ویلاسیٹی سڑکیں " ہندوستان کے ٹریفک مسائل کا حل‎

  ویلاسیٹی سڑکیں " ہندوستان کے ٹریفک مسائل  کا حل‎

Wednesday October 28, 2015,

6 min Read

اس مضمون میں ہم آپ کو "شرامن مترا" کی تصنیف 'ویژن انڈیا 2020 کے کچھ اقتباسات کو پیش کر رہے ہیں، جن میں اسٹارٹپس کمپنیوں کےاربوں ڈالر کے کاروباری اداروں میں تبدیل کرنے کے 45 دلچسپ منصبوں کا خاکہ رکھا گیا ہے۔ یہ تمام مضامین کاروباری فکشن کے طور پر تحریر کیے گئے ہیں۔ ان میں یہ دکھانے کی کوشش کی گی ہے کہ کس طرح یہ کاروبار گزشتہ ایک دہے میں قائم کئے گئے ہیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ یہ مضمون آپ کے اندر خود کا اپنا کاروبار کامیابی کے ساتھ شروع کرنے کا حوصلہ جکائےگا۔

انڈین انڈسٹریز کنفیڈریشن اور بوسٹن کنسلٹنگ گروپ کا اندازہ ہے کہ ہندوستان مینوفیکچرنگ کے شعبہ میں سال 2007 کے 272 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کے مقابلہ میں 2014 تک 520 بلین ڈالر کاسرمایہ حاصل کرنے میں کامیاب رہے گا ۔ ہندوستان کو اپنے صارفین کی تیزی سے بڑھتی ہوئی کاروں سے لے کر آلات، کمپیوٹرز، موبائل فونز، ماڈيولز و دیگر اشیاء کی طلب کو پورا کرنے کے لئے مسلسل تعمیراتی کام جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔ تاہم سال 2009 میں ہندوستان کی سڑکیں مختلف مصنوعات کو شہر سے بندرگاہ اور بندرگاہ سے شہر تک تیز رفتاری سے منتقل کرنے کے قابل نہیں ہے۔

اگرچہ وزارت حمل ونقل مسلسل قومی شاہراہوں کے تعمیر نو کے کاموں کو بڑے پیمانے پر کرتا دکھائی دے رہا ہے، لیکن قومی شاہراہوں کے درمیان انٹرکنکٹیویٹی اب بھی معیار کے مطابق نہیں ہے۔ مختلف فیکٹریوں جانے والے خام مال اور تیار مصنوعات لے جانے والی علاقائی سڑکوں کی حالت تو اور بھی قابل رحم ہے. مجھے یاد نہیں ہے کہ ایسا میرے ساتھ کتنی بار ہوا ہے جب میں سڑکوں پر میلوں تک گاڈيوں کے ٹرافک جام میں پھنسا رہا۔

image


اس کے جواب میں ہم نے مینوفیکچرنگ کے علاقے کی ضروریات کی تکمیل کے لیے آٹھ لین والی ایک ٹول روڈ کے منصوبہ تیار کیا ہے جو سرکاری بیوروکریسی کے بجاے پیشہ ورانہ مینیجرز کی نگرانی میں تیار ہوگی اور اس نگرانی بھی ان ہی ذمہ ہوگی. یہ سڑک ملک اور دنیا کی بڑھتے ہوئے مطالبے کی تکمیل کرنے نیز مسلسل دوڑ رہی گاڈیوں کے لئے کارگر ثابت ہونے کی توقع ہے۔

ہندوستان میں صرف کوئلے کی نقل و حمل ہی بہت بڑے علاقے میں پیھلی ہوئی ہے، کیونکہ کوئلہ مغربی بنگال، بہار، جھارکھنڈ، مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، اڑیسہ اور مشرقی مہاراشٹر بھر میں پھیلا ہوا ہے۔ ان علاقوں میں کوئلے کے علاوہ آرسیلر متل، ٹاٹا اسٹیل، ایسار، جندل اور دیگر بہت سے اسٹیل انڈسٹریز بھی پھل پھول رہے ہیں۔ اس کے علاوہ اب جھارکھنڈ کے ایک حصہ جمشید پور میں ٹاٹا موٹرز کا سب سے بڑا مینوفیکچرنگ یونٹ میں واقع ہے۔ اگر ہم اس میں مغربی بنگال، اڑیسہ، چھتیس گڑھ اور مغربی مہاراشٹر کے سیمنٹ پلانٹس کو بھی شامل کر دیں تو ہمیں صنعتی ضروریات کی تکمیل کے لیے بہترین حمل و نقل کے نظام کی بہت سخت ضرورت ہے۔

ان 7 ریاستوں کے وسطی ٹریفک کے بہاؤ پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے اور کوئلے، اسٹیل، سیمنٹ اور دیگر صنعتوں کو نظر میں رکھتے ہوئے ہم اپنے منصوبہ کو پورا کرنے لئے نکل پڑے۔ سب سے پہلے ہم نے کاروبار کرنے والی ہر اہم کمپنی کے ساتھ ملاقات کی اور ان کے حمل و نقل سے متعلقہ راستوں اور ضروریات کی نشاندہی کی۔ اس دوران ان کے سامنے کچھ پریشاکن حالات بھی پیدا ہوئے۔آغاز سے ہی واضح تھا کہ مغربی بنگال کے کولکتہ اور هلديا، اڑیسہ کے پاردويپ اور آندھرا کے وشاکاپٹنم بندرگاہ کے علاوہ اندرونی راستوں پر بھی اچھی کنیکٹویٹی کی ضرورت ہے۔

ہماری منصوبہ بندی پر تیزی سےعمل کیا گیا اور ہم نے سال 2010 سے 2015 تک وسطی ہندوستان کے تعمیراتی شعبہ کے اہم مراکز کو آپس میں انٹرکنیکٹ کرنے والے علاقوں میں تقریبا 1 ہزار کلومیٹر کا نیٹ ورک تیار کیا۔ جمشید پور اور کولکتہ کی بندرگاہ کے درمیان براہ راست رابطہ وقت کی ضرورت تھی۔ ٹاٹ اسٹیل ہرماہ جاپانی کار ساز کمپنی کو 30 سے ​​60 ٹن کے درمیان شیٹ میٹل فراہم کرتی تھی۔لیکن ماہ ایسا ہوتا تھا کہ 8 سے 10 ٹرک راستے میں کہیں پھنس جاتے تھے، جس کی وجہ سے جہاز کی لوڈنگ میں تاخیر ہوتی تھی۔ گزشتہ کئی ہوں سے ہمارے ملک کی سڑکوں پر چلنے والے تعطل کے عادی ہو چکے ہیں اور ایسے میں جب ڈرايوروں کوصاف ستھري مصطح سڑکیں ملنے لگی تو انہوں نے بھی ان کا لطف اٹھانا شروع کر دیا۔

ہم نے روركےلا کے اسٹیل پلانٹس کو اڑیسہ کے پاراديپ بندرگاہ کے ساتھ کامیابی سے مربوط کیا۔ هم نے قومی شاہراہ نمبر 60 کے کنارے پر واقع فیکٹریوں کو هلديا بندرگاہ سے مربوطا. ہم نے جھارکھنڈ میں قومی شاہراہ نمبر 23 اور 33 کو کئی مقامات پر آپس میں مربوط کیا جس سے معدنیات کیایک جگہ سے دوسرے مقام کو منتلی یں بہت آسانی ہو گیی۔اس کے علاوہ چھتیس گڑھ میں ہم نے جادوئی قالین بنانے والوں کے لئے قوی شاہراہ 43 کے ارد گرد کے علاقوں کو یک دوسرے سے مربوط کنے کے منصوبہ پر بھی اپنی توجہ مرکوز کی۔

یہ کہنے کی ضرورت ہی نہیں ہے کہ یہ ناقابل یقین طور پر اتنے مہنگے منصوبے کوکامیابی سے ہمکنار کرنا اہم کارنامہ رہا۔وزارت حل و نقل نے اپنی اقتصادی اہمیت کے منصوبوں کے تحت ہمیں 50 فیصد قرض فنانسنگ کی پیشکش کی۔ قرض کے نتیجے میں منصوبے پر پڑنے والے بوجھ کو کم کرنے کے لئے اس پر 20 سال کی پابندی لگا دی گئی تھی. ساتھ ہی بالکل ایک جیسی شرائط کے تحت ایشین ڈیولپمنٹ بینک نے بھی 25 فیصد سرمایہ کاری کی. اس کے علاوہ مختلف ریاستی حکومتوں نے بھی 5 فیصد کا تعاون کیا. اور بچا ہوا آخری 20 فیصد ٹیکساس پیسفک گروپ اور کے کے آر کے ذریعے ایکوئٹی فنانسنگ سے پورا کیا گیا۔ اس منصوبے پر جملہ تخمینہ 10 بلین ڈالر ہے جو اس کے مسلسل بڑھتے ہوئے مراحل کے ساتھ پانچ حصوں میں حصل ہوگا۔

سال 2015 آتے آتے میجک کارپٹ 8 لین والی ٹول سڑکوں کا ایک مکمل نیٹ ورک تیار کر چکا تھا جس میں ٹول پلازہ پر کام کو بلا روک ٹوک جاری رکھنے کے لیے 32 ٹول گیٹ تیار کئے گئے ہیں.۔ہر پلازہ پر ادا کرنے کے ٹول کلکٹر موجود ہیں جو نقد یا کریڈٹ کارڈ کے ذریعے ٹول وصول کرتے ہیں۔

اس نیٹ ورک نے نہ صرف ملک بھر میں مال کی نقل و حمل پر ایک بڑا اثر چھوڑا ہے، بلکہ اس کے نتیجے میں کولکتہ، جمشید پور، رانچی، كھڑگپور، بھوانیشور اور اس سے بھی بہت آگے شہری گنجانآبادی سے چھٹکاراحاصل کیا ہے. ایک بار ان شہروں کے ان اہم علاقوں سے مالبدار گاڑیوں کو دور کرنے کے بعد میجک کارپٹ نے ان راستوں پر انسانی آمد و رت کے لئے جگہ بنا دی۔ ہمارے علاقے میں سفر کے دوران نقل حرکت میں لگنے والے وقت میں ایک تہائی کمی دیکھنے کو مل رہی ہے. کبھی گھنٹوں میں طے ہونے والا سفر اب صرف 15 سے 20 منٹ میں ہی ختم ہو جاتا ہے اور 6 گھنٹے کا سفر تو صرف دو گھنٹوں یں ہی ختم ہو جاتا ہے۔