سود خوروں سے بچنے کی عمدہ مثال 5 -5 روپے کو ترسنے والی خواتین ہوئیں خود کفیل

سود خوروں سے بچنے کی عمدہ مثال 5 -5 روپے کو ترسنے والی خواتین ہوئیں خود کفیل

Friday January 29, 2016,

4 min Read

وارانسی کے پاس پرهلادپور گاؤں میں بے زمین خواتین کا گروپ

گروپ کے ذریعہ برے وقت میں ایک دوسرے کی مدد

پہلے پانچ روپے کے لئے در در بھٹکنا پڑتا تھا پرهلادپور کا اثر آس پاس کے 22 دیہاتوں میں

کہتے ہیں زندگی اپنا راستہ ڈھونڈتی ہے۔ شاید اسی لیے کہا جاتا ہے کہ امید پر دنیا قائم ہے۔ کبھی لگتا ہے راستے بند ہو گئے ہیں اور کبھی تو دوسری راہ نکل ہی آتی ہے۔ بات جینے مرنے کا ہو تو اس کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے۔ وارانسی کے پرهلادپور گاؤں میں خواتین نے کچھ ایسا ہی کر دکھایا ہے۔ ان خواتین نے وہ کر دکھایا ہے جس کےلئے کہنا ضروری ہے کہ زندگی چلنے کا نام ہے، راستے خود بنانے ہوں گے اور اس پر چل کر مثال قائم کرنی ہو گی۔

image


یہ خواتین پرهلادپور گاؤں میں کھیتی کرکے نہ صرف اپنا گھر چلاتی ہیں بلکہ دوسری خواتین کو بااختیار بنانے کی مثال بھی پیش کر رہی ہیں۔ ان خواتین نے زراعت کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے برے وقت میں مدد کے لئے گروپ بھی بنا رکھا ہے۔ اس گروپ کی مدد سے یہ برے وقت میں خود کے جمع پیسوں سے قرض لیتی ہیں اور بعد میں قرض جمع کر اس گروپ کے دوسرے لوگوں کی مدد میں شراکت کرتی ہیں۔ 10 خواتین سے شروع ہوا یہ گروپ آج 2250 خواتین تک پہنچ چکا ہے اور صرف 200 روپے سے شروع ہوئی بچت آج ساڑھے تین کروڑ تک پہنچ گئی ہے۔

روزانہ یہ خواتین كاندھے پر بیلچہ لے کر کھیتوں کی طرف جاتی اور پھول کی کاشت کرتی ہیں اور ان پھولوں کے ہار بنا کر مارکیٹ میں بیچتی ہیں، جس سے نہ صرف ان کا گھر چلتا ہے بلکہ ان کے بچوں کی تعلیم اور پرورش میں بھی مدد ملتی ہے۔ اتنا ہی نہیں اس گاؤں کی خواتین کے بنائے گئے گروپ کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس سے خواتین کسی مہاجن کے قرض سے دور تو رہتی ہی ہیں یہ باہمی ہم آہنگی کے ذریعے ایک دوسرے کی مدد بھی کرتی ہیں۔

image


پرهلادپور گاؤں کی خواتین کی اس کامیابی کو دیکھ کر پڑوسی گاؤں کی خواتین بھی ان کی پیروی کرنے لگی ہیں اور آج یہ مہم 22 دیہاتوں میں پھیل گئی ہے۔ پرهلادپور گاؤں کی خاتون میرا کا کہنا ہے،

"پہلے ہمارے شوہر بنائی کرتے تھے۔ بنائی بند ہو گئی۔ پر گروپ بننے کے بعد سے ہم لوگوں کی حالت پہلے سے بہتر ہے۔ اس کے تحت بچت بھی ہونے لگی اور کھیت میں کام بھی بڑھا۔ پرانا ساراقرض ختم ہو گیا۔ اب مہاجن گھر نہیں آتے۔ اس سے بڑا سکون کیا ہو سکتا ہے۔ "

گروپ لیڈر مادھوری کا کہنا ہے،

"بیس روپیہ مہینہ تیار کیا دس لوگوں کا گروپ بنایا۔ اس گاؤں کے علاوہ تقریباً دو درجن گاؤں میں چلتا ہے۔ گروپ میں بچت کے بعد یہ لیز پر فارم لیتی ہیں اور ایک سال کے لئے کھیتی کرتی۔ ایک وقت تھا کہ یہ خواتین پانچ روپے کے لئے ترستی تھی آج دوسرے کی مدد کرتی ہیں۔ "

image


وارانسی کے پرهلادپور گاؤں کی ان خواتین نے وہ کر دکھایا جس کے لئے حکومتیں تمام منصوبے بناتی ہیں۔ ان منصوبوں کو بنانے میں کئی سال گزر جاتے ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر ہم آپس میں مل کر کچھ کرنے کی ٹھان لیں تو اس کا نتیجہ اچھا ہی نکلتا ہے۔ ان خواتین نے ایک مثال پیش کی ہے جس کا اثر مسلسل دوسرے مقامات پر بھی دکھائی دے رہا ہے۔ قابل غور بات یہ بھی ہے کہ ان خواتین نے نادانستہ طور پر معاشیات کے بڑے پنڈتوں کو ایک ڈیزائن دیا ہے جس کا بہتر استعمال کیا جا سکتا ہے اور غربت کو دور کرنے کے لئے اسے لاگو کیا جا سکتا ہے۔