جانبازی کی اعلیٰ مثال ... مالیگاؤں کے شکیل تیراک

’’مجھے تیراکی کا فن اپنے والد سے ملا ہے ۔میں کم عمری سے ہی موسم ندی اور گرنا ندی میں اپنے والد کے ساتھ تیراکی کرنے جاتا تھا۔میرے والد نے مجھ سے کہا تھا کہ اپنے لیے تو سبھی جیتے ہیں، انسان تو وہ ہے جو دوسروں کے لیے جیتا ہے۔‘‘

جانبازی کی اعلیٰ مثال ... مالیگاؤں کے شکیل تیراک

Wednesday April 27, 2016,

7 min Read

دوسروں کے لئے جینے اور دوسروں کے کام آنے، لوگو٘ں سے ہمدردی رکھنے کاجزبہ ہر معاشرے میں ہمیشہ سراہا گیا ہے۔ جب یہ جزبہ کسی کے شوق میں شامل ہو جاتا ہے تو اس سے بڑے بڑے کارنامے درج ہوتے ہیں۔ انسانی جانیں بچانا بھی کسی کا شوق ہو سکتا ہے۔ مالیگاؤں میں شکیل تیراک ک کارنامہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ وہ اپنی جان جوکھم میں ڈال کر انسانی جانیں بچاتے ہیں۔

image


اندرونِ مہاراشٹر کے مردُم خیز شہر مالیگاؤں ضلع ناسک میں پیدا ہونے والے شکیل احمد نے اب تک اپنی جان پر کھیل کر 36لوگوں کو پانی میں ڈوبنے سے بچایا ہے، جبکہ 419 ڈوبی ہوئی انسانی لاشوں کو پانی سے نکالا ہے۔ فنکاروں کے اس شہر میں جیسے ہی کسی شخص کے ڈوبنے کی اطلاع ملتی ہے، لوگوں کے ذہن پر شکیل تیراک کا نام ابھر آتا ہے۔

شکیل احمد کو بچپن ہی سے تیراکی کا شوق تھا۔ ان کے والد محمد صابر فائر بریگیڈ میں ملازم تھے۔ وہ خود بھی ایک بڑے اچھے تیراک مانے جاتے تھے۔ ڈوبتے ہوئے لوگوں کی جان بچانا ان کی زندگی کا نصب العین تھا۔ جس طرح مچھلی کے بچے کو تیراکی سکھانے کی ضرورت نہیں پڑتی، عین اسی طرح شکیل کو بھی تیراکی سکھانے کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ انہوں نے نہ صرف یہ کہ اپنے والد کا ’فن‘ بلکہ ان کے ’پیشے‘ کو بھی اپنا شوق بنا لیا۔ شکیل اپنے والد کے اس فن کو وراثت سمجھ کر آگے بڑھا رہے ہیں۔ مالیگاؤں کی اے ٹی ٹی ہائی اسکول اینڈ جونیئر کالج سے بارہویں جماعت تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد شکیل تیراک نے اپنی زندگی ڈوبتے لوگوں کو بچانے کےلئے وقف کردی۔وہ کہتے ہیں،

’’مجھے تیراکی کا فن اپنے والد سے ملا ہے ۔میں کم عمری سے ہی موسم ندی اور گرنا ندی میں اپنے والد کے ساتھ تیراکی کرنے جاتا تھا۔میرے والد نے مجھ سے کہا تھا کہ اپنے لیے تو سبھی جیتے ہیں، انسان تو وہ ہے جو دوسروں کے لیے جیتا ہے۔‘‘
image


شکیل تیراک کا دائرہ عمل مالیگاؤں سے پَرے، ناسک ضلع اور اطراف کے تمام اضلاع تک پھیلا ہوا ہے۔ ان علاقوں میں جب کبھی کوئی کہیں ڈوب جاتا ہے اور اس کا نکلنا ناممکن ہو جاتا ہے، جب لائف گارڈس ناکام ہوجاتے ہیں، تب شکیل احمد (تیراک کو بلایا جاتا ہے۔ انہوں نے برہانپور کی تاپتی ندی، پونہ، سنگم نیر، چنکاپور ڈیم، گرنا ڈیم، ہرن باری ڈیم، ارجن ساگر ڈیم، اکل پاڑا ڈیم، منماڑ ڈیم اور مالیگاؤں کے اطراف دیہاتوں کے تالابوں میں ڈوبتے انسانوں کو بچایا ہے اور ڈوبے ہوئے انسانوں کی لاشیں نکالی ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ وہ اس کام کا کسی سے کوئی معاوضہ نہیں لیتے ۔ کوئی خوشی سے بھی دیتا ہےتو منع کردیتے ہیں۔

شکیل تیراک بتاتے ہیں،

''غوطہ خور پانی کی تہہ میں پہنچ کر زیادہ دیر تک نہیں رک پاتے، عام تیراک تو پانی کی تہہ تک پہنچتے ہی نہیں۔ جب کوئی انسان ڈوبتا ہے تو چند منٹوں میں اس کی جان نکل جاتی ہےاور وہ سیدھا تہہ میں پہنچ جاتا ہے۔میں پانی کی تہہ میں پہنچ کر پیروں سے زمین پر لاش کو تلاش کرتا ہوں۔ ایک غوطہ میں دس فٹ کے دائرے میں لاش تلاش کرتا ہوں۔یہ عمل رات کے وقت روشنی نہ ہونے کی وجہ سے مشکل ہوجاتاہے۔''

شکیل کے مطابق وہ 2 سے ڈھائی منٹ تک پانی کی تہہ میں رہ سکتے ہیں۔وہ ضلع ناسک کے سوئمنگ کمپٹیشن میں ڈھائی منٹ تک پانی میں سانس روکے رہے جو ایک ریکارڈ ہے۔ اس مقابلے میں انہیں گولڈ میڈل سے نوازا گیا ۔

image


اکثر لائف گارڈس رات ہو جانے پر پانی میں نہیں اترتے، دن کی روشنی میں ہی پھنسے ہوئے لوگوں کو تلاش کرتے ہیں، لیکن جب مسئلہ انسانی زندگی اور انسانی جسم کا ہو، تو شکیل تیراک کو رات یا دن سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

انھوں نے بتایا کہ کس طرح ایک فیملی کے تین افراد مالیگاوں سے قریب گرنا ڈیم میں ڈوب گئے ۔ دن بھر تلاش کے بعد غوطہ خوروں کوناکامی ہی ملی، جب رات ہوچکی تب گرنا ڈیم کے ادھیکاری، پولس اور دیگر ذمہ داروں نے فیصلہ کیا کہ کل دن سے تلاش جاری کریں گے لیکن ۔۔

ایک عورت جس کا شوہر اس کی آنکھوں کے سامنے ڈوب گیا تھا وہ اپنے چھوٹے بچے کو لےکر وہیں کنارے پر بیٹھی رہی جب تلاش رک گئی تواس نے دھمکی دی کہ اگر اس کے شوہر کو فوری طور پر تلاش نہیں کیا گیا تو وہ بھی بچہ سمیت پانی میں چھلانگ لگادے گی۔ پولیس پریشان ہوگئی تب شکیل تیراک کو بلایا گیا انھوں نے رات کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں دو گھنٹے کی محنت کے بعدتینوں لاشوں کو باہر نکال لیا۔

شکیل تیراک جب دو دنوں تک پانی میں ڈوبی رہنے والی سڑی گلی لاشوں کی تفاصیل کا ذکر کرتے ہیں، تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ شکیل پانی کی تہہ میں پھنسی ایسی لاشوں کو بھی سنبھال کر ، مکمل طور پر، کنارے تک لاتے ہیں۔ کئی مرتبہ ہوتا یوں ہے کہ زیادہ وقت تک پانی میں پھنسے رہنے سے لاشیں گل جاتی ہیں، ان کے کئی حصے غائب ہوچکے ہوتے ہیں، تو وہ کئی کئی مرتبہ غوطے لگاتے ہیں اور لاشوں کے ٹکڑوں کو اندھیرے پانی کی تہہ میں ڈھونڈتے ہیں۔

شکیل تیراک کی آنکھیں ہمیشہ سرخ ہوتی ہیں، جیسے صدیوں کی ہمہ وقت جاگی آنکھیں ہوں۔ ان کی آنکھیں خوفناک واقعات کی داستان ہیں۔ وہ خاموش طبیعت کے بہت ہی مخلص انسان ہیں۔

image


انھوں نے پونے کے قریب واقع سنگم نیر کا ایک واقعہ بتایا، ’’جب آکسیجن ٹینک اور سوئمنگ سوٹ پہن کر غوطہ لگانے والے لائف گارڈس کو کئی دنوں کی محنت کے بعد بھی ناکامی ہی ہاتھ آئی، تب میں نے بغیر کسی سہولت کے، رات کے وقت ڈوبی ہوئی لاش کو باہر نکالا۔ ‘‘ان چیلینجنگ مواقع پر ان کے قریبی دوست عمران بھی ان کے ساتھ ہوتے ہیں۔وہ بھی ایک ماہر تیراک ہیں اور ان کے ساتھ اسی کام میں رات دن لگے رہتے ہیں۔ ان دونوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے مالیگاؤں میونسپل کارپوریشن سے بارہا آکسیجن سلینڈر اور سوئمنگ سوٹ کا مطالبہ کیا ہے، لیکن انہیں ابھی تک کارپوریشن کی جانب سے کوئی سہولت نہیں ملی۔

ان کے اہل خانہ اور ان کی بیوی ان کے اس کام کے تئیں کافی فکر مند رہتے ہیں۔ شکیل پانچ بیٹیوں کے باپ ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’جب بھی کوئی خبر آتی ہے کہ فلاں جگہ کوئی ڈوب گیا اور میں گھر سے نکلنے کی تیاری کرتا ہوں، تب میری بیوی اور بیٹیاں مجھے جانے سے روکتی ہیں، میں ان سے کہتا ہوں،

 ’ایک دن تو سب کو مرنا ہے، اللہ نے غوطہ خوری کے اس فن سے نوازا ہے، ہم اس کی مدد سے کسی کی جان بچالیں تو یہی سچی خدمت ہوگی۔ اللہ ہمارا محافظ ہے۔‘‘

 جب وہ گھر سے نکل جاتے ہیں اور جب تک واپس نہیں لوٹتے اس وقت تک اُن کی بیوی اور بچیاں دعائیں کرتی رہتی ہیں کہ شکیل صحیح سلامت گھر واپس آجائیں۔

حکومت مہاراشٹر کی جانب سےمختلف شہر وں میں ان کی اسی بہادری پر اب تک انہیں ۸گولڈ میڈل ، ۶سلور میڈل اور ۴۸سمان پتر سے نوازا جاچکا ہے، سماجی تنظیموں اور اداروں کی جانب سے انہیں سینکڑوں بہادری پرسکار ،ایوارڈ اور انعامات مل چکے ہیں۔ مالیگاؤں و اطراف کے لوگ انہیں لوگ ایک ماہر تیراک اور جانباز شخص کے روپ میں دیکھتے ہیں۔ شکیل تیراک کی انہیں خدمات کے عوض انہیں 2003 میں فائر بریگیڈکی ملازمت پیشکش کی گئی جسے انھوں نے قبول کرلیا۔

....................................

 ایسے ہی حوصلہ مند افراد کی کچھ اور کہانیاں پڑھنے کے لئے ’یور اسٹوری اُردو‘ کے فیس بک پیج پر جائیں اور ’لائک‘ کریں۔

FACE BOOK

کچھ اور کہانیاں پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں

جب ایک غریب لڑکا ملینئر بن جاتا ہے، سلم بستی کی سچی کہانی

زندگی مشکل ہے مگر حوصلے کی بدولت اپنا قد بڑھانے میں مصروف پونم شروتی

ایسڈ حملے سے متاثر افراد کو بہتر زندگی فراہم کرنے کا نام ہے 'شروز هینگٹ آوٹ'