’اسٹوری والاز‘ کے امین حق ...کہانیاں ہوتی ہیں حکمت کی باتیں، دل بہلانا تو ہے ایک بہانہ

زندگی کا کوئی شعبہ ہو چاہے تعلیم ہو کہ تجارت، سماجی علوم کا معاملہ ہو کہ تاریخ ہر جگہ قصہ گوئی کے فن یا کہانیوں کے ذریعے مطلوبہ نتائج حاصل کئے جاسکتے ہیں

 ’اسٹوری والاز‘ کے امین حق ...کہانیاں ہوتی ہیں حکمت کی باتیں، دل بہلانا تو ہے ایک بہانہ

Tuesday May 10, 2016,

8 min Read

کہانیوں میں اختراع، کایاپلٹ اور تبدیلی کی فطری قوت ہوتی ہے۔ چاہے وہ آگ تاپتے ہوئے بولی جائیں یا گرم لحاف میں آرام سے سنائی جائیں، اُن کا سحر ٹوٹتا نہیں۔ ’اسٹوری والاز‘ (ویب سائٹ www.storywallahs.com) امین حق کا کا ماننا ہے کہ کہانیوں نے تاریخ ڈھالی ہے اور کہانیاں تبدیلی کی تحریک بخشنے، لوگوں کو ترغیب دینے اور سکھانے کی قوت رکھتی ہیں۔

’اسٹوری والاز‘ کے کہانی کارِ اعلیٰ امین حق کا کہنا ہے، ”کہانیاں تو ہم میں روز سماتی ہیں، وہ بیان کرتی ہیں ہمارے فیصلے، ہمارا نظریہ جس پر ہم عمل کرتے ہیں، سیاسی قائد جسے ہم منتخب کرتے ہیں، کریئر کی راہ اور حتیٰ کہ ہمارے شرکائے حیات کا احاطہ تک کرتی ہیں“۔ یہ تنظیم کی تشکیل اس ایقان کے ساتھ ہوئی کہ کہانیاں دل بہلانے کی آڑ میں حکمت کی باتیں ہوتی ہیں؛ اور اس حکمت کو تجارت اور تعلیم میں بروئے کار لانا ان کا بڑا مقصد ہوتا ہے۔

تاڑ لینے کی فطری صلاحیت

image


تھیٹر اور اڈورٹائزنگ دونوں شعبوں میں اپنے کام کے ذریعے امین نے جانا کہ کہانیاں اثرپذیر ہوتی ہیں۔ اُن کا کہنا ہے، ”میں نے بہتر کہانی کے ذریعے کسی شخص، برانڈ اور آرگنائزیشن کی وضع قطع کو پہچاننا شروع کیا۔ مجھے قیادت اور قصہ گوئی کے درمیان رشتہ بھی سمجھ آنے لگا“۔

امین حق کو محسوس ہوا کہ تجارتوں کو قصہ گوئی کی طاقت کو بروئے کار لاتے ہوئے بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاسکتا ہے۔ امین سوچتے ہیں کہ کیوں نہ ہر کسی کو اپنے آپ میں لیڈر بنایا جائے؟ ایک اور گوشہ جہاں انھیں قصہ گوئی کی ضرورت کا احساس ہوا، وہ شعبہ تعلیم ہے۔ 

”مجھے تعلیمی شعبے میں بھی موقع نظر آیا کہ ہمیں بے جا محنت کی بجائے کہانیوں کے ذریعے سکھانے کی ضرورت ہے۔“

شروعات

امین کو شروع سے دلچسپی رہی کہ کہانیاں، دیومالا ئی علامتیی فیصلہ سازی پر کس طرح اثرانداز ہوتے ہیں۔ گجرات میں جنم اور پرورش پانےوالے امین کی زندگی میں کہانیوں نے ہمیشہ اہم کردار نبھایا ہے۔ وہ کہتے ہیں:

”میں نہایت پڑھاکو ہونے کے ناطے ہمیشہ ہی کہانیوں کی طرف کھنچا جاتا رہا ہوں۔“

 نویں جماعت کے دوران امین کہانیوں کی مختلف دنیا ’تھیٹر‘ سے جُڑ گئے۔ وہ ماضی کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں:

 ”وہ ایک ڈرامہ تھا جس کی ہدایت کاری میں نے کی۔ اب اسے یاد کرتا ہوں تو مجھے میری ہدایت کاری کی صلاحیتوں پر درحقیقت الجھن کا احساس ہوتا ہے۔ خوش قسمتی سے مجھے کسی نے نہیں ٹوکا، لہٰذا میری مشق جاری رہی اور میں بہتر ہوتا ہوگیا۔“

تاہم، انھیں اپنے کالج کے دنوں میں یونیورسٹی تھیٹر ڈائریکٹر کے ذریعے اچھی رہنمائی حاصل ہوئی۔ امین نے جلد ہی MICA سے اڈورٹائزنگ میں کورس مکمل کیا اور ممبئی کے Ogilvy & Mather سے وابستہ ہوگئے۔امین کہتے ہیں،

”میں تب ٹرینی کی حیثیت سے کام کررہا تھا، اور مجھے یہ ایک واقعہ نمایاں طور پر یاد ہے۔ ایک روز میں اجتماعی بیت الخلاءمیں تھا اور میرے بازو والے گوشے میں نہایت معروف اور خوبرو چہرہ کو میں نے دیکھا۔ جب میں نے میرے رفقاءسے دریافت کیا تو انھوں نے بتایا کہ وہ کریٹیو ڈائریکٹر سونل ڈبرال تھے۔“

امین نے مزید بتایا کہ سونل ڈبرال ٹیلی ویژن سیریل ’فوجی‘ میں اپنے رول کیلئے بھی مشہور ہوئے۔

 ”اس پر مجھے خیال آیا کہ اگر کریٹیو ڈائریکٹر جو مصروف شخص ہے، اداکاری کرسکتا ہے تو میں بھی میرا تھیٹر کا کام جاری رکھ سکتا ہوں۔ لہٰذا میں نے میرے باس سے پوچھا کہ آیا میں کام کے بعد تھیٹر کی مصروفیت جاری رکھ سکتا ہوں اور انھوں نے اجازت دے دی“۔

جلد ہی امین ممبئی کے ایک تھیٹر گروپ ’اَنکور‘ میں شامل ہوئے۔ یہ گروپ سرِراہ ڈرامہ اور کمرشیل تھیٹر دونوں کام کرتا تھا۔ ”میں نوجوان اور کنوارا تھا، میں دنیا کی ایک بہترین اڈورٹائزنگ ایجنسی سے وابستہ تھا، بسٹ برانڈز کا کام سنبھال رہا تھا اور تھیٹر میں بھی مصروف تھا .... یہ میری زندگی کا بہترین مرحلہ رہا۔“

دو سال بعد امین کی وابستگی McCann Erikson سے ہوگئی۔ وہ کہتے ہیں: ”اگر آپ نہج کو دیکھیں تو میں تھیٹر اور اڈورٹائزنگ کا کام کررہا تھا، دونوں مختلف قسم کی قصہ گوئی ہے، جہاں برانڈ اسٹریٹجی کی تعمیل ہوتی ہے، جو ایک اور قسم کی قصہ گوئی ہے۔“

امین کا ماننا ہے کہ چاہے معاملہ سماجی بیداری کا ہو، برانڈ یا سیاسی مہمات کا ہو، تشہیربازی آپ کو سکھا دیتی ہے کہ لوگوں کو کس طرح متاثر کیا جائے کہ وہ درست کام کریں، یا آپ کا برانڈ منتخب کریں۔ ”مجھے انسانی ذہن اور اثر پذیری کے تعلق سے زبردست تجربہ حاصل ہوا۔ تھیٹر نے مجھے انداز سکھائے کہ کسی کہانی کو کس طرح کہیں اور قصہ گوئی میں اشاروں کی زبان کیسے بروئے کار لائیں، جب کہ اڈورٹائزنگ نے مجھے عملی استعمال سکھایا۔“

اس مدت کے دوران، امین نے FTII اور نیشنل فلم آرکائیوز آف انڈیا کی جانب سے Film Appreciation کا کورس بھی کرلیا۔ وہ بتاتے ہیں : ”ہمارا ایک ورکشاپ دیودت پٹنائک کے ساتھ رہا اور اس سے مجھے مائیتھالوجی سے دوبارہ جڑنے میں مدد ملی۔ اس طرح قصہ گوئی کے مختلف پہلو میری زندگی کا حصہ بننا شروع ہوئے۔“

امین جلد ہی بنگلور کو منتقل ہوئے اور اڈورٹائزنگ اور تھیٹر میں اپنا کام جاری رکھا، اور 2012ءمیں انھوں نے ’Storywallahs‘ شروع کیا۔

image


کہانیاں برائے تعلیم

امین کا استفسار ہے: ”کیا آپ کو Pythagoras Theorem یاد ہے اور کیا آپ اس کو سمجھا سکتے ہیں؟ کیا آپ کو Archimedes Principle یاد ہے؟ نہیں؟ خرگوش اور کچھوا کے بارے میں، اور بندر اور ٹوپیاں بیچنے والے کی کہانی کے تعلق سے کیا حال ہے؟ یہ کیونکر ہے کہ آپ کو یہ کہانیاں یاد ہیں، جو شاید کئی دہے پرانی ہیں، اور آپ وہ نظریات یاد رکھنے سے قاصر ہیں جو آپ سے کہا گیا تھا کہ آموختہ کریں، مشق کریں اور مثل تیار کرتے رہیں؟“

’ اسٹوری والاز ‘ کا ماننا ہے کہ ٹیچر اور اُس کے مضمون کے درمیان جسے بچہ پسند یا ناپسند کرتا ہے، مضبوط رشتہ رہتا ہے،

”اگر ٹیچرز قصہ گو بن سکیں تو بچے شوق سے تمام مضامین سیکھیں گے۔ ریاضی، سائنس، سماجی علوم، اور تاریخ کہانیوں کے ذریعے پڑھانے جانے چاہئیں۔ اس خلیج کی نشاندہی کرتے ہوئے Storywallahs ٹیچروں کو ٹریننگ دیتے ہیں کہ کہانیوں کے ذریعے کس طرح سکھایا جائے۔''

کہانیاں برائے تجارتیں اور انٹریپرینرز

’ اسٹوری والاز ‘ کا ماننا ہے کہ قصہ گوئی کی طاقت کو ڈاٹا اور سائنس کے ساتھ جوڑنے کی ضرورت ہے۔ ”ہم کہانیوں کو سمجھتے ہیں، اور یہ کہ کسی کہانی کو کس طرح ترتیب دیا جائے اور آپ کے PowerPoint کا بنیادی نکتہ کیا ہونا چاہئے۔ ہم لوگوں کو یہ بھی تربیت دیتے ہیں کہ اپنی یادداشت والی کہانیوں کو اپنی بزنس سے متعلق کہانیوں کے ساتھ ہم آہنگ کریں۔“

یہ عام فہم ہے کہ جب کوئی انٹریپرینر کسی ونچر کیاپٹلسٹ سے ملاقات کرتا ہے تو وہ ڈاٹا اور پروجکشنس پر کام کرتا ہے۔ تاہم، کیا وہ غیرلفظی رابطے کی نزاکتوں پر توجہ دیتے ہیں؟ امین کا سوال ہے،

”انٹریپرینرز شاید لگ بھگ ایک گھنٹہ کسی اہم سلائیڈ پر صرف کرتے ہیں، لیکن کتنے ہیں جو درحقیقت اُس سلائیڈ کیلئے اپنی اشاراتی زبان کی حکمت پر توجہ دیتے ہیں۔“

 وہ مزید وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں: ”لوگ آپ پر نظر ڈالتے ہیں نہ کہ سلائیڈ پر۔ PowerPoint محض اعداد و شمار اور پروجیکشنس کو پیش کرتا ہے مگر آپ اس اسٹوری کے پس پردہ فرد ہوتے ہو۔“

بانی Alibaba جیک ما ، اور بانی Softbank ماسایوشی سون کی مثال پیش کرتے ہوئے امین کا کہنا ہے: ”ہم مانتے ہیں کہ ڈاٹا اور حقائق ہی ہمیں سرمایے دلاتے ہیں، لیکن یہی کہانیاں ہوتی ہیں۔ سافٹ بینک کے سرمایہ پر ماسایوشی نے کہا تھا .... ’جب میں نے پہلی بار جیک سے ملاقات کی تو میں پہلے 20 دیگر انٹریپرینرز سے مل چکا تھا۔ ہر دیگر شخص نے بزنس ماڈلس اور ریونیو پروجیکشنس کے تعلق سے بات کی، مگر جیک نے یہ خیال پیش کیا کہ کس طرح وہ چاہتے ہیں کہ ہر چھوٹے چینی تاجر کو اپنا بزنس آن لائن تک لے جانے کا موقع ملے۔ اُس کے پاس کوئی خاکہ نہیں تھا، بس کاغذ کے ٹکڑے پر کام چل گیا۔ پانچ منٹ بعد میں نے اسے کہہ دیا کہ میری رقم مشغول کرو۔“

امین بتاتے ہیں: ”جب افراد مل کر ادارہ جات فروغ دیتے ہیں تو وہ اپنے تخیل کے لوگوں کی فہرست بناتے ہیں اور آپ ایسا تب ہی کرسکتے ہو جب آپ تخیل کا صاف طور پر نظارہ کرتے ہوئے انھیں ڈھونڈ پاتے ہو۔ یہ کام صرف قصہ گوئی کے ذریعے ہوسکتا ہے۔‘’

وہ مزید کہتے ہیں،

”ہمارا ماننا ہے کہ اگر تجارتیں قصہ گوئی کی طاقت کو داخلی اور خارجی دونوں طرح بروئے کار لائیں تو وہ تاریخ رقم کرسکتے ہیں؛ اور تعلیم لطف بن سکتی ہے اور بوریت کا احساس باقی نہیں رہے گا۔ اسٹوریز ہمارے ڈی این اے میں پنہاں ہوتی ہیں۔ قصہ گوئی تو ارتقاءکا جز رہا ہے، اور چند سالہ جدیدیت اسے بدل نہیں سکتی۔“
image


ویب یو آر ایل : www.storywallahs.com

................................................................

اس طرح کی مزید دلچسپ کہانیوں کیلئے یور راسٹوری کا ’فیس بک‘ صفحہ دیکھئے اور لائک کیجئے :

facebook

یہ بھی پڑھئے :

ثانیہ مرزا کی زندگی کے بارے میں اب آپ بھی جان پائیں گے، انتظار کیجئے جولائی تک

ہندوستانی خواتین کرکٹ ٹیم کی کپتان متالی راج کی زندگی کا دلچسپ سفر

انڈیا کا ’پاور کپَل‘ : اِندور کی شوہر۔ بیوی جوڑی جس نے شاید دنیا کا سب سے مو¿ثر ایئر کنڈیشنر بنالیا ہے

رک جانا نہیں تو کہیں ہار کے.... عبدالحکیم کی کامیابی کا راز!

اردو ٹیچر سے فلاحی جہدکار بننے کا مثالی سفر...ایم اے رحمٰن

................................................................

قلمکار : سندھو کیشپ .... مترجم : عرفان جابری .... Writer: Sindhu Kashyap .... Translator: Irfan Jabri