پھل فروش نے بنائی’ سولر ‘کار... اُسی کار میں سفر کر کے بنگلور سے پہنچے دہلی...

 پھل فروش نے بنائی’ سولر ‘کار...
 اُسی کار میں سفر کر کے بنگلور سے پہنچے دہلی...

Tuesday December 15, 2015,

4 min Read

’آئی آئی ٹی‘ دہلی میں منعقد ’آئی آئی ایس ایف‘ 2015 میں اپنی ایجاد کردہ کار کو لے کر آئے بنگلور کے سیّد سجّاد احمد ...

سابق صدر جمہوریہ اے پی جے عبدالکلام کو اپنا آئیڈیل ماننے والے بنگلور کے سجّاد احمد نئی دہلی کے’ آئی آئی ٹی‘ کمپلیکس میں منعقد سائنس، ٹیکنالوجی اور صنعتی ’ایکسپو‘ میں اپنی ایجادکردہ ’ سولر الیکٹرک کار‘لے کر پہنچے ۔ انہوں نے اپنی کار ہرشخص کو جوش و خروش کے ساتھ دِکھائی، ظاہر ہے لوگوں کی دلچسپی اور تجسس بڑھنا ہی تھا۔

image


ہندوستان میں پہلی بار منعقد ہوئے انڈیا انٹرنیشنل سائنس فیسٹيول (آئی آئی ایس ایف) کے تحت منعقد ’ایکسپو‘ میں حصّہ لینے کے لئے احمد نے بنگلور سے دہلی کا 3,000 کلومیٹر کا سفر اپنی اِسی کار سے طئے کیا۔ یہ سفر کافی مشکل تھا، جس کے دوران انہوں نے ’وِندھيا‘ پہاڑی سلسلےکو بھی پار کیا ۔ یہ سفر انہوں نے 30 دنوں میں طئے کیا۔

کیسےچلتی ہے یہ کار

اُن کی اِس ’ سولر الیکٹریکل ‘ کار میں پانچ سولر پینل لگے ہوئے ہیں، جس میں ہر ایک کی صلاحیت 100 واٹ کی ہے ۔ آلات سے لیس اُن کی اس گاڑی کے پینل سے پیدا کی گئی توانائی چھ بیٹریوں کے ذریعے موٹر کو چلاتی ہے ۔ کار میں لگی ہر بیٹری کی صلاحیت 12 وولٹ اور 100 ایمپيئر ہے ۔ انہیں فخر ہے کہ اُن کی یہ کار اس قدر طویل سفر کے امتحان میں کامیاب رہی ہے ۔ انہوں نے بتایا

’’ 'سفر کے دوران وہ وقت بھی آیا جب انہیں ایسا لگا کہ اُن کی یہ کار اونچی نیچی سڑکوں پر نہیں چل سکے گی ۔ اِس کے باوجود اُن کی اِس ایجاد کردہ کار نے ان کا مکمل طور پر ساتھ دیا اور اِس دوران انہیں کسی رُکاوٹ یا مسئلے کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔

اسکول چھوڑنے سے ایجاد کرنے تک کا سفر

احمد کی پیدائش کرناٹك کے’ کولار‘ میں ہوئی۔ کلاس 12 میں ہی پڑھائی چھوڑدینے والے احمد نے گُزر بسر کے لئے سب سے پہلے پھل فروخت کئے۔ اس کے بعد انہوں نے الیکٹرانک آلات کی مرمّت کے لئے ایک دکان کھولی جس میں وہ ٹرانزسٹر، ٹیپ ریکارڈر، ٹی وی وغیرہ ٹھیک کیا کرتے تھے ۔ اپنے کام میں ترقی کرتے ہوئے انہوں نے کمپیوٹر بھی ٹھیک کرنا شروع کر دیا تھا ۔ بچپن سے ہی اُن کا ایک خواب تھا کہ وہ اپنےمعاشرے کے لئے کچھ کریں ۔ اِسی خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے کے لئے انہوں نے بڑے پیمانے پرکچھ ایجاد کرنے کے متعلق سوچا۔

احمد نے’ يورسٹوري‘ کو بتایا :

’’جب میَں اسکول میں تھا تو کورس کی کتابوں میں سائنسدانوں کی تصاویر دیکھ کر خود بھی ایک سائنسداں بننا چاہتا تھا ۔ حالانکہ خاندان کی گزر بسر کے لئے مجھے 15 سال کی عمر میں ہی اسکول چھوڑنا پڑا۔‘‘
image


اِس کے باوجود معاشرے کے لئے کچھ کرنے کی آرزو اورکچھ نہ کچھ ایجاد کرنے کی خواہش ہمیشہ احمد کے دل میں برقرار رہی ۔ اور بالاخر یہ موقع انہیں سال 2002 میں ملا ۔ احمد نے کہا :

’’میَں نے خود سے کہا کہ اب میری عمر 50 سال ہو چکی ہے اور اِس سے پہلے کہ میں بوڑھا اور بے بس ہو جاؤں مجھے معاشرے کے لئے کچھ کرنا چاہئے ۔‘‘

انهوں نے ’ٹو وہیلر‘ گاڑی میں اس قسم کی تبدیلیاں کیں کہ جس سے وہ بجلی سے چل سکے ۔ اِس کے بعد انہوں نے اِسی ماڈل سے ’تھری وہیلر‘ اور ’فور وہیلر‘ گاڑیاں بھی بنائیں ۔ احمد کی اِن ایجادات کے لئے انہیں کرناٹک حکومت کی جانب سے ماحولیاتی تحفظ کے لئے سال 2006 میں ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام کے اعزاز میں منعقد ایک پروگرام میں ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔

اب تک وہ ملک کے مختلف حصّوں میں منعقد کی جانے والی کئی سائنسی نمائشوں میں حصّہ لے چکے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ وہ 1,10,000 کلومیٹر کا سفر کر چکے ہیں اور مستقبل میں بھی سائنس کو فروغ دینے کے لئے سفر کرتے رہیں گے ۔ اُن کے اِس سفر میں اُن کےچچیرے بھائی سلیم پاشا بھی اُن کے ساتھ رہتے ہیں ۔ سلیم پاشا ایک کاروباری ہیں اور ریشم کے کاروبار سے وابستہ ہیں۔

image


احمد کے اِس سفر کا مقصد واضح ہے ۔ وہ ڈاکٹر کلام کے 2020 کے ویژن یعنی کہ ملک کی فلاح و بہبود کے خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنا چاہتے ہیں ۔ اُن کایہ سفر لوگوں کو نئے جوش اور ولولے سے سرشار کرنے،کسی ایجاد کے لئے تحریک دینےاور تعلیم یافتہ کرنے کے لئے ہے۔

دہلی کے لئے اُن کا یہ سفر بنگلور کے راج بھون سےیکم نومبر کو شروع ہوا تھا۔ احمد نے کہا کہ اب وہ اپنے گھر جانے سے پہلے’ ہری دوار‘ جا کر گنگا میّا کا آشیرواد لینااور بابا رام دیو سے ملنا چاہتے ہیں ۔ ’ہری دوار‘ کے بعد وہ ’ رالے گن سدّھی‘ جائیں گے اور انّا ہزارے سے بھی ملیں گے۔

قلمکار : انمول

مترجم : انور مِرزا

Writer : Anmol

Translation by : Anwar Mirza