انسانی اسمگلنگ سے متعلق ڈیڑھ ہزار مقدمے لڑ رہے ہیں اجیت سینگھ

سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ میں 11 پی آئی ایل داخل جان لیوا حملوں کے بعد بھی نہیں ہاری ہمت، ریڈ لائٹ ایریا ک صاف کرنے کی کوشش کو رکھا جاری۔۔انسانی اسمگلنگ سے متعلق ڈیڑھ ہزار مقدمہ لڑ رہے ہیںعدالت کے ذریعے 500 بروکرز کی روكوِئی ضمانت 1993 مییں'گڑیا' کے نام سے فلاحی ادارے کیا قائم

  انسانی اسمگلنگ سے متعلق ڈیڑھ ہزار مقدمے لڑ رہے ہیں اجیت سینگھ

Monday December 28, 2015,

6 min Read

معاشرے میں بہت سی غلط چیزوں کو فرو غ حاصل ہوا ہے۔ ایسی چیزوں کاروپ اگرچہ بدلا ہے اور سائز بھی بڑھا ہے، جسم فروشی معاشرے کی جڑوں میں اب تک قائم ہے۔۔ معاشرے کے اس بدنما داغ کودور کرنے کے لئے یوں تو کئی تنظیمیں کام کر رہی ہیں، لیکن وارانسی کے رہنے والے اجیت سنگھ اپنی تنظیم 'گڑیا' کے ذریعے منفرد انداز میں ریڈ لائٹ ایریا میں کام کر رہے ہیں۔ یہ ان کی ہی کوششوں کا نتیجہ ہے کہ آج اس علاقے میں نابالغ بچے جسم فروشی کے دھندے میں نہیں ہیں۔ اجیت سنگھ پر کئی جان لیوا حملہ بھی ہوچکے ہیں۔ انسانی اسمگلنگ سے متعلق تقریبا ڈیڑھ ہزار سے زیادہ کیس لڑ رہے ہیں۔ جسم فروشی کے اس دھندے پر لگام لگانے کے لئے وہ نہ صرف اس کاروبار میں استعمال کی جانے واالی پراپرٹی کو عدالت کے ذریعے ضبط کرواتے ہیں، بلکہ ایسے غلط کاموں میں لگے بروکرز کی وہ کورٹ سے ضمانت تک نہیں ہونے دیتے۔ یوپی کے پوروانچل علاقے میں کام کر رہے اجیت کی سرگرمیاں آج قریب 12 اضلاع تک پھیل چکی ہیں۔

image


اجیت کے مطابق انہوں نے جسم فروشی کے اس دھندے سے خواتین کو نکالنے کی نہ تو کہیں سے کوئی ٹریننگ لی اور نہ کوئی تعلیم حاصل کی، وہ تو صرف ایک دن ہمت جٹا کر وارانسی کے ریڈ لائٹ علاقے میں پہنچ گئے، وہ کہتے ہیں

"زندگی میں میں نے پہلی بار ایسی جگہ دیکھی جہاں پر لوگ کھلے عام نیلام ہو رہی تھے اور ان کو کوئی روکنے-ٹوكنے والا تک نہیں تھا۔"

image


اس کے بعد اجیت وہاں جاتے اور ایک درخت کے نیچیے بیٹھ وہاں موجود چھوٹے چھوٹے بچوں کو جمع کر ہر دن 2 گھنٹے پڑھانے کا کام کرنے لگے، یہ بات ریڈ لائٹ علاقے والوں کو ناگوار لگی انہوں نے اجیت کو پریشان کرنا شروع کر دیا۔ لیکن اجیت نے ہمت نہیں ہاری اور بچوں کو پڑھانے کا کام جاری رکھا۔ اس طرح انہوں نے قریب 5-7 سال تک بچوں کو پڑھانے کا کام جاری رکھا۔۔ تب ان کو ایک بات سمجھ میں آئی کی جن بچوں کو وہ پڑھا رہے ہیں وہ لوٹ کر اسی ماحول میں جا رہے ہیں اور صرف پڑھانے سے یہ تبدیلی نہیں آنے والی۔

انہوں نے فیصلہ لیا کہ ان ریڈ لائٹ علاقے کے مالکان، جسم فروشی میں ملوث خواتین کے دلالوں سے براہ راست جنگ لڑنا ہوگا۔ اس کے لئے انہوں نے قانون کی مدد لی۔اس کے علاوہ اس کام میں پولیس کی کوتاہی کو بھی انہوں نے بے نقاب کیا۔ اجیت نے ریڈ لائٹ علاقے میں آنے والی نئی لڑکیوں کو بچانے کے لئے بنارس ہندو یونیورسیٹی اور دوسرے کالج کے طلباء کی مدد لی۔ جن کے ساتھ مل کر وہ ایسے ریڈ لائٹ علاقے میں جاتے، جہاں پر لڑکیوں کو زبردستی اس پیشے میں ڈھکیلنے کی کوشش کی جاتی تھی، وہ بتاتے ہیں کہ سال 2005 میں ہی انہوں نے لوگوں کی مدد سے بنگال اور نیپال سے لائی گئی 50 لڑکیوں کو اس جہنم میں جانے سے بچا لیا۔ اس کے علاوہ اجیت نے ریڈ لائٹ علاقے میں رہنے والی خواتین پر نظر رکھنی شروع کر دی جو اپنی بیٹی کو زبردستی یا دباؤ میں آکر اس دھندے میں ڈھکیلنا چاہتی تھی۔

image


اجیت نے دیکھا کہ اس طرح زیادہ وقت تک کام نہیں کیا جا سکتا، تب انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ قانونی طور پر کوٹھے مالکان اور بروکرز پر دباؤ بنائیں گے۔اس کے بعد انہونے وارانسی کے بہت سے کوٹھے بند كروا ديے۔ بلکہ اس کام سے وابستہ لوگوں کی ضمانت روکنے کے لئے وہ اپنی جنگ کو سپریم کورٹ تک لے گئے۔ جہاں پر اس کام میں سپریم کورٹ نے بھی مدد کی اور کہا کہ ایسے لوگوں کی ضمانت نہیں ہونا چاہئے، یہی وجہ ہے کہ اب تک یہ تقریبا 500 ایسے لوگوں کی ضمانت مسترد کروا چکے ہیں جو جسم فروشی سے منسلک ہیں۔ اس کے علاوہ انہونے گواہوں کی حفاظت پر بھی خاص توجہ دی، تاکہ لڑکیاں بے خوف ہوکر اپنے ساتھ ہو رہے مظالم کو بیان کر سکے۔ انہونے 108 ایسی لڑکیوں کی مختلف جگہوں پر چھپایا جو کسی مقدمہ میں اہم گواہ تھی اور ان پر حملے کا ڈر تھا، بعد میں ان لڑکیوں کی گواہی کی وجہ سے جسم فروشی سے وابستہ لوگوں کو جیل کی ہوا تک کھانی پڑی۔

image


اجیت کا کہنا ہے، "ہم راستہ تلاش کر رہے تھے ایسی لڑکیوں کو بچانے کے لئے، اس کے لئے ہم زیادہ انتظار نہیں کر سکتے تھے،اس لئے ہم نے نہ صرف غیر قانونی طور پر چل رہے ریڈ لائٹ علاقے کو سیل کروایا بلکہ مجرمون کی بیل تک روكوانے کا کام کیا۔ ساتھ ہی کوشش کی گواہوں کی حفاظت ہو سکے ۔"

اجیت یہیں نہیں رکے انہوں نے اس طرح کے معاملات کو لے کر سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ میں اب تک 11 پی آئی ایل داخل کیے ہیں۔ اپنی ایک پی آئی ایل میں انہونے کورٹ کو بتایا ہے کہ سرکاری اعداد و شمار کے علاوہ تقریبا 12 لاکھ نابالغ لڑکیاں مختلف ریڈ لائٹ علاقے میں قید ہیں۔ آج اجیت انسانی اسمگلنگ کو لے کر مختلف عدالتوں میں چل رہے ڈیڑھ ہزار مقدمات کا اکیلے سامنا کر رہے ہیں۔ اگرچہ کہ اجیت نے اپنے ادارے گڑیا کا آغاز سال 1993 میں کیا لیکن وہ اس سے پہلے ہی اس کام کو کر رہے ہیں۔ جسم فروشی کی روک تھام کے لئے کرائی نے انہیں فلوشپ دی تھی۔ان کے کام کرنے کے طریقہ کو سمجھنے کے لیے امریکن کانگریس کے کئی ارکان واراناسی کا دورہ بھی کر چکے ہیں۔ جہاں ان کو بتایا گیا کے کس طرح اس علاقہ کو نابالغ لڈکیوں سے پاک کر دیا گیا۔ جبکہ کچھ سال پہلے تک بےشمار نابلغ لڑڈکیاں اس پیشہ سے وابستہ تھی۔ اب ان کی کوشش ہے کے اس پیشہ میں باقی رہ چکی لڑکیوں کو کس طرح باہر نکالا جائے۔

image


آج گڈیا کے تحت ریڈ لايٹ ايریا میں بچوں کو نا صرف تعلیم دینے کا کام چل رہا ہے بلکہ ووکیشنل ٹرئننگ بھی دی جارہی ہے، یہاں پر کمپیوٹر کورس فیشن ڈیزایننگ اور بيوٹیشین کورس سکھائے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ لوگ نرسنگ کا بھی کورس کرواتے ہیں۔ یہ سب تربیت مفت دی جاتی ہے۔ اجیت جن بچوں کو پڑھاتے ہیں، ان کا نہ صرف سرکاری اسکولوں میں داخلہ کراتے ہیں، بلکہ ان کی فیس سے لے کر کتابوں تک کا خرچ اٹھاتے ہیں۔ وہ اب تک دو ہزار سے زیادہ بچوں کا مستقبل سنوار چکے ہیں۔ یہاں کے بہت سے بچوں نے اپنی خود کی دکان کھول لی ہے، یا پھر دوسروں کی دکانوں میں کام کر رہے ہیں۔ اجیت کی کوششوں کی وجہ سے فحاشی کے کاروبار سے اب تک ڈیڑھ ہزار سے زیادہ لڑکیوں کو بچایا جا چکا ہے۔ منظم جرائم کے خلاف بے خوف ہوکر جنگ لڑ رہے اجیت پر کئی بار قاتلانہ حملے بھی ہو چکے ہیں، لیکن ان سب سے بے پرواہ اجیت آج بھی ریڈ لائٹ علاقے میں لڑکیوں کو اس تاریک دنیا سے بچا رہے ،جو لوگ یہ جرم کر رہے ہیں ان کورٹ کے ذریعے سزا دلانے کام بھی کر رہے ہیں۔

تحریر:ہریش بھشٹ

ترجمہ: محمد عبدالرحمٰن خان