غریب بچوں کو تعلیم دینے کےلیے ایک سی اے نے اپنا شاندار مستقبل قربان کردیا

چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ ہے کنجل سہگل... کنجل سہگل نے دلی یونیورسٹی سے بی کام اور سی۔ اے کیا... ایک بہترین نوکری کو قربان کرکے ایک غیر سرکاری تنظیم کی بنیاد رکھی... سریتا ویہار میں غریب بچوں کو پڑھاتی ہے کنجل سہگل 

غریب بچوں کو تعلیم دینے کےلیے ایک سی اے نے اپنا شاندار مستقبل قربان کردیا

Sunday January 31, 2016,

5 min Read

مقابلے کے اس دور میں ہر کوئی یہ چاہتا ہے کہ وہ ترقی کرے، اس کے ساتھی اس کی کامیابی کی مثالیں دیں- اس کا مستقبل تابناک ہو- زندگی کی ساری خوشیاں میسر ہوں- اس کے بر عکس کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کا نظریہ زندگی مختلف ہوتا ہے- پہلے وہ خود کے مستقبل کو سنوارنے کی فکر کرتے ہیں بعد میں جب وہ اپنا موازنہ غریب اور محروم لوگوں سے کرتے ہیں تو وہ آخر کار بہت بڑا قدم اٹھا تے ہیں –ایسا قدم جس کے بارے میں عموما بہت کم لوگ سوچتے ہیں - زندگی میں وہ بہترین طریقہ زندگی کو اپنا چکے ہوتے ہیں لیکن تب بھی وہ اسے ترک کرکے زندگی کو دوسروں کی بھلائی کےلیے صرف کردیتے ہیں۔

image


ایسی ہی ایک عورت ہیں کنجل سہگل - پیشے سے چارٹر اکاونٹنٹ ہیں۔ اپنی نوکری چھوڑ کر وہ سماجی خدمات کے شعبے سے منسلک ہوئیں اور غریب بچوں کو انگریزی کی تعلیم دینے لگیں۔ اس کام کے شروعاتی دنوں ہی ان کی محنت رنگ لائی - پہلے دس بارہ ہی لڑکیاں آتی تھیں لیکن جلد ہی ان کی کلاسس میں آنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلاگیا۔
image


کنجل نے ہنس راج کالج دلی یونیورسٹی سے بی کامCA کیا پھر ممبئی میں کوٹک مہندرا بینک میں ڈھاسال نوکری کی لیکن کنجل ہمیشہ سے سماج کی فلاح کےلیے کام کرنا چاہتی تھیں - گریجویشن کے دنوں میں ہی وہ والدین سے کہا کرتی تھیں کہ وہ نوکری نہیں کرنا چاہتی ہیں بلکہ اپنی سطح پر غریب غرباء کی مدد کرنا چاہتی ہیں- انہوں نے CA کیا اس کے بعد ممبئی میں نوکری کی لیکن وہاں ان کا دل نہیں لگا۔ وہ اب پوری طرح سماج کی فلاح وبہبود کےلیے خود کو وقف کرنا چاہتی تھیں - جو ان کا خواب تھا - انہوں نے اپنی نوکری چھوڑ دی اور ایک NGO 'آدھی یگیہ' کی شروعات کی- کنجل کا کہنا ہے ان کے اس فیصلے میں ان کے دوست احباب بھی شامل ہیں -

جنوری 2015 میں کنجل نے اپنا NGOرجسٹرڈ کروایا- کافی ریسرچ کے بعد 2015 میں انہیں معلوم ہوا کہ غریب بچے سرکاری اسکول تو جاتے ہیں لیکن ان کی انگریزی بہت کمزور ہے وہ انگریزی کے بنیادی علم سے بھی واقف نہیں - کنجل نے بچوں کو انگریزی پڑھانا شروع کیا - کنجل کا کہنا ہے کہ مقامی لوگوں کا بھی اس کام میں کافی تعاون رہا- پہلے کچھ شرارتی بچے جو کلاسیز میں آکر ناحق ڈسٹرب کیا کرتے تھے انہیں مقامی لوگوں کے تعاون سے ہی روکا گیا۔
image


ان کی پہلی جماعت 12لڑکیوں کی تھی - لیکن آج چھ ماہ میں ان کی کلاس میں آنے والے بچوں کی تعداد 90سے زائد ہے۔ ماہ اگست میں کنجل نے سریتا وہیار علاقے میں ایک ایوینٹ ارگنائیز کیا جس کو علاقے کے لوگوں نے کافی سراہا و پسند بھی کیا۔ کئی لوگ ان کے NGO میں شامل بھی ہوگئے - اب وہ بھی بچوں کو پڑھاتے ہیں –

کنجل مانتی ہے تعلیم کا سب پر حق ہے- یہ سرکار کا فرض ہے کہ وہ ملک کے ہر بچے کو مفت اور اچھی تعلیم مہیا کرے۔ تعلیم انسان کو ترقی یافتہ، تحریکی، خود اعتماد اورخود کفیل بناتی ہے- اس لیے تمام لوگوں کےلیے سرکار نے تعلیمی میدان میں اپنا تعاون دینا چاہئے - کنجل بچوں کو پڑھاتی ہی نہیں بلکہ ان کی ہمہ جہت ترقی کی بھی فکر کرتی ہے- جس سے بچوں میں خود اعتمادی پیدا ہورہی ہے- وہ ہر چیز کا باریک بینی سے مشاہدہ و مطالعہ کررہے ہیں - آج کنجل کے پاس نئے نئے بچے آرہے ہیں - بچوں میں انگریزی سیکھنے کی لگن بڑھ رہی ہے- ہر ماہ آنے والے بچوں کی تعداد میں دن بہ دن اضافہ ہورہا ہے

کنجل کا کہنا ہے کہ بچوں کے گھر سے ان کے اہلِ خانہ اور متعلقہ افراد آکر انہیں بتاتے ہیں کہ بچے گھر میں بھی انگریزی میں بات چیت کرنے کی کوشش کررہے ہیں - جسے کنجل ایک مثبت تبدیلی مانتی ہیں- وہ بچوں کوانگریزی قواعد، پڑھنااور رائیٹنگ سکھاتی ہیں- جس کے بہترین نتائج سامنے آرہے ہیں - اسکول میں بھی وہ نمایاں کامیابی حاصل کررہے ہیں – ان کی خود اعتمادی بڑھ رہی ہیں - اب انہیں بھی تعلیم کی اہمیت سمجھ میں آرہی ہے - کنجل اور دیگر والینٹیر بچوں کو دوستانہ اور مشفقانہ ماحول میں تعلیم دیتے ہیں۔ راجستھان کیمپ میں لگ بھگ ہر دن کلاسیز شروع رہتی ہیں - یہاں درجہ دوم سے بارہویں جماعت تک کے بچے آتے ہیں -

image


کنجل کے بہترین کام کو دیکھتے ہوئے کئی لوگوں نے انہیں ڈونیشن کےلیے آفر بھی دی لیکن ابھی وہ کسی قسم کے ڈونیشن کو قبول نہیں کرنا چاہتیں۔ وہ فی الحال خود کی بچت سے سارا خرچ اٹھا رہی ہے- اپنے کام سے کنجل مطمئن اور خوش ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ہر نیا دن انہیں نئی امنگ اور نئی روشنی دیتا ہے- مستقبل میں وہ کئی تجربات کرنا چاہتی ہیں جن سے ملک و قوم کے لوگ فائدہ اٹھا سکیں۔

تحریر: آسوتوش کھنٹوال

مترجم: ہاجرہ نور احمد زریابؔ