بچپن ہی سے خدمت خلق کا جزبہ رکھتے ہیں 20 ہزار سے زیادہ دل کے آپریشن کر چکے ڈاکٹر وجے دکشت

والد سے ملے اقدارمیں خدمت خلق کی بڑی اہمیت تھی... دوسروں کی مدد کے مقصد سے ہی ڈاکٹر بننے کی خواہش ہوئی ...ہونہار تو تھے ہی اور محنت اتنی زبردست کہ پہلی ہی کوشش میں ایم بی بی ایس کی سیٹ حاصل کر لی...کچھ ایسا جنون سوار تھا کہ ایسے وقت دل کا ڈاکٹر بننے کی سوچی جب ملک بھر میں دو تین جگہ ہی دل کے آپریشن ہوتے تھے... دل کی سنی، دل کے ڈاکٹر بنے اور ہزاروں لوگوں کے دل کی بیماریاں دور کیں ۔۔۔ ڈاکٹری زندگی میں نئے نئے طبی طریقہ کار اپنائے اور سرجری کو آسان کیا ... 20 ہزار سے زیادہ دل کے آپریشن کرنے کے بعد بھی وہی جوش ہے جو پہلے آپریشن کے وقت تھا... دل کے اس بڑے ڈاکٹر وجے دکشت کے خیالات بھی کافی متاثرکن ہیں

بچپن  ہی سے خدمت خلق کا جزبہ رکھتے ہیں 20 ہزار سے زیادہ دل کے آپریشن کر چکے ڈاکٹر وجے دکشت

Friday June 10, 2016,

10 min Read

ڈاکٹر وجے دکشت ہندوستان ہی نہیں، بلکہ دنیا کے سب سے مشہور قلبی امراض کےماہرین میں سے ایک ہیں۔ انہوں نے اپنی ڈاکٹری زندگی میں بہت سے پیچیدہ آپریشن کئے اور کامیاب رہے۔ جس صفائی سے وہ آپریشن کر مریضوں کا علاج کرتے ہیں، اسے دیکھ کر بہت سے لوگ ان کے مرید بن گئے ہیں۔ کچھ مریض انہیں فرشتہ کہتے ہیں تو کچھ انہیں جان بچانے والا مسیحا مانتے ہیں۔ ڈاکٹر وجے دکشت اب تک بیس ہزار سے زیادہ دل کے آپریشن کر چکے ہیں، لیکن وہ اس کو محض ایک عدد مانتے ہیں۔ حیدرآباد کے اپولو ہسپتال میں ان کے کمرے میں ہوئی ایک بات چیت میں وجے دکشت نے کہا،

"بیس ہزا تو بس ایک نمبر ہے۔ آپ کام کرتے رہیں گے، تو نمبر بڑھتے رہیں گے۔ میں اسے کوئی بڑی بات نہیں مانتا۔ جب تک مجھ میں طاقت ہے، قابلیت ہے اور میرے ہاتھ پاؤں چلتے رہیں گے میں کام کرتا رہوں گا۔ نمبر کے لئے تھوڑے ہی کرتے ہیں آپریشن، کام کرتے رہتے ہیں تو نمبر ہو جاتے ہیں۔ "

وجے دکشت ان خاص شخصیتوں میں سے ہیں، جن سے ایک بار بات چیت کرنے سے ہی یہ پتہ چل جاتا ہے کہ جیسا ان کا کام ہے ویسا ہی ان کا دل بھی ہے۔ جیسا سوچتے ہیں، ویسے ہی بات بھی کرتےہیں۔ لوگ انہیں جان بچانے والا ڈاکٹر کہتے ہیں، لیکن وجے دکشت خود کو ایسا کچھ نہیں سمجھتے۔ وہ کہتے ہیں،

"جان میں کیا بچا سکتا ہوں؟ میں نہ جان دینے والا ہوں نہ لینے والا۔ لوگوں کی صحت اچھی رہے، کم از کم دل کے معاملے میں، میں کچھ مدد کر سکتا ہوں، تو کرتا ہوں۔ یہ تو مریض مانتے ہیں کہ میں جان بچاتا ہوں۔آپ ہی سوچئے، ہم اپنی جان بچا سکتے ہیں کیا؟ ہم میں اتنی طاقت تھوڑے ہی ہے؟ ہم نہ جان دے سکتے ہیں نہ لے سکتے ہیں۔ جی ہاں میں اپنی تعلیم اور تجربے کی وجہ سے لوگوں کی صحت ٹھیک کر سکتا ہوں، اور یہیں کرتا بھی ہوں۔ "

طبی میدان کی اس بڑی شخصيت سے ہم نے یہ سوال بھی کیا کہ دل کو صحت مند رکھنے کے لئے کیا کرنا ضروری ہیں؟ اس سوال کے جواب میں وجے دکشت نے کہا، "اپنے دل کی سنو۔ جو کرنا چاہتے ہو وہ کرو۔ میں نے دیکھا ہے وہی لوگ دل کی بیماری پالتے ہیں جو وہ کام کرتے ہیں، جس میں ان کا دل نہیں ہوتا۔ تناو کی وجہ سے دل کی بیماریاں ہوتی ہیں۔ تناو کا مطلب صرف پریشانی نہیں ہے۔ وہ کام کرنا بھی ہے، جس میں دل نہیں لگتا۔ "

مشورہ دیتے ہوئے وجے دکشت نے مزید کہا، "یہ ہمیشہ ممکن نہیں ہے کہ آپ کو وہ ہی کام کرنے کا موقع ملے، جس میں آپ دل دماغ شوق سے لگے۔ ایسی حالت میں آپ یہ سمجھ لینا چاہئے کہ آپ کو اسی کام کے لئے بنایا گیا ہے، جو آپ کر رہے ہیں۔ آپ جب اپنے کام کو خوش اسلوبی سے کریں گے تبھی خوش بھی رہیں گے اور صحتمند بھی۔ "

جب ہم نے وجے دکشت سے یہ پوچھا کہ ان کے لئے کامیابی کے معنی کیا ہیں؟ انہوں نے فلسفیانہ انداز میں کہا، "میں تو نہیں جانتا کہ میں کامیاب ہوں یا نہیں۔ اگر آپ اپنے آپ کو کامیاب سمجھتے ہیں، تو آپ کامیاب ہیں۔ میں نے بہت ساری چیزیں سوچی ہوں گی زندگی میں، لیکن میں نہیں کر پایا۔ ایسے میں میں کیا یہ مان لوں کہ میں ناکام رہا ہوں۔ اگر آپ اس کام سے مطمئن ہیں جو آپ کر رہے ہیں، تو یہ بھی کامیابی ہے۔ جیسے جیسے تجربہ بڑھتا ہے، ویسے ویسے اطمینان بڑھے تو بڑی کامیابی ہے۔ "

مریضوں کے علاج میں زندگی وقف کر چکے وجے دکشت کے ذہن میں خدمت خلق کا جزبہ کوٹ-کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ بچپن میں والد کی باتوں کا ان کے دل اور دماغ پر بہت ہی گہرا اثر پڑا تھا۔ ایک لحاظ سے خدمت خلق کے جزبےکی وجہ سے ہی وجے دکشت ڈاکٹر بنے تھے۔ بچپن میں ہی یہ سوچ لیا تھا کہ بڑے ہو کر انہیں ڈاکٹر بننا ہے۔ وہ صرف ڈاکٹر ہی بننا چاہتے تھے اور کچھ نہیں۔ ان کے والد آئی پی ایس افسر تھے اور انہیں اتر پردیش میں مختلف جگہ اونچے عہدے پر کام کرنے کا موقع ملا تھا۔ تبادلے ہوتے رہتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ وجے دکشت کی تعلیم بھی الگ الگ جگہ ہوئی، لیکن ان کا زیادہ تر وقت لکھنؤ اور وارانسی میں گزرا۔

وجے دکشت نے بتایا، "میرے والد چاہتے تھے کہ میں ایسا کوئی ٹیلنٹ رکھوں جو میرے ہاتھ میں ہو۔ وہ چاہتے تھے کہ میں اپنے ٹیلنٹ سے دوسروں کی مدد کر سکوں۔ والد کی انہی باتوں کا مجھ پر بہت اثر پڑا۔ والد کے اسی جزبے کی وجہ سے میں نے ڈاکٹر بننے اور لوگوں کی مدد کرنے کی سوچی۔''

بچپن سے ہی وجے دکشت دوسرے بچوں سے مختلف تھے۔ وہ دوسروں کی مدد کرنے کو اہمیت دیتے تھے۔ غریب بچوں کو کبھی چاكلیٹ دیتے تو، کبھی آئس کریم كھلا دیتے۔ اور بھی الگ الگ طرح سے انہوں نے اپنے ہم عمر بچوں کی مدد کی تھی۔ دوسروں کی مدد کرنا ان کی عادت سی بن گئی تھی۔ کچھ لوگ ان سے یہ کہتے بھی کہ انہیں ان بچوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا نہیں چاہئے، لیکن وجے دکشت پر اس طرح کے اعتراضات کا کوئی اثر نہیں پڑا۔

میڈیکل کالج کی امتحان کے لئے جم کر تیاری کی تھی۔ ان دنوں کی یادیں تازہ کرتے ہوئے وجے دکشت نے اپنے خاص انداز میں، "ڈاکٹر بننا اتنا مشکل بھی نہیں ہے، مگر اس دور میں بھی كمپٹشن ہوتا تھا۔ جب میں نے امتحان لکھا تب 700 نشستیں تھیں اور 35 ہزار امیدوار امتحان میں، تھے، میرا رینک تیرهواں تھا۔ چونکہ ان دنوں لکھنؤ میڈیکل کالج سب سے بہتر مانا جاتا تھا، میں نے وہی داخلہ لیا۔ میں شروع سے چاہتا تھا کہ ڈاکٹر بنوں۔ ڈاکٹر بننے کے لئے پڑھائی تو کرنی پڑتی ہے۔ میں نے بھی ان دنوں دن رات محنت کی۔ "

وجے دکشت نے لکھنؤ کے کنگ جارج میڈیکل کالج میں ایم بی بی ایس کی اپنی تعلیم کے دنوں کے بار میں بھی بتایا، "اس وقت کی تعلیم کے بارے میں سوچنے پر اب مزا آتا ہے۔ آج کل کے بچے شاید ہی اسے سمجھ پائیں گے۔ ان دنوں بہت زیادہ مطالعہ کرنا پڑھتا تھا۔ ہر ہفتے ٹیسٹ ہوتے تھے۔ دن رات، سونا جاگنا ان سب کا کوئی مطلب نہیں تھا۔ دن میں ہم صبح سے لے کر رات 8 بجے تک ہسپتال میں ہی رہتے تھے۔ تعلیم کے سوا اور کسی کے بارے میں سوچنے کا وقت ہی نہیں ملتا تھا۔ اس بات کا ڈر بھی رہتا تھا کہ کہیں فیل نہ ہو جاؤں۔ پیرینٹس مجھے بہت اسپورٹ کر رہے تھے۔ مجھ سے بڑی امیدیں رکھتے تھے۔ ان کی توقعات پر کھرا اترنے کا پریشر بھی رہتا تھا۔ ان دنوں فیل ہونا عام بات تھی۔ انٹرنس پاس کرکے کئی اچھے لڑکے میڈیکل کالج میں آتے تھے، مگر آدھے بچے کسی نہ کسی سبجیکٹ میں فیل ہو جاتے تھے۔ "

وجے دکشت کی محنت اتنی تگڑی تھی کہ وہ کبھی فیل نہیں ہوئے۔ ارادے نیک تھے، حوصلے بلند، کامیابی ان میں شامل ہو گئی۔ ایم بی بی ایس تعلیم حاصل کی ٹریننگ کے دوران وہ دل کے آپریشن کی طرف متوجہ ہوئے۔ اس بات کو ذہن میں گرہ باندھ کر بٹھا لیا کہ انہیں دل کا ڈاکٹر ہی بننا ہے۔ جب انہوں نے دل کا ڈاکٹر بننے کے اپنے ارادے کے بارے میں والد اور دوسرے لوگوں کو بتایا تو تمام حیران ہوئے۔ سب نے حوصلہ شکنی کرنے والے الفاظ کہے۔ وجے دکشت نے بتایا، "بہت لوگوں نے کہا - یہ کون سی لائن لے رہے ہو؟ کہاں، کیا کر پاوگے؟ سينيرس بھی کچھ اسی طرح کے سوال کرتے تھے۔ والد نے بھی ایک بار کہا تھا - بس آرڈنری ڈاکٹر بن جاؤ یہی کافی ہے، یہ دل ول کی سرجری کیا کرو گے۔ "

وجے دکشت کا ارادہ پکا تھا۔ انہوں نے ٹھان لیا تھا۔ وجے دکشت نے کہا، "ایک پاگلپن تھا۔ جنون سوار تھا۔ میں نے سوچ لیا تھا کہ مجھے صرف یہی کرنا ہے اور میں نے وہی کیا بھی۔"

وجے دکشت کا جنون دیکھ کر والد نے بڑے پیار سے کہا تھا - تمہیں جو کرنا ہے وہ کرو۔ ہم پورا تعاون كریگے۔ جن دنوں وجے دکشت نے دل کا ڈاکٹر / سرجن بننے کا فیصلہ لیا تھا، ستر کی دہائی میں بھارت میں دل کے آپریشن بہت ہی کم ہوا کرتے تھے۔ صرف دو ہی ہسپتالوں میں دل کے آپریشن ہوتے تھے۔ بہت ہی کم ڈاکٹر دل کے آپریشن کی تربیت بھی لیتے تھے۔ ایسے میں لوگوں کا وجے دکشت کے فیصلے پر حیرانی جتانا فطری تھا۔

وجے دکشت نے سرجن بننے کا فیصلہ تو لے لیا تھا، لیکن اس بات پر یقین نہیں تھا کہ وہ سرجن بن پائیں گے یا نہیں، لیکن اسی درمیان ایک واقعہ ہوا جس سے ان کو یہ یقین ہو گیا کہ وہ بھی سرجن بن سکتے ہیں۔ ہوا یوں تھا کہ جونیئر ڈاکٹر کے طور پر وجے دکشت کو ایک گاؤں بھیجا گیا تھا۔ انٹرنشپ چل رہی تھی۔ جب وہ گاؤں میں تھے تب ایک خاتون بری طرح سے زخمی اپنے بیٹے کو علاج کے لیے وجے دکشت کے پاس لے کر آئی۔ بچہ چلتی ٹرین سے گر گیا تھا۔ بچے کا منہ ایک سرے سے دوسرے سرے تک کٹ چکا تھا۔ بچے کی حالت بہت خراب تھی۔ وہ ادھ مراسا تھا۔ گاؤں میں یا اس کے ارد گرد وجے دکشت کے علاوہ کوئی ڈاکٹر نہیں تھا۔ بچے کی جان بچانے کے لئے اس آپریشن کرنا ضروری تھا۔ وجے دکشت نے فیصلہ لیا کہ وہ اس بچے کا آپریشن کریں گے۔ انہوں نے بچے کا آپریشن کیا۔ آپریشن کامیاب ہوا۔ کچھ ہی دنوں میں بچہ ٹھیک بھی ہو گیا۔

سب سے بڑی بات تو یہ تھی کہ وجے دکشت کا یہ پہلا آپریشن تھا۔ ریل حادثے میں زخمی بچے کی جان بچانے کے لئے کیے گئے اس پہلے آپریشن کی وجہ سے وجے دکشت کو بہت فائدہ ہوا۔ ان کے دماغ میں ایقان جاگا کہ وہ بھی سرجن بن سکتے ہیں۔ اپنا پہلا آپریشن کرنے سے پہلے وہ کئی بار اپنے سينيرس کو آپریشن کرتے ہوئے دیکھ چکے تھے۔ دوسروں کو آپریشن کرتا ہوا دیکھ کر ان کے دل بھی میں بھی خواہش پیدا ہوئی تھی سرجن بننے کی، لیکن وہ یقین نہیں کر پا رہے تھے، جو سرجن بننے کے لئے انہیں چاہئے تھا۔ وجے دکشت کہتے ہیں،

"سرجری کرنے کے لئے اعتماد بہت ضروری ہے۔ آپ مریض کے اعضاء کو کاٹتے ہیں، پھر سلتے ہیں۔ ایک لحاظ سے مریض کی جان آپ کے ہاتھوں میں ہوتی ہے۔ اسی لئے سرجری کرنے سے پہلے ڈاکٹر میں یقین کا ہونا بہت ضروری ہے۔"

دل کے آپیرشن کرنے میں مہارت حاصل کر چکے اس مہارتھی ڈاکٹر نے کہا، "آپریشن میں مختلف مرحلے ہوتے ہیں۔ ہر آپریشن میں کچھ مرحلے چالنج سے بھرے ہوتے ہیں۔ ہر آپریشن ایک چیلنج ہوتا ہے، میں اپنے آپ کو یہ چیلنج دیتا رہتا ہوں کہ اگلے آپریشن کو اور بہتر کر سکوں۔ گزشتہ سالوں میں نئی نئی ٹیکنالوجی آئیں ہے۔ ان تراکیب کو اپناتے ہوئے بھی ہم آگے بڑھے ہیں۔ "

قریب چار دہائیوں کے اپنی ڈاکٹری زندگی میں وجے دکشت طبی میدان میں آئی ہر بڑی انقلابی تبدیلی کے گواہ ہیں۔ ان کے مطابق، دل کی بیماریوں کے علاج کے معاملے میں جو سب سے بڑی تبدیلی آئی ہے وہ لوگوں کا علاج کے تئیں بڑھا یقین ہے۔ وجے دکشت بتاتے ہیں، "جب میں نے آپریشن کرنے شروع کیے تھے، تب لوگوں کو اتنا اعتماد نہیں تھا جتنا کہ اب ہے۔ ٹیکنالوجی نے ہماری بہت مدد کی ہے۔ کام آسان کیا ہے۔ اب ہم یہ جان گئے ہیں کہ کیا کرنا ہے اور کیا نہیں اب ڈاکٹروں کو ان کی حدود بھی معلوم ہیں۔ "