حیدرآباد میں 'ٹی ہب' کے بانی سرانیواس بڑھا رہے ہیں اسٹارٹپس کا حوصلہ

حیدرآباد میں 'ٹی ہب' کے بانی سرانیواس بڑھا رہے ہیں اسٹارٹپس کا حوصلہ

Sunday March 06, 2016,

13 min Read


حیدرآباد کو دنیا بھر میں اسٹارٹپ کا سب سے عمدہ مرکز بنانے کی کوشش میں مصروف

دنیا میں اپنی الگ شناخت بنانے کی تممنا نے بنایا ۔’ٹی ہب’ کا بانی

خاندان کی وراثت کو آگے بڑھاتے بڑھاتے بن گئےاسٹارٹپ کے "بھروسہ مند مشیر"

اس بچے کے ذہن میں کئی سوال اٹھتے تھے۔ الگ الگ چیزوں کے بارے میں جاننے اور انہیں اچھی طرح سے سمجھنے میں اس کی بہت دلچسپی تھی۔ وہ اپنے آپ کو روک نہیں پاتا اور جو کوئی سوال اس کے دل میں آتا وہ ہیں بے ہچک اپنے والد سے پوچھ لیتا۔ آسمان میں بادلوں کو دیکھ کر وہ اپنے باپ سے پوچھتا ہے، "بادل اپنا روپ رنگ اور جسامت کس طرح بنا پاتے ہیں؟ وہ باپ سے سوال کرتا کہ آخر انسان کا جسم اچانک گرم کیوں ہو جاتا ہے، آخر بچوں کو بخار کیوں آتا ہے؟

image


بچہ اتنا تجسس سے بھرا تھا کہ وہ گھڑی کھول دیتا اور یہ پتہ لگانے میں مصروف ہو جاتا کہ ایسے کون سے طریقہ کار-آلات اور منتر ہیں جن سےگھڑی چلتی ہیں۔ وہ یہ بھی پتہ لگانے کی کوشش کرتا کہ آخر کیلکولیٹر بغیر کوئی غلطی شدہ ہمیشہ درست جواب کیسے دیتا ہے۔ بچے نے ایک- دو نہیں بلکہ کئی چیزوں کے پرزے پرزے الگ کر دئَ اور یہ سمجھنے کی کوشش کی ان کا عمل کس طرح باقاعدہ چلتا رہتا ہے۔

اس بچے کے لئے ہر چیز میں ایک سوال تھا اور وہ اپنے سوالات کا جواب جاننے کے لئے اپنے والد کی مدد لیتا۔ والد برطانیہ کے مشہور ڈاکٹر تھے، کبھی بھی اپنے متجسس بیٹے کو مایوس نہیں کرتے۔ ہر سوال کا جواب دیتے۔

بچہ جب بڑا ہوا تو اس نے بچپن کے اس سوال و جواب سے طویل سلسلے سے ایک بہت بڑی چیز سیکھ لی۔ اسے سمجھ میں آ گیا کہ صحیح انسان سے صحیح سوال پوچھنے سے ہی کامیابی کی راہ ملتا ہے۔ اور پھر کیا تھا، اسی منتر کو لے کر یہ بچہ کامیابی کی راہ پر چل پڑا۔ اور، کامیابی کی اسی راہ پر اتنا آگے نکل گیا کہ آج وہ دنیا بھر میں بہت سے تاجروں اور ذہین و باصلاحیت نوجوانوں کے خواب شرمندہ تعبیر کرنے میں انتہائی اہم کردار ادا کر رہا ہے۔

image


جس شخص کی ہم بات کر رہے ہیں ان کا نام سری نواس كولّی پارا ہے۔ سری نواس حیدرآباد میں تاجروں کے لئے ایک تصوراتی، بہترین ماحول اور نظام بنانے کے مقصد سے قائم کیے گئے ۔’ٹی ہب’ کے چیف آپریٹنگ آفیسر یعنی سی او او ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ سری نواس نے 'ٹی ہب' کے قیام میں کافی اہم کردار ادا کیا ہے۔ وہ اس کے بانی ہیں۔

بچپن میں سوال جواب کے سلسلے سے سیکھے گرو- منتر کا فائدہ اٹھا کر سری نواس ان دنوں تاجروں کےقابل اعتماد مشیر بنے ہوئے ہیں۔ يوراسٹوری سے بات چیت میں انہوں نے بتایا کہ بچپن میں جو کچھ سیکھا فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ کاروباریوں سے بس سوال ہی سوال کرتے ہیں۔ کوشش یہی ہوتی ہے کہ سارے سوال صحیح ہوں۔ صحیح سوال کرتے کرتے وہ کاروباریوں کی سوچ، اس کی طاقت اور قابلیت کا اندازہ لگتے ہیں۔ اپنےسوالات کا جواب حاصل کرنے کے بعد وہ ان کے لئے قابل قبول بزنس ماڈل بتا دیتے ہیں۔

سری نواس نے کہا، "میں کاروباریوں اور سٹارٹپ سے وابستہ لوگوں کے مسئلہ حل نہیں کرتا، بلکہ انہیں خود حل کرنے میں ان کی مدد کرتا ہوں۔"
image


سری نواس کا خیال ہے کہ ہندوستان کے کاروباریوں کی طاقت بہت بڑی ہے اور وہ دنیا کو تبدیل کرنے کا مادہ رکھتے ہیں۔

سری نواس کے مطابق، اگر کسی بھی قوم کو کامیابی کی اپنی بڑی کہانی لکھنی ہے تو اسے ترقی کے ایک نہیں بلکہ کئی مرکز بنانے چاہئے۔

انہوں نے بنگلور کے ساتھ ساتھ حیدرآباد کو بھی اسٹارٹپ کے بڑے مرکز کے طور پر قائم کرنے کی ذمہ داری لی ہے۔ اور جس طرح سے ۔’ٹی ہب’ قائم ہوا اور جس طرح سے اس نے کام کرنا شروع کیا ہے اسے دیکھ کر تو یہی لگ رہا ہے کہ سری نواس اپنے مقصد میں کامیاب ہو رہے ہیں۔

5، نومبر 2015 کو 'ٹی ہب' کی شاندار شروعات ہوئی۔ اس موقع پر اپنی موجودگی سے مشہور زمانہ صنعتکار رتن ٹاٹا، تلنگانہ کے گورنر نرسمہن اور آئی ٹی وزیر کےٹی راما راؤ جیسی شخصيتوں نے اس تقریب کو چار چاند لگائے۔

'ٹی ہب'عوامی اور نجی شراکت داری کا ایک حیرت انگیز نمونہ ہے۔ یہ تلنگانہ حکومت،اںڈین انفارمیشن انسٹی ٹیوٹ

آف ٹیکنالوجی حیدرآباد (آئی آئی ٹی ایچ)، انڈین اسکول اور بزنس اور نلسار کے علاوہ ملک کے کچھ نامور نجی اداروں کی مشترکہ سوچ، محنت اور کوآپریٹوز کا نتیجہ ہے۔

'ٹی ہب' کا مقصد حیدرآباد میں تاجروں اور اسٹارٹپ کی ترقی کے لئے سازگار بہترین ماحول تیار کرنا ہے۔

آئی آئی ٹی ایچ کےاحاطے میں بنے'ٹی ہب' میں 70 ہزار مربع فیٹ جگہ ہے۔ کاروباریوں کو کام کرنے کے لئے اس میں جدید اور عالمی سہولیات دی گئی ہیں۔ آج کئی سارے اسٹارٹ اپ ۔’ٹی ہب’ سے ہی اپنا کام کر رہے ہیں۔ سب سے اہم بات تو یہ بھی ہے کہ ۔’ٹی ہب’ میں انكيوبیٹرس اورایكسلیٹرس کے لئے الگ سے جگہ دی گئی ہے۔ کاروباری وقتا فوقتا وینچر كپٹلسٹس اور دوسرے سرمایہ کاروں سے مل سکیں اس لئے انتظام کئے گئے ہیں۔ ہر معنوں میں ۔’ٹی ہب’ تاجروں کے لئے علم، طریقہ کار-ساخت اور ترقی کا بہترین ذریعہ بن گیا ہے۔

سری نواس کو پورا بھروسہ ہے کہ ۔’ٹی ہب’ سے کامیابی کی کئی ساری کہانیاں لکھی جائیں گے اور ان کہانیوں کا چرچہ دنیا کے کونے کونے میں ہوگا۔

ایک سوال کے جواب میں سری نواس نے کہا کہ ۔’ٹی ہب’ قائم کرنے کا مقصد بنگلور اور حیدرآباد کے درمیان کوئی لڑائی شروع کرنے کا نہیں ہے۔ ایک شہر اور دوسرے شہر کے درمیان لڑائی کی بات ہی بالکل غلط ہے۔ ملک کی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ شہر آپس میں ایک دوسرے کا تعاون کریں۔ اور، ہندوستان میں ترقی کے ایک نہیں بلکہ کئی مراکز ہوں۔ شہروں کے درمیان نمبر ون بننے کے لئے جدوجہد اور شفاف مقابلہ ہو اچھی بات ہے، لیکن لڑائی جیسی بات نہیں ہونی چاہئے۔

تاجروں اور اسٹآرٹپ کے نئے مرکز کے لئے انہوں نے حیدرآباد کو ہی کیوں منتخب کیا؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے شری نواس جذباتی ہو گئے اور اپنی زندگی کی چند اہم یادوں کو تازہ کیا۔

سری نواس نے بتایا کہ حیدرآباد سے ان کا رشتہ بہت گہرا اور مضبوط ہے۔ ان کے کئی سارے دوست حیدرآباد سے ہیں۔ حیدرآباد کے کئی بااثر نامور اور طاقتور لوگو- خاندانوں سے ان کے اچھے روابط ہیں۔

اسی وجہ سے انہیں لگا کہ حیدرآباد میں کام آسانی سے کئے جا سکتے ہیں۔ چاہے سیاستدان ہوں یا پھر افسر ان کی مدد ضرور ملے گی۔

سری نواس کے مطابق، حیدرآباد سائنس، دواسازی ، طب اور زراعت کا بڑا مرکز ہے۔ اور اگر ان سے منسلک اسٹارٹپ اور کاروبار ۔’ٹی ہب’ سے کام کریں گے تو انہیں بھی کافی مدد ملے گی اور تحقیقی کاموں اور کاروبار سب کو فائدہ پہنچے گا۔

امریکی اور برطانیہ میں اپنی تعلیم اور کام کاج کے تجربے سے فائدہ حاصل کرتے ہوئے سری نواس نے بتایا کہ کئی ممالک نے "سلیکون ویلی" کی نقل کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کئی ملک لاکھ کوششوں کے باوجود اپنی خود کی "سلیکون ویلی" نہیں بنا پائے۔ کئی ممالک نے یہ غلطی کہ انہوں نے اپنی ضروریات کے مطابق کام نہیں لیا۔ مقامی مسائل پر توجہ نہیں دی۔ اپنے لوگوں کی بنیادی ضروریات کو نہیں سمجھا۔ وہ یہ نہیں سمجھ پائے کہ ان کے لئے صحیح کیا ہے اور غلط کیا ہے۔

سری نواس نے آگے کہا کہ حیدرآباد وہی کام کرے گا جو اس کے لئے صحیح اور لوگوں کے لئے مناسب ہو گا۔

حیدرآباد کے سامنے موجود چیلنجوں کے بارے میں سری نواس نے کہا کہ تین چار سال پہلے ماحول بالکل مختلف تھا۔ ہر کوئی بنگلور کی بات کرتا تھا۔ سیاستدان ہوں، افسر ہوں یا پھر صحافی بھی، زیادہ تر لوگوں کو اسٹارٹپ کے بارے میں صحیح معلومات نہیں تھیں۔ ہر کوئی کاروباری بنگلور چلا جاتا تھا۔ لیکن، میں نے اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ حیدرآباد میں ماحول تبدیل کرنے کی کوشش شروع کی۔ آہستہ آہستہ ہی سہی بہتر۔ کوششیں رنگ لانے لگی۔ ان کوششوں کو نئی راہ بتانے میں آئی آئی آئی ٹی- حیدرآباد کی بڑا رول رہا۔

دلچسپ بات یہ رہی کہ جب 2014 میں تلنگانہ ریاست بنی اور یہاں نئی حکومت میں تبدیلی تیزی سے ہونے لگے۔ نئی حکومت میں آئی ٹی کے وزیر کےٹی راما راؤ کی لگن اور محنت کی وجہ سے ایک بہترین پالیسی بنی۔ اسی پالیسی کی وجہ سے ٹی-ہب کو عملی جاجہ پہنایا جا سکا۔ حکومت نے حیدرآباد میں صرف آئی ٹی کے لئے ہی نہیں بلکہ اسٹارٹپ اور کاروباروں کو فروغ دینے کے لئے ہر ممکن مدد کی۔

عام طور پر یہی سمجھا جاتا ہے کہ حکومت کی جتنی کم مداخلت ہو، لوگوں کو اتنا فائدہ ملتا ہے، خاص طور پر آئی ٹی اور کاروبار کے میدان میں، لیکن تلنگانہ میں بات کچھ اور ہے۔ یہاں کے آئی ٹی کے وزیر کے ٹی راما راؤ کی سوجھ بوجھ اور قابلیت کی وجہ سے اسٹارٹپ اور کارباریوں کو ہر ممکن مدد مل رہی ہے۔

یہ پوچھے جانے پر کہ انہوں نے آخر کارپوریٹ دنیا اور اپنے اپنے کاروبار سے ناطہ توڑ آخر اسٹارٹپ سے ناطہ کیوں جوڑا؟ اس سوال کے جواب میں شری نواس نے کہا کہ ان کے خاندان کے خون میں کاروبار ہمیشہ رہا ہے۔

سری نواس نے بتایا کہ وہ اپنے نانا ڈاکٹر سی ایل رائیڈو سے بہت متاثر رہے۔ ڈاکٹر سی ایل رائیڈو اپنے زمانے کے بائیں بازو کے بڑے رہنما تھے۔ غیر منقسم اندھرا پردیش کی تجارتی دارالحکومت وجئے واڑہ اور اس سے ملحقہ گناورم کی ترقی میں ڈاکٹر رائیڈو نے کافی اہم کردار نبھایا۔ لوگوں کی بھلائی کے لئے انہوں نے کئی پروگراک منعقد کئے۔ بہت اسکول كھولے۔ یہ سب انہوں نے بے لوث انداز سے کیا۔ انہوں نے کبھی بھی دولت کے بارے میں نہیں سوچا۔ ہم معاشرے کو کیا دے سکتے ہیں؟ کس طرح سے سماج میں اچھی تبدیلی لائی جا سکتی ہے؟ معاشرے پر کس طرح سے اپنا اچھا تاثر چھوڑا جا سکتا ہے؟ یہی سوچا اور اپنا کام کرے رہے۔

سری نواس نے کہا، "میرے نا نا کا مجھ پر گہرا اثر رہا ہے۔ انہوں نے سماجی خدمت کے زریعہ تبدیلی لانے کی کوشش کی۔ وہ دولت کے پیچھے نہیں بھاگے۔ حکومتوں کے دیئے انعام نہیں لئے۔"

سری نواس کہتے ہیں،

 "میں بھی سماج کو کچھ اچھا اور عمدہ خدمات دینا چاہتا ہوں۔ معاشرے اور دنیا کو اپنے اچھے کاموں سے متاثر کرنا چاہتا ہوں۔ اپنی گہری چھاپ چھوڑنا چاہتا ہوں۔ میری زندگی کا یہی مقصد ہے معاشرے کو کچھ ایسا دوں جس سے اس کو فائدہ ہو۔ "

اخلاقیات اور اصولوں کے معاملے میں بھی سری نواس کافی سخت ہیں۔ وہ اصولوں سے کوئی سمجھوتہ نہیں کرتے۔ اس معاملے میں ان کے ماما ڈاکٹر وسنت کمار کا ان پر کافی اثر ہے۔ ڈاکٹر وسنت کمار آندھراپردیش کے بڑے کانگریسی لیڈر اور سابق وزیر اعلی ڈاکٹر وائی ایس راج شیکھر ریڈی کے ساتھی اور اچھے دوست تھے۔ راج شیکھر ریڈی جب وزیر اعلی تھے تب انہوں نے کئی بار سری نواس کے ماما ڈاکٹر وسنت کمار کو کانگریس میں شامل ہونے کی دعوت دی۔ یہ اعتماد بھی دیا کہ اگر وہ کانگریس میں شامل ہوتے ہیں تو انہیں بڑے عہدے پر مقرر بھی کیا جائے گا۔ چونکہ وسنت کمار پہلے سے ہی دوسری پارٹی میں تھے، انہوں نے اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کیا اور ہر حال میں خود کو اقتدار کی لالچ سے دور رکھا۔

image


دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ سری نواس کا بچپن برطانیہ میں بھی گزرا۔ وہیں ان کی اسکولی تعلیم بھی ہوئی۔ والد نامور ڈاکٹر تھے، جو آگے چل کر کاروباری بھی بنے۔ والد کے کاروبار میں شری نواس نے بھی کافی وقت تک ساتھ دیا۔

سری نواس کو کالج کی پڑھائی کے لئے وجئے واڑہ بھیج دیا گیا۔ برطانیہ میں پلے بڑھے سری نواس کو وجئے واڑہ شہر ایک بہت ہی عجیب جگہ لگی۔ برطانیہ اور ہندوستان کی ثقافت، لوگوں کے رہن سہن کافی مختلف لگے۔ موسم بھی کافی مختلف ہیں۔ سری نواس کو ایڈجسٹ ہونے میں کچھ وقت لگا۔

لیکن شری نواس کو ہندوستان میں بہت کچھ نیا سیکھنے کو ملا۔ ہندوستان کی ثقافت، آرٹ، لوگوں کی طاقت اور مسائل کو سمجھنے کا موقع ملا۔ اپنے نانا اور ماموں کے ساتھ رہنے اور معاشرے کو تبدیل کرنے کے ان کی کوششوں سے سیکھنے کو بہت کچھ ملا۔

کالج کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد سری نواس نے ومیگا امينوٹیک پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی قائم کی۔ یہ کمپنی برطانیہ سے تشخیصی اینجائم درآمد کرتی تھی۔ کچھ سالوں کے بعد سری نواس کی اس کمپنی کو ایک بڑی فارما کمپنی نے ٹیک اوور کر لیا۔
image


اس ٹیک اوور کے بعد سری نواس نے بڑے بڑے کارپوریٹ اداروں میں الگ الگ اہم عہدوں پر کام کیا۔

سری نواس نے ٹرانسجين بایوٹیک لمیٹڈ، كمپولرن ٹیک پرائیویٹ لمیٹڈ، كےایكائی کارپوریشن، سکرین سافٹ ویئر، پيپل سافٹ جیسی بڑی نامور کمپنیوں میں بڑے عہدے پر اپنی خدمات دیں۔

لیکن، 2007 میں انہوں نے ٹھان لیا کہ وہ اب آزادانہ طور کام کریں گے اور اسٹاٹرٹپ کی دنیا کو اپنا سب کچھ وقف کر دیں گے۔

اس کے بعد پھر انہوں نے بس آگے ہی آگے قدم بڑھائے۔ "سٹارٹ اپ مینٹر" کے طور پر دنیا بھر میں خوب نام کمایا اور اپنی الگ شناخت بنائی۔

سری نواس آج اسٹارٹپ کی دنیا کی بہت بڑی اور نایاب شخصيت ہیں۔ ان کی اپنی الگ پہچان اور اپنا الگ مقام ہے۔

سری نواس کہتے ہیں ہے کہ ۔’ٹی ہب’ کا قیام ہی ان کی زندگی کی اب تک کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ ۔’ٹی ہب’ نے انہیں ان کی زندگی کی سب سے بڑی خوشی دی ہے۔

وہ جزباتی ہو جاتے ہیں، لیکن یقین سے بھرپور آواز میں انہوں نے کہا، "جب دنیا کے کونے کونے میں لوگ" ٹی ہب "کو اسٹارٹ اپ کا سب سے عمدہ سینٹر مانیں گے اور ۔’ٹی ہب’ سے لکھی گئی کامیابی کی کہانیوں کا چرچہ دنیا بھر میں ہوگا۔ تب میرے خواب کا احساس دنیا کو ہو جائے گا، تب میں فخر سے کہوں گا کہ جی ہاں میں نے وہ حاصل کیا جو میں کرنا چاہتا تھا۔''

image


سری نواس نے اس بات چیت کے دوران ان کی زندگی کے مشکل دور کا بھی ذکر کیا۔ انہوں نے کہا، "میں نے اپنی زندگی میں کئی اتار چڑھاؤ دیکھے ہیں۔ ہر بار کچھ نیا سیکھنے کو ملا ہے۔ سب سے مشکل دور وہ تھا جب میرے والد کی کمپنی کو بھاری نقصان ہوا تھا۔ ایک لحاظ سے دیوالیہ نکل گیا تھا۔ قرض دینے والے ہمارے پیچھے پڑ گئے تھے۔ بہت برے دن تھے۔ میرے لئے سب سے دکھ اور تکلیف دینے والی بات یہ تھی کہ جو میرے دوست تھے وہ اچانک غائب ہو گئے۔ مشکل حالت میں وہ ساتھ دینے نہیں آئے۔ جو دوست خوشی کے لمحوں میں میرے ساتھ پارٹی کرتے تھے وہ مشکل کے دور میں انجان بن گئے۔ لیکن، کچھ لوگ مدد کے لئے اچانک براہ راست حاضر ہوئے۔ نہ جانے کہاں سے وہ آئے اور ہماری مدد کی۔ ان لوگوں نے ہم سے کہا کہ جو اچھے کام آپ لوگوں نے کئے ہیں اسی کا نتیجہ اپ کے سامنے آئے گا۔ "