آخر ہم 'آئی لو یو' کہنے میں اتنا شرماتے کیوں ہیں؟

آخر ہم 'آئی لو یو' کہنے میں اتنا شرماتے کیوں ہیں؟

Monday February 15, 2016,

6 min Read

ایک ملک کے طور پر ہم اس کام میں خوب مہارت حاصل رکھتے ہیں۔ اگر مقابلہ آرائی ہوتی ہے تو ہم اس میں سونے، چاندی اور کانسہ تینوں تمغے جیتنے میں کامیاب رہتے۔ میں اس ناٹ آؤٹ ركارڈ کے بارے میں بات کر رہی ہوں، جب ہم کسی کے کوئی غیر معمولی کام کو بے حد پسند تو کرتے ہیں، لیکن کھل کر اس کی تعریف کرنے کا وقت آتے ہی پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ اگر آپ کومیری بات کا یقین نہیں ہے تو اس بارے میں سوچئے اور خود سے پوچھيے کہ ۔۔ میں نے آخری بار کب کسی کی کھل کر تعریف کی تھی یا پھر کسی کو دل سے مبارک باد دی تھی اور حقیقت آپ کے سامنے ہوگی۔

image


ہمارے آس پاس کی دنیا میں، خاص طور پر ہمارے ابتدائیہ کے ماحول میں، یا پھر زندگی کے کسی بھی شعبے کا ذکر کریں، ایسا لگتا ہے کہ تعریف مقابلہ اور مسابقت کی دوڑ میں کہیں کھو سی گئی ہے۔ اصل میں جب بات اسٹارٹپ کے شعبے کی ہو تو ہم سب ماہر ناقد بن جاتے ہیں۔
میں یہ چلن گزشتہ کئی سالوں سے دیکھتی آ رہی ہوں اور ہمیشہ ہی حیران ہوکر یہ سوچتی ہوں کہ آخر کار ایسا کیوں ہے؟ یہ کل ہی کی بات ہے جب میں نے ایک نئی کمپنی کے کچھ نوجوان ملازمین کے ساتھ تھی اور میں نے ان سے پوچھا کہ کیا کبھی آپ لوگوں نے ایک دوسرے میں کسی غیر معمولی خصوصیت کو دیکھا ہے اور پھر اس کے بعد آگے آکر اس کی تعریف کی ہے؟ یا پھر آپ نے اپنے 10 معانین تک جاکر ان سے کچھ اچھا کہنے کی کوشش کی ہے؟ '' حیرت کی بات تھی کہ انہوں نے ایسا نہیں کیا۔

میں سمجھتی ہوں کی اس کے زمہ دار والدین بھی ہیں، جی ہاں بالکل آپ میری کہانی سننے کے بعد مجھ سے بحث کر سکتے ہیں۔ہمارے ماں باپ نے ہمیں تعریف اور محبت کی ایک مخصوص اسٹائل کا علم دیا ہے۔ اگر میری کہانی بھی آپ کی کہانی جیسی ہے تو مجھے ضرور بتائیں۔

مجھے یاد ہے کہ اسکول کے دنوں میں مباحثے اور تقریری مقابلوں میں میرا مظاہرہ بہترین ہواکرتا تھا۔ جب بھی میں ایوارڈ جیت کر گھر واپس لوٹتی تو ماں کے چہرے پر مسکراہٹ ہوتی اور میں ان کی خوشی کو محسوس کرنے کے علاوہ یہ بھی جان لیتی تھی کہ انہیں میری کامیابیوں پر فخر ہے۔ لیکن وہ مجھ سے جو کچھ کہتی وہ کچھ ایسا ہوتا، '' یہ بہت اچھا ہے، لیکن فلاں آنٹی کی بیٹی نے اپنی بہترین تقریری صلاحیت کے بل بوتے بی بی سی کی ایک پراجیکٹ پایا ہے۔ یہ اچھا ہے لیکن ابھی تمہارے سامنے ایک طویل راستہ ہے۔ '' میں آنکھیں پھرا کر ان کا جواب دینا چاہتی تھی، لیکن میں اپنی ماں کا اتنا احترام کرتی تھی کہ ایسا نہیں کر سکی۔

میری ماں کو ہمیشہ یہی فکر لگی رہتی تھی کہ کہیں یہ چھوٹی چھوٹی کامیابیاں میرے سر پر نہ چڑھ جائیں کیونکہ وہ میرے لئے ایسا نہیں چاہتی تھیں۔ اور میں مسلسل ان سے کہتی تھی کہ میری یہ چھوٹی کامیابیاں بھی ستائش کی مستحق ہے۔ مجھے ان سے امید رہتی تھی وہ مجھے انعام دیں ۔ پھر چاہے وہ چھوٹا سا تحفہ ہی کیوں نہ ہو، یا پھر ایک آئسكريم یا پھر اس دن پڑھائی نہ کرنے کی آزادی۔ آخر کار اس دن میں ایک فاتح تھی۔ اور ایسا میرے اسکول کے دنوں میں مسلسل بغیر ناگا ہوتا رہا۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے جب مجھے سی این بی سی سے ملازمت کا خط ملا اور میں نے انہیں فون کیا تو انہوں نے انتہائی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا، '' اپنے کزن کو دیکھو۔ وہ امریکہ چلا گیا ہے اور وہاں سے ہر ماہ اپنے ماں باپ کو 1 ہزار ڈالر بھیجتا ہے۔ ''

ارے میری ماں! کچھ چیزیں کبھی نہیں بدل سکتیں۔ اور ہم میں سے زیادہ تر کے لیے وہ آج تک بھی نہیں بدلی ہیں۔ ہم میں سے زیادہ تر تعریف کرنے کے عادی ہی نہیں ہیں۔ ہم میں سے زیادہ تر کا تعریف کے ساتھ انتہائی بےحسی رشتہ ہے، ہم اس کو آسانی سے قبول نہیں کرتے اور شاید یہی وجہ ہے کہ ہم اس سے دور رہتے ہیں اور اسے چھپا کر رکھتے ہیں۔

دراصل دوسروں کی تعریف نہ کرنے کی ایک اور وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ہم میں سے زیادہ تر ایسے ہیں، جو خود کو بھولا، پی آر میں یقین کرنے والا، جوشیلا اور سكنگ اپ قسم کا کہلانے سے بچنا چاہتے ہوں۔ بہت سے مطالعوں سے صاف ہے کہ ایک انسان کے طور پر ہم ان لوگوں کے تئیں نیک ارادہ نہیں رکھتے ہیں جو تنقید کرتے ہیں یا منفی باتیں کرتے ہیں۔ ہم مثبت باتیں کرنے والوں کے مقابلے منفی بات کرنے والے لوگوں کو ذہین، زیادہ قابل اور ماہر مانتے ہیں۔ تو آپ دوسروں کی جتنی زیادہ تنقید کرو گے اور ان کو نیچا دکھاوگے آپ اتنے ہی زیادہ ذہین مانے جائیں گے؟

اس معاملے میں ہمارے ماحول میں کوئی بھی ایسا شخص جو گالیاں دیتا ہے یا پھر کسی کمپنی یا شخص کے بارے میں ناقص باتیں کہتا ہے یا نیچا دکھانے کی کوشش کرتا ہے اس کو ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے۔ ایسے لوگ راتوں رات اسٹار بن جاتے ہیں۔ اور ہم سے بھی زیادہ گپ سننے کے لئے بیتاب نظر آتے ہیں۔

مثبت بالکل بورنگ ہے، سست ہے۔ مثبت بالکل بھی دل کے قریب نہیں ہے اور نہ ہی یہ ایسا ہے جسے آپ خالی وقت میں سننا پسند کریں گے۔ اور ہاں، مثبت تعریف سرخیاں نہیں رہتی ہے۔ اگرچہ کہ میرا خیال ہے کہ مثبت خیال اور تعریف ہمیشہ دوسروں کے دلوں کو جیتنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ میں جن لوگوں کی تعریف کرتی ہوں، وہ اصل میں انتہائی مثبت لوگ ہیں اور وہ بھی دوسروں کی تعریف کرنے میں اپنا سب کچھ جھونک دیتے ہیں۔

ہر نیا دن ہمیں زندگی، اپنے آپ کی اور اپنے ارد گرد کے لوگوں کی تعریف کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ آؤ ہم بغیر دنیا کی پرواہ کئے دوسروں کی تعریف کریں، ان سے محبت کریں۔ اگر آپ کسی چیز کو یا شخص کو محبت کرتے ہیں تو اس سے محبت کا اظہار کریں۔ اب جب ہم ویلیںٹائن ڈے اور اس سے جڑے ماحول کا جشن منا رہے ہیں، تو آئیے

''اپنے آپ سے محبت کرنے، دوسروں کی تعریف کرنے، اورتعریف کی عادت کو اپنے اسٹارٹپ کے سفر کو ایک بہترین تجربہ گاہ بنانے کا وعدہ کریں۔ ''

(یہ مضمون یور کہانی کی بانی اور ایڈیٹر ان چیف شردھا شرما نے انگریزی میں لکھا ہے۔ جس کا ترجمہ ایف ایم سلیم نے کیا ہے۔)