واے دس کولاویری ڈی۔۔۔ ڈیجیٹل ہاوس 'دی 120 میڈیا کولیکٹیو' کی کہانی

واے دس کولاویری ڈی۔۔۔ ڈیجیٹل ہاوس 'دی 120 میڈیا کولیکٹیو' کی کہانی

Monday December 28, 2015,

10 min Read

یہ سب آدھی رات کو آنے والی ایک فون کال سے شروع ہوا۔ سونی میوزک ساوتھ کو الرٹ کیا گیا کہ فلم کے ایک ٹریک کو لیک کیا جاچکا ہے۔ اگرچہ لیک کو روکنے میں بہت دیر ہوچکی تھی البتہ فلم پروڈیوسر اور سونی میوزک کو ایک نئی وائرل حکمت عملی کی ضرورت تھی۔ حکمت عملی ایجنسی 'جیک ان دی بوکس ورلڈ وائڈ' نے نغمے کا 'آفیشل ورژن'بنانے کا فیصلہ کیا اور اسے 24 گھنٹوں میں ریلیز کیا گیا۔

image


ایجنسی نے اس کی ڈیجیٹل ٹیم سے وابستہ پوری افرادی قوت اور فلم کے بنیادی عملہ کو طلب کرکے کولاویری ڈی کو ریلیز کیا تھا اور اس نغمے کو راتوں رات زبردست مقبولیت حاصل ہوئی۔ 45 دنوں میں ہی یہ نغمہ سال 2011 ء کے لئے دنیا میں سب سے زیادہ ڈاؤن لوڈ اور دیکھے جانے والے ٹریکوں میں سے ایک بن گیا۔

جیک ان دی بوکس جو 'دی 120 میڈیا کولیکٹیو' کی سوشل میڈیا ونگ ہے، تب محض تین ماہ پرانی تھی۔ دی 120 میڈیا کولیکٹیو کے 40 سالہ بانی اور سی ای او روپک سلوجا کہتے ہیں 'ہم نے اسے مخصوص مقام تک پہنچانے کے لئے کچھ چیزیں بڑی چالاکی سے انجام دیں، لیکن اس کے بعد باقی سب کچھ ہمارے کنٹرول سے باہر تھا۔ اگر میں ماضی پر نظر ڈالوں تو وہ سب کرنا آج ناممکن نظر آتا ہے۔ ہم نے کوئی پیسہ خرچ نہیں کیا اور تب فیس بک کی آرگینک رسائی 20 فیصد کے قریب تھی'۔

دی 120 میڈیا کولیکٹیو آج ایک مکمل مربوط مارکیٹنگ ایجنسی ہے، جس کی خصوصی توجہ ڈیجیٹل سپیس پر مرکوز ہے۔ اس ایجنسی نے اپنے سفر کے دوران کئی موڑ، تبدیلیاں اور اتار چڑھاؤ دیکھے ہیں۔ روپک جو ایک سفارت کار کے بیٹے ہیں، کو ایک ایجنسی قائم کرنے اور اشتہارات کے میدان میں داخل ہونے کا خیال ایک غیرمعمولی کیریئر کے انتخاب جیسا لگا ہوگا، کیونکہ اپنی نشو ونما کے دوران ان کی اس شعبہ کے ساتھ کوئی خاص وابستگی نہیں رہی ہے۔ روپک نے اشتہاری ایجنسیوں جیسے ینگ اینڈ روبی کیم، بڈاپسٹ اینڈ اوگلیوی اور ماتھر کے ساتھ کچھ وقت گذارنے کے بعد انسیڈ بزنس اسکول سے ایم بی اے کی ڈگری حاصل کی ہے۔ انہوں نے محسوس کیا تھا کہ انہیں کچھ اپنا کرنا ہوگا۔

روپک کہتے ہیں '2004 ایک بڑا سال تھا۔ ہندوستان نے عالمی سطح پر ایک غیرمعمولی توجہ اپنی جانب مبذول کرنا شروع کردیا تھا۔ بحیثیت ایک ہندوستانی جس نے اپنی زندگی کا بیشتر وقت بیرون ملک گذار تھا، مجھے اچانک ہوش آگیا کہ ہندوستان کا موازنہ چین کے ساتھ کیا جانے لگا ہے۔'

تاہم یہ ممبئی تھا جس نے روپک کے اربن انڈیا سے متعلق خیالات کی سچی تعبیر پیش کی تھی۔ شہر کی توانائی قابل دید تھی ۔ انہوں نے افراتفری کے درمیان ایک مخصوص دلکشی پائی۔ وہ جانتے تھے کہ انہیں ممبئی واپس آکر کچھ اپنا کرنا ہوگا۔ 2006 ء میں انہوں نے تین دیگر لوگوں کے ساتھ مل کر بینگ بینگ فلمز قائم کیا جو کہ ایک کمرشل پروڈکشن کمپنی ہے۔ تاہم اس کمپنی کے معاون بانی بعد میں دیگر منصوبوں کے ساتھ منسلک ہوگئے۔

روپک کومحسوس ہوا کہ ملک میں ایڈورٹائزنگ اور پروڈکشن ایک بہت ہی کلوسڈ سرکٹ میں کام کرتے ہیں، کہتے ہیں 'ایڈورٹائزنگ بیک گراؤنڈ رکھنے والے مجھ جیسے کسی بھی شخص کے لئے بینگ بینگ فلمز قائم کرکے میڈیا اور انٹرٹیمنٹ میں تبدیلی والا داخلہ تھا۔'

روپک کا کہنا ہے کہ مارکیٹ پر ماضی میں اور آج بھی ڈائریکٹرکی مرکوزیت والے پروڈکشن کمپنیوں کا غلبہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ فلمساز صرف فلمساز نہیں ہوتاہے بلکہ حقیقت میں پروڈکشن کا مالک ہوتا ہے جو ہر ایک فیصلہ خود ہی لیتا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ اگرچہ ایسے مارکیٹ میں تخلیقی صلاحیتوں کی کوئی کمی نہیں ہوتی ہے لیکن شفافیت کا فقدان ہوتا ہے۔

ایک مثال کا حوالہ دیتے ہوئے روپک کہتے ہیں 'اگر کوئی شخص کسی پروڈکشن کمپنی سے قیمت کی فہرست مانگتا تھا، تو انہیں یکجا قیمت پیش کی جاتی تھی مثلاً 72 لاکھ روپے۔ نہ اس میں علیحدہ تفصیلات درج ہوتی تھیں اور نہ کوئی جوازپیش ہوتا تھا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ ایجنسیاں اسے معمول سمجھ کر قبول کرلیتی تھیں۔'

روپک نے کام ایک الگ ڈھنگ سے کرنے کا فیصلہ لے لیا۔ کہتے ہیں 'ہم نے قیمتوں کی فہرست تفصیل سے فراہم کرنا شروع کردیں، اس طرح سے کوئی بھی فراہم نہیں کرتا تھا۔ گاہکوں نے اسے سراہنا شروع کردیا۔ ہم نے اعلیٰ درجے کی پیشہ ورانہ مہارت کو بروئے کار لایا اور بین الاقوامی ہنر استعمال کیا۔ یہ سب طے شدہ تھا کیونکہ ہم نہیں جانتے تھے کہ کوئی اچھا ہندوستانی ہدایت کار ہمارے ساتھ کسی معاہدے پر دستخط کرے گا۔'

بینگ بینگ فلمز اپنے پہلے چار سالوں میں ملک میں سب سے بڑے پروڈکشن ہاؤسوں میں سے ایک بن گیا۔ لیکن سب سے پہلے اسے ایک ایجنسی کے طور پر اپنی ساکھ بنانی پڑی۔ اس ایجنسی کی پہلی پیش رفت نوکیا کا اشتہار تھا جو اس نے 2009 کے اواخر اور 2010 کے اوائل میں پریانکا چوپڑا کے ساتھ کیا۔ اس کے فوراً بعد وہ گاہک اس ایجنسی سے رجوع ہونے لگے جن کا ایجنسی اس اشتہار سے قبل پیچھا کرتی تھی۔ روپک کہتے ہیں ' یہ آسان نہیں تھا۔ ہم پہلے باہر والے تھے لیکن ایک بار ہم نے اپنی ساکھ بنالی تو اس کو ہم سے دور کرنا ناممکن تھا۔'

روپک پروڈکشن کے صرف ایک پہلو پر توجہ مرکوز کرنے پر مطمئن نہیں تھے۔ انہوں نے 2008 میں شروع ہوئی ڈیجیٹل لہر سے منسلک ہونے کا فیصلہ کرلیا۔ وہ کہتے ہیں 'ہمیں اس بات کا احساس ہوا کہ ڈیجیٹل میڈیا میں زیادہ سے زیادہ نتائج حاصل کرنے کے لئے حکمت عملی، تخلیق اور پروڈکشن کا ایک ہی چھت کے نیچے ہونا لازمی ہے۔ ہمیں محض ایک عملدرآمد والی کمپنی سے ایک سوچنے اور کام کرنے والی کمپنی میں تبدیل ہونا تھا۔'

ٹیم کو بھی احساس ہوا کہ صرف مواد کی تخلیق کافی نہیں ہے بلکہ اس کو پھیلانے اور اس کی تقسیم پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔ ٹیم کی جانب سے پہلی مربوط مارکیٹنگ مہم پوما کے لئے شروع کی گئی تھی۔ اس کے بعد دیگر گاہک رجوع ہوتے رہے اور اس کے بعد کولاویری ویڈیو سامنے آئی۔

تاہم ٹیم کو محسوس ہوا کہ یہ کاروباری ماڈل کافی منافع بخش ثابت نہیں ہورہا ہے کیونکہ انہیں مالی نقصان سے دوچار ہونا پڑ رہا تھا۔ روپک کا کہنا ہے 'اس شو کو چلانے والی ٹیم 20 سال کے نوجوان پر مبنی تھی۔ کمپنی کے اخراجات زیادہ اور اخراجی ڈھانچہ بہت وسیع تھا۔ ٹیم کو محسوس ہوا کہ ایک یا دو لاکھ صرف کرنے والوں کو برقرار رکھنے سے کچھ بہتر نہیں ہوگا۔'

انہوں نے ڈیجیٹل سپیس کے لئے ٹیک ڈیولپمنٹ کے علاوہ میڈیا کو خریدنے کی صلاحیتوں کو شامل کرنے کا فیصلہ لیاتاکہ وہ ٹیکنالوجی کی مدد سے مضبوط ڈیجیٹل برانڈس کو تعمیر کرسکے۔ روپک کہتے ہیں کہ آج جیک ان دی بوکس ملک کی معروف مربوط ڈیجیٹل ایجنسیوں میں سے ایک ہے۔ ٹیم دعویٰ کرتا ہے کہ اُن کی سالانہ آمدنی 60 کروڑ روپے ہیں۔

انہوں نے ایک غیرمعمولی فیصلے کے تحت اپنےگاہکوں کی تعداد 27 سے گھٹاکر 7 کردی۔ اس کی وجہ ایسےگاہکوں کو برقرار رکھنا تھا جو ڈیجیٹل میڈیا کی مطابقت کو سمجھتے تھے اور ان کے ساتھ ایک طویل المدت شراکت داری کے لئے تیار تھے۔ روپک کا کہنا ہے کہ ڈیجیٹل سپیش میں ایسی کئی کمپنیاں ہیں جن کی جڑیں سوشل میڈیا میں ہیں اور وہ ڈیجیٹل ایجنسیاں کہلاتی ہیں۔

روپک کہتے ہیں 'تاہم سمجھنے میں ایک خلیج ہے۔ برانڈز اور اُن کی پیشکش کو سمجھنے کے لئے ایک اچھی فہم کی ضرورت ہے'۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک مربوط ڈیجیٹل میڈیا سپیس کو تعمیر کرنے کا مطلب کاروبار کے بنیادی حرکیات کو سمجھنا اور مواد مارکیٹنگ منصوبوں کی تیاری ہے۔

سنہ 2013 تک ٹیم کو احساس ہوا تھا کہ مواد اُن کے پاس ایک بنیاد امتیازی حیثیت رکھنے والی چیز ہے۔ تاہم وہ ایک قابل اعتماد مواد کھلاڑی کی حیثیت سے اپنی شناخت بنانا چاہتے تھے اور اپنے آپ کو برانڈز تک محدود نہیں رکھنا چاہتے تھے۔

انہوں نے تارا شرما سلوجا کے شو کو 'کو پروڈوس' کرنا شروع کیا اور نان برانڈ مرکوز کہانیاں تیار کرنے کے لئے کنٹینٹ ٹیمیں بنانی شروع کیں۔ آج روپک کی کمپنی کی کئی عمودیاں ہیں جو پیرنٹ کمپنی 'دی 120 میڈیا کولیکٹیو' کے تحت کام کرتی ہیں۔ یہ عمودیاں ٹیلی ویژن ، پرنٹ، آن لائن کے لئے مواد، موبائل کے لئے برانڈس اور ان کے اپنے آئی پی پر توجہ مرکوز کرتی ہیں۔

ان عمودیوں میں بینگ بینگ فلمز۔ پروڈکشن کے لئے کام کرتی ہے، جیک ان دی بوکس ۔ مربوط مارکیٹنگ پر توجہ مرکوز کرتی ہے، سپنر اور سوپر فلائی جو 2015 میں قائم کی گئی تھیں، شامل ہیں۔ 120 میڈیا کولیکٹیو میں کالسٹا کیپٹل بیرونی سرمایہ کاری کرچکی ہے جس کی وجہ سے اسے دائرہ وسیع کرنے میں مدد ملی ہے۔

روپک کہتے ہیں 'بینگ بینگ فلمز آج پریمیم پروڈکشن برانڈ کی شکل اختیار کرچکا ہے جس کو بدقسمتی سے مہنگے اور بعض اوقات غیرلچکدار کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ جب برانڈز ٹی وی کمرشلز کے علاوہ سینکڑوں ویڈیو کنٹینٹ پروڈوس کرنا شروع کرتے ہیں تو ایسے میں ایک مختلف پروڈکشن اپروچ کی ضرورت اجاگر ہوتی ہے۔ مجھے محسوس ہوا کہ بینگ بینگ بہت جلد اسے حاصل قدر گنوادے گا۔ اس احساس نے سپنر کو جنم دیا۔'

ان کا کہنا ہے 'ہم نے بینگ بینگ کو ختم نہیں کیا۔ یہ ہندوستان میں شوٹنگ کے لئے بین الاقوامی پروڈکشن سروسز کا برانڈ بن گیا ہے۔ سپنر کے معاملے میں ٹیم برانڈز کے ساتھ براہ راست بات کرتی ہے اور اس طرح سے ٹیم کے لئے افق کھلتے ہیں'۔

سنہ 2015 میں انہو ں نے سوپر فلائی کے نام سے ایک اور برانڈ قائم کیا جس کا مقصد تقسیم کے بدلتے ہوئے دائرہ کار سے مستفید ہونا تھا۔ یہ ایک کثیر چینل نیٹ ورک کے طور پر کام کرتا ہے۔ یہ لوگوں اور تخلیق کاروں کے مواد کو ڈیجیٹل ویڈیو پلیٹ فارموں پر منیج کرتا ہے۔ اس ٹیم نے اپریل سے اب تک 75 چینلوں کو منیج کیااور انہیں امید ہے کہ یہ تعداد مارچ 2016 میں بڑھ کر 2016 ہوجائے گی۔

روپک اور اُن کی ٹیم برانڈز اور پبلشرز کے ڈیجیٹل ویڈیو پلیٹ فارموں پر ناظرین بنانے کے لئے بھی کام کرتے ہیں۔ روپک کہتے ہیں 'ہم اصل مواد کی تخلیق بھی کررہے ہیں۔ ہم اسے کنٹینٹ برانڈز کی تعمیر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، اس طرح سے ہم ناظرین کی تخلیق اور تعمیر انجام دے رہے ہیں۔ نو برسوں کے دوران ہم اس میں بغیر کسی خلل کے مواد کے ذریعے مصروفیت پیدا کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ تیسری پارٹی کے پلیٹ فارموں کی تقسیم کاری کے بجائے اب ہم اپنے پلیٹ فارم پر اپنا مواد تقسیم کریں گے۔'

موجودہ وقت میں مواد کی تخلیق اور سامعین کے ساتھ مشغولیت میں مدد کے لئے برانڈز براہ راست مواد کے تخلیق کاروں جیسے دنیا کے اے آئی بیز سے رجوع ہوجاتے ہیں ۔ روپک کا کہنا ہے کہ سوپر فلائی اس ماڈل پر کام کررہا ہے۔ 'دی 120 میڈیا کولیکٹیو' کی ٹیم کا دعویٰ ہے کہ اس نے گذشتہ مالی سال میں 60 کروڑ روپے کی آمدنی حاصل کی ہے۔

قلمکار: سندھو کشف

مترجم: ظہور اکبر

Writer: Sindhu Kashyap

Translation by: Zahoor Akbar