ایک اسٹیشن ماسٹر ... گاؤں کے بچوں کی تعلیم پر وقف کی تنخواہ اور پینشن

ایک اسٹیشن ماسٹر ... گاؤں کے بچوں کی تعلیم پر وقف کی تنخواہ اور پینشن

Friday February 19, 2016,

4 min Read


بی پی رانا تقریبا 38 سال پہلے اسٹیشن ماسٹر بن کر چھتیس گڑھ کے لاٹابوڑ آئے

26 سال پہلے ریلوے اسٹیشن پر گاؤں کے بچوں کو پڑھانا شروع کیا

اپنی تنخواہ کا بڑا حصہ بچوں کی تعلیم پر لگایا

آج اپنی پنشن سے بچوں کو پڑھا رہے ہیں

زندگی میں اطمینان اور سکون کی تعریف سب کے لئے الگ الگ ہے۔ کوئی خود کو بہتر کرکے سکون مل پاتا ہے، کوئی اپنے خاندان کو بہتر کر کے، کوئی اپنے آس پڑوس کی ترقی کا حصہ بن کر کے تو کوئی سماج کے ساتھ ساتھ قوم کی تعمیر میں سکون حاصل کرتا ہے۔ ایسے ہی ہیں بی پی رانا۔ جنہوں نے اپنی ساری زندگی ملک کے نونہالوں کا مستقبل سنوارنے میں لگا دی۔ جو کچھ کمایا سارا اس گاوں کے بچوں کو پڑھانے میں لگا دیا۔ جہاں وہ اسٹیشن ماسٹر بن کر آئے تھے۔


image


بی پی رانا مغربی بنگال کے مدنا پور ضلع کے ساکن ہیں۔ ریلوے میں نوکری کرتے کرتے 1978 میں چھتیس گڑھ کے بالود ضلع کے لاٹابوڑ اسٹیشن پر اسٹیشن ماسٹر بن کر پہنچے تو یہیں کے ہوکر رہ گئے۔ بی پی رانا نے يورسٹوري کو بتایا،رانا ان بچوں یا ان کے والدین سے ایک پیسہ بھی نہیں لیتے بلکہ اپنی تنخواہ سے تختی پنسل کتابیں ان بچوں کو خریدکر دے دیتے۔ بیچ بیچ میں کھانے کے لئے بھی کچھ نہ کچھ دیتے۔ آہستہ آہستہ ان کی کلاس کے بچے اپنے اسکولوں میں بہتر رذلٹ لانے لگے تو ارد گرد کے گاؤں کے بچے بھی رانا کی کلاس میں پہنچنے لگے۔ رانا کی تنخواہ کا بڑا حصہ ان بچوں پر خرچ ہونے لگا۔

image


"ایک بار اس اسٹیشن پر ایک مال گاڑی رکی۔ اس کے گارڈ نے کچھ وقت میرے ساتھ گزارا۔ ان گارڈز نے میری انگریزی سن کر مجھ سے کہا کہ آپ اس کا فائدہ دیہی علاقوں کے بچوں کو کیوں نہیں پہنچاتے؟ اس کے بعد سے تو میری زندگی ہی بدل گئی اور میں نے ریلوے اسٹیشن پر ہی پہلے ریل ملازمین کے بچوں کو پڑھانا شروع کیا پھر گاؤں کے بچوں کو بھی ریاضی اور انگریزی پڑھانے لگا۔ "

ان بچوں کو پڑھانے میں رانا ایسے رچ بس گئے کہ انہوں نے شادی ہی نہیں کی اور ریٹائر ہونے کے بعد اپنے گھر میں بچوں کو پڑھانے لگے۔ اب رانا کی کلاس میں 60 بچے آتے ہیں اور اپنی پینشن کا بیشتر حصہ وہ ان بچوں پر خرچ کر دیتے ہیں۔ رانا کو کل پندرہ ہزار پنشن ملتی ہے جس سے اپنے کھانے پینے اور رہنے کے قابل پیسہ لے کر وہ باقی سارا پیسہ ان بچوں پر خرچ کر دیتے ہیں۔ 1994 میں جب گاؤں میں اسکول بنانے کے لئے پیسہ کم پڑنے لگا تو رانا نے اپنے بونس کی پوری رقم چندے کے طور پر دے دی۔

image


62 سال کے رانا گھر کا سارا کام خود کرتے ہیں۔ ان کے پاس ایک پرانی سائیکل ہے جس پر سوار ہو کر وہ ہر اتوار 15 کلومیٹر دور واقع بالود جاکر اپنے روز مرہ کی زندگی کا سامان لاتے ہیں۔ وہ روز صبح تین بجے اٹھ کر یوگا کرتے ہیں اور گھر میں جھاڑو لگانے سے لے کر کھانا بنانے تک کام کرتے ہیں۔ ان کے گھر میں سامان کے نام پر انگریزی اور ریاضی کی کتابیں ہی دکھائی دیتی ہیں۔ رانا نے پاس کے گاؤں کے ایک بچے کو گود بھی لیا تھا جو آج فوج میں اپنی خدمات دے رہا ہے۔

گاؤں کے اسکول میں ٹیچر سیتارام ساہو بتاتے ہیں کہ 'رانا کی کلاس میں جو بھی بچہ مسلسل آتا ہے اس کوریاضی اور انگریزی میں اچھے نمبر آتے ہی ہیں۔'

گاؤں میں رہنے والے لوگوں کا کہنا ہے کہ 'رانا گاؤں کی ترقی کے لئے لکھا پڑھی سے لے کر اقتصادی مدد تک کا سارا کام کرنے کے شوقین ہیں۔

قلمکار: روی ورما

مترجم ز؛زلیخا نظیر