کچھ منفرد کرنے کا ارادہ اتنا تھا مضبوط کہ وراثت میں مل رہی زمینداری چھوڑ کر کاروباری بنے تھے ناظم الدين فاروقی

والد کے نام تھی کروڑوں کی زمین جائداد، لیکن کاروبار شروع کرتے وقت نہیں لیا والد سے ایک بھی روپیہ ... نیا اصول اپنایا، بازار سے ہی سرمایہ لے کر بازار میں ہی لگایا اور کیا کاروبار ... کبھی نہیں لیا کسی بینک سے کوئی قرض ... تین سال تک اسکوٹر پر ہی گھومے پھرے ... منافع ملنے کے بعد ہی خریدی کار ... الگ الگ علاقوں میں شروع کیا کاروبار اور کمایا منافع ... بیرون ملک میں کاروبار کی دنیا میں جمائے اپنے قدم ... اب نوجوانوں کو کاروباری بننے کی دے رہے ہیں تحریک ... سماجی خمدت میں بھی ہیں جی جان سے مصروف

کچھ منفرد کرنے کا ارادہ اتنا تھا مضبوط کہ وراثت میں مل رہی زمینداری چھوڑ کر کاروباری بنے تھے ناظم الدين فاروقی

Friday June 03, 2016,

12 min Read

ناظم الدين فاروقی کی گنتی حیدرآباد کے بڑے صنعت کاروں اور تاجروں میں ہوتی ہے۔ وہ گزشتہ تیس سالوں سے کاروبار کر رہے ہیں۔ میٹلس، مائننگ، يوٹنسلز، ریئل اسٹیٹ، ڈیپ سی فشنگ جیسے الگ الگ شعبوں میں انہوں نے اپنے قدم جمائے ہیں۔ بھارت ہی نہیں، بلکہ دنیا کے کئی ممالک میں بھی کاروبار کیا ہے اور اب بھی کر رہے ہیں۔ الگ الگ چیزوں کی درآمد برآمد کا کاروبار مسلسل چل رہا ہے۔ ایسے میں لازمی ہے کہ انہوں نے تین دہائیوں سے زیادہ طویل کاروباری زندگی میں کروڑوں روپے کا لین دین کیا ہے، لیکن اس لین دین کی ایک بہت بڑی خاصیت یہ ہےکہ ناظم الدين فاروقی نے اب تک کی کاروباری زندگی میں کبھی بھی کسی بینک یا پھر کسی دیگر مالیاتی ادارے سے قرض نہیں لیا۔ مالی اداروں سے کسی قسم کی کوئی مدد لئے بغیر ہی انہوں نے کاروبار شروع کیا تھا اور ان مالیاتی اداروں کی مدد کے بغیر ہی اپنے کاروبار کو آگے بڑھایا۔ یہ کام اب بھی بدستور جاری ہیں۔ ناظم الدين فاروقی کی یہ خاصیت بھی رہی ہے کہ انہوں نے شروع سے بازار سے ہی سرمایہ جٹایا، بازار میں ہی سرمایہ لگایا اور بازار میں ہی کاروبار کرتے ہوئے منافع کمایا۔

image


ایسا بھی نہیں تھا كہ ناظم الدين فاروقی کے گھر خاندان میں دولت کی کوئی کمی تھی۔ ان کے والد بہت بڑے زمیندار تھے۔ حیدرآباد، نظام آباد، ناندیڑ جیسے شہروں میں ان کی خوب ساری زمین جائداد تھی۔ والد معروف ہومیوپیتھی ڈاکٹر بھی تھے۔ والد رئیس تھے اور رسوخدار بھی، لیکن 1985 میں جب ناظيم الدين فاروقی نے اپنا کاروبار شروع کیا، اس وقت انہوں نے اپنے والد سے ایک روپیہ بھی نہیں لیا۔ اس کی وجہ پوچھے جانے پر ناظم الدين فاروقی نے بتایا،

"میں نہیں چاہتا تھا کہ اپنے پیرینٹس کو کسی طرح کی فنینشل تکلیف دوں۔ میرے بھائی بہن تھے اور وہ بھی میری طرح ہی میرے والد کی زمین میں برابر کے حصہ دار تھے۔ میرے بھائی بہن کو بھی تو اپنا کیریئر بنانا تھا۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ ماحول ڈسٹرب ہو, مجھے یقین تھا کہ میرا جو حصہ ہے، وہ مجھے ضرور ملے گا اور آگے چل کر ایسا ہی ہوا۔ "

ناظم الدين فاروقی کے دادا بھی اپنے زمانے کے بہت بڑے صنعتکار تھے۔ آزادی سے پہلے ریاست حیدرآباد میں ان کے بہت سے کارخانے اور ملیں تھیں۔ تیل اور کپاس کے کاروبار میں ان کا خوب دبدبہ تھا۔ وہ بھی کافی دولت مند اور مشہور ہستی تھے۔

حیدرآباد میں مرکز گروپ آف كمپنيز کے دفتر میں ہوئی ایک خاص ملاقات میں ناظيم الدين فاروقی نے اپنے شاندار اور متاثر کن کاروباری سفر کے دلچسپ پہلوؤں کے بارے میں بتایا۔ ہم نے ان سے یہ بھی پوچھا کہ وراثت میں مل رہی زمینداری کو انہوں نے کیوں نہیں اپنایا؟ اس سوال کے جواب میں ناظم الدين فاروقی نے کہا،

"میں نے پونے یونیورسٹی سے ایم بی اے کی تعلیم حاصل کی ہے۔ جب میں پونے میں پڑھ رہا تھا تب میرے پروفیسروں اور مینٹروں نے مجھے بہت انكریج کیا تھا۔ ان کے خیالات سے میں بہت متاثر ہوا تھا۔ ایم بی اے کا رذلٹ آنے سے پہلے ہی میں نے دل میں ٹھان لیا تھا کہ میں لائف میں کچھ مختلف کروں گا۔ اسی فیصلے کی وجہ سے میں نے اپنے پیرینٹس سے کوئی مدد نہیں لی اور اپنا کاروبار شروع کیا۔ "

بینک سے قرض کیوں نہیں لیا؟ اس سوال پرناظم الدين فاروقی نے بتایا، "بینک کے پاس گروی رکھنے کے لئے میرے پاس اپنی کوئی جائداد نہیں تھی۔ قرض لینے کے لئے بینک کے جو پیرامیٹر ہوتے ہیں، میں ان میں بھی میں فٹ نہیں بیٹھتا تھا۔ نہ میرے پاس کوئی بیلنس شیٹ تھی، نہ ہی کوئی ایسا بیک گراؤنڈ جہاں میں نے کاروبار کر منافع کمایا ہو۔ میرے ایسیٹس زیرو تھے۔ "

کاروبار شروع کرنے کے لئے کہاں سے اور کس طرح سرمایہ جٹایا؟ اس کے جواب میں ناظم الدين فاروقی نے کہا،

"میں جانتا تھا کہ بازار کھلا ہوا ہے۔ میں نے بازار میں اپنی قسمت آزمائی میں نے اخبارات میں اشتهار دئے۔ میری کوشش کامیاب رہی۔ لوگوں نے مجھ پر اعتماد کیا اور اپنا سرمایہ مجھے دیا۔ میرے پاس قریب پینتیس ہزار روپے تھے اور بازار سے جو رقم ملی وہ سب کے سب ڈیڑھ کروڑ روپے ہو گئے تھے۔ اسی رقم سے میں نے کاروبار شروع کیا۔ "
image


بینک سے قرض کیوں نہیں لیا؟ اس سوال کے جواب میں ناظم الدين فاروقی نے بتایا، "بینک کے پاس گروی رکھنے کے لئے میرے پاس اپنی کوئی جائداد نہیں تھی۔ قرض لینے کے لئے بینک کے جو پیرامیٹر ہوتے ہیں، میں ان میں بھی میں فٹ نہیں بیٹھتا تھا۔ نہ میرے پاس کوئی بیلنس شیٹ تھی، نہ ہی کوئی ایسا بیک گراؤنڈ جہاں میں نے کاروبار کر منافع کمایا ہو۔ میرے ایسیٹ زیرو تھے۔ "

کاروبار شروع کرنے کے لئے کہاں سے اور کس طرح سرمایہ جٹایا؟ اس کے جواب میں نظم الدين فاروقی نے کہا، "میں جانتا تھا کہ بازار کھلا ہوا ہے۔ میں نے بازار میں اپنی قسمت آزمائی میں نے اخبارات میں اشتهار دیئے۔ میری کوشش کامیاب رہی۔ لوگوں نے مجھ پر اعتماد کیا اور اپنی سرمایہ مجھے دی۔ میرے پاس قریب پینتیس ہزار روپے تھے اور بازار سے جو رقم ملی وہ سب کے سب ڈیڑھ کروڑ روپے ہو گئے تھے۔ اسی رقم سے میں نے کاروبار شروع کیا۔ "

بازار سے ہی سرمایہ لے کر، بازار میں ہی لگانے اور کاروبار کرنے کا كانسیپٹ اور بزنس ماڈل ان دنوں یعنی اسی کی دہائی میں بالکل نیا تھا۔ ناظم الدين فاروقی نے بازار سے سرمایہ تو لیا، لیکن سود سے پاک۔ یعنی جس کسی نے ان کی کمپنی مرکز انوسٹمنٹ کاری کمپنی میں سرمایہ کاری شدہ اس سود نہیں ملا، بلکہ اس کو سرمایہ کے حساب سے منافع ملا۔ 1985-86 میں شروع کی گئی مرکز انوسٹمنٹ کمپنی نے سب سے پہلے 1.5 کروڑ روپے کی لاگت سے کاروبار شروع کیا تھا۔

image


ناظم الدين فاروقی نے پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ مٹلس، الیکٹریکلس، مائننگ، يوٹینسلذ، ریئل اسٹیٹ، کنسٹرکشن، ڈیپ سی فشنگ جیسے شعبوں میں کاروبار کیا اور کامیابی حاصل کی۔ شروع میں ستارہ ایليومنیم نام کی کمپنی کھول کر رولنگ شیٹس بنائے اور بازار میں فروخت۔ 1998 میں شروع کی مرکز پھےبركےٹرس اینڈ انجینئرز پرائیوٹ لمٹیڈ نے اےپی ایس آرٹی سی یعنی ریاستی روٹ ٹرانسپورٹ کارپوریشن کی بسوں کے لئے باڈی بنائی۔ ناظم الدين فاروقی نے بتایا، "سرکاری بسوں کی میٹل باڈی بنانے میں منافع زیادہ نہیں تھا، لیکن جس طرح سے ہم نے ہنر دکھایا اور کوالٹی میٹل باڈی بنائی، اس سے ہماری کمپنی کا بہت نام ہوا۔ ہمیں آگے چل کر الوین جیسے بڑی کمپنی سے کانٹریکٹ بھی ملے۔ ہم نے فوج کے لئے بھی ریسرچ وہهكلس بنائے۔ "

1990 میں ناظم الدين فاروقی نے رئیل اسٹیٹ میں اپنے قدم رکھے۔ مرکز کنسٹرکشن کمپنی نے اب تک 75 سے زیادہ عمارتیں بنائی ہیں سمے بہت کمرشل عمارتیں ہیں تو کئی رہائشی اپرٹمنٹس۔ آگے چل کر انہوں نے مائننگ اور ڈیپ سی فشنگ کے میدان میں بھی کاروبار کئے۔

یہ پوچھے جانے پر کہ انہوں نے کاروبار کے لئے الگ الگ اور ایک دوسرے سے بالکل جدا شعبے کیوں منتخب کئے، ناظم الدین فاروقی نے کہا، "ایک پلاننگ اور اسٹریٹجی کے تحت یہ کیا گیا۔ مجھے لگا کہ ایک ہی شعبے میں اگر کاروبار کیا جا رہا اور اگر اس میں کوئی پریشانی آ گئی تو بچانے والا کوئی نہیں ہو گا۔ اسی وجہ سے میں نے الگ الگ شعبے میں کاروبار کیا۔ ایسا کرنے کا مجھے فائدہ بھی ہوا۔ جب ایک سیکٹر میں پرابلم آتی تو دوسرے سیکٹر کی وجہ سے ہم خسارے سے بچ جاتے۔ اگر میں صرف ایليومنیم کا ہی کاروبار کرتا رہتا تو شاید بہت نقصان ہوتا۔ اس وقت مزدوروں کا مسئلہ تھا۔ یونین کی وجہ سے پریشانیاں تھی۔ اکثر ہڑتال رہتی۔ اگر میں دوسرے سیکٹر میں نہیں جاتا تو بہت مشکل ہوتی۔ "

اہم بات یہ بھی ہے کہ ناظم الدين فاروقی نے جو بھی فیصلے لئے بہت سوچ سمجھ کر لئے۔ انہوں نے سرمایہ کاری اور کاروبار کے لئے سیکٹر بھی اچھی خاصی تحقیق کے بعد ہی منتخب۔ انہوں نے ایک راز پر سے پردہ اٹھاتے ہوئے بتایا،

"میں سیکٹر میں دو چیزیں دیکھ کر انہیں کاروبار کے لئے مننتخب کرتا ہوں۔ پہلا یہ کہ پروڈکٹ کی فروخت پر ادائیگی اميڈئٹ مل رہی یا نہیں۔ دوسری بات یہ کہ سیکٹر سے پچیس سے تیس پرسینٹ ریٹرن ہیں یا نہیں۔ اگر کوئی بھی سیکٹر ان دو پیمانوں پر کھرا اترتا ہے تو میں نے ان میں کاروبار کرنے کی سوچتا ہوں- "

ایک اور سب سے بڑا فیصلہ ناظم الدين فاروقی نے جو لیا تھا وہ بیرون ملک کاروبار کرنے کا تھا۔ اسی فیصلے کی وجہ سے وہ کئی بار بڑے بڑے نقصان کا سامنا اور پریشانیوں میں بری طرح پھسنے سے بچے تھے۔

اس خاص ملاقات کے دوران ناظم الدين فاروقی نے اپنی کاروباری زندگی کے سب سے مشکل دور کے بار میں بھی بتایا۔ ان کے ساتھ کئے گئے سب سے بڑے دھوکے کے واقعہ کے بارے میں بتاتے ہوئے انہوں نے کہا، "میرے ایک پارٹنر نے میرے ساتھ بہت بڑا دھوکا کیا تھا۔ میں کاروبار کے سلسلے میں اکثر خارجہ آتا جاتا رہتا تھا۔ بھروسے پر میں نے اس پارٹنر کو چیک کی سائننگ اتھارٹی دی تھی۔ جی پی اے دیا تھا۔ اس پارٹنر نے میرے فرضی دستخط کرکے میرا سارا سرمایہ ہڑپ لیا تھا۔ کچھ ہی دنوں میں اس نے سترہ سال کی میری ساری کمائی کو اپنا بنا لیا تھا۔ "

نظم الدین فاروقی نے آگے بتایا، "اس نقصان سے ابھر کر سامنے آئے میں مجھے پانچ سال لگے۔ اس دور نے مجھے اتنا پریشان کر دیا تھا کہ میرے ذہن میں کبھی کبھی کاروبار چھوڑ کر نوکری کر لینے کا بھی خیال آنے لگا تھا۔"

دلچسپ بات یہ بھی تھی کہ دھوکے کے باوجود ناظم الدين فاروقی نے اپنے پارٹنر کے خلاف پولیس یا کورٹ میں کوئی شکایت نہیں درج کروائی تھی۔ وہ چاہتے تھے کہ معاملہ عدالت کے باہر ہی حل لیا جائے۔ ایک دن ان کے پارٹنر نے چھ ماہ کے اندر سارے روپے لوٹانے کا وعدہ بھی کیا، لیکن اسی دوران اس پارٹنر کی اچانک موت ہو گئی۔ "

ناظم الدين فاروقی کے مطابق، اس بڑی پریشانی میں ان کا ایک پرانا فیصلہ کام آیا تھا۔ انہوں نے بیرون ملک کاروبار کرنے کا جو فیصلہ لیا تھا اسی نے انہیں مکمل طور پر ڈوبنے سے بچا لیا تھا۔ چونکہ اس دھوکے سے پہلے بیرون ملک کاروبار شروع ہوکر چل چکا تھا، بیرون ملک کی آمدنی نے ناظم الدين فاروقی کو بچا لیا۔

ایسا بھی بالکل نہیں رہا کہ فاروقی کے کاروباری زندگی میں مشکلات نہیں آئیں۔ ایک کے بعد کئی مشكلے آئیں، لیکن ان کے تجربے اور جراءت سے ہر مشکل کو دور بھگایا۔ ان پر جان لیوا حملے بھی ہوئے۔ دھمکیاں اب بھی مسلسل ملتی ہی رہتی ہیں۔ پارٹنر تنگ کرتے ہیں، لیکن کاروبار جاری رہتا ہے۔ وہ بتاتے ہیں،

"رئل اسٹیٹ کے کاروبار میں بہت سی مشکلات آئیں۔ ریئل اسٹیٹ میں انڈر ورلڈ کا ایک بڑا نیٹ ورک ہے۔ انڈر ورلڈ والے ڈرادھمکا کر روپے وصول کرنے کے چکر میں رہتے ہیں۔ سیاستدان بھی بغیر کوئی وجہ روپے مانگتے ہیں، میں تو سب سے یہی کہتا ہوں کہ جب میں نے کوئی غلط کام نہیں کیا اور ان لوگوں نے میرے کاروبار میں کچھ نہیں دیا تو میں نے ان روپے کیوں دوں۔ "

مجرموں اور غیر سماجی عناصر کے سامنے کبھی بھی ٹس سے مس نہ ہوئے ناظم الدين فاروقی کے مطابق انہوں نے کبھی کسی کو دھوکا نہیں دیا۔ قاعدے سے کاروبار کیا۔ شراکت دار کو صحیح وقت پر صحیح ریٹرن دیے۔ سارے قوانین پر عمل کئے۔ ہر سیکٹر میں کوالٹی برقرار رکھی۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ تیس سالوں سے وہ اپنے کاروبار کو چلا پا رہے ہیں اور منافع بھی کما رہے ہیں۔ اتنے سالوں تک بازار میں ٹکے رہنے اور شروع سے آج تک اچھا نام قائم رکھ پانے کو ہی ناظم الدين فاروقی اپنی کاروباری زندگی کی سب سے بڑی کامیابی سمجھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، "میرے جگہ کوئی اور ہوتا تو شاید کاروبار بدكر ملازمت کرنے لگتا یا پھر دنیا سے ہی نکل جاتا۔" ایک کاروباری کے طور پر ملک و بیرون ملک میں خوب شہرت، دولت جٹا لینے کے بعد ان کا اب اپنا زیادہ تر وقت معاشرے کی خدمت میں لگا رہتا ہے۔ ان کی زیادہ توجہ مسلم کمیونٹی میں تعلیم اور طبی سہولیات کو بہتر بنانے کی طرف لگی ہے۔ انہوں نے مسلم چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی بھی شروعات کی ہے۔ وہ اس ادارے کے ذریعہ نوجوانوں کو کاروباری اور تجارتی بننے کے لئے حوصلہ افزائی کرنا چاہتے ہیں۔ ان کی کوشش یہ بھی ہے کہ نوجوانوں کے لیے کاروباری بننے کے موقع دلوائے جائیں اور انہیں طریقے بھی سمجھائے جائیں۔

image


نوجوانوں کو کاروبار کی باریکیاں کے مقصد سے ناظم الدين فاروقی مختلف اخبارات اور میگزین میں مضمون بھی لکھتے ہیں۔ الگ الگ جگہ جاکر تقریر بھی کرتے ہیں۔ ان کے الفاظ میں،

"مسلم کمیونٹی کمیونٹی کے لوگ ڈیولپمنٹ کے راستے سے ڈيریل ہیں۔ کمیونٹی کو پٹری پر واپس لانے کی ضرورت ہیں۔ مسلم لوگوں میں مارکیٹ کو لے کر ایک عجیب سا ڈر ہیں۔ اس خوف کو بھگانے کی کوشش ضروری ہے۔ لوگوں کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ بازار سے ایک جیسا ہے۔ بازار سب کے لئے کھلا ہے۔ تین چیزوں میں کوئی مذہب نہیں ہوتا - تعلیم، طب اور کاروبار۔ "

کچھ پرانی یادیں تازہ ہوئے فاروقی نے یہ بھی بتایا کہ جب ایم بی اے پاس کرنے کے بعد انہوں نے کاروباری بننے کا فیصلہ لیا تھا تب ان کے کچھ كلاسمٹس، دوستوں اور جان پہچان کے لوگوں نے ان کا مذاق اڑایا تھا۔ ان کے کاروباری بننے کے فیصلے پر خوب ہنسے تھے۔ ان کے ساتھ ایم بی اے پڑھنے والے زیادہ تر دوستوں نے ملازمیں حاصل کیں۔ اور جب تین سال بعد ان ناظم الدین فاروقی سے ملاقات ہوئی تب بھی ان کے ساتھیوں نے مذاق کرتے ہوئے پوچھا تھا، "کاروباری بن کر کیا حاصل کر لیا ہے تم نے؟ نوکری کرتے تو خوش رہتے، لیکن آج وہی پرانے ساتھی ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ میرا راستہ ہی صحیح تھا۔ "

کامیابی کی منزل تک پہنچنے والے ایسے ہی حوصلہ مند افراد کی کچھ اور کہانیاں پڑھنے کے لئے ’یور اسٹوری اُردو‘ کے فیس بک پیج پر جائیں اور ’لائک‘ کریں۔

FACE BOOK

کچھ اور کہانیاں پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں

اردو یور اسٹوری