اُپلے فروخت کرنے سے کروڑپتی بننے تک، استحصال کی شکار ایک خاتون کی اثردارکہانی

اُپلے فروخت کرنے سے کروڑپتی بننے تک،  استحصال کی شکار ایک خاتون کی اثردارکہانی

Thursday October 15, 2015,

8 min Read

کلپنا سروج کا شمار ہندوستان کے کامیاب صنعت کاروں اور سرمایہ داروں میں ہوتا ہے۔ وہ کئی کمپنیاں چلاتی ہیں اور کروڑہا روپئے کی مالک ہے۔ خدمت خلق کی وجہ سے ان کی شہرت میں چار چاند لگے ہیں۔

لیکن کلپنا سروج کی زندگی میں جو واقعات رونما ہوئے ان کا تصور بھی نہیں کیاجاسکتا۔ کہانی میں فرش سے لے کر عرش کا سفر ہے۔ گوبر کے اپلے بیچنے والی ایک دلت لڑکی کے آگے چل کر مشہور تاجر اور کروڑ پتی بننے کی منفرد داستاں ہے۔ کلپنا سروج کو چھوت چھات ‘غریبی ‘بچپن کی شادی ‘سسرالی رشتہ داروں کے ہاتھوں استحصال ‘ بے عزتی ‘تنقیدیں ان سب کا تجربہ ہے۔ان حالات سے عاجز کلپنا نے ایک بار خود کشی کرنے کی کوشش بھی کی تھی۔

image


کئی لوگوں کو کلپنا سروج کی کہانی فلمی لگتی ہے۔ مگر اس بات میں کسی کو دو رائے نہیں ہے کہ دکھ ‘درد ‘تکلیف برداشت کرتے ہوئے کامیابی اور اونچا مقام حاصل کرنے کے متعلق یہ کہانی لوگوں کو تحریک دیتی ہے۔

کلپنا سروج ریاست مہاراشٹرا کے ضلع الولہ کے روپر کمیڈا دیہات میں ایک غریب دلت خاندان میں پیدا ہوئیں۔ کلپنا کی پیدائش کے وقت دلتوں کی حالت ٹھیک نہیں تھی۔ دلتوں کے ساتھ دیہاتوں میں امتیازی رویہ اختیار کیاجاتا اور وہ استحصال کاشکار ہوتے۔ چھوت چھات کی لعنت عام تھی۔

کلپنا سروج کے والد محکمہ پولیس میں ملازم تھے۔ انہیں اپنی بیٹی سے بے انتہاء محبت تھی۔ اپنی بیٹی کو تعلیم یافتہ بنانے کی خواہش رکھتے تھے۔ اسی خواہش میں کلپنا کو ایک اسکول میں داخل کردیاگیا چونکہ وہ دلت تھی اس کے ساتھ الگ رویہ اختیار کیاجانے لگا۔ کلپنا کو اپنے کئی دوستوں کے گھر میں آنے نہیں دیاجاتا تھا۔ اسکول میں منعقد ہونے والے پروگراموں میں اسے شرکت کی اجازت نہیں تھی۔ چند ساتھی کلپنا کو چھونا تک گوارانہیں کرتے تھے۔ اس امتیازی رویہ پر کلپنا کو بہت غصہ آتا مگر وہ مجبور تھی۔ کچھ نہیں کرسکتی تھی۔ بے عزتی کے گھونٹ پی کر خاموش رہنے پر مجبور ہوجاتی۔ بچپن میں خاندان کی مدد اور روپئے کمانے کے لیے کلپنا نے گوبر کے اپلئے بھی فروخت کئے ‘لیکن رشتہ داروں اور افراد خاندان کے دباؤ میں کلپنا کی شادی کردی گئی۔ اس وقت کلپنا کی عمر محض12 سال تھی۔ اس کی شادی اس سے 10 سال بڑے ایک آدمی سے کردی گئی۔ شادی کی وجہ سے کلپنا کو اپنا تعلیمی سلسلہ کو ترک کردینا پڑا۔

شادی کے بعد کلپنا کا شوہر اسے ممبئی لے آیا۔ ممبئی پہنچنے کے بعد اسے پتہ چلا کہ اس کا شوہر کرائے کے مکان میں رہتا ہے۔ مسائل کاآغاز اس وقت ہوا ‘ جب کلپنا کے جیٹھ ‘ جیٹھانی نے بدسلوکی کرنا شروع کردی۔ جیٹھ اور جیھٹانی چھوٹی چھوٹی بات پر کلپنا کی بے دردی سے پٹائی کردیتے۔ گالی گلوج کرنا تو عام بات تھی۔ کبھی کبھی تو ان کا رویہ اتنا ظالمانہ ہوتا کہ کلپنا کے بال پکڑ کر نوچتے اور خوب پٹائی کردیتے۔ وقت پر کھانے کے لیے غذا بھی نہیں دی جاتی۔ پریشان کرنے کے لیے بھوکا رکھاجاتا۔ یہ ایام کلپنا کے لیے نہایت تکلیف دہ تھے۔ کلپنا کے والد جب اپنی بیٹی سے ملاقات کے لیے ممبئی گئے تو بیٹی کی حالت دیکھ کر سکتہ میں آگئے۔ انہیں بھی کافی دکھ اور صدمہ پہنچا۔ بیٹی کو پرانے کپڑوں اور جسم پر زخموں کے نشان دیکھ کر وہ سہم گئے۔اسی پل انہوں نے فیصلہ کرلیا کہ وہ کلپنا کو ممبئی میں نہیں چھوڑیں گے۔ اور اپنے ساتھ واپس لے جائیں گے۔ گاؤں واپسی کے بعد کلپنا سلائی بنائی کے کام کرتے ہوئے وقت گذارنے لگی۔ دوبارہ اسکول میں داخلہ لے لیا۔کلپنا نے محکمہ پولیس میں ملازمت حاصل کرنے کی کوشش کی تاہم کامیاب نہیں ہوسکی۔ کچھ وقت کے بعد دیہات میں کلپنا کے ساتھ خراب رویہ اختیار کیاجانے لگا۔ خواتین اور لڑکیاں کلپنا پر فقرے کسنا طعنے دینے کو اپنا معمول بنالیا۔ ان حالات سے عاجز کلپنا نے ایک دن خود کشی کی بھی کوشش کی۔ جراثیم کش دوا پی کراپنی زندگی کاخاتمہ کرناچاہا۔ وہ زمین پر گری ہوئی تھی اور منہ سے کف نکل رہاتھا۔ کلپنا کو اس حالت میں ایک رشتہ دار نے دیکھ لیا اور دوسروں تک اس کی اطلاع پہنچائی۔ اسے فوری دواخانہ منتقل کیاگیا اوراس کی جان بچالی گئی۔

دواخانہ سے واپس آنے کے بعد کلپنا نے ایک فیصلہ کیا۔ اس کا فیصلہ تھا کہ وہ اپنی زندگی اپنی شرائط کے مطابق بسر کرے گی اور دنیا میں کچھ بڑا کام کرکے رہے گی۔ اپنے فیصلہ کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے گاؤں چھوڑ کر دوبارہ خوابوں کے شہر ممبئی کے رخ کرنے کی ٹھان لی۔ وہ اپنے ماں باپ پر بوجھ بننا نہیں چاہتی تھی۔وہ آزادی سے کام کرتے ہوئے اپنا خرچ خود اٹھانا چاہتی تھی۔

ممبئی پہنچ کر اس نے اپنے بھروسہ مند رشتہ دار کے یہاں قیام کیا۔ سلائی مشین کو کمائی کا ذریعہ بنالیا۔چند یوم ایک ہوزیری شاپ میں کام کیا۔ اس دکان میں مزدوری کے نام پر کلپنا کو یومیہ صرف دو روپئے ہی دئے جاتے تھے۔ ایسے تیسے کام چل رہاتھا کہ اس دوران کلپنا کی ایک بہن بیمار پڑ گئی۔ کلپنا کے کمائے روپئے بھی بیمار بہن کی جان نہیں بچاسکے۔ اس مرتبہ کلپنا نے ایک اور بڑا فیصلہ کیا۔ اس نے فیصلہ کیا کہ کمائی کے ساتھ ساتھ خوشی حاصل کرنا بھی ضروری ہے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کلپنا نے کاروبار کرنے کی ٹھان لی اور کاروبار شروع کرنے ذریعہ تلاش کرنے لگی۔

فرنیچر کی تجارت شروع کی اور فرنیچرکی تجارت کے دوران اسی شعبہ سے وابستہ ایک تاجر سے ملاقات ہوئی جس نے کلپنا کا دل جیت لیا۔ دونوں نے شادی کرلی۔ کلپنا نے دو بچوں کو جنم دیا۔ مگر زندگی نے کلپنا کو ایک اور جھٹکہ دیا اور1989 میں کلپنا کے شوہر کا انتقال ہوگیا۔

کلپنا کو اپنے شوہر سے وراثت میں الماری بنانے کا کارخانہ ملا ‘ تاہم کارخانہ خسارہ میں چل رہاتھا۔ اپنے بچوں کی تعلیم اور خوشیوں کے لیے کلپنا نے خسارہ میں چل رہے کارخانہ کو منافع میں لانےکے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگادیا۔ 1995 میں کلپنا نے رئیل اسٹیٹ کی تجارت شروع کی۔ 1997 میں ایک فینانس کمپنی کی مدد سے کلپنا نے 5 کروڑ روپئے کے مصارف سے ایک کامپلکس تعمیر کیا۔ چند ماہ بعد اس کامپلکس کو فروخت کردیاگیا جس سے زبردست منافع حاصل ہوا۔

آہستہ آہستہ اس نے کنسٹرکشن اور رئیل اسٹیٹ میں اپنے قدم جمع لئے۔

منافع سے حاصل ہوئی بڑی رقم سے شکر سازی ‘صنعت میں سرمایہ کاری کی۔ احمد نگر میں واقع سائی کرپا شوگر فیاکٹری کے شیرس خریدے اور کمپنی کی ڈائرکٹر بن گئی۔ اب کلپنا کی پہنچان ایک کامیاب تاجر اور سرمایہ دار کے طورپر ہوگئی۔ کلپنا کی کامیابی کا سفر جاری تھا کہ اسی دوران زندگی نے مزید کامیابیاں اور نیا مقام حاصل کرنے کا ایک اور موقع ہاتھ لگا۔ 2006 میں کلپنا کی کمپنی ’’ کلپنا سروج اینڈ اسوسی ایٹس کو کامنی ٹیوبز نامی کمپنی کو ٹیک اوور کرنے کی پیشکش کی گئی۔ کلپنا سروج کی شہرت کااندازہ کچھ ایسا ہوگیا کہ کامنی ٹیوبز کے مالکوں کو لگنے لگا کہ خسارہ میں چل رہی اس کمپنی کو کلپنا ہی ٹیک اوور کرسکتی ہے۔

کامنی ٹیوبز کا قیام مشہور سرمایہ کار رام جی کمانی نے کیاتھا۔ ان کا شمار ملک کے پہلے وزیراعظم جواہر لال نہرو کے قریبی رفقاء میں ہوتاتھا۔ خاندان میں ابھرے اختلافات کی وجہ سے کمپنی کی کارکردگی اور کاروبار پر برا اثر پڑا تھا۔ ایک وقت ایسا بھی آیا جب کمپنی کوبند کرنے کی نوبت آگئی۔ عدالت کی مداخلت کے باوجود مزدور یونین نے کمپنی کو بند ہونے سے بچالیا۔ اس کے باوجود کمپنی کامیاب نہیں رہ سکی۔ 1998 تک کمپنی کا گھاٹا بڑھ کر 160 کروڑ ہوگیا۔ 2006 میں کلپنا سروج کی جانب سے کمپنی کو حاصل کرنے کے بعد کمپنی کے دن پھر گئے۔ اس خسارہ میں چل رہی کمپنی کو فائدہ میں لانا کلپنا سروج نے چیالنج کے طور پر قبول کیا۔ اپنے اختراعی نظریات ‘ تجربوں ‘مزدوروں کی محنت اور مدد سے کلپنا نے کمانی ٹیوبز کو فائدہ میں لاکھڑا کیا۔ آج کلپنا سروج کو ملک کے صنعتی شعبہ میں مثال کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

دولت ‘شہرت اور جائیداد کی مالک بننے کے بعد کلپنا سروج نے خدمت خلق میں کوئی کثر نہیں چھوڑی۔ خواتین ‘قبائیلی عوام ‘ دلت طبقہ ‘ غریب محروم اور ضرورت مند بچوں کی مدد کے لیے کئی طرح کے پروگرامس منعقد کرتی ہیں۔ ان کی مدد سے چلنے والے اداروں سے ہزاروں بچے جڑے ہیں۔

یہ باہمت خاتون آج کئی کاروباروں سے جڑی ہوئی ہیں۔ کئی کمپنیوں کی مالک ہے۔ کروڑ ہا روپئے ان کے نام ہیں۔ ملک کے کامیاب تاجروں صنعت کاروں میں شمار ہوتا ہے۔ کئی ایوارڈس سے نوازی جاچکی ہیں۔ حکومت ہند کی جانب سے انہیں پروقار پدم شری ایوارڈ بھی نوازا جاچکاہے۔