چوٹی پر پہنچنا اب عادت سی بن گئی ہے ایک ہندوستانی خاتون کی

چوٹی پر پہنچنا اب عادت سی بن گئی ہے ایک ہندوستانی خاتون کی

Monday February 22, 2016,

6 min Read

ماؤنٹ ایورسٹ پر چڑھنے والی سب سے عمردراز ہندوستانی خاتون ہیں پریم لتا

ساتوں براعظموں کی چوٹی پر چڑھنے والی اکلوتی ہندوستانی خاتون بھی ہیں

بیٹیوں کی شادی کے بعد شروع کی تھی کوہ پیمائی

بچھندری پال نے قابلیت پہچان کر نکھارا

جمشید پور کو صرف ٹاٹا سٹیل پلانٹ کے لئے ہی نہیں جانا جاتا ہے بلکہ ایک خاتون نے بھی اس سٹیل نگری کو ملک اور دنیا میں مشہور کیا ہے- جمشید پور کی 52 سالہ پریم لتا اگروال کسی عام ہندوستانی گھریلو عورت جیسی ہی ہیں لیکن ان کے کارنامے ان کو اوروں سے مختلف بنا دیتے ہیں- پریم لتا آج پروتاروہن(کوہ پیما ) کی دنیا میں ایک جانا مانا نام ہیں اور انہیں ملک کے چوتھے سب سے بڑے شہری اعزاز پدم شری سے بھی نوازا جا چکا ہے-

سال 2013میں پریم لتا اگروال نے 50 سال کی عمر میں وہ کارنامہ کر دکھایا جو ہر کوہ پیما کا سب سے بڑا خواب ہوتا ہے- 23 مئی 2013 کو پریم لتا نے 'سیون سمیٹس' یعنی دنیا کے ساتوں براعظموں کی سب سے اونچی چوٹیوں کو فتح کیا اور وہ ایسا کرنے والی پہلی ہندوستانی خاتون بنیں - انہوں نے شمالی امریکہ براعظم کی الاسکا رینج کے پہاڑ مكا كنلے پر چڑھ کر یہ ریکارڈ اپنے نام کیا- دراصل، سات براعظموں کی 7 سب سے اونچی چوٹیوں کو 'سیون سمیٹس' کہا جاتا ہے، جن میں کلیمنجارو ونسن میسف كسكيوجكو، كارسٹنسج پرامڈ، ایورسٹ، اےلبرس اور پہاڑ مك كنلے شامل   ہیں -


image


اس سے پہلے پریم لتا اگروال 20 مئی 2011 کو بھی ملک اور دنیا کو حیران کر چکی تھیں جب انہوں نے دنیا کی بلند ترین چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ پر چڑھنے والی سب سے عمردراز ہندوستانی خاتون ہونے کا اعزاز حاصل کیا تھا- انہوں نے یہ کارنامہ 48 سال کی عمر میں کیا - ایسا نہیں ہے کہ پریم لتا نے یہ کامیابی راتوں رات حاصل کی ہو- اس کے لئے انہیں کئی معیار پر خود کو ثابت کرنا پڑا اور بہت سارے لٹمس ٹیسٹ پاس کرنے پڑے-

دارجلنگ کے چھوٹے سے قصبے سكھي پوكري میں پیدا ہونے والی پریم لتا کی شادی 1981 میں جمشید پور کے ایک مارواڑی خاندان میں ہوئی - شام کے وقت وہ اپنی دو نوں بیٹیوں کو جےآ رڈي اسپورٹس کمپلیکس میں لے کر جاتیں اور وہیں یوگا سيكھتيں- اسی دوران انہوں نے مشہور پرروتاروهي بچھندری پال کی قیادت میں ہونے والی 'ڈالما ہلس واکنگ مقابلہ میں حصہ لیا اور تیسرا مقام حاصل کیا- انعام لیتے وقت انہوں نے بچھندری پال سے بیٹی کو اس اڈوینچر میں منسلک کرنے کا مشورہ کیا تو انہوں نے الٹا پریم لتا کو ہی پروتاروہن کرنے کی تجویز دی- اس طرح 1999 میں 36 سال کی عمر میں انکے پروتاروہن کیریئر کی بنیاد پڑی-

سب سے پہلے وہ اپنی بیٹی کے ساتھ کوہ پیمائی کا بنیادی کورس کرنے اتر کاشی گئیں اور 13 ہزار فٹ کی ہمالیہ رینج پر چڑھ کر نہ صرف 'اے' گریڈ حاصل کیا بلکہ 'سب سے بہتر ٹرینی' کا خطاب بھی اپنے نام کیا.وہ اپنے بارے میں بتاتی ہیں '' ہوں تو میں دارجلنگ کی- میرا بچپن پہاڑوں پر ہی گزرا اور مجھے پہاڑوں پر چلنے کی عادت تھی لیکن کبھی کوہ پیمائی کرنے کے بارے میں نہیں سوچا۔ "

2004 تک پریم لتا بچھندری پال کے ساتھ لداخ اور نیپال میں کئی کوہ پیما مہم کو کامیابی سے مکمل کر چکی تھیں- اب ان کے سامنے اگلا ہدف تھا ماؤنٹ ایورسٹ کو فتح کرنا لیکن خاندان کے تئیں اپنی ذمہ داریوں کی وجہ سے انہوں نے اسے ٹھنڈے بستے میں ڈال دیا- 2010 آتے آتے ان کی دونوں بیٹیوں کی شادی ہو گئی - اب انہوں نے اپنے ہدف پر دوبارہ توجہ مرکوز کی-

"وہ بتاتی ہیں کہ ان 6 سالوں میں بہت کچھ بدل چکا تھا اور میری عمر بھی مسلسل بڑھ رہی تھی لیکن میں نے ہار نہیں مانی اور شوہر کے تعاون اور حوصلہ افزائی سے دسمبر میں سکم ٹریننگ کے لئےگئی اور جی توڑ محنت کی- میں نے ایورسٹ پر پہنچنے کے لئے سخت ٹریننگ لی "

آخر کار 25 مئی 2011کو وہ دن آ ہی گیا جب پریم لتا اپنے ساتھیوں کے ساتھ کاٹھ مانڈو اور اس کے آگے لوكلا جانے کے لیے جہاز میں بیٹھیں- اس مہم کے لیے 18 ہزار فٹ کی اونچائی پر لگے بیس کیمپ اور ایورسٹ چوٹی کے درمیان لگے تین کیمپوں کو پارکر ٹیم کو ایورسٹ فتح کرنا تھا- اس کے علاوہ 27 ہزار فٹ کی اونچائی، ماينس 45 ڈگری سے کم درجہ حرارت، جسم پگھلانے والی سردی سے نمٹنا بھی اپنے آپ میں بڑا چیلنج تھا-

وہ کہتی ہیں کہ میری محنت کامیاب ہوئی اور صبح 9:30 پر میں نے ماؤنٹ ایورسٹ کی چوٹی پر ترنگا لہرایا- میں نے دنیا کی لا ثانی چوٹی پر تقریبا 20 منٹ گزارے اور اپنے ساتھ لائے کیمرے سے کچھ تصویر بھی کھینچیں - واپسی میں کاٹھ مانڈ و میں میرے شوہر اور بیٹیاں مجھے لینے آئیں اور یہ کامیابی صرف میرے اکیلے کی نہیں ہے- اس میں میرے خاندان کا مکمل تعاون حاصل ہے-

اس کے بعد پریم لتا رکی نہیں اور 'سیون سمٹس' کو فتح کرنے کی سمت میں کوشش کرتی رہیں اور بالآخر اپنے اس مقصد کو انہوں نے مئی 2013 میں حاصل کر لیا- پریم لتا بتاتی ہیں کہ اب بھی بہت سے لوگ ان سے پوچھتے ہیں کہ ایورسٹ پر چڑھنے کا کیا فائدہ ہے؟ انہیں اس کام کو کر کے کوئی انعام ملتاہے یا پھر اتنی اونچائی پر انہیں خدا ملتے ہیں؟

مستقبل میں پریم لتا اپنا ایک فٹنس سینٹر کھولنا چاہتی ہیں جہاں وہ خواتین کو یوگا، ایرو بکس اور پراڑ ایام سکھا سکیں- اس کے علاوہ وہ مارواڑی کمیونٹی کی خواتین کے لئے ایک ماہ کا فٹنس ٹریننگ کیمپ بھی چلاتی ہیں-

ماؤنٹ ایورسٹ سے واپس آنے کے بعد پریم لتا نے دیکھا کہ لوگوں کے نظریہ میں کافی تبدیلی آئی ہے- '' جب میں واپس آئی تو مقامی خواتین نے اسٹیشن پر آرتی کی پلیٹ اور پھول مالا سے میرا استقبال کیا- شاید ان لوگوں کی سمجھ میں آ گیا تھا کہ میں کیا کر رہی ہوں"-

پریم لتا نے اپنی ہمت اور لگن سے دنیا کو دکھا دیا کہ کچھ بھی حاصل کرنے کے لئے عمر کی حد کوئی معنی نہیں رکھتا-

قلمکار : نشانت گویل 

مترجم :سہیل اختر 

جد و جہد کے سفر سے کامیابی کی منزل تک پہنچنے والے ایسے ہی حوصلہ مند افراد کی کچھ اور کہانیاں پڑھنے کے لئے ’یور اسٹوری اُردو‘ کے FACEBOOK پیج پر جائیں اور ’لائک‘ کریں۔

شوق نے رسیپشنسٹ گیتا کو گلوکارہ بنایا

شعلہ سا لپک جائے ہے آواز تو دیکھو....غزل گائیکی کی نئی ادا جنیوارائے