"مجھے نہیں پتہ، براہ مہربانی مجھے تفصیل سے بتائیں!"

شردھا شرما کا دلچسپ مضمون

"مجھے نہیں پتہ، براہ مہربانی مجھے تفصیل سے بتائیں!"

Friday April 08, 2016,

9 min Read

کچھ دن پہلے مجھے بنگلور کے شنگريلا ہوٹل میں سی ایكسو کی ایک سیمی کنڈکٹر میٹنگ میں حصہ لینے کا موقع ملا۔ میرے پہنچنے سے پہلے ہی وہ چھوٹا سا ہال تقریبا کھچا کھچ بھر چکا تھا۔ خوش قسمتی سے منتظمین نے میرے لئے پلیٹ فارم کے بالکل سامنے ایک سیٹ رکھی تھی۔ عام طور پر کسی بھی پروگرام میں دیر سے پہنچنے والوں کو آخری قطار میں ہی جگہ ملتی ہے۔ بہرحال میں سب سے آگے کی صف میں بیٹھی اور مباحثے پر اپنی توجہ مرکوز کی۔ بحث سیمی کنڈکٹر صنعت میں ابھر رہے نئے امکانات اور ہندوستان کس طرح اس میدان میں اپنے پاؤں جمع سکتا ہے کے موضوع پر مرکوز تھی۔ میں نے مسکراتے ہوئے خود کواس بات کے لئے تیار کیا کہ اپنے اپنے شعبے کے ماہرین، جن میں ایک آئی آئی ٹی پروفیسر، کچھ این آر آئی صنعت کار اور کچھ كارپوریٹ سرمایہ کار شامل تھے، کی جانب سے فراہم کردہ معلومات کسے اپنے علم میں اضافہ کروں۔

image


اور پھر یہ ہوا

میں نے سیمی کنڈکٹر کے میدان میں ہونے والی تبدیلیوں کو سمجھنے کی بھرپور کوشش کی لیکن، میں ان کو سمجھنے میں ناکام رہی۔ میں مقررین کی بات کو سمجھنے میں ناکام رہی۔ سادہ الفاظ میں کہیں تو ان کی بات میرے ایک کان سے جاکر دوسرے سے باہر آ گئی۔ میرے ارد گرد بیٹھا ہر شخص اس بحث میں ڈوبا ہوا تھا اور اس کا لطف اٹھاتے ہوئے سوالات داغ رہا تھا یا سر ہلا رہا تھا یا مسکرا رہا تھا۔ ایسے میں میں نے دوسروں پر توجہ دینے کی توقع اسٹیج پر بیٹھے ماہرین پر توجہ مرکوز کرنا زیادہ مناسب سمجھا۔ لیکن اس چھوٹے سے ہال میں اسٹیج کے بالکل قریب بیٹھے ہونے کی وجہ سے میرے پاس ان کی باتوں پر توجہ دینے کے علاوہ اور کوئی چارہ بھی نہیں تھا۔ دوسی بات بھی سب کچھ میرے سر کے اوپر سے نکل گیا۔

کچھ ماہرین نے اپنی بات کہنے کے بعد براہ راست میری طرف دیکھا۔ براہ راست میری آنکھویں میں! میں اس فعل کی اہمیت جانتی ہوں کیونکہ جب بھی میں پلیٹ فارم پر ہوتی ہوں تو میں بھی ایسا ہی کرتی ہوں اور سامعین کے گروپ کی ایک فعال رکن ہونے کے ناطے میں نے بھی مسکراتے ہوئے اپنا سر ہلایا۔ اور ایسا کرتے ہوئے میں نے خود کو پہلے کے مقابلے میں زیادہ بیوقوف محسوس کیا۔ جیسے جیسے ماہرین کی توجہ میری جانب بڑھتی گئی، میں زیادہ مسکراتی اور خود کو زیادہ بیوقوف سمجھتی۔

ہے بھگوان! میں ان کی باتیں سمجھنے میں خود کو فعال کیوں نہیں پا رہی تھی۔ کم از کم میں ان باتوں کا کچھ حصہ تو سمجھ پاتی، چاہے تھوڑا بہت ہی! کیا میں اس خاص تقریب میں صرف سیمی كنڈكٹر کے بارے میں مزید جاننے ہی نہیں آئی تھی؟ کیا ماہرین بار بار میری طرف دیکھ کر یہ سوچ رہے تھے کہ میرے جیسی شخص اس پروگرام میں کیوں ہے؟ کیا وہ ہم میں سے کسی کی بات کو سمجھ پا رہی ہے؟ ہو سکتا ہے کہ یہ سب باتیں میرے اپنے دماغ کی اپج ہوں۔ لیکن جب آپ ایک ایسی جگہ پر بیٹھے ہوں، جہاں سب آپ سے زیادہ علم رکھتے ہوں تو آپ کے اندر کیا چلتا ہے یہ آپ بہت بہتر طریقے سے جانتے ہیں۔

آخر کار بحث ختم ہوئی اور لوگ ایک دوسرے سے نیٹ ورکنگ میں مشغول ہو گئے۔ میں نے بھی ایسا ہی کرنا شروع کیا، لیکن بڑے سبھلتے ہوئے۔ آپ زیادہ تر ایسے موقعوں پر مجھے آگے ہی پائیں گے، لیکن یہاں پر میں ایک کونے میں جا کر آگے کیا کرنا ہے یہ سوچ رہی تھی۔ تبھی میرے دو واقف میرے پاس آئے اور ہال میں موجد کاروباریوں سے میرا تعارف کروانے کی پیشکش کی۔ آخرکار مجھے کچھ ایسا کرنے کا موقع ملا، جس میں میں بہتر ہوں۔ کاروباریوں سے بات چیت۔ اور جیسے جیسے میں زیادہ صنعتکاروں سے ملنے لگی، میرا اعتماد واپس آنے لگا۔ کاروباری اپنی کہانیاں سنانا چاہتے تھے۔ آپ لوگ صرف بی 2 سی یا ای كامرس کی کہانیوں میں ہی دلچسپی کیوں دکھاتے ہو؟ ٹھیک ہے، میں اس بات چیت اور اپنے جوابوں کو دوسری کہانی کے لئے روکتی ہوں۔ لیکن یہاں پر مجھے سننے کا موقع ملا۔ میرے ارد گرد لوگ جمع ہو گئے اور میں خود کو پر اعتماد محسوس کرنے لگی۔ میں ایسا بہت اچھے سے کرتی ہوں۔ میں ایک اچھی سامع ہوں۔

پروگرام سے واپس لوٹتے وقت میرے ذہن میں اس تنظیم کے بارے میں بحران چل رہا تھا اور اس کے بعد میں نے خواتین کے عالمی دن کے انعقاد اور پھر روز مرہ کے واقعات اور اجلاسوں میں کہیں کھو گئی۔

اس سال ہماری طرف دہلی میں منعقد یوم خواتین کانفرنس میں ہمارے پاس کچھ سب سے زیادہ باصلاحیت اور بہترین خواتین کاروباری کاروبار کی باریکیاں سمجھنے آئیں۔ سب سے بہترین اسپیکر پلیٹ فارم پر آکر فنڈنگ، تشخیص، ساخت، مالی تفصیلات وغیرہ کے بارے میں تفصیل سے معلومات دے رہے تھے، جو ان کے لئے روزمرہ کی بات تھی، لیکن میں نے محسوس کیا کہ وہاں موجود زیادہ تر لوگ ان کی باتوں کو سمجھ نہیں پا رہے تھے۔ ان میں سے زیادہ تر نے اپنے ہاتھ اٹھائے اور پوچھا: میں فینانس کے میدان میں ماہر نہیں ہوں تو کیا ایسے میں میں یہ کر پاؤں گی؟ میں ٹیکنالوجی کے میدان میں نیا ہوں تو کیا میں ٹیکنالوجی متعلقہ ٹریڈ کر سکتا ہوں؟ کیا میں تشخیص اور سرمایہ کاری کے بارے میں جاہل ہوتے ہوئے بھی سرمایہ کاری حاصل کرنے اور تشخیص میں کامیاب ہو پاؤں گا؟

اور ان سب کو میرا جواب تھا؛ میں فنڈنگ کے بارے میں لکھتے آنے کے علاوہ سرمایہ کاری سے متعلق کہانیاں لکھتی آ رہی ہوں، لیکن گزشتہ اگست میں سرمایہ کاری حاصل کرنے سے پہلے تک واقعی میں مجھے فنڈنگ کیا ہوتی ہے۔ پتہ ہی نہیں تھا۔ میں کہانیوں کے دنیا میں جی رہی تھی اور میں نے اچھا کام کیا تھا۔ میں نے اپنے تجربات کی بنیاد پر سیکھا ہے۔ جب آپ کے ساتھ کچھ ہوتا ہے تو آپ کام کرتے ہوئے ہی سیکھتے ہو۔ آپ کے پاس سیکھنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہوتا ہے، آپاپنی حد تک سمجھ سکتے ہیں اور باقی اپنے وکلاء اور اکاؤنٹنٹ پر چھوڑ دیتے ہو۔ میں نے صرف وہی سیکھا اور سمجھا جو ضروری تھا اور باقی اپنے وکلاء پر چھوڑتے ہوئے اپنا سارا وقت میٹنگ اور فون كالس میں لگا دیا۔

"کیا میرے لئے سب کچھ جاننا ضروری ہے؟ بالکل نہیں۔ کیا مجھے ان ماہرین پر مکمل طور پر انحصارکر لینا چاہیے تھا، جنہیں میں نے رکھا تھا اور جو اپنے کام کے ماہر تھے۔ جی ہاں، ہاں اور ہاں۔"

یہ مجھے جاننے اور نہ جاننے کے سوال کی طرف لے جاتا ہے۔ آج کے زمانے میں جب ہم ماہرین اور سب کچھ جاننے والوں سے گھرے ہوئے ہیں تو کیا ایسے میں ہمیں کامیاب کاروباری یا پیشہ ور بننے کے لئے زیادہ تر چیزوں کو خود ہی جاننا چاہئے۔ مجھے ایسا نہیں لگتا۔ کچھ نہیں جاننا اور یہ جاننا کہ میں کیا نہیں جانتا ہوں واقعی میں بڑا وردان ہے۔ زیادہ تر موقعوں پر جب ہم سب کچھ خود کرنے کی کوشش کرتے ہیں یا پھر ہر سوال کا جواب دیتے ہیں تبھی ہمیں ٹھوکر لگتی ہے۔ ایسا کہنا زیادہ بہتر ہے کہ

"مجھے نہیں پتہ، براہ مہربانی مجھے تفصیل سے بتائیں۔"

اسٹارٹپس کو میں صرف اتنا ہی کہنا چاہوں گی کہ وہ ایسے ماہرین کو نوکری پر رکھیں، جنہیں یہ معلوم ہو کہ انہیں کیا کرنا ہے اور انہیں ان کا کام کرنے دیں۔ اس سال میں اپنی کمپنی میں بھی ایسا ہی کرنے جا رہی ہوں۔ میں نے سب سے بہترین ٹیم کو اپنے ساتھ شامل کیا ہے اور اب میں آرام سے بیٹھ کر ماہرین کو ان کی مہارت کا اظہار کرتے ہوئے دیكھوں گی۔

مہارت کی بات نکلی ہے تو آپ کو بتاؤں کہ سی این بی سی میں میری آخری کام کے دوران میرے باس ایک انتہائی دلچسپ شخصیت تھے۔ ہم دونوں کے کسی بھی میٹنگ میں حصہ لینے سے پہلے وہ مجھ سے اس کمپنی سے متعلق تمام معلومات اکٹھا کرنے کےلئے کہتے۔ اور پھر ایسی ملاقاتوں کے دوران وہ ہمیشہ پوچھتے، کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ آپ کیا کرتے ہیں؟ وہ اپنی بات کو بیچ بیچ میں توڑ مروڑ کرت اس وقت تک سوال پوچھتے جب تک وہ کمپنی کے کام کرنے کا اصل ماڈل نہیں جان لیتے۔ مجھے اکثر ان کے سوال بے معنی لگتے تھے۔ کئی بار مجھے اس بات کا بہت برا بھی لگتا تھا کہ انہیں کمپنی کے بارے میں میری طرف سے جٹائی گئی معلومات پر انحصار نہیں ہے۔ اور پھر وقت کے ساتھ مجھے سمجھ آیا کہ ان کی اس پوری قواعد کا مقصد اس کمپنی کے کام کاج کے بارے میں آسان الفاظ میں معلومات جٹانا تھا جو اس میٹنگ کی سب سے بڑی کامیابی ہوتی تھی۔ وہ کسی بھی میٹنگ میں ایک ایم ڈی بن کر نہیں جاتا تھا؛ وہ میٹنگ میں بالکل نوسكھيا بن کر مزید جاننے کے مقصد سے جاتا تھا۔

روزمرہ کی زندگی میں چاہے وہ میڈیا کا آدمی ہو،کسی شعبے کا ماہرہو، سرمایہ کار، یا ساتھی، تمام آپ کے بارے میں خیالات گڑھتے رہتے ہیں۔ روزانہ لوگ آپ کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جانتے رہتے ہیں اور ایک دن وہ آتا ہے جب معاملہ زیادہ مضحکہ خیز ہو جاتا ہے۔آیئے ہم ایک دوسرے کے لیے کچھ کریں۔ ہم جوش اور فخر کے ساتھ کچھ نہ جانتے ہوئے، تمام سوالات کے جوابات کے اور سامنے والے کو تفصیل سے بتانے کا موقع دیے بغیر، اس کے بارے میں کوئی رائے قائم نہ کریں۔ یہ واقعی جادوئی ہے۔ اور مجھے اس بات کا یقین ہے کہ اگر آپ اس پر عمل کریں گے تو آپ سب سے بہترین تعلقات بنانے میں کامیاب ہوں گے، سب سے بہترین بزنس کریں گے اور آپ کو چاروں طرف سے لاجواب حمایت حاصل کریں گے۔

اور جیسا کہ ایک پرانی کہاوت ہے، کئی بار آپ ہار کر بھی جیتتے ہیں۔ ایسے ہی کچھ نہ جاننے میں بھی کئی بار آپ کے پاس بہت کچھ جاننے اور سیکھنے کا موقع ہوتا ہے۔

(یہ مضمون بنیادی طور پر: انگریزی میں یور اسٹوری کی بانی اور ایڈیٹر ان چیف شردھا شرما نے لکھا ہے جس کا ترجمہ زلیخا نظیر نے کیا ہے۔)

اسی طرح کی ترغیب کہانیاں پڑھنے کے لئے فیس بک کے صفحے پر جائیں اور لائک کریں.... 

فیس بک