کیا ہمیں واقعی تمہاری پرواہ ہے، میرے پیارے پلّو؟

جانوروں کے تئیں بے حس ہوتے سماج کو جھنجھوڑ تا ہوا ایک مضمون

کیا ہمیں واقعی تمہاری پرواہ ہے، میرے پیارے پلّو؟

Tuesday July 12, 2016,

10 min Read

بھدرا پانچ ماہ کی ایک چھوٹی سی کتیہ ہے، وہ میرے شیرو کے جیسی ہے۔ مجھے یاد ہے جب میں ایس پی سی اے ہسپتال میں شیرو سے ملا تھا، تب وہ بیمار تھا۔ وہ ایک چھوٹے سے کمرے میں دوسرے بہت سے کتوں کے ساتھ بیٹھا تھا اور جب اس نے مجھے دیکھا تو وہ میری طرف دوڑتا ہوا آیا۔ میں نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا۔ میں اس کی آنکھوں کے ذریعہ اس کی منت و سماجت محسوس کر رہا تھا۔ جیسے وہ کہہ رہا ہو کہ میں اس کو یہاں سے اپنے ساتھ وہاں لے جاؤں جس اپارٹمنٹ میں وہ اپنی پیدائش سے رہ رہا تھا۔ میں نے ڈاکٹر سے اس کی صحت کے بارے میں بات کی، جس کے بعد میں واپس لوٹ آیا۔ اس کی آنکھیں ٹھیک ویسے ہی مجھے ڈھونڈ رہی تھیں جیسے بھدرا کی آنکھیں۔ اسے ایک سنگین قسم کا ٹیومر ہو گیا تھا۔

شیرو کا رنگ بھی اس سے ملتا جلتا تھا۔ وہ بھدرا سے لمبا تھا۔ میں نہیں جانتا کہ وہ کتنے سال کا تھا، لیکن وہ میرے اپارٹمنٹ كامپلیكس کا حصہ تھا۔ میں جب پہلی بار اس سے ملا تھا تو وہ کافی صحت مند تھا اور جب بھی میں اپنے دونوں پالتو puppies کو لے کر گھومنے جاتا تھا، تو وہ بھی ساتھ ہو لیتا تھا۔ وہ خود کفیل تھا اور اس کی دم ہمیشہ ہلتی رہتی تھی۔ میرے چھوٹے کتے کئی بار اسے تنگ کرتے تھے، لیکن اس نے کبھی بھی پلٹ کر حملہ نہیں کیا۔ وہ ہمیشہ کچھ فاصلہ بنا کر چلتا تھا اور کسی دوسرے کتے کو ہمارے پاس پھٹکنے تک نہیں دیتا تھا۔ وہ ان کتوں کو دور بھگا دیتا تھا، جو میرے puppies سے دوستی کرنا چاہتے تھے۔ میں کبھی اس بات کو سوچتا ہوں تو پاتا ہوں کہ وہ میرے puppies کے لئے کسی دیکھ بھال کرنے والے سے کم نہیں تھا۔ وہ ان کی حفاظت کرتا تھا تاکہ کوئی دوسرا کتا ان کو نقصان نہ پہنچا سکے۔ اس نے کبھی کسی کو نہیں کاٹا تھا، لیکن اپارٹمنٹ میں رہنے والے کچھ لوگ چاہتے تھے کہ اسے وہاں سے باہر کیا جائے۔

image


ایک دن میں اس کے سر پر تھپکی دے رہا تھا، تو مجھے محسوس ہوا کہ اس کے بال کافی کڑک ہو گئے ہیں۔ میں نے اس چیز کو نظر انداز کر دیا۔ کچھ دنوں بعد مجھے محسوس ہوا کہ اس کے بال جھڑنے لگے ہیں۔ جس کے بعد میں نے اپنے ڈاکٹر سے مشورہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ اس کو انفکشن ہوا ہے اور اسے دوا کی ضرورت ہے۔ میں اس کے لئے دوا لے آیا اور اس کے دودھ اور کھانے میں اس دوا کو ملا دیا۔ جسے اس نے آرام سے پی لیا۔ کچھ دن بعد مجھے اس میں تبدیلی دکھائی دی۔ اس کے جسم میں نئے بال آ گئے تھے اور وہ پہلے کے مقابلے صحت مند دکھائی دے رہا تھا۔ ایک دن صبح میں نے دیکھا کہ اس کے گلے میں زخم ہے۔ جس میں کافی پیپ بھرا ہوا تھا میں جانتا تھا کہ وہ کافی درد محسوس کر رہا تھا، لیکن میں نے اسے روتے ہوئے نہیں دیکھا۔ دوبارہ میں نے ڈاکٹر سے بات کی اور اس کے زخم کی تصویر کھینچ کر ان کو دکھائی۔ جس کے بعد انہوں نے مجھے مرہم دیا، جسے میں نے اس کے زخم پر لگا دیا۔ درد ہونے کے باوجود اس نے مجھے اپنے آپ کو چھونے دیا۔ ڈاکٹر نے مجھ سے کہا کہ کیا وہ اسے ایس پی سی اے، کتوں کے ہسپتال بھیج سکتے ہیں۔ تو میں نے بھی دیر نہیں کی اور اس کے لئے ایک ایمبولینس کا انتظام کیا وہ اسے ہسپتال لے گئے۔ حالانکہ وہ ڈرا ہوا تھا اور ہسپتال نہیں جانا چاہتا تھا۔

بھدرا اس معاملے میں قسمت والی تھی کہ دو منزلہ عمارت سے گرانے کے باوجود اسے زیادہ سنگین چوٹیں نہیں آئی ہیں۔ اس کی ایک ہڈی ٹوٹی ہے ساتھ ہی اس کی پیٹھ پر چوٹ آئی ہے۔ باوجود اس کے امید ہے کہ وہ اگلے تین ہفتوں میں ٹھیک ہو جائے گی، لیکن کوئی یہ نہیں جانتا کہ جب اسے پھینکا گیا تب وہ کیسی تھی، کس طرح وہ ان چوٹوں سے ابری؟ جس طریقے سے اس کے ساتھ ظلم ہوا اس کے بعد دس دنوں تک، جب تک وہ نہیں ملی اس کی کیا حالت رہی ہوگی۔ اس دوران اسے ضرور کافی درد رہا ہوگا، ہو سکتا ہے کہ اس دوران درد کی وجہ سے چلنا تو دور وہ کھانا اور پانی بھی نہیں لے پائی ہو۔ کیا کوئی سوچ سکتا ہے کہ کس طرح اس نے وہ لمحے گزارے ہوں گے؟ ہم انسانوں کو اس بات کا احساس نہیں ہے جب ہم ذرا سی تکلیف پر ڈاکٹر یا ہسپتال علاج کرانے کےلئے پہنچ جاتے ہیں اور پھر گھر کا کوئی دوسرا رکن ہمارے کھانے اور آرام کی توجہ رکھتا ہے، لیکن اس کے بارے میں کیا؟

ایک اور کتا تھا، جسے میں ہر روز کھانا دیتا تھا۔ اچانک اس نے میرے گھر آنا چھوڑ دیا۔ میں نے کئی دنوں تک اس ڈھونڈنے کی کوشش کی، لیکن اس کا کہیں کوئی پتہ نہیں چلا۔ ایک دن اپنی گاڑی کے قریب مجھے ایک کتے کے رونے کی آواز سنائی دی۔ وہ کافی جوش سے میری گاڑی کے ارد گرد دوڑ رہا تھا۔ میں گاڑی سے باہر نکلا تو پتہ چلا کہ یہ وہی کتا تھا، جسے میں ڈھونڈ رہا تھا۔ میں نے اسے دیکھا اور سیٹی بجائی۔ وہ درد سے کراہ رہا تھا۔ میں نے اس کے ارد گرد دیکھا تو اس کی دم سے خون کی بوندیں نکل رہی تھیں۔ ان کی دم میں کٹ لگا ہوا تھا۔ تب میں نے اپنے آپ سے سوال کیا کہ اتنے مہینوں بعد یہ میرے پاس کیوں آیا؟ کیا یہ مجھ سے طبی مدد مانگنا چاہتا ہے؟ یا پھر وہ کسی مصیبت میں ہے اور میرے پاس آ کر اسے آرام ملے گا؟ وہ بول نہیں سکتا تھا اور میں صرف اندازہ لگا سکتا تھا۔

اسی طرح کا ایک اور واقعہ ہے۔ ایک رات جب میں آفس سے واپس آ رہا تھا تو دیکھا کہ میرے گھر کے دروازے پر ایک کتیا اپنے بچے کے ساتھ بیٹھی ہے۔ اس سے پہلے میں نے کبھی بھی اس کتیا یا اس پلّے کو نہیں دیکھا تھا۔ اگرچہ میں اکثر بہت سے کتوں کو کھانا کھلاتا تھا، لیکن یہ ان میں سے نہیں تھی۔ میں اس کے پاس گیا، میں دیکھ سکتا تھا کہ وہ پلاّ نیم بےہوشی کی حالت میں تھا۔ جب میں نے اسے چھوا تو لگا کہ اس کی سانسیں چل رہی ہیں۔ وہ کافی بیمار تھا۔ میں نے اسے دودھ پلانے کی کوشش کی۔ بڑی مشکل سے وہ کتا ایک یا دو گھونٹ ہی دودھ پی سکا۔ اس دوران اس کی ماں ایک بار بھی مجھ پر نہیں بھونكی۔ تب میں نے ڈاکٹر سے بات کی تو رات زیادہ ہونے کی وجہ سے انہوں نے مجھے اگلے دن آنے کو کہا۔

اگلے دن صبح جب میں اٹھا تو میں اس کتے کے پاس گیا۔ میں نے دیکھا کہ وہ سانس لینے نہیں لے رہا ہے۔ اس کی ماں اسی کے پاس بیٹھی ہے۔ میرے لئے تعجب کی بات یہ تھی کہ کیوں اس کی ماں اپنے بچے کو میرے گھر کے دروازے تک لائی تھی؟ کس نے اسے میرا پتہ دیا تھا؟ کیوں وہ دوسری جگہ پر نہیں گئی؟ کیوں اسے ایسا لگا کہ میرے پاس آنے پر اسے کچھ مدد مل سکتی ہے؟ ایک بار پھر وہ مجھ سے کچھ نہیں بول سکتی تھی اور میں اس کی زبان سمجھ نہیں سکتا تھا۔ میں جانتا ہوں کہ میں اپنے puppies موگو اور چھوٹو سے اپنی بات کہہ سکتا ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ وہ کب بھوکے ہیں اور کب خوش رہتے ہیں۔ موگو ہر رات مجھے باہر چلنے کو کہتا ہے تاکہ وہ رفع حاجت کر سکے۔ اگر اس کا پیٹ خراب ہوتا ہے یا پھر میں کبھی زیادہ وقت کے لئے باہر جاتا ہوں تو میں اس سے کہتا ہوں کہ فکر مت کرنا میں جلد لوٹونگا، جس کے بعد وہ کسی کو پریشان نہیں کرتا اور پرسکون رہتا ہے، لیکن آوارا کتوں کے ساتھ ایسا کرنا کافی مشکل ہے۔

اسی طرح ایک دن میرے اپارٹمنٹ میں میں نے دیکھا کی ایک خاتون ڈری ہوئی تھی اور وہ مجھ سے کہہ رہی تھی کہ میرے کتے ارد گرد گھومتے ہیں اور وہ اسے کاٹ سکتے ہیں۔ اس بات پر مجھے ہنسی آئی۔ عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ کتے کاٹتے ہیں تاہم جب میں تیسری کلاس میں تھا تو مجھے بھی ایک کتیا نے کاٹ لیا تھا۔ باوجود اس کے میرا ان کے تئیں جھکاؤ کبھی کم نہیں ہوا، بلکہ سال در سال یہ بڑھتا ہی گیا۔ آج میں ان کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔

میں ہر جگہ آوارا کتوں کے ساتھ کھیلتا ہوں۔ جب بھی میں ان کو بلاتا ہوں تو وہ دم ہلاتے ہیں۔ لدھیانہ کے قریب ایک پٹرول پمپ پر می ایک بار ایک کتے سے ملا۔ میں نے اس کو کھانے کے لئے بسکٹ دیے۔ رانی جس نے مجھے کئی سال پہلے کاٹا تھا وہ غلطی سے ہوا حادثہ تھا۔ کیونکہ اس وقت وہ بھوکی تھی اور میرے پاس کچھ بریڈ تھی، جو وہ مجھ سے لینا چاہتی تھی۔ اس عمل میں اس نے مجھے کاٹ لیا تھا۔ اگر کتے انسان کو کاٹتے ہیں یا پھر نقصان پہنچاتے ہیں تو شیرو کبھی مجھ پر یا میرے puppies کے پر جھپپٹا کیوں نہیں مارا؟ یا پھر جنکو میں کھانا کھلاتا تھا انہوں نے کبھی کوئی ایسی حرکت کیوں نہیں کی؟ بلکہ یہ سب میری موجودگی میں بھی بہت آرام سے رہتے تھے۔ تاہم کئی بار وہ مجھ پر کودتے تھے یا بھونکتے تھے اس لئے نہیں کہ وہ مجھے نقصان پہنچانا چاہتے ہوں، بلکہ وہ اپنا پیار دکھاتے تھے۔

آخری دنوں میں شیرو وہ جگہ نہیں چھوڑنا چاہتا تھا، جہاں پر وہ زندگی بھر رہا۔ میں اس کی مدد کرنا چاہتا تھا، لیکن کون جانتا تھا کہ میرا اسے ہسپتال لے جانا اس کے رہنے کی امید چھوڑنے کی طرح تھا یا ایسا کر اس کی زندگی مختصر ہو گئی تھی؟ ہسپتال لے جانے کے بعد وہ تقریباً دو ہفتوں تک زندہ رہا اور ایک شام وہ چل بسا۔ جب ڈاکٹر نے مجھے یہ خبر دی تو مجھے اس بات کا کافی افسوس ہوا۔ مجھے اس بات کا دکھ ہے کہ ایک پلّا میرے گھر کے دروازے پر مر گیا۔ میں اس پلّے کی ماں سے معافی مانگنا چاہتا ہوں، جو مدد کی توقع سے اسے میرے گھر لائی اور دیر رات ہونے کی وجہ سے میں اسے ہسپتال نہیں لے جا سکا۔ مجھے ان سب کے لئے دکھ ہے، جنہیں میں کھانا کھلاتا تھا، لیکن رہنے کے لئے محفوظ جگہ نہیں دے سکا۔ کیونکہ ان کو بھی احترام کے ساتھ جینے کا حق ہے۔ ہمارا ترقی یافتہ معاشرہ کیا ان کا دکھ درد سمجھنے کے لئے تیار ہے؟ یقین کیجیے یہ سب پیاری مخلوق ہے۔ جو ہم سے غیر مشروط محبت کرتے ہیں اور بدلے میں ہم انسانوں کی طرح یہ کچھ نہیں مانگتے۔

میں اب تک ایسے کسی آدمی سے نہیں ملا جس نے کاٹنے کے لئے کتے کو ذمہ دار نہ ٹھہرایا ہو۔ میں اس بات سے انکار نہیں کرتا کہ کتے کاٹتے نہیں ہے، لیکن وہ تبھی کاٹتے ہیں جب ان کو اکسایا جائے، مارا جائے یا دھمکایا جائے۔ اس کے علاوہ وہ تب کاٹتے ہیں جب وہ بھوکے یا پیاسے ہوں اور وہ کھانے اور پانی کی تلاش میں ہو۔

گاؤں میں آج بھی رسم و رواج اور مذہب میں یقین رکھنے والے لوگ کتوں کو کھانا اور پانی دیتے ہیں۔ وہاں پر انسان اور جانوروں کے درمیان گہرا جزباتی تعلق ہے۔ لیکن شہروں میں ہم نے ان کو یتیم بنا دیا ہے اور کوئی ایسی جگہ نہیں چھوڑی ہے، جہاں پر یہ کتے محفوظ رہ سکیں۔ وہ ایک منفی ماحول میں رہتے ہیں، ان میں سے زیادہ تر سڑک پر رہتے ہیں جہاں پر یہ کبھی بھی گاڑیوں سے کچلے جا سکتے ہیں۔ ہم انسان ان پر حملہ کرتے ہیں ان پر ظلم کرتے ہیں۔ پھر بھی الزام ان کو ہی دیتے ہیں؟

مصنف: اشوتوش، سینئر صحافی اور عام آدمی پارٹی کے لیڈر

ترجمہ: ایف ایم سلیم

    Share on
    close