزی روٹی کے لئے کمپنی میں جاب کرتا ہوں، جب بھی میں کہانیاں لکھتا ہوں، تو دل کھول کر رکھ جاتا ہوں۔ دراصل، ہندی زبان میرے دل کے قریب ہے۔"

نکھل نے 'نمک سوادانوسار'(نمک چکھنے کے متابق) کے نام سے اپنا پہلا کہانی مجموعہ شائع کروائی۔ اس مجموعہ میں وہ کہانیاں ہیں جو انہوں نے اپنی زندگی میں مختلف اوقات میں لکھیں۔ اس مجموعہ کو لوگوں نے خوب پسند کیا۔ 'نمک سوادانوسار' کی کہانیوں نے نکھل کی مقبولیت کو چار چاند لگادئے۔ بی بی سی نےاسے فکشن كے ضمرےمیں 'ہندی میں عمدہ درجے کا ادب' قرار دیا۔ وہیں انسائڈين ویب سائٹ نے نکھل کو بیسٹ لٹریری مائنڈ ان ہندی' کے لئے منتخب کیا۔ ناقدین نے بھی 'نمک سوادانوسار" کی تعریف کی۔

آپںے پسندیدہ ادیبوں کے بارے میں نکھل نے کہا ہے کہ، ہندی اردو کے مصنفین میں ادئےپرکاش، شريلال شکلا، سعادت حسن منٹو، عصمت چغتائی، امرتا پریتم وغیرہ ان کے پسندیدہ مصنف ہیں۔ وہیں غیر ملکی زبانوں میں جوزف ہیلر، جارج اورویل، چیكھو، اورهان پامك، کافکا، دوستوایوسكي وغیرہ کے ادب کو میں نے خوب پڑھا ہے۔ منٹو اپنی کہانیوں میں بغیر کسی لاگ لپیٹ کے اپنی بات قارئین کے سامنے رکھتے ہیں۔ شريلال شکلا کی شاہکار تحریر'راگ درباری' لاجواب ہے۔ جوزف ہیل 40 مختلف حروف کے ارد گرد اپنی کہانی بنتے ہیں اور سب کو یکساں جگہ دیتے ہیں۔ ایسا جوزف ہی کر سکتے ہیں۔ پامك کی جملوں کی ترتیب اور بیانیہ لاجواب ہے۔ آپ زیادہ ادب پڈھےگے، آپ کی زبان و بیان، اندازاتنا ہی زیادہ بہتر آئے ہو گا۔ لکھتے وقت ان کو نظر انداز کرنا مشکل ہے۔ "

ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ جس طرح کا نیاپن نکھل نے اپنی تحریروں کے ذریعے ہندی ادب میں لایا اور جس طرح انہیں قاری بھی ملے ہیں. ان سے متاثرہوکر دوسرے نوجوانوں نے بھی ہندی میں ادب تخلیق کا ذریعہ بنانا شروع کیا ہے۔

اردو میں لکھنے والے نوجوانوں کی تعداد آہستہ آہستہ بڑھنے لگی ہے۔ ہر نیا نوجوان ہندی مصنف وقت کی اور حالات کے مطابق ادب میں نیاپن لا رہا ہے۔ نئے نوجوان مصنفین کا لکھنے کے انداز مختلف ہے، ان کی کہانیاں کے کردار مختلف ہیں۔ پرانی روایت سے ہٹ کر نئے لوگوں نے ہندی میں لکھنا شروع کیا ہے۔ انہیں نوجوان مصنفین کی تجربات اور نيےپن سے امید جاگی ہے کہ ہندی ادب دوبارہ اپنا مقام حاصل کرے گا اور ہندی کی کتابیں بھی بكیں گي۔ نکھل جیسے نوجوان مصنفین کے سامنے نوجوانوں کو ہندی کی طرف كھيچنے کا بڑا چیلنج ہے۔ نئی نسل کی ہندی کے تئیں بیزاری کے دعووں کے درمیان نکھل جیسے نوجوان مصنفین نے نئی امیدیں جگائی ہیں اورکامیاب بھی ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔