میتھلی زبان کے پہلے ای پیپر کی خاتون ایڈیٹر کُمُد سِنگھ

 میتھلی زبان کے پہلے ای پیپر کی خاتون ایڈیٹر کُمُد سِنگھ

Wednesday December 02, 2015,

5 min Read

میتھلی زبان میں ہے 'اسماد' ۔۔۔

سال 2007 سے چل رہا ہے 'اسماد' ۔۔۔

6 خواتین نے مل کر شروع کیا تھا ای پیپر۔۔۔

بدیلتے وقت کے ساتھ معاشرے میں خواتین کی شرکت اور ان کا کردار بھی بدل رہا ہے۔ حال حال تک بھی یہ سمجھا جاتا تھا کہ خواتین مشکل حالات میں فیصلہ لینے کی قادر نہیں ہوتیں، لیکن اب یہ بات گزرے زمانے کی ہو گئی ہے۔ حالیہ وقت میں خواتین کے تئیں لوگوں کی سوچ بدلی ہے۔ آج خواتین گھر کی چاردیواری سے باہر نکل کر اپنی شناخت بنا رہی ہیں۔ آج خواتین میں اتنا اعتماد آ گیا ہے کہ وہ معاشرے میں تبدیلی لانے کی طاقت رکھتی ہیں۔ مثال پٹنہ میں رہنے والی کُمُد سنگھ کی ہی لیجئے،جو کبھی اسکول نہیں جا سکیں، آج وہ میتھلی زبان میں 'اسماد' نام کا ای پیپر چلا رہی ہیں۔ یہ میتھلی زبان کا پہلا ای پیپر ہے۔

image


کُمُد سنگھ نے گھر پر رہ کر ہی تعلیم حصل کی، کیونکہ ان کے والدین مدھوبنی کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں رہتے تھے اور وہاں سے اسکول کافی دور تھا۔ اس گھر پر ہی انہیں سکھانے کے لئے ٹیچر آتے تھے۔ وقت کے ساتھ جب وہ بڑی ہوئی تو ان کی شادی ہو گئی۔ ان کے شوہر پیشے سے صحافی ہیں۔ کُمُد کے مطابق ان کے گھر میں کمپیوٹر تھا جس میں ان کے شوہر اکثر کام کیا کرتے تھے اور جب ان کے بچے بھی کمپیوٹر سے جڑنے لگے تو ان سے سے کُمُد کا رجحان بھی کمپیوٹر کی طرف ہونے لگا۔ آہستہ آہستہ کُمُد کا کمپیوٹر سے اتنا لگاؤ ہو گیا کہ آج ان کی فیس بک میں الگ پہچان ہیں۔ جہاں پر وہ بیباکی سے اپنی رائے رکھتی ہیں۔ آج وہ کمپیوٹر میں اپنے ای پیپر سے منسلک تمام کام کرتی ہیں۔ پھر چاہے خبر ڈھوڈھن ہو یا لکھنی ہو۔ وہ خود ہی اپنے ای پیپر صفحے كپوز کرتی ہیں۔

دراصل کُمُد کو ای پیپر شروع کرنے کا خیال اپنے شوہر کی پریشانی کو دیکھ کر آیا۔ ان کا کہنا ہے، "میرے شوہر پیشے سے صحافی ہیں ایسے میں کئی بار ان کی لکھی بہت خبروں کو اخبار میں جگہ نہیں مل پاتی تھی جس میں وہ کام کرتے ہیں۔ اس وجہ سے بہت بار وہ گھر آکر انتہائی دکھی ہوتے تھے۔"

image


کُمُد کے دل میں خیال آیا کہ کیوں نہ شوہر کی تکلیف کو تھوڑا کم کرنے کے لئے کچھ کیا جائے۔ اس کے لئے انہوں نے سوچا کہ کیوں نہ ایسا ای-پیپر شروع کیا جائے جس میں ان کے شوہر کی لکھی خبریں بھی شامل کی جا سکیں، جسے وہ عوام تک پہنچانا چاہتے ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے سوچا کہ کیوں نہ عوام تک ایک دوسرے کے سکھ دکھ سےبھری باتیں بانٹی جائیں۔ جس کے بعد انہوں نے اس کے بارے میں اپنے شوہر سے بات کی تو انہوں نے ان کی حمایت کی اور ان کو اس کام کو شروع کرنے کے لئے ٹریننگ بھی دی۔

میتھلی زبان کا یہ ای پیپر سال 2007 سے بغیر رکے چل رہا ہے۔ جب کُمُد نے اس کام کو شروع کیا تو ٹیم میں صرف 6 لوگ تھے خاص بات یہ تھی کہ وہ تمام خواتین تھی، لیکن وقت کی تبدیلی کے ساتھ آج بہت سارے مرد ساتھی بھی ان کی ٹیم میں شامل ہیں۔ کُمُد کا کہنا ہے کہ آغاز میں لوگوں کے لئے خبریں حاصل کرنے کا یہ بالکل نیا طریقہ نیا تھا۔ اس لئے لوگوں کو ان کا خیال زیادہ پسند نہیں آیا۔ لیکن کُمُد اور ان کی ٹیم کا حوصلہ پست نہیں ہوا اور وہ مسلسل محنت کرتے رہے۔ آج اس کا اثر یہ ہوا کی آہستہ آہستہ لوگوں کو 'اسماد' پسند آنے لگا اور اس کی مقبولیت بڑھنے لگی ہے۔ میتھلی جاننے اور بولنے والے لوگوں کو اب انتظار اسماد کا رہتا ہے ۔

میتھلی زبان میں ای- پیپر کیوں؟ اس کے جواب میں کُمُد کا کہنا ہے ، "میں میتھلی میں ہی کافی آرام دہ محسوس کرتی ہوں، میرے لئے میتھلی زبان کے علاوہ دوسری زبان میں اخبار نکالنا ممکن ہی نہیں تھا۔ "وہ بڑی خوشی سے کہتی ہیں کہ اس اخبار کو میتھلی میں نکالنے کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ جو لوگ میتھلی زبان نہیں جانتے ہیں، وہ بھی اب میتھلی زبان کو پڑھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

image


'اسماد' ای پیپر میں سیاسی اور سماجی خبروں کے علاوہ بیرون ملک بھی کی خبریں ہوتی ہیں۔ حتٰی کہ لندن جیسے شہروں کی خبریں بھی ان کے اخبار میں دیکھنے کو مل جائے گی۔ لیکن بہار سے منسلک خبریں یہ اپنے اخبار میں نمایاں شائع کرتی ہیں۔ وہیں اس اخبار میں قتل یا لوٹ مار جیسی خبروں کے لئے کوئی جگہ نہیں ہوتی۔ خبروں کے انتخاب میں یہ کبھی کبھار شوہر کی بھی رائے لیتی ہیں، لیکن خبروں کے معاملے میں کوئی بھی حتمی فیصلہ ان کا خود کا ہوتا ہے۔ اپنے ای پیپر کے لئے دوسرے شہروں سے خبریں کس طرح floats کے جاتی ہیں، خبروں کا انتخاب کس طرح کیا جاتا ہے، انہیں کس طرح لکھا جاتا ہے ان سب کی معلومات انہوں نے اپنے شوہر سے ہی حاصل کی ہے۔ آج کُمُد کا دعوی ہے کہ انہوں نے جو کچھ بھی سیکھا ہے وہ اپنے شوہر کے بدولت ہی سیکھا ہے۔

کُمُد کا دعوی ہے کہ یہ ای پیپر کو جتنا بہار میں نہیں پڑھا جاتا اس سے کہیں زیادہ یہ بیرون ملک میں پڑھا جاتا ہے۔ کیونکہ باقاعدہ طور پر مختلف ممالک سے لوگوں کے مختلف طر کے جوابات ملتے رہتے ہیں۔ گھر کی ذمہ داریوں کے ساتھ ای پیپر کی ذمہ داری کو نبھانے کے سوال پر ان کا کہنا ہوتا ہے کہ وہ گھر کی ذمہ داریوں سے تھوڑا وقت چراکر اپنے ای پیپر کے لئے وقت نکال ہی لیتی ہیں۔ کُمُد کا دعوی ہے، "مجھے شروع سے ہی اس بات کا یقین تھا کہ یہ ای پیپر قائم ہوکر رہے گا۔ کیونکہ مجھے آگے ہی پڑھنا تھا، ایسے میں واپس مڑنا میرے لئے ممکن نہیں تھا۔ "

ان کا یہ ای پیپر آج انٹرنیٹ کی دنیا میں خاصا مشہور ہے۔

قلمکار - ہریش بشٹ

مترجم – زلیخہ نظیر