ملک بھر میں دورانِ سفر لوگوں کو پانی مہیا کرواتی ہیں پی.لکشمی راؤ .. جدوجہد سے کامیابی تک کا سفر

ملک بھر میں دورانِ سفر لوگوں کو پانی مہیا کرواتی ہیں پی.لکشمی راؤ .. جدوجہد سے کامیابی تک کا سفر

Monday December 21, 2015,

9 min Read

جدوجہد کے بعد پی۔لکشمی راؤ نے رکھی سولوِکس فوکس انڈیا پرائیویٹ لمیٹیڈ کی بنیاد

یہ کمپنی ایک انسانی وسائل کنسلٹنسی خدمات فراہم کرنے والی کمپنی ہے

2014 میں کمپنی نے سیاحت کے شعبہ میں بھی قدم جمائے

نومبر 2015 میں کمپنی نے اے۔ٹی۔ایم پانی کی شروعات کی جوملک بھر میں کم قیمت پر صاف پانی مہیا کروائے گی

ناکامی کی کئی وجوہات ہوتی ہیں لیکن کامیابی تک پہنچنے کا صرف ایک ہی راستہ ہوتا ہے ۔۔ اور وہ راستہ ہے سخت محنت ۔ اکثر لوگ کامیاب لوگوں کو دیکھ کر راتوں رات ان جیسا بننے کے خواب دیکھتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ وہ کسی بھی طرح ان کامیاب لوگوں جیسے بن جائیں۔ فوری کامیابی کی چاہت میں وہ شارٹ کٹ کا بھی استعمال کرتے ہیں اور اسی وجہ سے انہیں اکثر ناکامی کا منہ دیکھنا پڑتا ہے۔

کامیابی کوئی ایسی شئے نہیں ہے جسے کوئی شخص محض ایک رات میں حاصل کرلے۔ کسی بھی کامیاب شخص کی کامیابی کے پسِ پردہ ایک کہانی پوشیدہ ہوتی ہے۔ ایک ایسی کہانی جس میں محنت ہوتی ہے، ارادہ ہوتا ہے، خواہش اور عزمِ محکم ہوتا ہے۔ 'سولوکس فوکس انڈیا پرائیویٹ لمیٹیڈ ' کی بانی پی۔ لکشمی راؤ کی کہانی بھی ایسی ہی ایک کہانی ہے جو ان کی سخت محنت اورجذبے کوعیاں کرتی ہے۔

image


پی۔لکشمی وجےواڑا میں پیدا ہوئیں لیکن ان کی ابتدائی تعلیم اتر پردیش میں ہوئی۔ لکشمی ہمیشہ ایک ڈاکٹر بننے کی تمنا رکھتی تھیں لیکن ان کے خاندان کی معاشی حالت اتنی مستحکم نہیں تھی لہٰذا ان کے لئے ایم۔بی۔بی۔ایس کی مہنگی کوچنگ ممکن نہیں ہوپائی۔ اس کےعلاوہ پیڈ نشست کےذریعہ داخلہ بھی کافی مہنگا سودا ثابت ہورہا تھا۔ اسی وجہ سے وہ ایم۔بی۔بی۔ایس میں داخلہ حاصل نہیں کرپائیں ۔ لکشمی نے الہ آباد یونیورسٹی سے بی ۔ایس۔سی کیا۔

لکشمی گھر میں سب سے بڑی بیٹی تھیں اس لئے اہلِ خانہ نے ان پر شادی کرنے کا دباؤ بنانا شروع کردیا تھا حالانکہ وہ ابھی شادی نہ کرتے ہوئے مزید تعلیم حاصل کرنا چاہتی تھیں۔ لیکن انہیں اپنے والد کے اصرار کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑے اور وہ شادی کرنے کے لئے آمادہ ہوگئیں۔ 1994 میں لکشمی کی شادی ہوگئی۔ شادی کےبعد لکشمی کو کافی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کا سسرال جنوبی ہندوستان میں تھا جہاں کی زبان اور ثقافت سے لکشمی اتنی واقف نہیں تھیں جتنی واقفیت کی ان سے توقع تھی اس لئے وہ اس ماحول میں اجنبیت کا احساس کرنے لگیں۔ اپنے سسرال کی جانب سے لکشمی کو زیادہ تعاون حاصل نہیں ہوپایا ۔ دریں اثناء انہوں نے ملازمت کرنے کی بات سوچی ۔ یہاں بھی لکشمی کو گھر کے اندر مخالفت کا سامنا کرنا پڑا لیکن انہوں نے فیصلہ کر ہی لیا تھا کہ اب وہ پیچھے نہیں ہٹیں گی۔ انہوں نے طلباء کو پڑھانا شروع کردیا۔ ان کی پہلی تنخواہ محض 1500 روپئے تھی۔

image


اسی دوران لکشمی خود بھی تعلیم حاصل کرتی رہیں۔ ان پر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا جنون طاری ہوگیا تھا۔ انہوں نے سوچا کہ اب وہ مزید تعلیم حاصل کریں گی اور ایم۔بی۔اے بھی ضرور کریں گی۔ لکشمی نے کمپیوٹرس کے کافی اڈوانس کورسس کئے جس کے بعد انہوں نے اپنی معاشی حالت مستحکم کرنے کے لئے ایپٹک میں بچوں کو پڑھانا شروع کردیا۔ اس کےبعد انہوں نے آٹوموبائل انڈسٹری میں پاؤں دھرتے ہوئے ماروتی کمپنی میں شمولیت اختیار کرلی جہاں انہیں ان کی اعلیٰ کارکردگی کی بنیاد پر انہیں 'بہترین سیلز پرسن' کے اوارڈ سے نوازا گیا۔ ایک مرد۔مرکوز صنعت میں اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر اوارڈ حاصل کرنا نہایت مشکل کام تھا۔ لیکن لکشمی کے جنون نے اس مشکل کام کو بھی آسانی کے ساتھ انجام دینے میں لکشمی کی مدد کی۔ ماروتی انڈسٹریز میں کام کرنا لکشمی کے لے کرئیر کے لئے ایک اہم موڑ ثابت ہوا۔ ان کے کام کو کافی سراہا گیا جس نے ان کی خود اعتمادی میں کافی اضافہ کیا۔

لکشمی بتاتی ہیں کہ وہ اپنے کام سے بہت خوش تھیں ۔ ان کے شوہر بھی اسی شعبے سے وابستہ تھے لیکن گھریلو ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ آٹو موبائل صنعت میں کام کرنا اتنا آسان نہیں تھا۔ کیونکہ تہواروں کے موسم میں گاڑیوں کی فروخت میں اضافہ ہوجاتا ہے ، اس دوران چھٹیاں ملنی ممکن نہیں تھی جس کی وجہ سے انہیں امورِ خانہ داری کی انجام دہی میں دقت پیش آنے لگی۔ لکشمی نے کافی غور و فکر کے بعد ایک دن اپنی ملازمت ترک کردی اور سمبائسس ، پونے سے ایم ۔بی۔اے کرنے لگیں۔ ساتھ ہی ساتھ انہوں نے ایچ۔آر کی ملازمت کرنی تھی شروع کردی۔ سب سے پہلے انہیں بطور ایچ۔آر ایکزیکیوٹیو ملازمت ملی۔ پھر وہ سینئر ایچ۔آر ہیڈ بنیں اور اس کے بعد برانچ ہیڈ اور پھر ڈائریکٹر بن گئیں۔

image


زندگی کے اس موڑ پر آکر لکشمی کچھ ذاتی کام کرنا چاہتی تھیں۔ انہوں نے طے کیا کہ اب وہ خود اپنی ذاتی ایچ۔آر کمپنی بنائیںگی۔ اسی ارادے کے ساتھ انہوں نے 2 ستمبر 2009 کو 'دی فوکس انڈیا' کی بنیاد رکھی۔ یہ ایک کلی طور پر خود ملکیتی کمپنی تھی۔ اس فرم نے ابتداء سے ہی بہترین کام کرنا شروع کیا اور جلد ہی کمپنی کی اچھی کارکردگی کی وجہ سے اس کا نام دور تک جانا جانے لگا۔ اس وقت تک لکشمی کے پاس محض 4 لوگوں کی ایک چھوٹی سی ٹیم تھی ۔ لیکن لکشمی جانتی تھیں کہ انہیں کس طرح لوگوں کو آگے بڑھانا ہے اس لئے کم عملے کے ساتھ انہیں کوئی پریشانی نہیں ہوئی اور سارے کام بہ آسانی انجام پانے لگے۔ لکشمی کو یہ بھی علم تھا کہ ان کی کمپنی جیسی کئی کمپنیاں بازار میں پہلے ہی سے موجود ہیں جن سے ان کی براہِ راست مسابقت ہے ۔ لیکن اسی کے ساتھ انہیں یہ بھی پتا تھا کہ ان کمپنیوں کی کمزوریاں کیا ہیں۔ اس لئے وہ کافی دھیان مرکوز کرکے اور منصوبہ بند طریقے سے آگے بڑھ رہی تھیں۔ ان کا عملہ بھلے ہی تعداد میں کم تھا لیکن تھا بہت پیشہ ور اور ان کی کمپنی میں ایک بڑے کارپوریٹ دفتر کی طرح ہی کام ہوتا تھا۔

2012 تک 'دی فوکس انڈیا' ایک بڑا نام بن چکا تھا اور کئی دیگر کمپنیاں ان سے وابستہ ہونے لگی تھیں۔ تب لکشمی نے سوچا کہ کیوں نہ وہ اپنے کام کو توسیع دیتے ہوئے اپنی فرم کو ایک کمپنی کی شکل دیں جس کی وجہ سے انہیں اپنے کام کو بڑھانے میں مدد ملے گی اور وہ بین الاقوامی بازار تک بھی اپنی رسائی بناسکیں گی۔ کافی غور و فکر کے بعد انہوں نے اگست 2012 میں 'سیلوکس فوکس انڈیا پرائیویٹ لمیٹیڈ' کی بنیاد رکھی۔ اس عمل میں کافی سرمایہ درکار تھا اور لکشمی کو اس وقت روپیہ قرض پر تک لینا پڑا۔

image


لکشمی بتاتی ہیں کہ اس وقت بھی ان کے شوہر نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ یہ سب کچھ چھوڑکر سکون بھری ملازمت سے وابستہ ہوجائیں لیکن لکشمی نے انہیں سمجھایا کہ انہوں نے پہلے بھی کافی مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے اپنی گھریلو ذمہ داریوں کو نبھایا ہے اور وہ یہ کام بہ آسانی کرلیں گی۔ اس کے بعد ان کی کمپنی دھیرے دھیرے ہر سیکٹر میں ملازمین مہیا کروانے لگی، چاہے وہ بی۔پی۔او ہو، بایو ٹیکنالوجی ہو، رئیل اسٹیٹ ہو، میڈیکل ہو، مینوفیکچرنگ سیکٹر ہو ۔ ان کے علاوہ بھی ان کی کمپنی سولوکس دیگر کافی سیکٹرس میں کام کر رہی ہے اور طلباء کو ملازمت فراہم کروارہی ہے۔

لکشمی بتاتی ہیں کہ وہ طلباء کو ملازمت دلوانے کے علاوہ انہیں ملازمت حاصل کرنے کے لئے درکار تربیت یعنی ٹریننگ بھی دیتی ہیں۔ وہ خود ان تمام سرگرمیوں کی نگرانی کرتی ہیں اور طلباء کی صلاحیتوں کے لحاظ سے انہیں مناسب کمپنیوں میں ملازمت کےلئے بھیجتی ہیں۔

2014 میں لکشمی نے غور کیا کہ کارپوریٹ ملازمین کو کافی سفر کرنا پڑتا ہے ۔ انہیں سہولتیں فراہم کرنے کے مقصد کے تحت انہوں نے سیاحت کا کام بھی شروع کیا۔ کمپنی سیاحت اور سفر سے متعلق ہر چھوٹی بڑی سہولت فراہم کرواتی ہے چاہے وہ ٹکٹ بکنگ ہو، ہوٹل بکنگ ہو یا پھر کوئی سیاحتی سرگرمی۔

image


لکشمی نے 'یوراسٹوری ' کو بتایا, "آج میں جو بھی ہوں ، اپنے والد صاحب کی وجہ سے ہوں۔ میں اپنے والد سے بہت قریب تھی۔ میرے والد 2009 میں کینسر میں مبتلاء ہو کر فوت ہوئے۔ اسی وقت سے میرے ذہن میں صحت کے شعبے میں اپنی خدمات پیش کرنے کا خیال تھا۔"

وہ بتاتی ہیں کہ پانی کئی بیماریوں کی جڑ ہوتا ہے اور صاف پانی کی کمی پورے ملک میں پائی جاتی ہے۔ صاف پانی پر ملک کے ہر شہری کا حق ہے جو اسے مل نہیں پارہا ہے۔ اسی حقیقت کو دیکھتے ہوئے انہوںن ے نومبر 2015 میں "واٹر اے۔ٹی۔ایم" کی شروعات کی۔ واٹر اے۔ٹی۔ایم کے ذریعے لکشمی کم قیمت پر ملک کے شہریوں کو صاف پانی فراہم کروانا چاہتی ہیں۔ انہون نے اس کی قیمت نہایت کم رکھی تاکہ ایک عام آدمی بھی اسے خرید سکے۔ ایک لیٹر صاف پانی کی قیمت محض 5 روپئے ہے۔ واٹر اے۔ ٹی۔ایم کو دفاتر، اسکولس، دواخانے، ریلوے اسٹیشنس کے علاوہ دیگر کئی جگہوں پر بھی لگا جاسکتا ہے۔ لانچنگ کے ساتھ ہی کمپنی کو بنگلورو کی ایک کمپنی سے 1000 واٹر اے۔ٹی۔ایم کا آرڈر بھی مل چکا ہے۔

لکشمی کہتی ہیں کہ ان کا مقصد اسے ہندوستان کے گاؤوں تک پہنچانا ہے جہاں صاف پانی کی قلت ہے۔ اس قلت کی وجہ سے لوگو ں کو بہ حالتِ مجبوری گندا پانی پینا پڑتا ہے اور لوگ بیمار پڑجاتے ہیں۔ اس پروجیکٹ کا مقصد منافع کمانا نہیں بلکہ لوگوں کو صحتمند رکھنا ہے۔ لکشمی کا ماننا ہے کہ اگر ہندوستان کے لوگ صحت مند ہوں گے تو ملک ترقی کرپائے گا۔ آج لکشمی کے پاس ایک بہت ڈےڈیکیٹیڈ ٹیم ہے جس پر لکشمی کو پورا بھروسہ ہے۔ وہ جانتی ہیں کہ ان کی ٹیم کا ایک ایک فرد کافی محنتی ہے۔ اپنی کامیابی میں وہ اپنی ٹیم کو اہم مقام دیتی ہیں۔

ہندوستان کے علاوہ اب سولوکس انڈیا دوبئی میں بھی کام کررہی ہے۔ لکشمی بتاتی ہیں کہ بزنس کرنے کے پسِ پردہ ان کا مقصد محض منافع کمانا نہیں ہے بلکہ ان کے لئے کلائنٹس کا اطمینا سب سے اہم ہے۔ اس کے علاوہ واٹر اے۔ٹی۔ایم جیسے پروجیکٹ کے ذریعے وہ عام لوگوں سے وابستہ ہونا چاہتی ہیں اور ملک کو صحت مند رکھنے کی سمت اپنی خدمات پیش کرنا چاہتی ہیں۔

تحریر : آسوتوش کھنٹوال

مترجم : خان حسنین عاقبؔ