میرا پہلا ’اسٹارٹپ‘ پہلے ہی سال میں بند ہو گیا... میَں 15 لاکھ روپے کے نقصان میں رہا...

میرا پہلا ’اسٹارٹپ‘ پہلے ہی سال میں بند ہو گیا...
میَں 15 لاکھ روپے کے نقصان میں رہا...

Tuesday December 01, 2015,

13 min Read

میرا خیال تھا کہ میَں اپنے ’اسٹارٹپ‘ سے کروڑوں روپے کمانے میں کامیاب ہوجاؤں گا لیکن میَں بہت بُری طرح سے ناکام رہا۔ میں نے ’ فلِپ کارٹ ‘(Flipkart) اور ’زومیٹو ‘ (Zomato)کی شاندار کہانیاں تو پڑھی تھیں لیکن کسی نے بھی مجھے یہ نہیں بتایا کہ 90 فیصد’ اسٹارٹ اپ‘ اپنے قیام کے ابتدائی دو سال کے دوران ہی ناکام ہو جاتے ہیں ۔ میرا’ اسٹارٹ اپ‘ تو پہلے ہی سال میں ڈھئے گیا ۔ کئی بارایسا محسوس ہوتا گویا کسی نے مجھے ٹھگ لیا ہو، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ غلطی میری ہی تھی ۔ میَں نے کہانی کے صرف ایک ہی پہلو کو حقیقت سمجھ لیا تھا ۔

آج میَں آپ کو کہانی کے دوسرے رُخ سے متعارف کرواتا ہوں ۔

وہ سال 2013 میں اپریل کا مہینہ تھا جب میں نے اپنے آفس میں بے چینی اور اضطراب محسوس کرنا شروع کر دیا تھا ۔ کام چھوڑدینے کا خیال مجھ پرحاوی ہوتا جا رہا تھا اور کام کے تئیں میری دلچسپی ختم ہوتی جا رہی تھی ۔

میں حال ہی میں امریکہ سے واپس آیا تھا اور میَں نے ہندوستان میں دوبارہ اپنا گھر بسانے کے بہانے اپنے منیجر سے کچھ مہلت مانگی۔ حالانکہ اگر میں سچ کہوں تو اصل مسئلہ کام کے تعلق سے میری ناراضگی تھی۔

image


میَں اپنے طور پر کچھ کر گزرنے کے خواب تو دیکھتا تھا لیکن مجھ میں ایسا کرنے کی جرأ ت نہیں تھی۔


میں نے اِس تعلق سے اپنے ایک دوست سے گفتگو کی اور ہم نے ایک کمپنی شروع کرنے کا فیصلہ کیا ۔ میَں نے اپنی ساری جمع پونجی اس ’اسٹارٹ اپ‘ کی نذر کر دی ۔

ہم نے پہلا قدم اٹھاتے ہوئے ایک پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی قائم کی اور ہم دونوں نے 5 لاکھ روپے کی یکساں ’ایکوئٹی‘ کی سرمایہ کاری کی ۔ ہم نے گُڑگاؤں میں ایک ’بیس مینٹ‘ آفس سے شروعات کی ۔

ہمیں یہ خوش فہمی تھی کہ تعلیم کا شعبہ اربوں ڈالر کی صنعت ہے، اِس لئے ہم اسکولوں سے متعلق مسائل حل کرنا چاہتے تھے ۔ ہمارا خیال تھا کہ ہم اسکولوں کے لئے کوئی ’پروڈکٹ ‘ بنا کر کافی منافع کما سکتے ہیں ۔

کافی غور و خوض کے بعد ہم اسکولوں کے لئے ایک ’ای آرپی‘ ERP کے آئیڈیا کے ساتھ سامنے آئے، جو ایک ایسا آن لائن سافٹ ویئر ہے جس کی مدد سے بچّوں کے والدین یا سرپرستوں کے ساتھ ’کمیونیکیشن‘سے لے کر فیس اور’ اِنوینٹری ‘ سمیت ہر کام کا انتظام کیا جا سکتا ہے۔

مجھے پورا یقین تھا کہ ہمیں یہ کام کرنےکے لئے آسانی سے لوگ مل جائیں گے ۔ ہمارے پاس وہ سب کچھ موجود تھا جو ایک بہترین ٹیم تشکیل دینے کے لئے چاہیئے۔ ایک دفتر، بینک اکاؤنٹ میں پیسہ، ’ریکروٹمنٹ‘ کی پالیسی اور سب سے زیادہ اہم بات یہ کہ میرے پاس ایک ایسا شریک ِکار تھا جسے ’ریکروٹمنٹ‘ کے معاملےمیں ایک دہائی سے زیادہ کا تجربہ تھا۔

ہم کچھ ایسے لوگوں سے ملے جنہیں اپنے ساتھ کام پر رکھنا ہمیں مناسب لگا ۔ لیکن ہمیں یہ دیکھ کر کافی حیرت ہوئی کہ اُن میں سے ایک بھی ہماری ابتدائیہ کمپنی (اسٹارٹ اپ) کا حصّہ بننے کو تیار نہیں تھا۔

میرے شریک ِ کار نے تبصرہ کیا،’’ اب تک تو میَں کسی بھی کمپنی کے لئے دس سے زیادہ لوگوں کو کام پر رکھ دیتا، لیکن میَں ابھی تک نہیں سمجھ پا رہا ہوں کہ لوگ ہمارے ساتھ کیوں نہیں آ رہے ہیں ۔‘‘

چونکہ ہم كارپوریٹ بیک گراؤنڈ سے تعلق رکھتے تھے اس لئے ہم نے نئی ’ریکروٹمنٹ‘ ( بھرتی) پالیسی کا مسودہ تیار کرنے میں کچھ دنوں کا وقت لیا ۔ ہم نے بنیادی تنخواہ کے علاوہ آمدنی اور ذاتی کارکردگی کی بنیاد پر بونس کی شکل میں ’انسینٹیو ‘ (incentive) دینے والی کمپنی قائم کی ۔

ہم اپنے نئے دفتر میں آ گئے ۔ ہم نے ایک ’ نوسِکھئیے ‘ کو اپنے ساتھ کام پر رکھا اور کافی مغز پاشی کے بعد ہم ایک ایسا شخص ڈھونڈ نکالنےمیں کامیاب رہے جس کی تکنیکی صلاحیتیں ہمیں متاثر کرنے میں کامیاب رہیں، لیکن اس کی انتظامی اور قیادت کی صلاحیت و قابلیت کے تعلق سے ہم شک و شبہ میں مبتلا تھے۔ اُسے ملازمت پر رکھنا کافی مہنگا سودا تھا ۔ ہم نے اُسے تنخواہ کے علاوہ کمپنی ’ اِنسینٹیو‘ دینے کی پیشکش کی ، بشرطیکہ سال بھر میں ہم کچھ کمانے میں کامیاب ہوئے ۔

ہم دو ڈیویلپرس کے ساتھ خود کو کافی خوش قسمت سمجھ رہے تھے ۔ میَں پروڈکٹ کی تخلیق کرتا اور ڈیویلپرس ’فرنٹ،اینڈ‘ ڈیزائن(front-end design) کے بارے میں سوچے بغیر ہی، فوراً اُس کی ’کوڈنگ‘ شروع کر دیتے ۔

image


وہ بہت دلچسپ وقت تھا ۔ ہمارا پروڈکٹ اب قطعی شکل اختیار کرنے لگا تھا ۔ ہم ایک ڈیزائنر کو اپنے ساتھ شامل کرنے میں کامیاب رہے لیکن ہمیں اُس کے رویے اور تکنیکی مہارت کے تعلق سے کئی مواقع پر سمجھوتہ کرنا پڑا۔ ہمیں ایک ’اسٹارٹ اپ‘ کے لئے ’ریکروٹمنٹ‘کے چیلنج اور مشکلات کا احساس ہونے لگا تھا ۔

ہم اپنے پروڈکٹ کو جلد سے جلد تیار کر دینا چاہتے تھے تاکہ ہم اس کی فروخت شروع کر سکیں ۔

لیکن تبھی غیر متوقع مسائل ہمارے سامنے آنے لگے۔ ہمارا جونیئر ڈیویلپر ہماری توقعات پر پورا نہیں اتر رہا تھا اور ہم نے اُسے کام چھوڑنے کے لئے کہہ دیا ۔ صرف چار لوگوں کی ایک ٹیم کے ساتھ ہم نے اپنے پروڈکٹ کاپہلا ورژن تیار کرنے میں کامیابی حاصل کی۔

ہمیں پورایقین تھا کہ ایک بار مارکیٹ میں آنے کے بعد ہمارا پروڈکٹ تہلکہ مچا دے گا ۔ ہم نے اعلیٰ ’ای آرپی‘ ERP مصنوعات میں شامل تمام خصوصیات کو شامل کیا تاکہ ہم اپنے کاروباری حریفوں سے سبقت لے جانے میں کامیاب رہیں ۔ حالانکہ ہم اپنے ’ فرنٹ اینڈ‘ ڈیزائن سے خوش نہیں تھے اور ہم مسلسل ایک بہتر ڈیزائن کی تلاش میں لگے ہوئے تھے ۔

ہماری پہلی ممکنہ صارف جو کہ ایک معروف اسکول کی پرنسپل ہیں، اُن کو ہمارا آئیڈیا اور اس کا ’ڈیمو‘ بہت پسند آیا، لیکن منتظمینِ عالیہ کی جانب سے فیصلے کے انتظار میں انہوں نے ہمیں اور ہمارے پروڈکٹ کو ٹھنڈے بستے میں ڈال دیا ۔ ہم نے انہیں اس امید میں ’سیلز مٹیرئیل ‘ بھیج دیا تھا کہ وہ جلد ہی وہ ہمارا سافٹ ویئر خریدیں گي ۔

اب تک یعنی چھ ماہ کے عرصہ میں پروڈکٹ ڈیولپمنٹ کے اخراجات مندرجہ ذیل تھے :

کمپنی ’اِن کارپوریشن‘ 30,000 روپے

دفتر کی تجدیدکاری 1,20,000 روپے

ائیر کنڈیشن/ فرج / اِنورٹر 40,000 روپے

کرایہ 91,000 روپے

تنخواہ 3,60,000 + 1,00,000 + 65,000 روپے

سفر، کھانا، مارکیٹنگ 1,00,000 روپے

کُل 9,56,000 روپے

ایسے میں ہم نے اپنے ڈیولپمنٹ آفس کو چندی گڑھ منتقل کرنے کا فیصلہ کیا جہاں میَں انتظامیہ سنبھالتا اور میرے شریک ِ کار گڑگاؤں میں ہی سیلز کاکام سنبھالتے۔

اب ہمارا سینئر ڈیویلپر گڑگاؤں اورچندی گڑھ کے درمیان چکّر کاٹنے کی بجائے اپنا وقت اورمحنت ڈیولپمنٹ کے کام میں صرف کر رہا تھا۔

اِس طرح ہم دفتر کے کرایہ کے پیسے بچانے میں بھی کامیاب رہے۔

میں اپنی رہائش کے پیسے بچانے میں کامیاب رہا۔

مگر اِس کے بعد ہم پھرایک سانحے سے دوچار ہوئےجب ہمارا ڈیزائنر ہمارا لیپ ٹاپ لے کر رفو چکّر ہو گیا۔

حالانکہ ہم نے جلد ہی اُسے تلاش کر لیا اور لیپ ٹاپ بھی برآمد کر لیا لیکن ہم ایک ڈیزائنر سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔ میَں نے اس چیلنج کا سامنا کرنے کا فیصلہ کیا اور ویب ڈیزائننگ کی بنیادی چیزوں کو سیکھنا شروع کیا ۔ صرف 6 ماہ میں ہی ہم مکمل ڈیزائن کو دوبارہ تیار کرنے میں کامیاب رہے ۔ ہمارا پروڈکٹ بہت اچھی طرح سے تیار ہوگیا تھا۔

اب ہم نے اسکولوں سے رابطہ کرنا شروع کیا، لیکن ہم سبھی شریکِ کار بانیوں میں سے کوئی بھی سیلز کے بیک گراؤنڈ سے نہیں تھا۔

ہمیں ’ اپائنٹمنٹ ‘ حاصل کرنے کے لئے سخت جدوجہد کرنی پڑتی۔

ہم نے بغیر کسی خاطر خواہ نتیجے کے 10 سے 12 اسکولوں سے رابطہ کیا۔

گیٹ کیپرس اور سیکورٹی گارڈس سے گزر کرآگے بڑھنا ہی ایک بہت بڑی رکاوٹ تھی۔

ہمیں یہ پتہ چلا کہ اسکولوں کے پرنسپلوں کے پاس فیصلہ کرنے کے حقوق و اختیارات ہی نہیں ہیں۔

فیصلہ کرنے والے کبھی اسکولوں میں موجود ہی نہیں ہوتے تھے۔

زیادہ تر اسکولوں کے منتظمین ہمارے ای میل تو دیکھتے مگر جواب تک نہیں دیتے۔

جب آپ کسی اسکول کو کوئی پروڈکٹ فروخت کرنے جاتے ہیں تو ابتدائی دو تین مہینوں تک تو کچھ ہوتا ہی نہیں ہے ۔

ہم نے سیلز ڈپارٹمنٹ کے لئے احمد آباد کے ایک تجربہ کار شخص کو اپنے ساتھ شامل کیا، لیکن ہم اپنے حریفوں کے مقابلے میں کم قیمت میں زیادہ سہولیات دستیاب کروانے والےاپنے پروڈکٹ کی فروخت میں ناکام ہی ثابت ہوئے تھے۔

image


بعض ’ریفرینس‘ اور رابطوں کے ذریعے ہمیں نئے صارفین تو مل رہے تھے لیکن آمدنی اب بھی دُور کی کوڑی تھی ۔ سیلز کاکام سنبھالنے والے میرے شریکِ کار کا کہنا تھا کہ کچھ بڑے اسکول ہماراپروڈکٹ خریدنے کے خواہش مند ہیں، بشرطیکہ ہم اِس میں کچھ نئی خصوصیات شامل کریں ۔

حالانکہ میری رائے بالکل الگ تھی ۔ میرا کہنا تھا کہ ہمارے پاس کسی بھی اسکول کے لئےمناسب ترین خصوصیات ہیں مگر کمی کہیں نہ کہیں ’سیلز‘ ڈپارٹمنٹ میں ہے۔ میرا خیال تھا کہ ہمیں کچھ چھوٹے اوردرمیانے درجے کے اسکولوں سے رابطہ کرنا چاہیے، بھلے ہی ہمیں پیسہ کم ملے،اور اِس طرح ہمارے درمیان آپس میں ہی نظریاتی اختلاف ہونے لگے۔

ہمارے پیسے ختم ہونے لگے، پھر بھی ہم نے’ اسٹارٹ اپ‘ میں مزید فنڈز کی سرمایہ کاری کی۔ ہم نے ایک بڑی مسابقتی کمپنی سے توڑ کر سیلزڈپارٹمنٹ کا ایک شخص اپنے ساتھ شامل کیا۔

ہمیں لگا کہ ہمارے ہاتھ ’الہ دین‘کا چراغ لگ گیا ہے کیونکہ اس شخص نے ہمیں حریف کمپنی کی مصنوعات کے بارے میں معلومات دینے کے علاوہ اسکولوں میں اُس کی فروخت کے راز بھی بتائے۔
اُس نے ہمارے ساتھ ایک ماہ تک کام کیا ،لیکن نتیجہ صفر ہی رہا ۔اب تک وہ محض ایک بڑے’ برانڈ‘ کے نام کی وجہ سے کامیاب ہوتا رہا تھا۔

ایسے میں ہمیں اپنا وجود برقرار رکھنے کے لئے مزید فنڈ کی ضرورت تھی۔

میرے شریکِ کار کچھ ایسے بڑے اسکولوں کے چکّر میں لگے تھے جو کچھ پیشگی ادائیگی کر سکیں ۔ اِس کے علاوہ انہوں نے بزنس حاصل کرنے کے لئے کچھ بااثر اور سیاسی لوگوں کے ساتھ بھی رابطے قائم کرنے شروع کئے۔

میَں نے ’اسٹارٹ اپ‘سے متعلق کتابیں اور ’بلاگ ‘پڑھنے شروع کئے ۔ بدقسمتی سے میرے شریکِ کار اب بھی اپنے ’اسٹارٹ اپ‘کو ایک بڑے كارپوریٹ کی طرح چلا رہے تھے۔

ایسے میں میَں نے اخراجات کم کرنے کی تجویز پیش کی۔ آخر کار میرے شریکِ کار نے کمپنی کو اپنے ذمّے لے لیا اور وعدہ کیا کہ اگر کمپنی مستقبل میں منافع کماتی ہے تو وہ میرا ’انویسٹمنٹ‘ لوٹا دیں گے۔

اب تک ہم ایک ایسے پروڈکٹ میں جسے کوئی خریدنے کو تیار نہیں تھا، 15 لاکھ روپے برباد کر چکے تھے ۔ ہمارے پاس ادا ئیگی کرنے والے صرف دوهي صارفین تھے اور کچھ توصرف ٹیسٹ کے دور میں ہی تھے ۔ اور کچھ ہفتوں کی جدوجہد کے بعد میرے شریک ِ کار نے ایک نوکری کر لی ۔ اور یہ ’اسکول جِني ‘(SchoolGennie)کا اختتام تھا۔
image


آئیے، میَں آپ کو بتاتا ہوں کہ اِس دوران میں کیا کیا سیکھنے میں کامیاب رها۔

۱۔ اپنی مصنوعات کی تخلیق سے پہلے اپنے صارفین کی شناخت

ہم نےاپنے پروڈکٹ کی تخلیق اپنے حریفوں کےاصولوں اور خصوصیات کی فہرست کی بنیاد پر کی ۔جبکہ ہمیں اپنا پروڈکٹ بنانےسے پہلے اپنے صارفین سے بات کرنی چاہیے تھی۔

۲۔ یہ سمجھ لیجئے کہ پیسہ کہاں خرچ کرنا ہے اور کہاں نہیں

ہم نے دفتر کے بنیادی ڈھانچے اور تنخواہ میں اپنا زیادہ پیسہ خرچ کیا ۔ ہم گھر سے کام کرکے اور قابلِ گزارہ تنخواہ کے ساتھ ملازمین رکھ کر اپنا 80 فیصد تک خرچ بچا سکتے تھے۔

ہمیں ایسی چیزوں پر پیسہ خرچ کرنا چاہیے تھا جو زیادہ ’سیل‘یا’ لیڈز‘دیتے ۔ اگرحصولِ صارفین کا بنیادی ذریعہ آپ کی ویب سائٹ ہے تو آپ کو اپنا زیادہ پیسہ’ كنٹیٹ‘ مارکیٹنگ، ’سیلز ڈیک‘ اور’ سیلز پیج‘ پرخرچ کرنا چاہیے۔

اگر آپ ’آف لائن‘ ذرئع سے صارفین تک پہنچ رہے ہیں تو آپ’ برو شر‘ اور دیگر شائع شدہ مواد پر زیادہ پیسہ خرچ کریں۔

۳۔ ’کوڈ‘ میں اپنا ہاتھ ضرور آزمائیں

غیر تکنیکی شریک ِکار اکثر تکنیکی کام کاج کو لے کر شک و شبہ میں ہی رہتے ہیں۔

میں انہیں مشورہ دینا چاہتا ہوں کہ آپ غیر تکنیکی ہوتے ہوئے بھی’ کوڈنگ‘ ضرور کریں ۔ میں جانتا ہوں کہ بعض معاملات میں نتائج برعکس ہو سکتے ہیں لیکن زیادہ تر وہ ’غیر تکنیکی‘ شریکِ کار بہتر فیصلے کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں جنہیں یہ پتہ ہوتا ہے کہ چیزیں کس طرح کام کرتی ہیں۔

۴۔ ’سیلز‘ کےبیک گراؤنڈ سے نہ ہونے کے باوجود بھی ’ سیل‘ کریں

میں ہمیشہ سیلز کے کام سے دُوربھاگتا تھا کیونکہ میرا خیال تھا کہ میرے شریکِ کار مواصلات اورعوامی رابطے کےمعاملے میں مجھ سے بہتر ہیں ۔ ہم اُس کے بہترین مواصلات اور انتظامیہ کے پس منظر کے باوجود فروخت کرنے میں ناکام رہے۔ اس کی اہم وجہ یہ رہی کہ ہم صارفین کی ضروریات کے بارے میں جاننے کےبجائے صرف اپنی مصنوعات کی فروخت پرہی توجہ دے رہے تھے۔

۵ ۔ فیصلہ کریں اوراپنے علم وفہم پر بھروسہ کریں

ہم نے تقریباً تمام بڑے اور چھوٹے فیصلوں کو ملتوی کرنا شروع کر دیا ۔ یہاں تک کہ راستے الگ کرنے تک کا فیصلہ ہم کافی دنوں تک آگے کھینچتے رہے ۔اپنے پہلے اِدارے کے بند ہونے کے بعد میَں نے اُس وقت دستیاب معلومات کی بنیاد پر ٹھوس فیصلہ کرنا شروع کیا ۔ آپ کے پاس ہمیشہ کوئی بھی فیصلہ کرنےکےلئے 100 فیصد’ ڈیٹا‘ تو نہیں ہو سکتا ۔ آپ کو اتنا قابل ہونا پڑے گا کہ آپ صرف 60 یا 70 فیصد معلومات کی بنیاد پر فیصلہ کر سکیں۔

۶۔ کبھی بھی سیکھنا مت بند کرو

کسی بھی ’اسٹارٹ اپ‘ کے لئے خطرے کی گھنٹیاں اُسی وقت سے بجنے لگتی ہیں جب کوئی ایک’ ماہر‘ کی طرح برتاؤ کرنے لگتا ہے اور نئی چیزوں کو سیکھنے سے پیچھے ہٹتا ہے ۔ اگر آپ سیکھنا بند کردیتے ہیں تو آپ کو ناکام ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔

۷۔ پیسہ کسی بھی ’اسٹارٹ اپ‘ کامحض ایک ذیلی حصّہ ہے

حالانکہ میَں نے یہ بہت دیر سے سیکھا، لیکن ہو سکتا ہے کہ آپ میں سے کچھ لوگ اِس کا احساس ابھی سے کر رہے ہوں ۔ ہم کاروباری حضرات صرف صارفین کے مسئلے کو حل کرنے کے لئے یا پھر اپنے جوش و جنون میں انٹرپرائز قائم کرلیتے ہیں اور پیسہ تو اس کے لئے صرف ایک ایندھن ہوتا ہے ۔ اگر آپ اپنی تمام تر توجہ صرف پیسے پر مرکوز رکھتے ہیں تو آپ دُوراندیش نہیں کہلائیں گے ۔

۸۔ فراخ دِل بنیں

میری نظر میں کاروباری دنیا کا سب سے اہم سبق ہے،ہرسطح پر فراخ دِل اور شائستہ ہونا ۔

نتیجہ :

یہ میرے پہلے ’اسٹارٹ اپ ‘کی کہانی تھی لیکن مجھے لگتا ہے کہ زیادہ تر نئے کاروباری حضرات اِسی راستے پر چلتے ہیں ۔ میَں نے ایک دوسرے ’اسٹارٹ اپ‘ کے شریک ِ کارکو ساتھ لیا اور اُس نے میری زندگی میں مثبت تبدیلی لانے میں مدد کی ۔ اب میں اُس ’اسٹارٹ اپ‘ کے ساتھ کام کر رہا ہوں اورڈیولپمنٹ میں اُن کی مدد کر رہا ہوں۔

( ’اسٹارٹپ کرما‘ میں شائع شدہ مضمون)

قلمکار : پردیپ گوئل

مترجم : انور مِرزا

Writer : Pardeep Goel

Translation by : Anwar Mirza