پوسٹر بائے سے ایڈیٹر تک ...سید اسد کا حیرتانگیز سفر
Friday February 19, 2016,
4 min Read
٭نامساعد حاات کا ہیشہ جوانمردی ک ساتھ سامنا کیا
اپنی مجبوریوں کو کبھی بھی عزایم کی تکمل میں رکاوٹ بننے نہیں دیا
آج سماجی خدمت کے زریہ کیی لوگوں کے لیے مشعل راہ بنےہوے ہیں
کہتے ہیں زندگی میں کچھ کرنے کے لیے مال و زر کی نہیں بلکہ حوصلہ کی ضررت ہوتی ہے اور حوصلہ و لگن کے زریہ انسان کامیابیوں کی بلندیوں کو چھو کر نئی تاریخ رقم کرتا ہے، ایسی ہی ایک کہانی ہے سید اسد کی جنہوں نے نامساعد حالات میں بھی محض اپنے جزبہ سے سماجی خدمت کو اختیار کیا اور آئج سماج کے لیے تحریک بنے ہوے ہیں۔
سید اسد ریاست تلگانہ کے ضلع نظام آباد کے دیم محلہ پھولانگ سے تعلق رکہتے ہیں۔ ان کے والد سید جلال صحاب ریڈیو میکانک تھے۔زمانہ کی ترقی کے ساتھ ساتھ ریڈیو کا چلن کم ہوتا گیا۔ جس کی وجہ سے کاروبار کا چلنا نہ چلنا ایک ہی بات بن کر رہ گئی ان حالات میں سید اسد کو اپنے والد کا ساتھ دینے اور اپنے بھائی کے سلسلہ تعلیم کو جاری رکھنے کے لیے کم عمری یں کام کرنا پڈا۔چونکہ ان کے پاس کسی بھی کام کا تجربہ نہیں تھا، اس لیے کام ملنا مشکل تھا ایسے مین انہین شہر کی ایک تھیٹر میں فلمی پوسٹر چسپاں کرنے کا کام مل گیا۔ وہ رات میں پوسٹر چسپان کرتے اور دن میں اپنے سلسلہ تعلیم کو جاری رکھتے اس طرح وقت گزرتا گیا ،سید اسد تعتیلات کے دوران تھیٹر کے لیے فلموں کا اناونسمنٹ کرتے ٹکٹ بھی فروخت کرتے،ایسے تیسے سید اسد نے ایس ایس سی امتحانات میں کامیابی حاصل کرلی۔
اس کے بعد انہوں نے بیروں ملک جانے کا فیصلہ کیا عزیز و عقارب سے سعودی عرب جانے کے لیے درکار رقم بطور قرض حاصل کی اور سعودی عرب روانہ ہو گیے۔سعودی عرب میں تقریباّ ایک دہے کے قیام کے بعد سید اسد وطن واپس آگیے ،وطن واپسی کے بعد کیا کیا جائے ایک سنگين مسلہ بن گیا۔ چند دوستوں نے کاروبار کرنے کا مشورہ دیا۔ چند نے ملازمت کرنے کی صلاح دی ایک جان پہچان کے شخص نے انہیں اپنے مقامی روزنامہ آج کا ںطامآباد میں بطور نامہ نگار کام کرنے کی پیشکش کی۔کافی غورو فکر کے بعد سیداسد نے اخبار میں کام کرنے کا فیصلہ کیا اور کام کے ساتھ ساتھ اوپن ینیورسٹی سے گریجویشن کی تعلیم مکمل کر لی۔
اس طرح زندگی کا سفر جاری تھا کے ایک دن سید اسد نے اپنا خود کا اخبار نکالنے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے آج کا تلنگانہ کے ٹايٹل سے اپنے اخبار کی شروعات کی ان کی محنت لگن کاوشیں رنگ لائی اور اخبار چل پڑا آہستہ آہستہ مقبول عام ہوتا گیا اور آج' آج کا تلنگانہ' کا شمار شہر نظام آباد کے مقبل عام روزناون میں ہوتا ہے۔
اخبار کی کامیابی کے بعد سید اسدنے ایک اور بڈا فیصلہ کیا اسی ٹائٹل سے تلگو زبان میں روزنامہ نکالنا شروع کیا اور اخبار کی ادارت اپنے چھوٹے بھائی سید قیصر کو سونپ دی،دنوں بھائیوں کی محنت سے آج یہ اخبار کامیابی کے ساتھ نکالا جارہا ہے۔
اپنے اخباروں کی کامیابی کے بعد ان بھائیون نے اپنے صارفین کے لیے مفت انشورنس کی سہولت مہیا کرنے کا فیصلہ کیا اس کے علاوہ ہر سال غریب طبقہ کے بچوں کو سلسلہ تعلیم جاری رکھنے کے لیے اسکول بیگس کتابیں کاپیاں فراہم کرتے ہوے مدد کر رہے ہیں۔
اپنی سماجی سرگرمیوں کے متعلق سید اسد کا کہنا ہے کہ وہ ایسے محروم طلبہ کو سلسلہ تعلیم جای رکھنے میں مدد کرنا چاہتے ہیں جو محض مالیہ کی کمی کی وجہ سے ترک تعلیم کے یے مجبور ہیں اسی مقصد کے تحت غریب طلبہ کی کچھ مدد کر رہے ہیں۔اپنے صارفین کو بیمہ کی سہولت کی فراہی پر تبصراہ کرتے ہوے سید اسد کہتے ہیں کے جو صارفین اپنے خوں پسینہ کی کمای کے زریہ ان کے اخبار کو کامیاب بناے ہوے ہیں ان کو مفت بیمہ کی سہولت دیتے ہوے وہ ان کی مدد کر رہے ہیں۔ سید اسد کا کہنا ہے وہ اپنے ماضی کو ہمیشہ یاد رکھیں گے اور چاہینگے کہ کے کوئی بھی شخص محض اپنے خراب مالی موقف کی وجہ سے ترک تعلیم کے لیے مجبور نہ ہوں اس لیے وہ ہمیشہ خدمت خلق کہ طریقہ کار کو اختیار کرے رہینگے۔
قلمکار : عبدالرحمٰٰن خان