بنک برائے شیرِ مادر جس نے اب تک 1900 نوزائیدہ بچوں کی جان بچائی

 بنک برائے شیرِ مادر جس نے اب تک 1900 نوزائیدہ بچوں کی جان بچائی

Friday December 04, 2015,

7 min Read

اپریل 2013 میں ہوا قائم

32 سو خواتین اپنا دودھ عطیہ کرچکی ہیں

اُدے پور ، راجستھان کے اسپتال میں چل رہا ہے "مقدس بنک برائے شیرِ مادر"

کسی نوزائیدہ بچے کے لئے ماں کا دودھ آبِ حیات کی طرح ہوتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق اگر پیدا ہوتے ہیں مرنے والے 100 بچوں میں سے 16 بچوں کو ماں کا دودھ مل جائے تو انہیں بچایا جاسکتا ہے۔ لیکن کئی وجوہات کی بناء پر ایسے بچوں تک ماں کا دودھ پہنچ نہیں پاتا اور وہ دم توڑ دیتےہیں۔ اسی بات کو دھیان میں رکھتے ہوئے راجستھان کے شہر اُدے پور میں رہنےوالے یوگ گرو دیویندر اگروال کے ادارے "ماں بھگوتی وِکاس سنستھان" نے "دیویہ مدر ملک بنک" قائم کیا ہے جو نہ صرف ماؤں سے دودھ اکٹھا کرتا ہے بلکہ ضرورت مند بچوں تک دودھ پہنچانے کا انتظام بھی کرتا ہے۔ اُدے پور اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں "دیویہ مدر ملک بنک " کی کامیابی کو دیکھتے ہوئے ریاستی حکومت نے اس اسکیم کو اب اپنے بجٹ میں شامل کر لیا ہے اور اس طرح ریاست کے مختلف شہروں میں 10 مدر ملک بنک کھولنے کا اعلان بھی کیا ہے۔ اس کے لئے حکومت نے اپنے بجٹ میں 10 کروڑ روپیوں کی خصوصی مد بھی مختص کی ہے۔

image


"دیویہ مدر ملک بنک" کے بانی یوگ گرو دیویندر اگروال نے اسے اپریل 2013 میں قائم کیا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کو شروع کرنے کی ایک بڑی وجہ ان کے ادارے کی جانب سے چلائی جارہی "مہیش آشرم مہم " تھی۔ اس مہم کی تحت جو لوگ پیدا ہوتے ہیں لڑکیوں کو پھینک دیتے ہیں یا کہیٰں چھوڑ دیتے ہیں ان کو یہ یہاں سہارا دیا جاتا ہے اور ایسے بچوں کو یہاں پروان چڑھایا جاتا ہے۔ اس مقصد کے تحت "ماں بھگوتی وِکاس سنستھان" نے ادے پور اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں کئی جگہ پالنے اور جھولے لگائے ہیں جہاں آکر کوئی بھی اپنی بیٹی کو ان پالنوں میں ڈال سکتا ہے۔ اب تک یہاں 125 بچیوں کو لایا جاچکا ہے۔ یوگ گرو دیویندر اگروال کے مطابق"مہیش آشرم" کا اپنا آئی۔سی۔یو ہے جس میں عالمی معیار کی سہولیات دستیاب ہیں۔۔ اس کے باوجود ان بچیوں کو کئی بار سردی یا کوئی دوسری بیماری ہوجاتی تھی ۔ اور اس کی وجہ تھی ان کو ماں کا دودھ نہ ملنا ۔ ماں کا دودھ بیماریوں سے روک تھام کرنے میں بچوں کی دفاعی قوت کو بڑھاتا ہے۔ ماں کےدودھ میں بیماریوں کو دفع کرنے والے کئی اجزاء ہوتے ہیں جو ان بچیوں کو نہیں مل پاتے تھے۔"

image


تب یوگ گرو نے سوچا کہ ایسی یتیم لڑکیوں کے لئے ماں کے دودھ کا انتظام کیا جانا چاہیے کیونکہ آئی ۔ سی۔ یو میں ایسے کئی بچے ہوتے تھے کہ ان میں سے اگر کچھ لڑکیوں کو ماں کا دودھ مل جاتا تو ان کی جان بچائی جاسکتی تھی۔ اس کے بعد وہ یہ جاننے کی کوشش میں جُٹ گئے کہ دنیا میں کہاں اس طرح کا کام چلایا جاتا ہے۔ انہیں پتا چلا کہ برازیل میں اس طرح کا کافی بڑا نیٹ ورک کام کر رہا ہے جو 'ہیومن ملک بنکنگ' کے نام سے سب سے بڑا نیٹ ورک ہے۔ انہوں نے اُدے پور میں بھی اس طرح کا ہیومن ملک بنک قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ تب یوگ گرو دیویندر اگروال اور ان کے ساتھیوں نے 'ہیومن ملک بنکنگ اسوسی ایشن آف نارتھ امریکہ' پر کام کرنا شروع کیا اور اسی نہج پر ان لوگوں نے ادے پور میں مدر ملک بنک کے قیام کے لئے ریاستی حکومت سے مدد مانگی۔

حکومت نے خوشی خوشی ان لوگوں کو اس نیک کام کو انجام دینے کی اجازت دے دی۔ اس کے بعد ادے پور آر۔ این ۔ ٹی میڈیکل کالج کے پنادھائی راجکیہ مہیلا چکتسالے میں آج یہ مدر ملک بنک چل رہا ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ اسے "ہیومن ملک بنکنگ اسوسی ایشن آف نارتھ امریکہ" کے رہنمایانہ خطوط کی بنیاد پر تیار کیا گیا ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ اس ملک بنک کے عملے کا خرچ اور اس کا انتظام یوگ گرو دیویندر اگروال کا ادارہ ہی اُٹھاتا ہے۔ اس بنک میں جمع ہونے والا دودھ سب سے پہلے اسپتال کے آئی۔ سی۔ یو میں موت سے لڑ رہے بچوں کو دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد بچے ہوئے دودھ کو مہیش آشرم میں موجود یتیم بچیوں کو دیا جاتا ہے۔ اب تک اس بنک میں 32 سو سے زیادہ خواتین ساڑھے سات ہزار سے زیادہ مرتبہ اپنا دودھ عطیہ کرچکی ہیں۔ "دیویہ مدر ملک بنک" کے مطابق ماؤوں کے اس دودھ سے اب تک تقریباً 1900 نوزائیدہ بچوں کی جان بچائی جاچکی ہے۔

image


یوگ گرو کے مطابق اس بنک میں تین طرح کے عطیہ دہندگان آتے ہیں۔ اول وہ خواتین ہوتی ہیں جن کے پاس بچے کی خوراک سے زیادہ دودھ ہوتا ہے۔ دوم وہ خواتین ہوتی ہیں جن کا بچہ آئی۔ وی پر ہوتا ہے اور بچے کی فیڈنگ روک دی جاتی ہے جس کی وجہ سے وہ خاتون اپنے بچے کو دودھ نہیں پلاسکتی لہٰذا وہ یہاں آکر اپنا دودھ عطیہ کردیتی ہے۔ اور سوم وہ خواتین ہوتی ہیں جن کے بچے پیدا ہوتے ہی مرجاتے ہیں ۔ حالانکہ یہ لوگ ایسی ماؤوں پر دودھ عطیہ کرنے کے لئے زور نہیں ڈالتے۔ یوگ گرو بتاتے ہیں،"جب ہم نےاس ملک بنک کی شروعات کی تھی تو لوگ کہتے تھے کہ کوئی کیوں ہمیں دودھ عطیہ کرے گا؟ کیونکہ لوگوں کا ماننا تھا کہ کوئی خون کا عطیہ تو کرسکتا ہے لیکن کوئی اپنے بچے کے حصے کا دودھ کیسے عطیہ کرےگا، بھلے ہی وہ زیادہ کیوں نہ ہو؟"

اس ملک بنک میں دودھ عطیہ کرنے سے پہلے خواتین کو ایک خاص عمل سے گزرنا پڑتا ہے۔ اس عمل کے تحت جو خاتون اپنا دودھ عطیہ کرنا چاہتی ہے ، پہلے اس کا چیک اَپ کیا جاتا ہے تاکہ یہ تیقن کیا جائے کہ اسے کوئی بیماری تو نہیں ہے یا پھر وہ شراب یا کسی دیگر نشیلی اشیاء کی عادی تو نہیں ہے؟ اس کے علاوہ دودھ عطیہ کرنے والی خاتون کا 2 ایم ایل خون لیا جاتا ہے تاکہ چیک کیا جائے کہ اس خاتون کو ایچ۔ آئی۔ وی یا کوئی دوسری متعدی بیماری تو نہیں ہے؟ ان سب جانچوں کے بعد ہی کوئی خاتون اپنا دودھ عطیہ کرسکتی ہے۔ ا س کے علاوہ یہاں جو خواتین اپنا دودھ عطیہ کرنے کے لئے آتی ہیں ان سے کہا جاتا ہے کہ وہ دودھ عطیہ کرنے سے قبل اپنے بچے کو دودھ پلائیں۔ اس کے بعد بریسٹ پمپ کے ذریعے باقی بچا ہوا دودھ نکال لیا جاتا ہے۔

image


ملک بنک میں جمع ہونے والے دودھ کو خاص عمل کے ذریعے محفوظ رکھا جاتا ہے۔ سب سے پہلے ماں سے ملے دودھ کو تب تک منفی 5 ڈگری پر محفوظ رکھا جاتا ہے جب تک مان کی خون کی رپورٹ نہیں آجاتی۔ اس کے بعد سبھی عطیہ دہندہ خواتین کے دودھ کو ملاکر اسے پاسچرائز کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد 30 ملی لیٹر کا ایک یونٹ تیار کر کے اسے سیل پیک کیا جاتا ہے۔ پھر 12 یونٹ کا ایک بیچ بنایا جاتا ہے۔ اس میں سے ایک یونٹ الگ کرکے اسے کلچر رپورٹ کے لئے مائیکر بائیلاجی لیب میں بھیج دیا جاتا ہے۔ باقی بچے ہوئے یونٹس کو منفی 20 ڈگری میں محفوظ کرکے رکھ دیا جاتا ہے۔ اس دودھ کی خاصیت یہ ہوتی ہے کہ اسے تین مہینے تک محفوظ رکھا جاسکتا ہے۔

image


یہ ملک کا اولین کمیونٹی ہیومن ملک بنک ہے۔ "دیویہ مدر ملک بنک" ماؤوں سے دودھ اکٹھا کرنے کے لئے کئی جگہوں پر کیمپ بھی لگاتا ہے۔ خاص بات یہ بھی ہے کہ اس اسکیم میں اب ریاستی حکومت نے دلچسپی دکھانی شروع کردی ہے جس کے تحت تمام ریاست میں 10 مدر ملک بنک کھولنے کا منصوبہ تیار کیا گیا ہے۔ اس کے لئے حکومتی سطح پر 10 کروڑ روپیوں کا انتظام کیا گیا ہے۔ ادے پور میں "دیویہ مدر ملک بنک" کے قیام کے بعد یوگ گرو دیویندر اگروال کا کہنا ہے کہ ان کا منصوبہ راجستھان کے بعد اب اُتر پردیش اور ہریانہ میں بھی اس طرح کے بنک قائم کرنے کا ہے جس کے لئے دیگر لوگوں سے ان کی گفت و شنید جاری ہے۔

تحریر : ہریش بِشٹ

مترجم : خان حسنین عاقب