کسانوں کو ڈجیٹل دنیا سے جوڑنے والا بلاگر کسان

وہ کون ہے جو 2006 سے 'انوبھو' کے نام سے بلاگ تحریر کر رہا ہے؟وہ کون ہے جسے بلاگنگ کےلئے اعزاز سے نوازا گیا؟وہ کون ہے جو کسانوں کو آرگینک زراعت اور دوہری کاشتکاری سکھا رہا ہے؟

کسانوں کو ڈجیٹل دنیا سے جوڑنے والا بلاگر کسان

Monday November 09, 2015,

6 min Read

آئیے ان سب سوالوں کے جواب جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔

اکثر لوگ اپنے گاؤں یا دیہات سے ہجرت کرکے شہروں کا رُخ کرنا پسند کرتے ہیں، لیکن ریاست بہار کے ضلع پورنیہ کے ایک گاؤن میں رہنے والے گریندر ناتھ جھا نے اس اصول کر بدلنے کی کوشش کی ہے۔ تقریباً 12 برس تک دہلی اور کانپور جیسے بڑے شہروں میں رہنے کے بعد گریندر ناتھ جھا نہ صرف اپنے گاؤں لوٹے بلکہ آج وہاں رہ کر وہ دیہی سیاحت کو فروغ دینے کے علاوہ زراعت میں نئے نئے تجربات کے ذریعے ماحولیات کے تحفظ کی کوشش بھی کر رہے ہیں۔ خاص بات یہ ہے کہ وہ ایک جانے مانے بلاگر بھی ہیں اس لئے ان سے ملنے امریکہ اور آسٹریلیا جیسے ملکوں سے لوگ آتے ہیں۔

گریندر کی اسکولی تعلیم پورنیہ ضلع میں ہوئی لیکن گریجویشن کے لئے انہوں نے دہلی کا رُخ کیا۔ اہلی یونیورسٹی کے ستیہ وتی کالج سے معاشیات میں گریجویشن کرنے والے گریندر کو تاریخ اور معاشیات سے بے حد لگاؤ ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ 'کسی بھی انسان کو اپنی تاریخ سے واقفیت ہونی چاہیے اور زندگی گزارنے کے لئے ہر قدم پر معاشیات کا علم ضروری ہوتا ہے۔' 2006 میں کالج کی تعلیم مکمل کرنے کےبعد سنٹر فار د اسٹڈی آف ڈیولپنگ سوسائٹی یعنی سی ایس ڈی ایس سے انہوں نے اپنی فیلو شپ مکمل کی۔ اس کے بعد انہوں نے تقریباً تین برس تک دہلی میں رہ کربطور صحافی کام کیا اور 2009 میں اپنی شادی کے بعد وہ کانپور چلے گئے۔ کانپور میں وہ ایک بڑے روزنامہ اخبار کے لئے صحافت کرنے لگے۔ لیکن گریندر نے طے کر رکھا تھا کہ ایک دن ان کو پانے گاؤں واپس لوٹنا ہے۔ اسی اثناء میں ان کے والد کی طبیعت خراب ہوگئی جس کی وجہ سے انہیں اپنے گاؤں واپس لوٹنا پڑا۔ انہوں نے گاؤں میں رہ کر مشاہدہ کیا کہ یہاں رہ کر بھی وہ سب کچھ کیا جاسکتا ہے جو شہروں میں رہ کر کیا جاتا ہے۔ یوں جون 2012 میں وہ پورنیہ لوٹ آئے۔

image


ان کا گاؤں 'چنکا' پورنیہ شہر سے تقریباً 25 کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے جہاں رہ کر آج کل وہ اپنی سوچ کو عملی جامہ پہنا رہے ہیں۔ آج گریندر کسان اور بلاگر کا کردار بخوبی ادا کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ آج کل بہار ویسا نہیں ہے جیسا دوسرے لوگ سوچتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ گاؤں آکر انہوں نے سب سے پہلے زراعت پر توجہ دی ۔ اس کے لئے انہوں نے سب سے پہلے دوہری کاشت کرنی شروع کی۔ پہلے انہوں نے دھان، مکئی اور آلو کی کاشت کے ساتھ کدمب کے درختوں کی کاشت شروع کی۔ کدمب کے درختوں سے پلائے ووڈ تیار کیاجاتا ہے۔ اس طرح ان کے لئے دوسری فصلوں کے ساتھ آمدنی کے وسائل بھی تیار ہونے لگے۔ اس کے علاوہ کدمب کے درختوں کی پتیاں جو کھیتوں میں گِر جاتی ہیں، وہ کھاد میں بدل جاتی ہیں۔ ان کی یہ ترکیب آپ پاس کے لوگوں کو بھی بہت پسند آئی۔ یعنی آم کے آم اور گٹھلیوں کے دام۔ ان کا دیکھا دیکھی دیگر کسان بھی اسی طرح کی دوہری کاشت کر رہے ہیں۔ اتنا ہی نہیں بلکہ انہوں نے آرگینک زراعت پر بھی زور دینا شروع کیا۔ اس مقصد کے تحت وہ آس پاس کے گاؤں میں رہنے والے دیگر کسانوں کو نہ صرف بیدار کر رہے ہیں بلکہ ان کو آرگنک زراعت کرنا بھی سکھارہے ہیں۔

اب گریندر کی کوشش کسانوں کو ڈجیٹل دنیا سے جوڑنے کی ہے تاکہ وہ اپنی زمین سے زیادہ سے زیادہ پیداوار حاصل کرسکیں۔ ان کا کہنا ہے کہ"ہم لوگ کسانوں کو زراعت کے نئے نئے طریقے سکھانے کے لئے یو ٹیوب اور مواصلات کے دوسرے ذرائع کا استعمال کرتے ہیں"۔ وہ کہتے ہیں،"مجھے علم ہے کہ سوشل میڈیا ایک بہت بڑا ہتھیار ہے کیونکہ آپ اس کے ذریعے بہت کچھ کر سکتے ہیں۔ " اسی بات کو دھیان میں رکھتے ہوئے انہوں نے گزشتہ سال دسمبر کے مہینے میں اپنے گاؤں میں سوشل میڈیا اجلاس منعقد کیا تھا اور اب ان کا منصوبہ اس برس دسمبر میں دوبارہ سوشل میڈیا اجلاس کو منعقد کرنا ہے۔ اس اجلاس کے ذریعے میڈیا سے مربوط آس پاس کے گاؤں کے لوگ حصہ لیتے ہیں اور کسانوں کے ساتھ نئی نئی معلومات کو شیئر کرتے ہیں۔

image


گریندر ملک ہی میں نہیں بلکہ دنیا بھر میں لوگوں کے ساتھ فیس بک کے ذریعے رابطے میں رہتے ہیں۔ اسی لئے ان کا کام سمجھنے، دیہی ثقافت کو جاننے اور امن و سکون تلاش کرنے کے لئے ملک کی کئی ریاستوں کے علاوہ آسٹریلیا اور امریکہ سے بھی لوگ ان سے ملنے ان کے گاؤں 'چنکا' آتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پچھلے دو برسوں میں 117 لوگ ان کے گاؤں آچکے ہیں۔ اس دوران ان کے گاؤں آنے والے بیرونی لوگوں کو نہ صرف گاؤں بھر میں گھمایا جاتا ہے بلکہ وہاں کے رہن سہن اور کھانے پینے کی عادات و رسومات کا بھی مشاہدہ کروایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بیرونی لوگ گاؤں میں آرہی تبدیلیوں اور سنتھال ادی واسیوں کے فن اور کلاکاری کو دیکھتے ہیں اور تصویر کشی کا لطف بھی اٹھاتے ہیں۔

گریندر کی اصلی شناخت ایک بلاگر کے بطور ہے۔ وہ 2006 سے 'انوبھو' کے نام سے بلاناغہ بلاگنگ کرتے ہیں۔ اس میں وہ صرف گاؤں کی ہی بات کرتے ہیں۔ گاؤں میں ہونے والی نئی سرگرمیوں کی معلومات دیتے ہیں اور چھوٹے بڑے انتخابات کے تعلق سے کسانوں کے نظرئے سے اپنی رائے پیش کرتے ہیں۔ ان کے شاندار بلاگ کی وجہ سے گزشتہ دنوں دہلی حکومت اور ایک قومی ہندی نیوز چینل نے 'یومِ ہندی' کے موقع پر انہیں بہترین بلاگر کے اعزاز سے نوازا۔ ان کے تحریر کردہ بلاگ کی شہرت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ کئی مرتبہ 15 ہزار سے زائد لوگ ان کا بلاگ پڑھتے ہیں۔ لوگ ان کے نئے بلاگ کے منتظر رہتے ہیں۔ کئی لوگ پابندی سے ان کو میل بھی لکھتے ہیں۔ اتنا ہی نہیں بلکہ ان کے کئی بلاگ بڑے ہندی اخبارات میں بھی شائع ہوتے ہیں۔ گریندر کا کہنا ہے کہ"بلاگ کی وجہ سے ملک اور بیرونِ ملک میری بڑی پہچان بن گئی ہے۔ میں لگاتار بلاگ تحریر کرتا رہتا ہوں۔" جلد ہی ان کی تحریر کردہ ایک کتاب بھی بازار میں آنے والی ہے جو مختصر محبت کی کہانیوں پرمبنی ہے۔

گریندر کا کہنا ہے کہ " اگر کوئی سوشل میڈیا کو افادیت کے لئے استعمال کرتا ہے تو یہ ایک بہت بڑا پلیٹ فارم ہے جو بہت کچھ دے سکتا ہے۔ اس کے استعمال کے لئے کوئی رکاوٹ بھی نہیں ہوتی کہ آپ کو اس کے لئے دہلی یا کسی بڑے شہر میں رہائش اختیار کرنی پڑے۔ میں تو بڑے شہر سے کئی سو کلومیٹر دور ہونے کے باوجود وہ سب کچھ کر رہا ہوں جو وہاں رہ کر کر سکتا تھا۔ اگر آپ کچھ الگ کرنا چاہتے ہیں تو کہیں سے بھی کرسکتے ہیں۔ بس، آپ کے پاس انٹر نیٹ ہونا چاہیے اور آپ نے لوگوں کے رابطے میں رہنا چاہیے۔"

بلاگ : : http://www.anubhaw.blogspot.in/