روشنائی سے 'سلیكھا' نے لکھی کامیابی کی سنہری کہانی

مہاتما گاندھی کے کہنے پر بنگال کے میترا برادران نے شروع کیا تھا اپنے وطن میں دیسی روشنائی بنانے کا کام -  'سلیكھا' فیکٹری کی ک سیاہی بنی تھی خود داری، دیسی بیداری اور خود انحصاری کی علامت۔  قومی اہمیت کا ادارہ ہونے کا اعزاز حاصل کرنے والی 'سلیكھا' 80 کی دہائی میں ہوئی تھی سیاست کا شکار ۔ 18 سال تک بند رہی تھی 'سلیكھا' ۔ طویل قانونی اور سیاسی جنگ کے بعد بند فیکٹری کے کھلے تھے تالے ۔ دوبارہ  کھلنے کے بعد جس طرح سے 'سلیكھا' نے کامیابی کی نئی کہانی لکھی ہے وہ  ملک اور دنیا کے سامنے کاروبار کی ایک شاندار مثال ہے ۔

روشنائی سے 'سلیكھا' نے لکھی کامیابی کی سنہری کہانی

Thursday September 15, 2016,

21 min Read

کہانی پچھلی صدی کی تیسری دہائی میں شروع ہوتی ہے۔ بھارت میں انگریزوں کی حکومت تھی۔ آزادی کی لڑائی دن بہ دن تیز ہو رہی تھی۔ آزادی کے جنگجوؤں کو نیا ہیرو مل چکا تھا۔ موہن داس کرم چند گاندھی کی قیادت میں آزادی کی لڑائی متحرک ہو رہی تھی۔ ملک بھر میں انگریزوں کے خلاف عوامی تحریکیں بڑھ رہی تھیں۔ ان تحریکوں کے اثرات میں آزادی کے جیالوں کی تعداد مسلسل بڑھ رہی تھی۔ کیا جوان، کیا بوڑھے - تمام آزادی کی لڑائی میں کود پڑے تھے۔ انگریزوں کے خلاف فتح حاصل کرنے کے لئے طلباء بھی بڑھ چڑھ کر اس جنگ میں حصہ لینے لگے تھے۔ انہی طالب علموں میں ایک تھے بنگال کے ننی گوپال میترا۔

گاندھی جی کے اعلان پر ننی گوپال میترا نے نمک ستیہ گرہ میں حصہ لیا تھا۔ انگریزوں کی فوج نے طالب علم ننی گوپال میترا کو گرفتار کر لیا اور جیل میں ڈال دیا۔ جیل میں قیدی بنائے جانے کی وجہ سے ننی گوپال کی ایم ایس سی کی تعلیم ادھوری رہ گئی تھی، لیکن انہیں اس بات کی بالکل بھی فکر نہیں تھی۔ ننی گوپال آزادی کے دیوانے ہو گئے تھے۔ خاندان میں ننی گوپال اکیلے نہیں تھے جوکہ اپنی پوری طاقت آزادی کی جنگ میں جھونک چکے تھے۔ ان کے والد امبیکا چرن میترا، بھائی شنکراچاری نے بھی آزادی کی جنگ میں اپنا تن من دھن سب کچھ لگا دیا تھا۔ ننی گوپال کی ماں ستيہ بتی دیوی راجشاہی مہیلا کمیٹی کی صدر تھی اور زیادہ سے زیادہ خواتین کو آزادی کی جنگ سے جوڑنے کا کام کر رہی تھیں۔ یعنی پورا خاندان قوم پرست تھا اور تمام آزادی کی جنگ میں اپنی جی جان لگا چکے تھے۔

مہاتما گاندھی، ننی گوپال میترا، شنکراچاری میترا اور کلیان میترا

مہاتما گاندھی، ننی گوپال میترا، شنکراچاری میترا اور کلیان میترا


کئی ماہ تک جیل میں رہنے کے بعد ننی گوپال جب باہر آئے تب بھی انہوں نے انگریزوں کے خلاف جا ری تحریکوں میں حصہ لینا نہیں چھوڑا۔ آزادی کی لڑائی میں اپنا رول ادا کرنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے اپنی تعلیم کو بھی آگے بڑھایا۔ انہیں پورے کورس کی تعلیم کے لیے صرف آٹھ ماہ کا ہی وقت ملا تھا، لیکن کم وقت میں ہی انہوں نے امتحان کی تیاری مکمل کر لی۔ جب امتحان ہوئے تب وہ 'فرسٹ کلاس' میں پاس ہوئے، پوری یونیورسٹی میں وہ دوسرے نمبر پر رہے۔ ان دنوں بی اے، بی ایس سی جیسے امتحانات پاس کرنا ہی بہت بڑی بات مانی جاتی تھی، ننی گوپال نے ایم ایس سی پاس کر لی تھی وہ بھی 'فرسٹ کلاس' میں۔ لیکن، فرسٹ کلاس میں ایم ایس سی پاس کرنے کے بعد ننی گوپال کے لئے کام پانا آسان نہیں تھا۔ انگریز جانتے تھے کہ ننی گوپال اور ان کا سارا خاندان قوم پرست ہے اور خاندان کے تمام اراکین آزادی کی جنگ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔ انگریزوں نے زبانی فرمان جاری کیا تھا کہ کسی بھی قوم پرست کو سرکاری کام میں نہ لیا جائے۔ اسی فرمان کی وجہ سے ننی گوپال کے لئے کام پانا مشکل تھا۔

ان دنوں ننی گوپال کے چچا غیر منقسم بنگال کے شاہی علاقے، جو اب بنگلہ دیش میں ہے، میں وکالت کیا کرتے تھے۔ وہ مشہور وکیل تھے۔ کئی بڑی شخصیتوں سے ان کی جان پہچان تھی۔ سرکاری کالج کے پرنسپل سے بھی اچھی خاصی پہچان تھی۔ چچا نے ننی گوپال کی سفارش کی اور پرنسپل کی طرف سے ان کو لیکچرر کے عہدے پر تقرری کرنے کو کہا۔ ننی گوپال کو لگا کہ ان کے چچا سفارش کر اپنا وقت ضائع کر رہے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ مجاہد آزادی ہونے کی وجہ سے پرنسپل انہیں سرکاری نوکری پر نہیں رکھیں گے۔ لیکن، ننی گوپال کی توقعات کے برعکس پرنسپل نے انہیں لیکچرر کی نوکری دے دی۔ ننی گوپال کی حیرانی کا کوئی ٹھکانا نہیں تھا، وہ یہ جاننے میں لگ گئے کہ انگریز ہونے کے باوجود بھی پرنسپل نے انہیں نوکری کیسے دے دی۔ پوچھنے پر خود پرنسپل نے بتایا کہ وہ 'انگلش' نہیں بلکہ 'آئرش'ہیں اور انگلینڈ کی جابرانہ پالیسیوں کے خلاف ہیں۔ پرنسپل کی بالواسطہ حمایت ہندوستانی مجاہدین کو تھی۔

1941 میں کولکتہ کی ایک ڈبل ڈیکر بس پر 'سلیكھا' کا اشتہار

1941 میں کولکتہ کی ایک ڈبل ڈیکر بس پر 'سلیكھا' کا اشتہار


اس طرح آئرش پرنسپل کی وجہ سے ننی گوپال کو سرکاری کالج میں لیکچرر کی نوکری مل گئی۔ لیکن، وہ زیادہ دن تک کام نہیں کر پائے۔ انگریزوں کو جیسے ہی پتہ چلا کہ ننی گوپال سرکاری کالج میں ملازمت کر رہے ہیں انہیں فورا برخاست کر دیا گیا۔ اس کے بعد پھر سے ننی گوپال کل وقتی مجاہد آزادی بن گئے۔

اسی دوران گاندھی جی کولکتہ آئے۔ گاندھی جی کولکتہ کے پاس شودھ پور میں ستيش چندر داس گپت کے یہاں ٹھہرے تھے۔ آزادی کی جنگ کے ہیرو اوراپنے مثالی رہنما سے ملنے ننی گوپال ستيش چندر داس گپت کے یہاں پہنچ گئے۔ ننی گوپال کو گاندھی جی سے ملنے اور ان سے بات چیت کرنے کا بھی موقع ملا۔ گاندھی جی نے ننی گوپال کے بارے میں ان سے پوچھا اور ان کے اب تک کے کام کاج کے بارے میں جانا۔ گاندھی جی کو جیسے ہی پتہ چلا کہ ننی گوپال ایم ایس سی پاس ہیں، تیز دماغ والے ہیں، ان میں کافی جوش ہے، نئے خیالات ہیں، تب انہوں نے ایک مشورہ دیا۔ گاندھی جی نے ننی گوپال سے کہا - "آزادی ہمیں آج نہیں تو کل مل ہی جائے گی۔ اور جب تک جنگ چل رہی ہے جیل جانے کے لئے بھی بہت سارے لوگ ہیں۔ لیکن ملک میں پڑھے لکھے لوگوں کی کمی ہے۔ ملک میں دیسی صنعت بھی نہیں ہیں۔ انگریزوں کے چلے جانے کے بعد ہمارے پاس کوئی صنعت ہی نہیں ہوگی، اسی وجہ سے میں چاہتا ہوں کہ آپ جیسے پڑھے لکھے اور ذہین نوجوانوں کو صنعت کھولنا چاہئے۔ "

گاندھی جی نے صنعت شروع کرنے کی بات کہی تھی، لیکن کون سی صنعت کھولنا چاہئے اس بارے میں کچھ نہیں کہا تھا۔ چونکہ گاندھی جی اس وقت بہت مصروف تھے ان سے اس بابت تفصیل سے بات نہیں ہو پائی تھی۔ ننی گوپال کی مدد کرنے کے مقصد سے ستيش چندر داس گپت نے انہیں مشورہ دیا وہ ان گاندھی جی کے کولکتہ سے چلے جانے کے بعد آ کر ملیں۔ ننی گوپال نے ایسا ہی کیا۔ ننی گوپال سے ستيش چندر داس گپت نے کہا - "گاندھی جی جس سیاہی سے لکھتے ہیں وہ انگلینڈ میں بنتی ہے، یعنی غیر ملکی ہے۔ بھارت میں سیاہی بنانے والا کوئی نہیں ہے۔ آپ سائنس کےطالب علم ہو اس لئے تم ملک میں ہی سیاہی بناو، تاکہ ہمیں غیر ملکی سیاہی کا استعمال نہ کرنا پڑے۔ "

ستيش چندر داس گپت اپنے زمانے کے مشہور سائنٹسٹ تھے۔ قوم پرست رہنما تھے، آزادی کے دیوانے بھی۔ انہوں نے بہت سے لوگوں کو آزادی کی جنگ میں حصہ لینے کے لئے حوصلہ افزائی افزائی کی تھی۔ ان کے شاندار کام اور تجربات کو دیکھ کر آچاریہ پرپھل چندر رائے نے انہیں بنگال کیمیکل ورکس فیکٹری میں سوپرنٹینڈینٹ بنوایا تھا۔ پرپھل چندر رائے ان دنوں کے سب سے زیادہ مقبول سائنٹسٹ، کاروباری اور استاد-پرنسپل تھے۔ آچاریہ پرپھل چندر رائے جدید کیمیکل موضوع میں بھارت کے پہلے پروفیسر تھے اور انہوں نے ہی بھارت میں کیمیکل صنعت کی بنیاد ڈالی تھی۔ ستيش چندر داس گپت نے ننی گوپال کو یہ اعتماد بھی دیا تھا کہ وہ سیاہی کی صنعت کھلوانے میں ان کی ہر ممکن مدد کریں گے۔

کلیان میترا

کلیان میترا


اس کے بعد ننی گوپال اپنے شہر راجشاہی لوٹ آئے اور اپنے گھر والوں کو گاندھی جی اور ستيش چندر داس گپت سے ہوئی ملاقاتوں کی تفصیل بتائی۔ خاندان سے تمام ارکان نے ٹھان لیا کہ وہ گاندھی جی اور ستيش چندر داس گپت کی تجاویز کو مانتے ہوئے مقامی سیاہی کی صنعت / فیکٹری شروع کریں گے۔ والد امبیکا چرن میترا نے اپنی زندگی کی ساری کمائی اپنے دونوں بیٹوں - شنکراچاری اور ننی گوپال کو سونپ دی تاکہ وہ مقامی سیاہی کی صنعت / فیکٹری شروع کر سکیں۔ اسی دوران ستيش چندر داس گپت نے ننی گوپال کو اپنی دیسی فاؤنٹین قلم کی سیاہی کا فارمولہ بھی بتا دیا۔ یعنی ننی گوپال سیاہی بنانے کا طریقہ بھی جان گئے تھے۔ لیکن انہوں نے دنیا کی سب سے بہترین سیاہی بنانے کی کوشش شروع کی۔ کوشش کامیاب بھی رہی۔ فیکٹری شروع بھی ہو گئی۔ پھر بھی چیلنج بہت تھے۔ ان دنوں وسائل کی کمی تھی۔ سیاہی بنانے کے لیے ضروری کیمیکل اور سامان بھارت میں کچھ ہی جگہ پر اور کم ہی ملتے تھا۔ لیکن، تمام سامان اور کیمیکل خریدے گئے اور مقامی سیاہی بنانے کا کام بھارت میں پہلی بار شروع ہوا۔ یہ کام شروع کر ننی گوپال اور ان گھر والوں نے ہندوستان کی تاریخ میں اپنا نام لکھ دیا۔

میترا خاندان نے کولکاتا کو صنعت کا مرکز بنانے کا فیصلہ لیا۔ 1934 میں 'سلیكھا ورکس لمیٹڈ' کے نام سے سیاہی بنانے کی کمپنی کی شروعات ہوئی۔ بھارت میں جو پہلی دیسی سیاہی بنی اس کا نام دیا گیا - 'سلیكھا' جس کا مطلب ہے - 'خوبصورت لکھاوٹ'۔ ابتدائی دنوں میں خواتین سیاہی بناتیں اور مرد اسے بازار میں فروخت کرتے۔ مردوں نے 'ڈور ٹو ڈور' مارکیٹنگ کی اور 'سلیكھا' کو گھر گھر تک پہنچایا۔ چونکہ ان دنوں سودیشی تحریک بھی زوروں پر تھی 'سلیكھا' کا مطالبہ اور فروخت بڑھتی چلی گئی۔ 1936 میں ہیریسن روڈ (جوکہ اب مہاتما گاندھی مارگ کے نام سے مشہور ہے) پر 'سلیكھا' کا پہلا شوروم کھولا گیا۔ مقامی سیاہی کا مطابہ اتنا زیادہ تھا کہ 1944 میں کولکتہ کےباو بازار میں نئی فیکٹری کھولنی پڑی۔ 1948 میں فیکٹری کو کولکتہ شہر کے ہی قصبائی علاقے میں لے جایا گیا۔

'سلیكھا' کی سب سے بڑی کامیابی یہ رہی کہ وہ بہت ہی کم وقت میں آزادی کی لڑائی میں ہندوستانیوں کے لئے خود داری، دیسی اور خود انحصاری کی علامت بن گئی۔ 'سلیكھا' نے بھارت میں 'كوك' جیسے انگریزی برانڈز کی اجارہ داری کو ختم کیا اور انگریزی حکومت کے خلاف جنگ کو تیز کرنے میں اہم کردار ادا نبھانا شروع کیا۔ 1954 میں نئی اور بڑی فیکٹری کولکتہ کے پاس جادھوپور میں بنی۔ 1954 میں ہی 'سلیكھا' ایک پبلک لمیٹڈ کمپنی بنی اور 1000 سے زیادہ شیئرہولڈر اس سے منسلک ہوئے۔ آزادی کی لڑائی میں 'سلیكھا' نے کامیابی، قومپرستی، دیسی بیداری، کاروبریت اورمحنت کی نئی کہانی لکھی تھی۔

آزادی کے بعد بھی کئی سالوں تک 'سلیكھا' کی کامیابی کا سفر جاری رہی۔ 60 کی دہائی میں سلیكھا کی تیزی سے توسیع ہوئی اور مقامی سیاہی کی مسلسل بڑھتی ہوئی مانگ کو پورا کرنے کے مقصد سے سودےپور (شمالی 24 پرگنہ ضلع، مغربی بنگال ریاست) اور غازی آباد (اتر پردیش ریاست) میں دو نئی فیكٹرياں شروع کی گئیں ۔ اس کے بعد پھر 80 کی دہائی میں 'سلیكھا' نے تیزی سے توسیع كي- بنگال، بہار، اتر پردیش اور آسام کے باہر بھی کام شروع ہوا۔ بڑی بات یہ رہی کہ 'سلیكھا' کو جنوبی ایشیا اور افریقہ کے مختلف ممالک کی حکومتوں نے سیاہی اور قلم میں استعمال میں لائے جانے والے دوسرے آلات کی تعمیر یونٹس کی تنصیب کے لئے مدعو کیا۔

80 دہائی کے آخر میں حالات بدلنے لگے، حالات کچھ اس طرح بگڑے کی فیکٹری میں کام کاج بند ہو گیا۔ کام کاج کی بند ہونے کی دو بڑی وجہ تھی۔ پہلی - ٹریڈ یونینوں کی 'سیاست' اور کچھ مزدور رہنماؤں کی سازش، دوسری وجہ تھی - بازار میں فاؤنٹین قلم کی سیاہی کا مطالبہ مسلسل کم ہو رہا تھا اور بال پوائنٹ قلم کا دور شروع ہو چکا تھا۔ 'سلیكھا' کی بند ہونے کے پیچھے کی سب سے بڑی وجہ اس وقت کی 'سیاست' اور اس دور کا 'سیاسی ماحول' ہی تھا۔ جب 'سلیكھا' بند ہوئی تھی تب اس میں 550 سے زائد ملازمین کام کر رہے تھے۔ 'سلیكھا' کا بند ہونا کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا۔ ' قوم کے لئے فخر کی علامت' بن کر کھڑی ایک صنعت کی 'سیاسی ماحول کی تبدیلی' میں بند ہونے سے بہت سے لوگوں کو بہت برا لگا۔ گندے سیاسی کھیل میں کس طرح سے قومی اہمیت کی چیزیں بھی ختم کر دی یا کروا دی جاتی ہیں، اس کی مثال 'سلیكھا' بھی ہے۔ لیکن، مالکان نے ہمیشہ یہی چاہا 'سلیكھا' کی کہانی کبھی نہ رکے۔ مالکان نے 'سلیكھا' کو بحال کرنے کے لئے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ میترا خاندان نے جس طرح سے 'سلیكھا' کو شروع کرنے میں جی جان لگا دیا تھا اسی طرح اسے پھر سے بحال کرنے میں خود کو مکمل طور پر وقف کر دیا۔ طویل قانونی اور سیاسی جنگ کے بعد میترا خاندان 'سلیكھا' کو بحال کرنے میں کامیاب ہوا تھا۔ 18 سال تک بند رہنے کے بعد 'سلیكھا' نے دوبارہ کام کرنا شروع کیا۔

'سلیكھا' کو بحال کرنے کی کوششوں کی کہانی بھی تاریخی ہے۔ اور، اس شاندار لیکن جدو جہد بھر کہانی کے ہیرو ہیں کلیان کمار میترا، جو 'سلیكھا' کے بانی ننی گوپال میترا کے بڑے بیٹے ہیں۔ جادھوپور میں 'سلیكھا' فیکٹری میں ایک انتہائی خاص ملاقات میں کلیان میترا نے 'سلیكھا' کی شاندار تاریخی تفصیل سے واقف کرایا اور بند ہونے کے بعد تنازعات باہر نکلنے کی کہانی بھی سنائی۔

'سلیكھا' کا ایک اشتہار

'سلیكھا' کا ایک اشتہار


کلیان میترا کی پیدائش 1939 میں ہوئی۔ وہ ننی گوپال اور کلپنا کی پہلی اولاد تھے۔ ننی گوپال کی جب پیدائش ہوئی تھی تب خاندان کی اقتصادی حالت زیادہ مضبوط نہیں تھی اسی وجہ سے ان کا داخلہ ایک چھوٹے سے اسکول میں کروایا گیا تھا، لیکن جیسے ہی اقتصادی صورتحال ٹھیک ہوئی انہیں کولکتہ کے ایک بڑے اسکول میں داخل کرایا گیا۔ والدین چاہتے تھے کہ کلیان اچھی تعلیم حاصل کریں تاکہ وہ بھی معاشرے میں اچھا کام کر سکیں۔ سارا میترا خاندان قوم پرست تھا اور اس کی وجہ سے بچپن سے کلیان میں بھی 'قوم پرستی' کا جزبہ کوٹ-کوٹ کر بھرا تھا۔ کلیان اعلی تعلیم کے لئے کینڈا چلے گئے، جہاں انہوں نے اوٹاوا یونیورسٹی سے کیمسٹری میں ایم ایس سی کی تعلیم حاصل کی۔انہیں اس یونیورسٹی میں پڑھانے کا بھی موقع ملا۔ ان کی قابلیت کو دیکھ کر انہیں وہاں لیکچرر بنا دیا گیا تھا۔ اس دوران جب وہ ہندوستان آئے تو ان کی شادی کردی گئی۔ شادی کے بعد ماں نے نئی دلہن کو کینیڈا بھیجنے سے انکار کر دیا۔ ماں کا خیال تھا کہ اگرکلیان اپنی بیوی کے ساتھ کینیڈا چلے جائیں گے تو واپس ہندوستان نہیں آئیں گے اور بیرون ملک ہی اپنا خاندان بسا لیں گے۔ ماں کے سامنے ایسی کئی مثالیں تھیں جہاں پر بیوی کے ساتھ بیرون ملک گئے ہندوستانی نوجوانوں نے اپنا گھر خاندان بیرون ملک میں ہی بسا لیا تھا اور وہ کبھی کبار ہی بھارت آتے تھے۔ ماں نہیں چاہتی تھیں کہ ان کا بیٹا بھی ان سے بہت دور چلا جائے۔ ماں کی ضد پر کلیان اپنی بیوی کو اپنے ساتھ کینیڈا نہیں لے جا پائے۔ کلیان نے اسی میں اپنی بھلائی سمجھی کہ انہیں بھی اپنے خاندان کے ساتھ ہی کولکتہ میں رہنا چاہئے۔ اچھی خاصی اور تگڑی رقم والی نوکری چھوڑ کر کلیان ہندوستان آ گئے۔ ہندوستان آنے والے کے بعد جب وہ جادھوپور یونیورسٹی گئے اور اپنے گرو سے ملاقات کی تب سارے اساتذہ یہ جانکر بہت متاثر اور خوش ہوئے کہ کلیان نے کینیڈا میں 'ری ایکشن كینٹيكس' موضوع کی بھی تعلیم حاصل کی ہے۔ ان دنوں جادھوپر یونیورسٹی میں اس موضوع کا کوئی بھی جاننے والا نہیں تھا۔ اساتذہ نے کلیان کو مشورہ دیا کہ انہیں جادھوپر یونیورسٹی میں طلباء کو 'ری ایکشن كینٹيكس' پڑھانا چاہئے۔ چونکہ کلیان کینیڈا میں بھی طلباء کو پڑھا چکے تھے اور انہیں پڑھانا پسند بھی تھا وہ راضی ہو گئے۔ انہوں نے بطور لیکچرر پڑھانا شروع کر دیا۔

جادھوپور یونیورسٹی میں تقریباً چھ سال کام کرنے کے بعد کلیان کو احساس ہوا کہ انہیں اپنے خاندان کی وراثت یعنی 'سلیكھا' کو آگے بڑھانے میں اپنا رول ادا کرنا چاہیے۔ والد کی عمر ہو چکی تھی اور وہ بھی کلیان سے توقع کر رہے تھے کہ 'سلیكھا' کو چلانے میں وہ ان کی مدد کریں۔ ویسے اگرکلیان چاہتے تھے تو وہ جادھوپور یونیورسٹی میں کام کرتے ہوئے بھی 'سلیكھا' میں اپنا رول ادا کر سکتے تھے، لیکن چونکہ وہ اصولوں کے پکے تھے انہوں نے ایک ہی جگہ اپنی پوری طاقت لگانے کا فیصلہ لياجادھوپور یونیورسٹی میں لیکچرر کے عہدے سے استعفی دے کر کلیان میترا نے 'سلیكھا' کو مکمل طور پر اپنا لیا۔ والد نے ان کی کمپنی کا جنرل منیجر بنا دیا۔ کلیان میترا نے بتایا، "والد صاحب نے ہی مجھے ہر کام سکھایا۔ وہ مجھے کام دیتے تھے اور میں وہ کام پورا کرتا تھا۔ ہر روز کچھ نیا سیکھنے کو ملتا تھا۔ 'سلیكھا' میں الگ الگ لوگوں کا کام دیکھ کر ہی میں نے بہت کچھ سیکھا۔ ابتدائی دنوں میں 'دیکھو، سمجھو اور سیکھو' یہی میرا کام تھا۔ چونکہ میں نے سائنس کی تعلیم حاصل کی تھی، لیب کے کام کاج سے میں واقف تھا، پھر بھی والد نے پریم نندی کو یہ ذمہ داری سونپی کہ میں لیب کے سارے کام کاج کو اچھی طرح سے سیکھ جاؤں۔ ان دنوں مالک اور ورکر میں کوئی فرق نہیں تھا۔ تمام دوست کی طرح کام کرتے تھے۔ تمام اپنا کام پوری محنت سے تھے۔"

جب کلیان 'سلیكھا' کے سارے کام کاج کو اچھی طرح سے سمجھ گئے تب ان کے والد نے انہیں کمپنی کی توسیع کی بڑی ذمہ داری سونپی۔ کلیان کو'مارکیٹنگ' کی زمہ داری سونپی گئی اور انہیں ملک کے الگ الگ ریاستوں میں بھیجا۔ کلیان نے اپنی ذمہ داری بخوبی ادا کی۔ انہوں نے ملک کے کئی بڑے شہروں میں 'سلیكھا' کے دفتر كھلواے اور کمپنی کو بنگال، آسام، بہار اور اتر پردیش سے آگے جنوب اور مغرب ہندوستان بھی لے گئے۔

'سلیكھا' کی لیاباریٹری میں کلیان میترا، ساتھ میں کمپنی کے دو ملازم بھی

'سلیكھا' کی لیاباریٹری میں کلیان میترا، ساتھ میں کمپنی کے دو ملازم بھی


'سلیكھا' نے 70 اور 80 کی دہائی میں کافی ترقی کی۔ ایک خاندان سے شروع ہوئی صنعت میں تقریباً 500 ملازم ہو گئے تھے۔ لیکن، 80 دہائی کے آخر میں حالات بگڑنے شروع ہوئے۔ بازار میں ایک طرف جہاں بال پین قلم کا چلن بڑھا سیاہی کی مانگ کم ہوئی، وہیں دوسری طرف مغربی بنگال ریاست میں سیاسی فضا بھی بدلی۔ بنگال میں کمیونسٹ پارٹی کا دبدبہ قائم ہوا۔ بائیں بازو کی حمایت مزدور یونینوں کا غلبہ ہوا۔ مزدور تحریک نے کچھ ایسا سیاسی رنگ بنایا کہ سیاہی بنانے والی 'سلیكھا' بھی اس کا شکار ہوئی۔ 'سلیكھا' بند ہو گئی۔

18 سال تک 'سلیكھا' بند رہی۔ ان 18 سالوں کی درد بھری داستاں بھی کلیان میترا نے ہمیں سنائی۔ انہوں نے کہا، "ہمارے لئے وہ دن بہت خراب تھے۔ کسی طرح سے گھر کے کام کاج چلتے رہے، لیکن سب کچھ ویسے نہیں تھا جیسے کہ پہلے ہوا کرتا تھا۔ میں نے اپنے بیٹے کو بیرون ملک بھیجا تھا، وہ وہاں کام کرنے لگا۔ اس سے بھی ہماری مدد ہو جاتی۔ میرے چھوٹے بھائی کا بھی ساتھ تھا۔ ہمارا سارا خاندان ایک ساتھ رہتا تھا، کوئی بڑی تکلیف نہیں تھی لیکن یہی دکھ تھا کہ 'سلیكھا' بند ہے۔ "

کلیان میترا کو وہ دن بھی اچھی طرح یاد ہیں جب کورٹ میں 'سلیكھا' کو قرض دینے والے بینک، دوسرے ساہوکاروں اور ریاستی حکومت کے وکلاء نے 'سلیكھا' کی زمین بیچ کر انہیں ان کے روپے لوٹانے کی مانگ کی تھی۔ اس مطالبے پر جج نے کلیان میترا سے جب ان کی رائے جاننی چاہی تو انہوں نے کورٹ میں کہا تھا کہ وہ 'سلیكھا' کو پھر سے متحرک کرنا چاہتے ہیں اور 'سلیكھا' کے شروع ہونے کے بعد جو امدانی ہوگی اس سےوہ سب کے بقایا روپے چکا دیں گے۔ کلیان میترا کی یہ بات سننے کے بعد جج نے بینکوں، ساہوکاروں اور حکومت کا مطالبہ والی پٹیشن مسترد کر دی اور کلیان میترا کو زمین کا کچھ حصہ بیچ کر 'سلیكھا' کو پھر سے شروع کرنے کی اجازت دے دی۔ جج بھی جانتے تھے کہ 'سلیكھا' قومی اہمیت کا ادارہ ہے اور اس کا بند ہونا ملک کے مفاد میں درست نہیں رہے گا۔

کورٹ کے تجاویز اور ریاستی حکومت کی مدد سے 'سلیكھا' کی زمین کا ایک بڑا حصہ فروخت کیا گیا اور اس سے جو رقم ملی اس بعض کے بقایا رقم ادا کی گئی۔ ساتھ ہی 'سلیكھا' میں کام کاج کو دوبارہ شروع بھی کروایا۔ کلیان کہتے ہیں، "ہم نے تمام ملازمین کو ان کے 18 سال کی تنخواہ بھی دی۔ ہم نے سب کو ان کا پیسہ لوٹا دیا۔ " کلیان میترا نے کہا،" سلیكھا کو شروع کرنے کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ اس صنعت سے بہت سے لوگوں کو روزگار ملے۔ میرے خاندان نے اپنی بھلائی کے مقصد سے کبھی بھی اسے نہیں چلایا۔ ہماری سوچ ہمیشہ قوم پرست ہی رہی اور ہم نے ملک و مفاد کو ہی ہمیشہ اہمیت دی۔ "

1988 میں کمپنی بند ہوئی تھی، 1993 میں کمپنی کا دوالا نکل گیا تھا۔ 2005 میں پھر سے 'سلیكھا' وجود میں آئی۔ قریب 18 سال کے بعد کمپنی میں کام کاج شروع ہوا اور 2007 سے 'سلیكھا' کی نئی کہانی کی شروعات ہوئی۔ اہم بات یہ ہے کہ 'سلیكھا' نے اپنی پرانی غلطیاں نہیں دوہرائی اور وقت کی مانگ کے مطابق اپنے آپ کو بدلا۔ 'سلیكھا' نے اپنے کاروبار کا دائرہ بڑھایا اور نئے نئے مصنوعات بنا کر فروخت شروع کئے۔ فاؤنٹین قلم کی سیاہی بھی 12 رنگوں میں تیار کر بیچنی شروع کی۔ اتنا ہی نہیں 'سلیكھا' نے اسٹیشنری اشیاء کا بھی کاروبار شروع کیا۔ 'سلیكھا' اب صرف سیاہی ہی نہیں بلکہ بال پین قلم، پنسل وغیرہ بھی بنا کر بیچتی ہے۔ 'سلیكھا' نے هوم كئير پروڈکٹس کے بازار میں بھی اپنے پاؤں جمائے۔ 'سلیكھا' کے بنائے فلور کلینر، ورنجن پاؤڈروغیرہ بازار میں کافی مقبول ہیں۔ 'سلیكھا' یہیں نہیں رکی، اس نے شمشی توانائی سے کام کرنے والے سولر لائٹ نظام بھی بنانے شروع کئے۔

'سلیكھا' نے اپنے کھوئے ہوئے وقارکو واپس حاصل کر لیا ہے ۔ 'سلیكھا' کو منافع ہو رہا ہے اور اس کی مقبولیت بھی بڑھ رہی ہے۔ کلیان میترا یہ کہتے ہوئے پھولے نہیں سماتے، "اب ہمارے اوپر ایک روپے کا لون نہیں ہے۔ ایک پیسہ بھی ہم پر قرضے نہیں ہیں۔ ہم ایک ایسی کمپنی بن گئے ہیں جس کی وجہ سے کئی نئی کمپنیاں بنیں اور وہ ہم پر ڈپینڈ کرتی ہیں۔ ہم جو پروڈکٹس بنا رہے ہیں اس کے لئے ضروری بہت سامانوں کی سپلائی دوسری کمپنیاں ہی کر رہی ہیں۔ اب ہمارا کام آرام سے چل رہا ہے۔ "

 کوشک میترا

 کوشک میترا


میترا کو بھی پورا بھروسہ ہے کہ 'سلیكھا' کئی سارے 'سبق' اپنے میں سمائے ہوئے ہے۔ 77 سال کے ہو چکے کلیان چاہتے ہیں کہ جو کچھ انہوں نے سیکھا ہے وہ اس ملک کے دوسرے لوگوں کو سکھائیں تاکہ ملک کو نئے سماجی کاروباری ملیں اور ان ادیمیوں کی وجہ سے بھارت دنیا کا سب سے بڑی اور مضبوط قوم بنے۔ ان کا بیٹا کوشک بھی 'قوم پرست' نظریہ کو ہی ماننے والا ہے۔ کلیان کا کہنا ہے کہ، "میرا بیٹا بھی یہی چاہتا ہے کہ ملک کے لئے کچھ اچھا کام کیا جائے۔ مجھے اس بات کی بہت خوشی ہے۔ "

کلیان کے بیٹے کوشک نے جادھوپور یونیورسٹی سے انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کی ہے۔ وہ میکانیکل انجینئر ہیں۔ انہوں نے کینیڈا کے البرٹا یونیورسٹی سے ایم ایس سی کی تعلیم حاصل کی۔ کچھ وقت تک انہوں نے البرٹا یونیورسٹی میں پڑھایا بھی۔ ہندوستان میں کوشک نے ایل اینڈ ٹی، كرلوسكر، سیمنز، انڈین آئل، ٹاٹا- كورف اے سی نیلسن، جیسی بڑی کمپنیوں کے ساتھ بطور كنسلٹنٹ کام کیا ہے۔ انہوں نے ہندوستانی حکومت کے جوہری توانائی کے شعبہ، مغربی بنگال کے عوامی تعمیر محکمہ، کیرل حکومت کو بھی اپنی خدمات دی ہیں۔

image


'سلیكھا' کی نئی کہانی بھی کوشک میترا کی بہت بڑا رول ہے۔ کوشک منیجنگ ڈائریکٹر کی بڑی اور اہم ذمہ داری ادا کر رہے ہیں۔ 'سلیكھا' کو کوشک نے نئی سوچ دی ہے، نیا طول و عرض دیا ہے۔ سلیكھا 'کے ہونے والے منافع کا ایک حصہ وہ معاشرے-خدمت میں لگا رہے ہیں۔ کوشک مختلف سماجی غیر سرکاری اداروں کی مدد سے مغربی بنگال کے پسماندہ علاقوں میں غریب اور ضرورت مند لوگوں کے بچوں کو پڑھانے لكھانے کا بھی کام کروا رہے ہیں۔ گاؤں میں 'اندھیرا' دور کر 'روشنی' پھیلانے کے مقصد سے آپ کی کمپنی کے بنائے سولر لائٹس بھی تقسیم کر رہے ہیں۔ اپنے والد کی طرح کوشک بھی چاہتے ہیں کہ لوگ انہیں کاروباری کی طرح نہیں بلکہ سماجی صنعتکار کے طور پر جانے پہچانے۔ ویسے بھی باپ بیٹے میں بہت سے مماثلت ہے - دونوں قوم پرست کاروباری ہیں، دونوں کے لئے قومی مفاد بہت سخت ہے، دونوں کے لئے کاروبار کا مطلب سب کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنا ہے اور جو بھی منافع ہوتا ہے اس کا ایک حصہ واپس معاشرے کو ترقی- پروگراموں کے ذریعہ لوٹانا ہے۔ باپ اور بیٹے دونوں 'دیسی' کے متقی ہیں اور سادگی میں یقین رکھتے ہیں۔ دونوں اسی بات کو اپنی سب سے بڑی کامیابی مانتے ہیں کہ وہ اپنے خاندان کی شاندار وراثت اور قوم کی وراثت کو آگے لے جانے میں کامیاب رہے۔