سیاست کے شرفاء کون۔۔۔۔۔۔؟

 سیاست کے شرفاء کون۔۔۔۔۔۔؟

Sunday January 03, 2016,

12 min Read

٘(مہمان قلمکار کی تحریر)

مرکزی وزیر فینانس ارون جیٹلی نے فیس بک پر ایک پوسٹ جاری کیا ہے۔ ان کی اس تحریر کا آغاز جی ایس ٹی پر پارلیمنٹ میں جاری تعطل سے ہوتا ہے تاہم نفس مضمون ’ پارلیمنٹ میں مباحث کے دوران استعمال ہونے والی زبان اور طریقے اور اخلاق کی پستیپر منتج نظر آتا ہے ۔ جیٹلی پارلیمنٹ میں گفتگو کے دوران استعمال ہونے والی زبان ارکان کے رویہ اور انداز گفتگو پر گہری چوٹ بلکہ شدید تنقید کرتے نظرآتے ہیں۔ پارلیمنٹ میں سیاست دانوں کے رویہ اور انداز تکلم پر جس قسم کی جیٹلی نے تنقید کی ہے اور گرتے اخلاق پر جس طرح سے تشویش ظاہر کی ہے۔

کم و بیش تمام ہی جماعتیں اس سے اتفاق کرتی نظر آتی ہیں۔ اس بات سے قطعی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ایوان میں مباحث کے دوران انداز تکلم کا میعار بہت تیزی سے گرا ہے اور مباحث کے میعار میں بھی پستی و گراوٹ کا شدت سے احساس کیا گیا ہے۔ مباحث کے دوران ارکان ایک دوسرے پر تنقید کے بجائے ایک دوسرے کو بالواسطہ طور پر گالی گلوچ کرتے نظر ٓائے۔ تنقید برائے اصلاح کا تو دور دور تک بھی پتہ نہیںہے۔ غیر پارلیمانی الفاظ کا جس تسلسل اور جس روانی سے استعمال کیا گیا ہے وہ یقینا ملک و قوم کا سر شرم سے جھکانے کے لئے کافی تھا۔

ر اس سب کے پیچھے اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ایوان میں مجرمانہ پس منظر رکھنے والے لوگوں کے داخلے اور سرکار و اپوزیشن جماعتوں میں اہم عہدوں پر مجرمانہ پس منظر کے حامل لوگوں کے فائض ہونے کی وجہ سے بھی یہ سب کچھ دیکھنے میں آرہا ہے۔ المناک پہلو تو یہ ہے کہ ایلیٹ یعنی کے شرفا ءکا مطلب اب خاندانی ہونا نہیں رہا بلکہ زور بازو سے سیاست میں بڑے بڑے عہدے حاصل کرلینا ہی شرفا کے معنی و مفہوم بن گیا ہے اور سیاست میں مجرمانہ پس منظر کے حامل لوگوں کی جوق در جوق آمد ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آنے والے دنوں میں شرفا کا متبادل یا پھر شرفا کا مفہوم بدلتی نظر آرہی ہے۔ اور یہ بدلتا وصف مرکزی دھارے میں علاقائی جماعتوں کا داخل ہونا بھی سمجھا جاسکتا ہے۔ ‘’

image


یہ تو ایک اندازہ ہے تاہم اس سارے معاملے اور اس بدلتے رجحان کا گہرائی سے تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک وقت وہ بھی تھا جب جد و جہد آزادی کے دوران کانگریس پارٹی کی صف اول کی قیادت سماج کے اعلی طبقے سے تعلق رکھتی تھی اور انہوںنے انگلینڈ کے بہترین کالجوں اور یونیورسٹیوں سے فراغت حاصل کی ہوئی تھی۔ انہیں بہترین ماحول اور انگریزی ماحول اور روایتوں کے تحت تربیت ملی ہوئی تھی۔ کانگریس کے تمام قائیدین انگریزی میں مہارت رکھتے تھے اور انگریزی تہذیب و رموز سے بدرجہ اتم واقف تھے۔

بلا شبہ انہیں شرفا میں شمار کیا جاسکتا تھا۔ انگریزی کے ساتھ ساتھ ہندوستان کی مقامی زبانوں میں بھی انہیں عبور حاصل تھا اور وہ مشرقی تہذیب کا بھی سر چشمہ کہلائے جاسکتے ہیں۔ یہی وجہ رہی کہ ان کی قیادت شاندار تھی۔ مہاتما گاندھی اسی قیادت سے ابھرے تھے تاہم انہوںنے اپنے آپ کو شاندار تہذیب اور شاندار وضع قطع سے دور رکھا اور اپنے لئے کھادی کا لباس منتخب کیا۔ گاندھی جی نے اپنے لئے جو لباس چنا تھا اس کو دیکھ کر ونسٹن چرچل بہت ناک بھوں چڑھایا کرتے تھے اور مہاتما گاندھی کوانہوں نے نیم برہنہ فقیر کا خطاب دے رکھا تھا۔

چرچل گو کہ بہت امیر نہیں تھے مگر انگریزی وضع قطع اور انگریزوں کی تہذیب میں وہ پروان چڑھے تھے ایسی انگریزی تہذیب جو قدم قدم پر انسان کو بلا وجہ ہی بناوٹی رکھ رکھاو اور ٹھاٹ باٹ کا درس دیتی نظر آتی ہے۔ چرچل شام کے اوقات میں شراب و سگار کو پسند کرتے اور اسے اپنی تہذیب کے ٹھاٹ باٹ کا حصہ مانتے اور اس پر بر ملا فخر بھی کرتے نظر آتے۔ تاہم گاندھی جی یہ بخوبی جانتے تھے کہ اس انگریزی رکھ رکھاو اور مصنوعی ٹھاٹ باٹ سے ملک کے عوام کو ایک پرچم تلے جمع نہیں کیا جاسکتا یہی وجہ تھی کہ انہوںنے ملک کے عوام کے زیر استعمال عام لباس کو چنا تھا۔ تاکہ عوام کے جذبات و احساسات کی سچی ترجمانی ہوسکے۔

یہ وہ دور تھا جب ملک میں غربت بہت تھی انگریزوں نے ملک کو پوری طرح سے تباہ و تاراج کردیا تھا اور عوام کی اکثریت مکمل لباس کی بھی متحمل نہیں ہوسکتی تھی یہی وجہ تھی کہ گاندھی جی نے نہ صرف اس لباس کو اختیار کیا بلکہ اس بات کی قسم بھی کھائی تھی کہ جب تک آخری ہندوستانی خوش لباس نہیں ہوجاتا وہ مکمل لباس زیب تن نہیں کرینگے۔ کھادی کے ساتھ ان کا یہ تجربہ کامیاب تھا اور وہ ملک کے سچے رہنما بن گئے تھے تو اسی احساس کے باعث۔ تاہم جواہر لال نہرو انگریزی تہذیب سے بہت متاثر تھے۔ انہیں انگریزی پر عبور حاصل تھا اور وہ ان لوگوں کو زیادہ پسند کرتے جو ان سے روانی کے ساتھ انگریزی بولتے۔ نہرو کے پسندیدہ لوگوں میں صرف لال بہادر شاستری ہی ایسے تھے جو سب سے الگ تھے اور مشرقیت پر بھر پور ایقان رکھتے تھے۔ تاہم ہندوستان کے سیاست دانوں اور قائیدین کی انگریزی دانی اور وقار و تمکنت کے ماحول کو پہلی بار اگر کیس نے توڑا تھا تو وہ رام منوہر لوہیا تھے۔ رام منوہر لوہیا وہ پہلے شخص تھے جنہیں پہلا مخالف کانگریس رجحان ساز بھی کہا جاسکتا ہے۔ پسماندہ سیاست کا انہیں نمائیندہ قراردیا جاتا ہے۔

کانگریس کی شان و شوکت اور شاذ و تمکنت کے ساتھ ساتھ کانگریس کے لیڈروں میں پائے جانے والے احساس برتری و بالا دستی کے رجحان کے بر عکس رام منوہر لوہیا نے سیاست کو ایک نیا رخ دینے کی کوشش کرڈالی۔ اس وقت تک کانگریس ایک طاقتور اور بہت با اثر جماعت بن چکی تھی اور یہ ایک ایسی جماعت بن چکی تھی جس کی قیادت سماج کے برہمن کرتے تھے۔ اس موقع پر لوہیا نے نعرہ دیا تھا کہ ملک میں جو طبقہ اکثریت میں ہے وہی سماج کی قیادت بھی کریگا۔ اگر سہی معنوں میں دیکھا جائے تو رام منوہر لوہیا حقیقی معنوں میں جمہوریت کے علم بردار تھے اور جمہوریت کے سہی معنی و مفہوم سے روشناس کرانے کی انہوںنے کامیاب سعی کی تھی۔ تاہم پسماندہ سیاست کی کامیابی کا مشاہدہ کرنے کی وقت نے انہیں مہلت ہی نہیں دی اور وہ زیادہ دنوں تک زندہ نہ رہ سکے۔ نوے کے آغاز پر منڈل کمیشن کی آمد نے ایک نئی قیادت کو راستہ دیا ایسی قیادت جو منفرد تھی اور سماج کے ہر طبقے کی نمائیندگی کرتی تھی۔

لالو یادو ’ ملائیم سنگھ یادو’ مایاوتی’ کانشی رام’ کلیان سنگھء اوما بھارتی’ ایسے لیڈر ہیں جو منہ میں سونے کا چمچہ لیکر نہیں پیدا ہوئے تھے۔ اور نہ ہی ان کا تعلق شرفا جوڑا جاسکتا ہے۔ یہ تمام گلیوں کی خاک چھان کر اور دھول پھانک کر بڑے ہوئے تھے۔ تاہم انہوںنے ملک کی سیاست کو ایک نیا انداز دیا ایک نیا رجحان دیا۔ ان لیڈروں نے استبداد کے خلاف آواز اٹھائی۔ اور استبدانہ سیاست کو ختم کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ ان کی زبان عامیانہ تھی ان کا انداز عامیانہ تھا وہ بہت پڑھے لکھے نہیں تھے اور انگریزی سے بھی پوری طرح واقف نہیں تھے۔ ان کا لب و لہجہ شائیستہ نہیں تھا اور وہ ذات پات کی سیاست بھی بھر پور طریقے سے کرتے نظرآتے تھے وہ اونچی ذات اور اونچے طبقے کے لوگوں کا تمسخر اڑاتے تھے۔

اس کے باوجود لوگوں نے انہیں پسند کیا اور اپنے اپنے علاقے کی قیادت سونپی۔ ان پر رشوت کے بھی الزام لگے اور یہ بدنام بھی ہوئے اس کے باوجود مرکز میں انہیں قبول کیا گیا کیوں اس لئے کہ ان کے پاس نمبر تھے ان کے ممبران کی تعداد زیادہ تھی اور ان کے بغیر مرکز میں حکومت چلانا مشکل تھا یہی مجبوری کانگریس جیسی جماعت کو انہیں قبول کرنے کے لئے مجبور کرگئی۔ اقتدار میں آنے کے بعد حکومتوں کو نئے قوانین بنانے میں دقتوں کا سامنا رہا۔ حکومت نے بارہا کوشش کی کہ ایوان کے رکن کے لئے تعلیم کا میعار مقرر کیا جائے تاکہ پڑھے لکھے لوگ ایوان میں آسکیں تاہم ان لوگوں کی شدید مخالفت کے باعث سیاست دانوں کے لئے اقل ترین تعلیم کے لزوم کا قانون منظور نہیں ہوسکا۔ ووٹ دینے کے لئے بھی تعلیم کی حد مقرر کرنے کی کوشش کی گئی مگر ان کے جارحانہ رویہ کی وجہ سے آئین میں یہ ترمیم بھی ممکن نہیں ہوسکی۔ میرے کہنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ سیاست کا مناسب نعم البدل لسانی زوال کے بعد ہی ممکن ہے۔ ہاں مگر یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ زبان کی تبدیلی ماحول کی بھی تبدیلی کا اہم سبب بن سکتی ہے۔ انگلش کو اب علاقائی زبانوں سے بدل دیا گیا ہے۔

نئی زبانوں کا یہ کلچر انگلش بولنے والے طبقے کے لئے یقینا صدمہ کا باعث ہے۔ یہاں معاملے کی پیچیدگی یہ ہے کہ تبدیلی دو گروپوں کے ایک دوسرے سے متصادم ہونے کا باعث بن رہی ہے۔ استبدانہ طبقہ اس بات سے پریشان ہے کہ زمانہ بدل رہا ہے اور لوگ اب نہ تو ان کے جھانسے میں آتے ہیں اور نہ ہی ان کا دباو برداشت کرنے کو تیار ہیں۔ یہ ان کے لئے ایک تکلیف دہ بات ہے۔ ایک نئی سیاسی صف بندی گہری بہت گہری ہوتی جارہی ہے۔ اور یہ خط تفریق ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستانی سماج اور ملکی سیاست کا لوازمہ بن چکی ہے۔ تفریق بہت گہری ہے اور اس سے پیدا ہونے والی تلخیاں شدید ہیں۔ دونوں گروہ اگر ایک دوسرے سے متصادم ہیں تو ایک ہی سیاسی خلاءکے لئے اور کوئی بھی خودسپردگی کو تیار نہیں ہے۔ مگر یہاں اہم بات یہ ہے کہ نمبر یا پھر کثرت دوسرے گروپ کے حق میں جارہی ہے اس گروپ کے حق میں جو بعد میں آیا ہے۔

یہی وجہ رہی کہ باہم احترام اور ایک دوسرے کے لئے تعریف کا فقدان پہلا صدمہ ثابت ہوئی ہیں۔ سب سے بڑا المیہ تو یہ ہے کہ سیاسی تضاد سیاسی دشمنی میں بدل گیا۔ اور بحث گالی گلوچ اور شخصی حملوں کی شکل میں تبدیل ہوگئی۔ اور عام آدمی پارٹی نے اس میں نئی گنجائیش فراہم کردی۔ اس کے لئے سیاست کا کھیل نیا تھا اور اس کے لئے روایتی سیاست ایک چیلنج تھا۔ پرانے کھلاڑیوں کے لئے نئی حقیقتوں کو تسلیم کرنا بہت مشکل تھا۔ وہ یہاں اپنے آپ کو اڈجسٹ نہیں کرپائے۔ عاپ نے پہلے ہی سے جاری اس بحران اور سورش کو نئے ایام دے دئے۔ سیاست میں عاپ کے داخلے نے صورتحال اور ابتر کردی۔ جمی جمائی اور قدیم جماعتیں عاپ کی آمد کو ہضم نہیں کرپارہی تھیں اس نو آموز سیاسی بچے سے سمجھنا ان کے لئے مشکل ہونے لگا۔ عاپ کے لیڈروں کا عالم یہ تھا کہ پارٹی کی تشکیل سے پہلے ہی ا نہیں جارحانہ لب و لہجہ اور بد کلامی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ ہمیں نالی کے چوہے کہا جانے لگا تھا۔ دہلی اسمبلی انتخابات کے دوران وزیر آعظم تک نے نہیں بخشا۔ وزیر آعظم نے بھی وہی زبان استعمال کی جو یہ لوگ کرتے آرہے تھے۔ وہ ہمیں جنگل کے نکسلی کہتے تھے اور وہ ہمیں بدنصیب تک کہہ گئے۔ وزیر آعظم کے لئے پستی کی یہ نئی انتہا تھی۔ وزیر آعظم کے جلیل القدر اور با وقار عہدے پر فائیض کوئی شخص ایسا کیسے کہہ سکتا تھا۔ وہ اس طرح کی زبان استعمال کرینگے یہ کبھی کسی نے سوچا بھی نہیں تھا۔ ایک اور سئنیر بی جے پی لیڈر گری راج سنگھ نے ہمیں راکشش کہہ دیا۔ سادھوی جیوتی نرنجن تو ایک اور قدم آگے بڑھ گئیں۔ انہوںنے ہمارے لئے حرام زادے کا لفظ ایجاد کرلیا۔ المناک پہلو تو یہ ہے کہ بی جے پی کی قیادت نے نہ تو انہیں روکا اور نہ ہی انہیں سمجھانے کی کوشش کی کون کیا کچھ کہہ گیا فہرست لمبی ہے۔

مجھے آج تک یاد ہے کہ گجرات انتخابات کے دوران مودی سونیا گاندھی اور اس وقت کے چیف الیکشن کمشنر جے ایم لنگدوہ کے لئے کس طرح کی زبان استعمال کیا کرتے تھے۔ میں یہاں اس کو دہرانا نہیں چاہتا کسی بھی شریف النفس پر یہ بات بہت گراں گذریںگی۔ مجھے یاد ہے کہ یشونت سنہا اس وقت کے وزیر آعظم منموہن سنگھ کے لئے شکندی کا لفظ استعمال کرتے تھے۔ شکندی جس کے لفظی معنی ہجڑے کے ہیں۔ یشونت سنہا واجپئی کے دور میں بہت طاقتور سیاست دان اور با اثر وزیر تھے۔ اب جیٹلی سمیت بی جے پی کے تمام بڑے قائیدین کو کیجری وال کا وہ لفظ بڑا گراں گذر رہا ہے جو انہوںنے مودی کے لئے استعمال کیا ہے۔

یشونت سنہا نے اس وقت کے وزیر آعظم کو اس لفظ سے نوازا تھا تب انہیں برا کیوں نہیں لگا تھا۔ میں یہاں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ دوسروں پر الزام اور خود کے گریباں میں جھانکنے سے گریز مناسب بات نہیں ہے۔ جو دوسروں پر انگلی اٹھاتا ہے اسے یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ چار انگلیاں اس کی جانب بھی اٹھتی ہیں۔ جو دوسروں کی برائی پر نظر رکھتا ہے پہلے اسے خود کو بڑا بن کر دکھانا پڑتا ہے۔ یہی حقیقیت ہے۔ عاپ اس مسئلہ سے بخوبی واقف ہے۔ مگر ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اس حمام میں سبھی ننگے ہیں۔ ایک دوسرے پر تنقید کے بجائے ہمیں اپنے آپ کو سدھارنے کی جانب توجہ دینی ہوگی۔ اپنے آپ کا جائیزہ لینا ہوگا۔ یقینا پارلیمنٹ نے ارکان پارلیمان کے لئے رہنمایانہ اصول بنائے ہوئے ہیں ضابطہ اخلاق تیار کیا ہے۔ مگر اس کو کبھی بھی سنجیدگی سے نہیں لیا گیا۔ ایم پیوں کے لئے یہ رہنمایانہ اصول تو بہت عرصے سے ہیں۔ عاپ تو آج آئی ہے۔

وجہ عام ہے ہندوستان کی سیاست بدل رہی ہے ماحول بدل رہا ہے۔ تاریخ بدل رہی ہے پرانی سیاسی جماعتیں اقتدار سے چمٹی رہنا چاہتی ہیں سیاست میں حصہ داری کو چھوڑنا نہیں چاہتیں اقتدار چھوڑنا ان کے لئے مشکل ہے وہ ایسا سوچنا بھی نہیں چاہتی ہیں نتیجہ جھنجھلاہٹ گالی گلوچ اور عدم برداشت کی شکل میں نکل رہا ہے۔ آج اور کل دونوں ایک دو راہے پر کھڑے ہیں۔ دو نوں ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہیں دونوں نے ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال رکھی ہیں اور دونوں جھاگ اگل رہی ہیں ایسے میں اگر کوئی غصب ناک ہوتا ہے تو کس کا کیا قصور۔ تاہم مجھے کہنے دیجئے کہ تبدیلی ہی میں بھلائی ہے اور یہی تابناک مستبل کی ضامن بھت تو براہ کرم ایک خوشگوار تبدیلی کو اپنائیں۔ یہی سب کے لئے بہتر ہوگا۔

image


(اس مضمون کے قلمکار آسوتوش عام آدمی پارٹی کے لیڈرہیں . انگریزی سے اردو ترجمہ سید سجاد حسنین نے کیا ہے۔ )

    Share on
    close