دوسروں کے لیے خود کو وقف کرنے والے یوگیش
Saturday November 28, 2015,
7 min Read
یوگیش نے اپنے جسم کا بحی عطیہ کردیا
ہمیشہ دوسروں کے لئے جدوجہد کرنے کا جزبہ
یوگیش راج شری واستوا نام ہے ایک ایسے شخص کا جس نے اپنی زندگی کو خدمت خلق کے لئے وقف کردیا ہے۔ وہ 12فروری 1964ءکو حیدرآباد کے علاقہ دودھ باﺅلی میں پیدا ہوئے۔ وہ ایسے چیز لوگوں کو عطیہ کرتے ہیں جو نہایت انمول ہے اور جس سے کئی لوگوں کی جان بچائی جاسکتی ہے۔ وہ اب تک 110 مرتبہ(تقریباً33لیٹر) خون کا عطیہ کر چکے ہیں۔ انھوں نے سب سے زیادہ مرتبہ خون کا عطیہ کرنے کا ریکارڈ بنایا ہے۔
ابتداء سے ہی یوگیش شریواستوا کی زندگی میں خدمت خلق کا جذبہ پیدا ہوا تھا۔ ابتدائی زندگی انھوں نے کسمپرسی میں گذاری۔ کرائے کے گھر میں رہتے تھے اور اسٹریٹ لائٹ میں بیٹھ کر پڑھتے تھے۔ حیدرآباد کےمشہور لاڈ بازار میں واقع شیودت رائے ہائی اسکول سے انھوں نے 1978ء میں دسویں جماعت کا امتحان پاس کیا۔ رات میں اسٹریٹ لائٹ کے نیچے بیٹھا دیکھ کر پولیس والوں نے پوچھ تاچھ بھی کی اور پڑھتا ہوا دیکھ کر ستائش بھی کی۔ اتنا ہی نہیں ایس ایس سی امتحان پاس کرنے کے بعد پولیس اسٹیشن دودھ باﺅلی میں بلا کر 500 روپے کا انعام بھی دیا گیا۔ اس کا یوگیش کے دل پر بہت گہرا اثر ہوا۔ انھوں نے تہیہ کرلیا کہ وہ ہمیشہ دوسروں کے لئے جدوجہد کریں گے۔
ڈگری کی تعلیم حاصل کرنے کے دوران NSS کی جانب سے گاندھی جینتی کے موقع پر 2 اکتوبر 1983ءکو بلڈڈونیٹ کیمپ کا انعقاد کیاگیا۔ اس کیمپ نے یوگیش شریواستوا کی زندگی کو بدل دیا۔
اس کیمپ نے یوگیش شریواستوا کی زندگی کو بدل دیا۔ اس بارے میں انھوں نے جذباتی انداز میں بتایا کہ ”میں اس دن پہلی بار بلڈ ڈونیٹ کیا تو ڈاکٹر پربھاکرریڈی نے مجھے بتایا کہ تم نے 2 لوگوں کی جان بچائی ہے۔ میں نے پوچھا وہ کیسے تو انھوں نے بتایا کہ 300 ملی لیٹر خون دو ضرورتمندوں کے کام آتا ہے۔ مجھے بہت خوشی ہوئی کہ میں دو لوگوں کے کام آیا۔ میں نے پھر پوچھا کہ اب میں پھر دوبارہ کب خون دے سکتاہوں۔ تو انھوں نے کہاکہ 3 مہینے بعد دے سکتے ہیں۔ میں نے دل میں یہ ارادہ کرلیا کہ اب ہمیشہ ہر تین مہینہ بعد اپنے خون کا عطیہ دوں گا۔ میں غریبوں کو پیسوں کے ذریعہ مدد نہیں کرسکتا تو ضرور خون کے ذریعہ مدد کروں گا۔“
ڈگری کی تعلیم حاصل کرنے کے دوران وہ رات میں پڑھائی کرتے اور دن میں سائیکل پر دوائیاں میڈیکل شاپس کو سپلائی کرتے۔
خدمت خلق کا جذبہ رکھنے والے سوشل ورکر یوگیش نے نہ صرف خود خون کا عطیہ دیا بلکہ ہزاروں لوگوں کو بھی اپنا خون عطیہ دینے کے لئے راضی کیا۔ لوگوں کو ترغیب دینے کے تعلق سے انھوں نے بتایا کہ ”انسان کے جسم میں 5-7 لیٹر خون ہوتا ہے جب کہ ضرورت5 لیٹر سے کم ہوتی ہے۔ جب ہم خون کا عطیہ دیتے ہیں تو ہمارے زائد خون سے 300 ملی لیٹر خون نکل جاتا ہے اور اس کے بجائے نیا خون صرف72گھنٹے میں آجاتاہے۔ اس خون کے بدلے میں دو لوگوں کی جان بچ سکتی ہے۔18 سے 60 سال کے درمیان ہر کوئی خون دے سکتے ہیں۔ اس ترغیب سے ہزاروں لوگوں نے خون کا عطیہ دیا ہوں۔ “
خدمت خلق کے جذبہ کے ساتھ انھوں نے اتحاد و اتفاق کی فضاءکو بھی بڑھاوادیا ہے۔ وہ ہمیشہ تمام مذاہب میں اتحاد کی بات کرتے ہیں۔ بلاکسی تفریق مذہب و ملت وہ سب ضرورت مندوں کی مدد کرنا چاہتے۔ اس طرح کے ایک واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے بتایا ، ”2007ءمیں جب میں میڈیکل شاپ پر بیٹھا ہوا تھا تب مجھے پتہ چلا کہ مکہ مسجد میں بلاسٹ ہوا ہے۔ میں چونکہ ریڈکراس سوسائٹی کا رکن تھا اس لئے فوری مدد کے لےے وہاں پہنچ گیا۔ تقریباً30 مسلم زخمیوں کو ایمبولنس میں پہنچایا۔ جیسے میں زخمیوں کو اٹھاکر لا رہا تھا چند نوجوانوں نے مجھے غلط آدمی سمجھا اور غلط فہمی کی بناءپر آﺅ دیکھا نا تاﺅ اور مجھ پر برس پڑے اگرچیکہ بعض بزرگ حضرات کہہ رہے تھے کہ یہ تو زخمیوں کی مدد کررہے ہیں، لیکن انھوں نے مجھے زخمی کردیا۔ مجھے ہاسپٹل میں شریک کیا گیا۔ وہاں پر دوسرے دن وہیں لوگ آئے جنھوں نے مجھے پیٹا تھا اور معذرت خواہی کرنے لگے اور معافی مانگنے لگے“۔
یوگیش کی ایک اور بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ اپنے پاس کبھی بینک بیلنس نہیں رکھتے اور انھوں نے خدمت خلق یا سماج سیوا کے درمیان کبھی پیسے کو نہیں آنے دیا۔ اگر کسی کی مدد کے بدلے میں انھیں انعامی رقم ملے یا پھر ایکس گریشیا ملے تو وہ اسے بھی غریبوں میں تقسیم کردیتے ہیں۔ زخمی ہونے کے بعد جب وہ دواخانے میں شریک تھے اس وقت کے وزیراعلیٰ وائی ایس راج شیکھرریڈی وہاں ان کی عیادت کی اور 20ہزار روپے کا مالی تعاون کیا لیکن یوگیش نے فوری اس رقم کو گورنمنٹ میٹرنیٹی ہاسپٹل میں بیت الخلاءکی تعمیر کے لئے دے دیا جہاں پر خواتین کو کافی تکلیفیں پیش آرہی تھیں۔ انھوں نے مجھے بتایا کہ ”میں نے کبھی بھی رقم کو اپنے پاس نہیں رکھا۔ کہیں سے کوئی انعامی رقم ملی تو اسے فوراً کسی کی مدد کے لےے خرچ کردیتا ہوں۔ اسی طرح اگر کوئی مجھے میرے کام سے متاثرہوکر رقمی امداد کی خواہش ظاہر کرتے تو میں ان سے کہتا کہ آپ فلاں ضرورت مند کی مدد کردو مجھے پیسے دینے کی ضرورت نہیں ہے“۔
یوگیش نے ایکس گریشا کی رقم سے دواخانے میں بیت الخلاءتعمیر کروایا۔ پینے کے لےے ٹھنڈے پانی کا انتظام کروایا۔ اسی طرح تقریباً12,950غریبوں میں عینکیں تقسیم کئے ، تقریباً10,600 غریب بچوں میں کاپیاں کتابیں اسکول کی فیس اور یونیفارم تقسیم کئے۔ 7 غریب لڑکیوں کی شادی کا انتظام کئے ہیں۔ اس کے علاوہ ہر وقت لوگوں کی مدد کے لےے تیار رہتے ہیں۔
یوگیش نے اپنے کام سے کئی ایوارڈس بھی حاصل کئے ہیں۔ جن میں گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں سب سے زیادہ خون کا عطیہ کرنے کا ورلڈ ریکارڈ بھی شامل ہیں۔ انھیں 16 واں فلپس گوڈفری بہادری ایوارڈPhilips Godfray Bravery Award دیا گیا۔ بیسٹ سکریٹری ایوارڈ راجیو گاندھی نیشنل انٹی گریڈیٹ ایوارڈ ، لائن انٹرنیشنل ایوارڈ ، سماج رتنا ایوارڈ ، سہارا والنٹری آرگنائزیشن کی جانب سے عطا کیا گیا۔ اس کے ستائشی خطوط بھی ملے ہیں۔ جن میں گورنر آندھراپردیش ،اے پی اسٹیٹ کنٹرول سوسائٹی، ڈی سی پی ساﺅتھ زون وغیرہ شامل ہیں۔ ان کی سماجی خدمات کے پیش نظر انھیں ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھی عطا کی گءی۔ انھیں 17 گولڈ اور 4 سلور میڈل بھی حاصل ہوئے۔
یوگیش کا سفر یہاں تھما نہیں ہے، ان کے مستقبل کے بارے میں کافی منصوبے ہیں۔ اپنا خون کا عطیہ تو وہ جاری رکھیں گے ہی اس کے علاوہ انھوں نے مرنے کے بعد اپنے جسم کا بھی عطیہ دے دیا ہے۔ انھوں نے بتایا ، ”میں نے اپنی باڈی کو ڈونیٹ کردیا ہوں کیوں کہ اس کی وجہ سے 9 لوگوں کی مدد ہوسکتی ہے۔ میری دو آنکھیں ، کسی دو نابینا کی زندگی میں روشنی ڈال سکتے ہیں اسی طرح دیگر اعضائے رئیسہ بھی مختلف لوگوں کی زندگی بچاسکتے ہیں۔ اس طرح میں کہاں مروں گا بلکہ میں تو مختلف لوگوں کے دلوں میں رہوں گا“۔
یوگیش نے اچھائی کو آگے بڑھانے کے لےے ایک تنظیم بھی ”گلوبل ہیومانیٹی فاﺅنڈیشن“ کے نام سے بنائی ہے۔ اس کے ذریعہ وہ مستقبل میں اپنے کام کو مزید توسیع دینا چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کے اس مشن میں زیادہ سے زیادہ لوگ شامل ہوں۔