میری توجہ امیر بیوی بننے پر مرکوز ہے... گرافک ڈیزائن کمپنی کی بانی سائفا شبیر کی کہانی

میری توجہ امیر بیوی بننے پر مرکوز ہے... گرافک ڈیزائن کمپنی کی بانی سائفا شبیر کی کہانی

Friday April 29, 2016,

10 min Read

''ہر ایک ابھرتے ہوئے کاروباری شخص نے کوئی نہ کوئی خواب دیکھا ہوتا ہے، میرا خواب یہ ہے کہ مستقبل میں میری گروپ آف کمپنیز ہو۔ اسی خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لئے میں نے اپنی ذاتی کمپنی کی بنیاد رکھی ہے۔''

یہ کہنا ہے چوبیس سالہ کشمیری لڑکی سائفا شبیر کا، جنہوں نے تین سال قبل ’سس آرک ای‘(SYSARCH-E) کے نام سے اپنی ذاتی گرافک ڈیزائن کمپنی کی بنیاد رکھی تھی ۔اس کے اندر اب انہوں نے مزید دو ذیلی کمپنیاں وجود میں لائی ہیں۔ کہتی ہیں ’میں نے اپنی کمپنی کا نام سس آرک ای یعنی سسٹم آرکیٹکچر رکھا ہے۔ اس کے قیام کے کچھ وقت گذرنے کے بعد میں نے سوچا کہ کمپنی کا نام یہی رہے گا، لیکن مجھے اس کے ماتحت کچھ ذیلی کمپنیاں یا یونٹس کی بنیاد رکھنی چاہیے، جس میں، میں کامیاب بھی ہوئی۔ ریڈبرشز (RED BRUSHES) اور گو کارپو (GOCORPO) میری کمپنی کے ماتحت کام کرنے والے پہلے دو ذیلی کمپنیاں یا یونٹس ہیں۔‘

اگرچہ اگست 2014ء میں کاروباری زندگی میں قدم رکھنے والی سائفا کا سفر آسان نہ رہا اور انہیں کچھ ناگزیر وجوہات کی بنا ء پر دو دفعہ اپنی کمپنی کا دفتر دوسری جگہوں پر منتقل کرنا پڑا، تاہم اُنہوں نے اپنا حوصلہ برقرار رکھا اور آج سکون کے ساتھ سری نگر کے معروف تجارتی مرکز ریزیڈنسی روڑ پر واقع بابا بلڈنگ کی آخری منزل میں ایک خوبصورت اور دلکش آفس سے اپنی کمپنی کی آپریشنز چلارہی ہیں۔ کہتی ہیں

 ’میں اپنے کام سے بے حد خوش اور مطمئن ہوں۔ میرا ماننا ہے کہ گذشتہ دو تین برسوں کے دوران جو کامیابی میں نے حاصل کی ہے، وہ کشمیری سماج میں بحیثیت لڑکی میرے لئے ایک بڑا کارنامہ ہے۔ مجھے اپنے آپ پر فخر ہے۔‘
image


تاہم گروپ آف کمپنیز کی مالکہ بننے کے علاوہ سائفا نے وادی کی سب سے کامیاب بزنس وومن بننے کا بھی خواب اپنی آنکھوں میں بسا لیا ہے جبکہ انہوں نے گذشتہ تین برسوں سے پیغام رسانی کی ایپلیکیشن ’واٹس ایپ‘ پر اپنا اسٹیٹس تبدیل ہی نہیں کیا ہے، جوں کچھ یوں ہے ’آپ میں سے کچھ عورتیں امیر شوہر کی تلاش میں ہیں جبکہ میری توجہ ایک امیر بیوی بننے پر مرکوز ہے۔‘

سری نگر کے پرانے شہر سے تعلق رکھنے والی سائفا کا کہنا ہے '

'ر یزیڈنسٹی روڑ پر آفس حاصل کرنا میرے لئے یا کسی بھی کاروباری شخص کے لئے آسان نہیں ہے، اللہ تعالیٰ کی مہربانیوں کا نتیجہ ہے کہ میں اس میں کامیاب ہوگئی اور انشااللہ آنے والے وقت میں بھی کامیابیوں کا سلسلہ جاری رہے گا۔'

’ہم نے پہلے اپنی کمپنی کا آفس کرن نگر سری نگر میں کھولا تھا جو ہمیں کشمیر میں آنے والے تباہ کن سیلاب کی وجہ سے بند کرنا پڑا تھا۔ پھر ہم پرانے سری نگر کے نائید کدل منتقل ہوئے تھے جہاں محض چند ماہ تک رکنے کے بعد ہم بالآخر ہم یہاں ریزیڈنسی روڑ پر منتقل ہوئے۔ ہمارا ارادہ ہے کہ ہم آنے والے کم از کم پانچ برسوں تک اسی جگہ سے کمپنی کی آپریشنز چلائیں گے اور اُس کے بعد اپنے ذاتی آفس میں منتقل ہوجائیں گے۔‘

بچپن سے ہی آرٹس اور کرافٹس میں دلچسپی رکھنے والی سائفا شبیر نے بارہویں جماعت تک سری نگر کے مشہور و معروف مشنری اسکول میلنسن گرلز ہائر سکینڈری اسکول میں پڑھا ہے اور بعد میں سری نگر کے تاریخی ایس پی کالج سے بی ایس سی آئی ٹی کی ڈگری حاصل کی ہے۔ کہتی ہیں'

 ’ بچپن سے ہی تخلیقی صلاحیتوں کو استعمال میں لاکر خاکے بنانا میرا معمول کا عمل بن چکا تھا۔ سچ تو یہ بھی ہے کہ آرٹس اور کرافٹس کے حوالے سے مجھ میں موجود صلاحیتوں کو چار چاند لگانے کے لئے میں نے کشمیر میں ہی کچھ آرٹ کورسز میں داخلہ لیا جن کی بدولت مجھے بہت کچھ نیا سیکھنے کو ملا۔ چونکہ میں نے اپنی گریجویشن کے دوران انفارمیشن ٹیکنالوجی پڑھا ہے اور گرافک اینڈ ڈیزائننگ بھی اسی کا ایک ذیلی شعبہ ہے اور بالآخر میں نے گرافکس کو بحیثیت اپنا کیریئر چن لیا۔‘

گذشتہ تین برسوں کے اپنے تجربات کو کھل کر بیان کرتے ہوئے سائفا نے کہا ’اگست دو ہزار چودہ میں جب میں نے اس کمپنی کی بنیاد رکھی تو میرا تب وژن تھا کہ میں اسے ایک سافٹ ویئر ڈیولپمنٹ یا ویب سائٹ ڈیولپمنٹ کمپنی بناؤں گی جس میں ساتھ ساتھ گرافک ڈیزائننگ کی خدمات بھی صارفین کو فراہم کی جائیں گی۔ میں اپنے اس وژن پر عمل پیرا بھی ہوئی تھیں۔ پھر میں نے آہستے آہستے اس بات کا ادراک کیا کہ سافٹ ویئر ڈیولپمنٹ یا ویب سائٹ ڈیولپمنٹ کے بجائے میری زیادہ دلچسپی آرٹس اور گرافکس میں ہے۔ سافٹ ویئر یا ویب سائٹ ڈیولپمنٹ کو چھوڑنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ یہ بزنس کشمیر میں بہت زیادہ عام ہوگیا ہے۔ آپ کو سری نگر کے ہر گلی کوچے میں ویب سائٹ اور سافٹ ویئر ڈیزائنرز ملیں گے اور وہ انتہائی سستی قیمتوں پر ویب سائٹس ڈیولپ کرتے ہیں، جو نہیں ہونا چاہیے تھا۔ میرا ماننا ہے کہ ایک اچھی ویب سائٹ کو ڈیولپ کرنے کی قیمت پچاس ہزار روپے ہونی چاہیے جبکہ یہاں اس شعبے سے وابستہ افراد یہ کام محض دو ہزار روپے میں کرتے ہیں۔‘

image


یہ پوچھے جانے پر کہ کیا کنبے کے دیگر اراکین سائفا کے کام سے خوش ہیں، تو اُن کا جواب تھا ’میری فیملی میں صرف میری ماں اور میرے رشتہ دار ہیں۔ پہلے پہلے انہیں بھی لگا کہ ہماری بیٹی جو کرنا چاہتی ہے، شائد وہ نہیں کرپائے گی کیونکہ وہ ایک لڑکی ہے۔ لیکن جب میں نے اپنے بزنس کا کامیابی کے ساتھ آغاز کیا اور میری امی کو میرے بزنس کے حوالے سے کچھ سٹوریز(کہانیاں) پڑھنے کو ملیں تو انہیں احساس ہوا کہ بیٹی اچھی کام کررہی ہے اور وہ میرا مکمل ساتھ دینے لگی۔‘

تاہم سائفا کا کہنا ہے کہ اُن کی امی جو ایک ریٹائرڈ سرکاری ٹیچر ہے، اب بھی انہیں ایک ڈاکٹر یا انجینئر بنتے دیکھا چاہتی ہے۔ کہتی ہیں ’میری امی اب بھی مجھ سے کہتی ہے کہ ڈاکٹر بنو، انجینئر بنو، دیکھو تمہارے چاچا کا بیٹا انجینئر ہے، کتنے پیسے کما رہا ہے دوبئی میں بیٹھ کر۔ میرا اُن کے لئے ہمیشہ یہی جواب ہوتا ہے کہ میں ملازم نہیں بننا چاہتی ہے بلکہ ملازمت فراہم کرنے والی بننا چاہتی ہوں۔‘

سائفا نے دوٹوک الفاظ میں کہا ’کشمیری سماج میں لڑکیوں کے تئیں سوچ تھوڑی پرانی ہے۔ یہاں والدین کا ماننا ہے کہ لڑکیوں کو اچھے سے پڑھاؤ لکھاؤ، گریجویشن، ماسٹرس اور دیگر ڈگریاں کرواؤ اور بعد میں گھر میں بٹھاؤ اور شادی کرواؤ۔ بس یہی اِن کی زندگی ہے۔ میں خوش قسمت ہوں کہ میرے ساتھ ایسا نہیں ہوا اور میری فیملی اس طرح نہیں سوچتی ہے۔‘

اپنی ٹیم کے بارے میں سائفا نے بتایا ’ایک اکیلا انسان کبھی کوئی کمپنی نہیں چلا سکتا ہے۔ لازمی طور پر ایک کمپنی کو چلانے کے لئے شراکت داروں یا تجربہ کار افراد کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس کمپنی کو چلانے میں دو تجربہ کار گرافک ڈیزائنرز، ایک مواد لکھاری اور ایک انفارمیشن ٹیکنالوجی ماہر میرا ہاتھ بٹاتے ہیں۔‘

 پرعزم سائفا کا کہنا ہے کہ کسی بھی بزنس کو وسعت دینے کے لئے دو چیزیں درکار ہوتی ہیں، اول: ایک اچھی خاصی رقم اور دوم: ایک اچھی ٹیم۔ کہتی ہیں ’اچھی ٹیم سے میرا مراد کام کرنے کا جذبہ رکھنے والے افراد ہیں۔ میں تب تک اپنے کسی بھی دوست کو یہ نہیں کہہ سکتی ہوں کہ وہ میری ٹیم میں شامل ہوجائے جب تک کہ وہ میری طرح محنت مشقت کرنے کا جذبہ رکھتا یا رکھتی ہو۔ میں ہمیشہ ایسے لوگوں کی تلاش میں رہتی ہوں جو کمپنی کے فروغ اور اسے وسعت دینے کے خواہاں اور اس کا جذبہ رکھتے ہوں، نہ کہ کمپنی کے ساتھ اپنی وابستگی کو پیسے کمانے کی نظر سے دیکھتے ہوں۔‘

 نوجوان بزنس لیڈی کا کہنا ہے کہ گرافک ڈیزائننگ ایک ایسی چیز ہے جس کی ہر ایک پیشہ ورانہ اور کاروباری شخص کو ضرورت پڑتی ہے اور اس کے تناظر میں ہر کوئی شخص اس کمپنی کا گاہک ہوسکتا ہے۔ کہتی ہیں ’ہمارا گاہک ہر کوئی ہے۔ چاہے وہ ایک اسٹارٹپ، چھوٹا بزنس یا بڑا بزنس ہے۔ آرٹ سروسز کی ہر ایک کو ضرورت پڑتی ہے۔ ایک کمپنی یا اسٹارٹ اپ کو ہم ویزیٹنگ کارڈ سے لیکر پورٹ فولیو، ویب سائٹ تک ہر طرح کی درکار خدمات فراہم کرتے ہیں۔ ہماری سروسز میں لوگو ڈیزائننگ، بروشرز، کیٹلاگز، میگزین لے آوٹس، اخباری اشتہارات، نمائش ڈیزائنز ، پریزنٹیشن ڈیزائن، دعوت نامے، پوسٹرس، گیم ڈیزائنس اور دیگر پرنٹنگ خدمات شامل ہیں۔‘

image


’ہمارے پاس خود کے پرنٹرس نہیں ہیں اور چونکہ ہم گذشتہ تین برسوں سے اس بزنس سے وابستہ ہیں، اس لئے ہمارے یہاں اور باہر نئی دہلی میں نامور پرنٹنگ اداروں کے ساتھ ٹائی اپ ہے۔ ہم اپنے گاہکوں کو ون اسٹاف سلیوشن فراہم کررہے ہیں تاکہ انہیں ڈیزائن کے لئے ہمارے پاس اور پرنٹنگ کے لئے کسی دوسری جگہ جانا نہ پڑے۔ ہم انہیں یہ سروسز قابل برداشت قیمتوں پر فراہم کررہے ہیں۔‘

سائفا کا کہنا ہے کہ اگرچہ اُن کی کمپنی ابھی بھی ابتدائی مرحلے سے ہی گذر رہی ہے لیکن باوجود اس کے اُن کی ماہانہ آمدن اسی ہزار سے ایک لاکھ روپے کے درمیان ہے۔ ساتھ ساتھ یہ بھی کہتی ہیں کہ انہوں نے اپنی کمپنی کی تشہیر کے لئے سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کا خوب استعمال کیا ’ہم فی الوقت صرف مقامی مارکیٹ کی ہی ضروریات پوری کررہے ہیں۔ ہم نے اس کمپنی کی تشہیر کے لئے آج تک صرف سماجی رابطوں کی ویب سائٹس خاص طور پر فیس بک اور ٹویٹر کا ہی استعمال کیا ہے، جو ہمارے لئے بہت فائدہ مند بھی ثابت ہورہا ہے۔ اور جن گاہکوں کو آج تک ہم نے خدمات فراہم کی ہیں، وہ ہماری کمپنی کی پروموشن میں بہت مددگار ثابت ہورہے ہیں۔ تاہم ہمارے کچھ گاہک بیرون کشمیر دوبئی، نیدرلینڈ اور بھارتی شہر بنگلور سے بھی ہیں۔ اُن تک ہمارا رابطہ صرف اور صرف سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کے ذریعے ہی ممکن ہوسکا ہے۔‘

سائفا کا کہنا ہے کہ گذشتہ تین برسوں کے دوران انہیں اس بات کا تجربہ ہوا کہ ’آپ ایک گاہک کے پاس جائیں گے، اسے سروسز فراہم کریں گے اور اگر اسے آپ کی سروسز پسند آئیں تو وہ کم از کم دو اور لوگوں کو آپ کے بارے میں ضرور بتائے گا۔ وہ دو لوگ بعد میں چار اور لوگوں کو بتاتے ہیں اور اسے طرح اچھی خدمات فراہم کرنے کے بعد خود بہ خود کمپنی کی تشہیر ہوجاتی ہے‘۔
image


تین کمپنیوں کی بانی سائفا کا کہنا ہے کہ چونکہ وہ کشمیر میں رہتی ہیں، اس لئے انہیں معلوم ہے کہ اُن کا گاہک کون ہے اور اس تک کیسے پہنچنا ہے۔ ’میں خود کبھی کبھی گاہکوں کے پاس جاتی ہوں۔ انہیں کمپنی اور خدمات کے بارے میں بتاتی ہوں۔‘

سائفا نے اپنے مستقبل کے منصوبوں اور ارادوں کا انکشاف کرتے ہوئے کہا ’کشمیر میں آپ کو بہت زیادہ گرافک ڈیزائنرز نہیں ملیں گے۔ جیسا کہ میں نے پہلے ہی بتایا کہ اس کمپنی کو مزید وسعت دینے کے لئے ہمیں گرافک ڈیزائنرز کی ایک اچھی ٹیم کی ضرورت ہے، جو ہمیں نہیں مل رہی ہے۔ ہم کشمیر میں ایک گرافک ڈیزائننگ انسٹی چیوٹ کھولنے کا ارادہ رکھتے ہیں جہاں ہم ایسے طلبہ کو تربیت دیں گے جو کام کرنے کی خواہش اور جذبہ رکھتے ہوں۔ تاکہ پھر وہ ہمارے لئے کام کرسکیں۔‘

........................

کامیابی کی منزل تک پہنچنے والے ایسے ہی حوصلہ مند افراد کی کچھ اور کہانیاں پڑھنے کے لئے ’یور اسٹوری اُردو‘ کے فیس بک پیج پر جائیں اور ’لائک‘ کریں۔

FACE BOOK

کچھ اور کہانیاں پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں.

پشمینہ مصنوعات کو دنیا بھر تک پہنچانے کا عزم...کشمیری نوجوان جنید شاہدار کا ای پورٹل 'پھمب ڈاٹ کو ڈاٹ ان'

کشمیر کے روایتی لباس 'پھیرن'کو امریکہ پہنچانے والی مفتی سعدیہ کی کہانی

کشمیری لڑکی 'ثوبیہ امین منٹو' کا بیوٹی سیلون کھولنے کا خواب شرمندہ تعبیر