میں ابھی سیکھنے کے دور میں ہوں : نوجوانوں سے پر امید رتن ٹاٹا

میں ابھی سیکھنے کے دور میں ہوں : نوجوانوں سے پر امید رتن ٹاٹا

Tuesday February 09, 2016,

11 min Read

کیلاری کیپیٹل کے اسٹارٹ سیڈ پروگرام میں سامعین کو کاروباری دنیا کی عظیم شخصیت رتن ٹاٹا سے نہایت بے باکی سے گفتگو کرتے ہوئے سننے کا موقع ملا۔ کیلاری کیپیٹل کی مینیجنگ ڈائریکٹر وانی کولا کے ساتھ ایک بات چیت کے دوران کاروباری دنیا کی اس نامور ہستی نے کامیابی، ناکامی، مواصلات کی اہمیت پر اپنے تجربات لوگوں کے ساتھ شیئر کرنے کے علاوہ کھُل کر اس بارے میں بتایا کہ ان کی سوچ کے مطابق جب وہ محض 26 برس کے تھے تب وہ کیا منفرد کرسکتے تھے۔ اس موقعے پر موجود تمام ناظرین ان کے منہ سے نکلنے والے ہر لفظ اور پُر لطف قصوں میں بندھ کر رہ گئے۔ اور انہوں نے بھی اپنے بالکل انوکھےاور سادگی بھرے انداز میں سب کا دل جیت لیا۔

انہیں کس طرح کے نظریات کی حمایت کرنا پسند ہے:

جب میں کسی چیز کو اچھی طرح کام کرتے ہوئے دیکھنے میں کامیاب ہوتا ہوں تب میرے دل میں کئی طرح کے خیالات پیدا ہونے لگتے ہیں۔ جب آپ کو اطمینان کے لمحات میسر ہوتے ہیں تو آپ آرام سے بیٹھ کر یہ سوچ سکتے ہیں کہ کس طریقے سے بہتر یا پھر تیزی کے ساتھ کام کیا جاسکتا ہے یا پھر کیسے اس کام کو کم خرچ میں انجام دیا جاسکتا ہے۔ کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں جو ان خیالوں کو صرف اپنے دماغ میں ہی چھوڑ دیتےہیں اور دوسری طرف کئی ایسے بھی لوگ ہوتےہیں جو ان خیالات سے کچھ مثبت نتیجہ نکالنے کے لئے اپنا خون پسینہ بہاکر بھی ان خیالات سے ایک کامیاب کاروبار کی بنیاد ڈالتے ہیں۔

وہ کیا چیز ہے جو انہیں اسٹارٹپس کی جانب متوجہ کرتی ہے:

اکثر اسٹارٹپس ایک غیر خدماتی یا موقعوں سے خالی شعبے میں کام کرنے کے باوجود اپنے آس پاس ایک خیال یا فکر کی بنیاد رکھ رہے ہیں۔ میں نے 20 سے 20 برسوں تک چمنی سے چلنے والی ایسی صنعتوں میں کام کیا ہے جہاں آپ کو ایک چھوٹی سی چیز کی تیاری کے لئے بھی لاکھوں ڈالر خرچ کرنے پڑتے ہیں تب جاکر آپ کو کامیابی ملتی ہے۔ آج کے اس دور میں اسٹارٹپ دنیا کے ساتھ سب سے اچھی بات یہ ہے کہ آپ اپنے خیالات کو بہت ہی کم وقت میں طبعی شکل دے سکتے ہیں، پھر چاہے وہ سافٹ وئر کا شعبہ ہو یا پھر چِپ سیٹ ڈِزائن کا، اور ساتھ ہی آپ دنیا کے اس خصوصی شعبے کو دیکھنے کا نظریہ بدلنے میں بھی کامیاب ہو اُٹھتے ہیں۔ اس شعبے کی یہی بات اپنے آپ میں لاثانی اور حوصلہ بخش ہے۔

میں بہت عاجزی کے ساتھ یہ تسلیم کرنا چاہوں گا کہ کئی بار مجھے ایسا لگا کہ فلاں خیال یا نظریہ کام نہیں کرے گا اور پھر وہی خیال ایک بہت بڑی کامیابی بن کر دنیا کے سامنے آیا ہے۔

"میں ابھی بھی سیکھنے کی حالت مٰں ہوں اور دیکھ دیکھ کر سیکھ رہا ہوں کہ کس طرح نوجوان اور دانشور نوجوان ایک بہت ہی اہم صلاحیت کے ساتھ کیا کچھ نہیں کر رہے ہیں اور اسی کا نام ہے تکنیک۔"

مثال کے لئے اسمارٹ فون کو ہی لےلیجئے۔ یہ لوگوں کی زندگی میں کتنی بڑی تبدیلی لانے میں کامیاب رہاہے۔ اگر آپ کے پاس اسمارٹ فون نہیں ہوتا تو اب تک کتنے نئے خیالات اور نظریات یوں ہی ختم ہوچکے ہوتے۔ آج کے دور میں تکنیک آپ کو ایسے کاروبار قائم کرنے کے مواقع فراہم کر رہی ہے جن کے بارے میں آج سے 20 برس قبل کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔

image


کسی بھی کاروبار کے لئے بنیادی اصول:

میرے لئے ، ذاتی طور پر، جزوی شکل میں نیکی کے جذبے کے تحت، جب کوئی خیال تبدیلی لانے والا محسوس ہوتا ہے، جو کسی طبقے کی زندگی میں خوشحالی لاسکتا ہے یا پھر لوگوں کے طرزِ حیات میں بہتری لاسکتا ہے تو اس میں میری دلچسپی مزید بڑھ جاتی ہے۔ دوسرا وہ ہے جب کوئی قدیم خیالات کو ہی پلٹ کر رکھ دینے کا مادہ رکھتا ہو اور خود نئی تاریخ رقم کرنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ مجھے سب سے زیادہ پسند ہے۔

"اگر آپ لوگوں کے رہنے، سوچنے اور خود کو بنائے رکھنے کے طریقوں کو بدل رہے ہیں تو وہ بہت ہی زیادہ حوصلہ بخش معاملہ ہوتا ہے۔ آپ کو اس کے بدلے حاصل ہونے والے منافع سے بھی کہیں زیادہ۔"

ایک سرمایہ کار کی خصوصیات:

مجھے ایسا لگتا ہے کہ ایک سرمایہ کار کو کسی میوزک کمپنی کے با صلاحیت اسکاؤٹ کی طرح ہونا چاہیے، کیوں کہ وہاں اسکاؤٹ کو متاثر کرنے کے لئے مختلف بینڈس اپنا بہترین مظاہرہ پیش کرتے ہیں۔ اسے اس بات کا کوئی علم نہیں ہوتا کہ کوئی بھی گروہ یا طبقہ کتنے نمبرات حاصل کرنے میں کامیاب ہوگا یا پھر اس کا مظاہر کیسا ہوگا۔ لیکن اسے اندر سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ فلاں گروہ اچھا کام کرے گا اور وہ اسی کی بنیاد پر ذہنی طور پر کنسرٹ اور ریکارڈنگ کا منصوبہ تیار کرتا ہے۔ کوئی بھی شخص سرمایہ کاروں کی جانب اسی طرح جذبے کے ساتھ نظر ڈالتا ہے کہ اس کی کمپنی کیا کرنے کی تیاری کر رہی ہے، کیا وہ صرف اپنے پیسے کا ہی جوکھم نہیں لے رہا ہے بلکہ اسے کامیاب بنانے کے لئے اپنے رابطوں اور اپنی معلومات کا استعمال کر کے اس سفر میں اس کا ساتھی بھی بن رہا ہے۔ یہ صرف ہندسوں کا ہی کھیل نہیں ہے کیوں کہ کئی مرتبہ عقلِ سلیم بھی ہوتی ہے جس کی طرف ہم توجہ نہیں دیتے۔ لیکن ہمیں اس نتیجے تک پہنچنے سے پہلے کہ یہ ایک پُرجوش نیا کاروبار ہے، ہمیں دھیان دینا چاہیے۔

سرمایہ حاصل کرنے کے لئے نئے کاروباریوں کو کچھ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے: ترقی بمقابلہ منافع:

اس کا کوئی متعینہ پیمانہ یا اصول نہیں ہے۔ گزشتہ دو یا تین برسوں میں کچھ کمپنیاں جن میں میں نے سرمایہ کاری کی ہے، وہ میرے بھروسے سے زیادہ اضافہ درج کرنے میں کامیاب رہی ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ترقی کی اس شرح کو آگے بھی حاصل کیا جاسکتا ہے؟ کیوں کہ ابتداء میں آپ کے پاس خرچ کرنے کے لئے کچھ پیسہ ہوتا ہے جو آگے چل کر آپ کے گلے کا پھندا بن جاتا ہے۔ اس کے باوجود کئی کمپنیاں ایسی ہیں جو اپنی شرحِ ترقی کو بنائے رکھتی ہیں اور مسلسل کچھ نیا کرتی رہتی ہیں ۔ وہیں کچھ ایسی کمپنیاں بھی ہیں جو کنارے پر گِر کر ختم ہوجاتی ہیں۔ میں دوبارہ کہوں گا کہ یہ آپ کی عقلِ سلیم پر منحصر ہوتا ہے کہ آپ اسے کیسے نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ یہ سوچیں اور جو کچھ بھی ہورہا ہے ، نزدیک سے اس کی نگرانی کریں۔

مختلف سی۔ای۔اوز کے ذریعے شخصی برانڈس کی تیاری کی اہمیت پر روشنی:

میں ایک شرمیلا شخص ہوں اس لئے میں اپنا برانڈ نہیں بنانا چاہوں گا۔ لیکن ایک کمپنی کو برانڈ تیار کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ کئی ایسے لوگ ہیں جو اپنی تیار کردہ کمپنی پر اپنے شخصی برانڈ مسلط کرتے ہیں لیکن یہ کچھ لوگوں کے لئے ٹھیک ہوتا ہے جب کہ کچھ کے لئے یہ ٹھیک نہیں ہوتا۔

کب بیچا جائے یا ایک وِراثت کی تیاری کے بارے میں :

میں صرف اپنی مثال دے سکتا ہوں۔ جب میں نے ٹاٹا گروپ کا کام سنبھالا تب میڈیا میں اس بات کا شور کیا گیا کہ کیسے ہمارے پاس 80 کمپنیاں ہیں اور ہمارا دھیان اپنے بنیادی کاروبار پر نہیں ہے۔ مجھے ٹاٹا گروپ کو چھوٹی کاروباری اکائیوں میں تبدیل کرنے کے لئے ایک ہم آہنگ خیال کو سامنے لانا پڑا اورمیں نے بے کار کی کمپنیوں کو بیچنے کا فیصلہ کیا۔ان میں سے ایک تھی 'ٹامکو' (ٹئلیٹریز کا کاروبار) جس کا بازار میں 25 فی صد شیئر تھا اور یونی لیور بازار میں اول صف میں تھی۔ میں نے بہت غور و فکر کے بعد اسے ایک باعزت طریقے سے یونی لیور کو بیچنے کا فیصلہ کیا اور اس میں میرے شیئر ہولڈرس کو اپنی رقم کے اچھے دام ملنے کے علاوہ تین برسوں تک کسی بھی ملازم یا پھر ڈیلر کو کام نہیں چھوڑنا پڑا۔ میرے خیال میں یہ ایک اچھا سودا تھا لیکن اگلے ہی دن میڈیا ، شیئر بازار، دوسری اور تیسری نسل کے کچھ ملازم مجھ پر برس پڑے۔ اور اس طرح میرا منصوبہ مٹی میں مل گیا۔ میری خود اعتمادی غائب ہوگئی۔ اسے انجام دینے کا کوئی آسان طریقہ نہیں ہے۔ آپ کیا کرنا چاہتے ہیں آپ کو اس سے متعلق تفصیلی مذاکرہ کرنا ہوتا ہے۔


کس نوعیت کی نئی کمپنیوں کو اپنے بورڈ اور مشاورین کی تنظیم کرنی چاہیے:

"کامیاب کمپنیاں اپنے تمام خیر خواہوں کے ساتھ مکالمہ قائم کرنے میں زمین آسمان ایک کردیتی ہیں۔ اس عمل میں صرف بورڈ آف ڈائریکٹرس ہی نہیں بلکہ اس سے وابستہ ہر شخص شامل ہوتا ہے۔ "

کوئی بھی شخص چونکتے ہوئے آنکھیں کھولنا نہیں چاہتا ۔ تمام خیر خواہوں کے ساتھ مکالمہ قائم کرنے کا ایک شعوری اور فعال طریقہ کار یہ نظم ہے جس میں کوئی بھی کامیاب سی۔ ای۔ او ، ماہر ہوتا ہے اور یہ خاصیت اس کی شخصیت میں چار چاند لگادیتی ہے۔ آپ خود کو دنیا کے سامنے کس طرح پیش کرتے ہیں اور کیسے دوسروں کے ساتھ مکالمہ قائم کرتے ہیں، دنیا کی نظریں اسی پر ٹکی ہوتی ہیں۔

کامیابی کا جشن کس طرح مناتے ہیں:

ٹاٹا نینو کو لانچ کرنا میری زندگی میں کامیابی کا ایک نہایت اہم لمحہ تھا، کم سے کم اس کا مثبت حصہ (تھوڑی دیر کے لئے رکتے ہوئے۔۔ اسی دوران ناظرین ان کی بات کا مطلب سمجھنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں اور پورا ہال قہقہوں سے گونج اُٹھتا ہے۔) بنگلور میں منعقدہ ایک طویل بورڈ کی نشست کے دوران نینو کی تیاری کا خیال ذہن میں آیا۔ اس سے قبل میں اپنی آنکھوں سے وہ منظر دیکھ چکا تھا جب ایک خاندان کے چار لوگ ایک اسکوٹر پر سوار ہوکر کہیں جا رہے تھے اور ایک پھسلن بھری سڑک پر وہ حادثے کا شکار ہوگئے۔ اس حادثے نے مجھے ایک سستی خاندانی کار کے بارے میں سوچنے پر مجبور کیا۔ اسی خیال کے تحت میں نے بورڈ آف ڈائریکٹرس کی نشست میں اسکوٹر کو زیادہ محفوظ بنانے کے بارے میں غور و فکر شروع کیا جو آگے چل کر ایک سستی خاندانی کار کی شکل اختیار کرگیا۔ وہاں سے لے کر ایک ٹیم بنانے تک حقیقت میں جس نے اس خیال کو طبعی شکل دیتے ہوئے نینو بنائی، وہاں سے لے کر دہلی میں منعقد ہونے والے 'آٹو ایکسپو' تک ، جہاں میں خود اسے چلاکر اسٹیج تک لے کر گیا۔ دراصل وہ بھی اپنے آپ میں ایک مصیبت جیسا ہی تھا کیونکہ جب میں اسے چلاکر لے جارہا تھاتبھی مجھے احساس ہوا کہ اس میں تو لائٹ ہے ہی نہیں اور مجھے اس بات کا کوئی علم ہی نہیں تھا کہ اسٹیج کہاں ختم ہورہا ہے اور ناظرین کہاں شروع ہورہے ہیں۔

مجھے کار کو ایک موٹرائزڈ ٹرن ٹیبل پر روکنا تھا۔ مجھے موسیقی کے بند ہونے سے قبل کار کے انجن کو بند کرنا تھا کیوں کہ اگر وہ شاندار موسیقی پہلے بند ہوجاتی تو اسے دوران کار کے انجن سے آنے والی پُٹ پُٹ کی آواز بہت ہتک آمیز ثابت ہوتی۔

کوئی ایسی چیزجو وہ چاہتے ہیں کہ انہیں معلوم ہوتی جب وہ 26 سال کے تھے؟

جب میں جمشید پور میں ایک نوجوان ملازم کی شکل میں کام کر رہا تھا اور جب بھی میرے دل میں کوئی نیاخیال پیدا ہوتا تو میں اپنے افسران کے پاس جاتا، تو وہ مجھے صبر کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہتے کہ اس کام کو گزشتہ 30 برسوں سے اسی مخصوص طریقے سے انجام دیا جارہا ہے۔ اور میں چُپ چاپ واپس چلاجاتا۔ میں ایک ایسے ماحول کے لئے ترستا تھا جہاں میں کھُل کر اپنے خیالات کو پیش کرسکوں۔ میں امید کرتا ہوں کہ میں اس وقت مزید بہتر طریقے سے گفتگو کرسکتا تھا۔


نسائی قیادت کے بارے میں:

کئی معنوں میں، خصوصی طور پر بھارت میں، خواتین دیگر ممالک کی بہ نسبت زیادہ تیزی سے اوپر پہنچی ہیں۔ بورڈ روم میں اور کاروبار میں بھی کئی خواتین ہیں جو سامنے آئی ہیں اور کامیابی کے پرچم لہرارہی ہیں۔ لیکن یہ بھی ایک سچائی ہے کہ ایسی خواتین کی گنتی ابھی امید سے کہیں کم ہے۔ ان میں کسی بھی طرح کی کوئی کمی نہیں ہے اور مجھے ایسا لگتا ہے کہ جیسے جیسے ہم آگے بڑھیں گے، ہمیں کمپنیوں میں مزید خواتین کو سرکردہ جگہوں پر دیکھنے کو ملے گا۔



تحریر: سوما رامچندرن

مترجم: خان حسنین عاقبؔ