ترکِ اسکول کے بعد فُٹ پاتھ سے لے کر 60 کروڑ روپئے کے بزنس کی قیادت تک کا سفر!

ترکِ اسکول کے بعد فُٹ پاتھ سے لے کر 60 کروڑ روپئے کے بزنس کی قیادت تک کا سفر!

Thursday January 28, 2016,

12 min Read

راجہ نائک نے 17 سال کی عمر میں اپنا گھر چھوڑا۔ اپنے سے پہلے کے لاکھوں ، کروڑوں لوگوں کی طرح اُس نے بھی یہی چاہا کہ ایسی دردناک زندگی سے کہیں دور چلا جائے جس کی اصل وجہ غربت ہوتی ہے۔

” میں جانتا تھا مجھے پیسہ کمانا ہوگا۔ میں نے چاہا کہ بہت پیسہ کما¶ں۔ تب صرف یہی میرا مطمع نظر تھا،“ یہ الفاظ 54 سالہ راجہ نائک کے ہیں، جو مجھ سے مخاطب تھے جبکہ ہم اس انٹرویو کے لئے بنگلورو میں اُن کے بہت عمدہ نئے دفتر میں اپنی نشستیں سنبھال رہے تھے۔ اُن کا کہنا ہے، ”میں نے کم عمری میں تاڑ لیا تھا کہ میرے والدین کے لئے مجھے اور میرے چار بہن بھائی کو اسکول بھیجنا بہت مشکل ہے۔ میرے باپ کی کوئی مستقل آمدنی نہ تھی اور میری ماں کے پاس گھر کے اخراجات کی پابجائی کے لئے معمولی وسائل تھے، یہاں تک کہ اُن کو چھوٹی چھوٹی مگر قیمتی اشیاءرہن رکھنا پڑتا تھا“۔

راجہ نائک

راجہ نائک


پھر ایک روز بات سمجھ آئی جب راجہ اپنے پڑوس کے دوستوں کے ساتھ یونہی وقت گزاری کررہے تھے کہ اُن کو ایک ہندی فلم دیکھنے کی ترغیب ملی۔ یہ 1978ءکی فلم ’ترشول‘ تھی، جہاں قلاش امیتابھ بچن آخرکار ریئل اسٹیٹ کی بااثر شخصیت بن جاتا ہے۔

اندھیری تھیٹر میں گزرے وہ تین گھنٹوں نے راجہ کے ذہن میں جوت جگا دی اور مستقبل کی راہ بھی دکھائی۔

” میں اس کہانی سے واقعی متاثر ہوا۔ وہ مجھے بہت حقیقی معلوم ہوئی۔ یکایک، مجھے اعتماد ہوا کہ خوابوں کو سچ کر دکھانا ممکن ہے۔ میں بھی ریئل اسٹیٹ کی بڑی شخصیت بننا چاہا،“

راجہ نے مسکراتے ہوئے یہ بات کہی، اور پھر تیزی سے اپنی توجہ اپنے ذریعہ تحریک سے ہٹادی۔

اس ایقان پر بھروسہ کرتے ہوئے وہ اپنا گھر چھوڑ کر ممبئی (تب کا بمبئی ) چل دیئے۔ مگر سب کچھ اتنا آسان نہ تھا، کیا ایسا ہوسکتا تھا؟ وہ ٹوٹا دل لئے گھر لوٹ آئے، مگر اُن کا ذہن مسلسل کام کرتا رہا کہ کس طرح صحیح موقع تلاش کیا جائے۔

آج، راجہ کا اپنے مختلف انٹرپرائزس سے جملہ 60 کروڑ روپئے کا سالانہ بزنس ہے، جن میں یہ سب شامل ہیں: MCS Logistics وہ کمپنی جو انھوں نے 1998ءمیں انٹرنیشنل شپنگ اینڈ لاجسٹکس کے شعبے میں قائم کی؛ Akshay Enterprises جو ’کروگیٹیڈ پیاکیجنگ‘ کا ادارہ ہے؛ Jala Beverages جہاں پیاکیجڈ ڈرنکنگ واٹر کی تیاری ہوتی ہے؛ Purple Haze جو صحت و تندرستی سے متعلق ہے جس کے بنگلورو میں تین بیوٹی spa-and-salon سنٹرز ہیں؛ Nutri Planet (تین دیگر ڈائریکٹرز اور پارٹنرز کے ساتھ) جو CFTRI کے ساتھ کام کرتے ہوئے چاول Chia سے ’انرجی بارز‘ اور تیل جیسے پراڈکٹس پیش کرنے والی کمپنی ہے۔ ان سب کے علاوہ راجہ کلانکیتن ایجوکیشنل سوسائٹی کے بیانر تلے اسکولس اور ایک کالج بھی سماج کے نادار اور محروم طبقات کے لئے چلاتے ہیں۔

راجہ پریسیڈنٹ، کرناٹک چیاپٹر، دلت انڈین چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز (DICCI) بھی ہیں، جس کے بارے میں اُن کا کہنا ہے کہ وہ سماج کے محروم طبقات کو اونچی سوچ کا حوصلہ بخش رہے ہیں۔ ”ہم انھیں اُن کے خوابوں کو سچ کردکھانے کے لئے دستیاب مواقع سے واقف کرا رہے ہیں۔“

پہلا قدم : چھوٹا مگر پُراعتماد

کرناٹک کے ایک گا¶ں سے منتقل ہونے والے دلتوں کے فرزند راجہ کی پیدائش بنگلورو (تب کا بنگلور) میں ہوئی اور اُن کی زندگی کے ابتدائی 17 سال اِسی شہر میں گزرے جہاں رہتے ہوئے اُن کو باہر کی دنیا کا کچھ زیادہ اندازہ نہیں تھا۔

”کافی عرصہ قبل اواخر دہا 70ءاور 80ءمیں بنگلور سست شہر ہوا کرتا تھا۔ لیکن مجھے ایک پنجابی دوست دیپک (جو اَب اِس دنیا میں نہیں) کا ساتھ حاصل رہا، جس نے میرے مقابل مزید کئی مقامات دیکھے ہوئے تھے کیونکہ اُس کے والد کی قابل تبادلہ سرکاری نوکری تھی۔ ہم ایک ہی محلہ میں رہتے تھے اور میرا زیادہ تر وقت اُسی کے ساتھ گزرتا تھا۔“

راجہ نے اپنی پڑھائی تب ترک کردی جب وہ پی یو سی کے پہلے سال میں تھے، اور دیپک کو اپنا پارٹنر بناتے ہوئے فٹ پاتھ پر شرٹس بیچنے کا فیصلہ کیا۔ ”میں نے لوگوں کو فٹ پاتھ پر مختلف اشیاءفروخت کرتے ہوئے دیکھ رکھا تھا اور بعض تاجروں نے تو ہمیں رقمی پیشکش تک کی کہ یہ سامان اُن کی طرف سے فروخت کیا کریں۔ ہم نے اچھی طرح سمجھ لیا کہ اگر وہ اس طرح اچھا بزنس کرسکتے ہیں ، تو ہم کیوں نہیں کرسکتے؟“ راجہ نے ماضی کے جھروکے سے ان باتوں کو یاد کیا، جن کو فوری سمجھ آچکا تھا کہ یہ ایک پُرکشش موقع ہے۔

یہ دونوں دوستوں نے آپس میں 10,000 روپئے جُٹائے اور تِروپور کے لئے نکل پڑے، جو ٹاملناڈو میں گارمنٹ اور ٹکسٹائل کا بڑا مرکز ہے۔ ”میری ماں بعض اوقات کچھ رقم کچن کے ڈبوں میں چھپا کر رکھ لیا کرتی تھی، اور چونکہ میں اُن کا چہیتا رہا، وہ مجھے یہ رقم دیا کرتیں۔“ تروپور میں دونوں نے اکسپورٹ سے مسترد کردہ فاضل شرٹس 50 روپئے کے حساب سے خرید لئے۔ انھوں نے گٹھڑی بنائی اور اسٹیٹ روڈ ٹرانسپورٹ بس میں ڈال کر بنگلور کو واپس ہوئے، دفتر Bosch کے باہر فٹ پاتھ پر ’شاپ‘ قائم کی۔ ”ہم نے پہلے بھی اُن کی گیٹ کے باہر ہاکرز کو دیکھا ہوا تھا اور سوچا کہ یہ شروعات کے لئے اچھی جگہ ہوگی، جس کی اور اہم وجہ اس کی ہمارے محلہ سے قربت تھی،“ راجہ نے یہ باتیں بتائیں۔

راجہ نائک (رتن ٹاٹا کے پیچھے کھڑے ہوئے) ممبئی میں ’ڈی آئی سی سی آئی‘ ایونٹ کے موقع پر۔

راجہ نائک (رتن ٹاٹا کے پیچھے کھڑے ہوئے) ممبئی میں ’ڈی آئی سی سی آئی‘ ایونٹ کے موقع پر۔


یہ پرفیکٹ پلان ثابت ہوا۔ زیادہ تر شرٹس جو انھوں نے خریدے وہ یا تو نیلے یا پھر سفید رنگ والے تھے۔ ’باش ‘ کے مرد ملازمین کے یونیفارم میں ’بلو شرٹ‘ شامل تھا۔ ایک گھنٹہ کے لنچ بریک کے دوران راجہ اور اُن کے دوست نے تمام شرٹس 100 روپئے کے حساب سے فروخت کردیئے، جس پر 5,000 روپئے کا معقول منافع ہوا۔ ”میں نے میری زندگی میں اتنی رقم کبھی نہیں دیکھی تھی۔ میں بہت زیادہ خوش ہوا،“ راجہ نے مجھ سے یہ بات کہتے ہوئے اپنے ماضی کے اُس شاندار لمحہ کو یاد کیا۔

اس ابتدائی کامیابی کا چسکہ لگنے پر دونوں دوستوں نے وہ رقم دوبارہ مشغول کردی اور فروخت کے لئے مزید ایٹمس شامل کئے، جن کے حصول کے لئے ایک مقام سے دوسرے مقام کو گئے۔

” ایسا معلوم رہا تھا کہ ہمارے پیروں کو پہئے لگ گئے۔ وہ تو بس شروعات ہوئی۔ ہم آرام سے بیٹھنے والے نہ تھے تاوقتیکہ بہت ساری رقم کما نہیں لیتے،“ راجہ نے مسکراتے ہوئے یہ بات کہی۔

ہم کاٹن کے ہوزیری ایٹمس اور اِنّر ویئر کیلوگرام کے حساب سے خریدنے لگے اور بڑی نمائشوں میں اسٹالس قائم کرتے ہوئے چند لڑکوں کو ملازم رکھتے کہ یہ کام سنبھالیں۔ جو کچھ بچ جاتا، وہ اسے فٹ پاتھوں پر بیچ دیتے۔ تین برسوں میں انھوں نے باقاعدہ بزنس قائم کرلیا تھا۔

دونوں دوستوں نے اب کولہاپوری چپلوں اور فُٹ ویئر کے بزنس کا رُخ کیا۔ ”ابھی تک کسی نے مجھ سے نہیں پوچھا تھا کہ میرا تعلق کس ذات سے ہے۔ اکثر لوگ موچیوں کو دلت کمیونٹی سے جوڑتے ہیں، اور یہاں وہ مرحلہ آیا کہ مجھ سے میری ذات کے تعلق سے دریافت کیا جانے لگا،“ راجہ نے یہ بتاتے ہوئے میرے پہلے پوچھے گئے سوال کا جواب دیا کہ آیا اُن کی ذات کبھی اُن کے بزنس میں آڑے آئی۔

جُرات مندی کا منظر : جوکھم مول لینا

راجہ کے مطابق، ”ہمارے تمام بزنس میں ہم کو کبھی کچھ رقم کا نقصان نہیں ہوا۔“ تاہم، ایک مرحلے پر اُن کے دوست کو بنگلور سے منتقل ہونا پڑا، جس پر راجہ کو یہ بزنس اپنے بل بوتے پر جاری رکھنا پڑا۔ وہ کہتے ہیں کہ 1991ءکے آس پاس مابعد فراخدلانہ معاشی پالیسی دور میں راجہ نے ’کروگیٹیڈ پیاکیجنگ بزنس‘ بنام اکشے انٹرپرائزس ایک اور پارٹنر کے ساتھ شروع کیا جسے اس مارکیٹ کی جانکاری تھی۔

” جہاں کہیں موقع ملا، میں اس کا فائدہ اُٹھایا۔“

اُس وقت ریئل اسٹیٹ کا کاروبار بھی فروغ پارہا تھا، اور راجہ نے پراپرٹی میں سرمایہ لگایا، اس طرح صاف ستھری کمائی حاصل کی اور اسے دوبارہ مشغول کرتے گئے۔

یوں آپ کو مثالی نمونہ دکھائی دیتا ہے؟ راجہ نے بھی ہر کسی کی طرح پیسہ کمانا چاہا، لیکن جو چیز نے اُن کو دوسروں سے جدا کیا، وہ یہ کہ محض خواہش یا گلہ شکوہ کرنے کی بجائے وہ ہمیشہ موقع کے متلاشی رہے اور کبھی سخت محنت سے جی نہیں چُرایا۔

” کئی لوگوں کی طرح مجھے بھی رکاوٹوں کا سامنا ہوا، لیکن خوش قسمتی سے میں نے بزنس میں جو بھی جوکھم لئے ، ان میں کامیاب ہوا،“ راجہ نے یہ بات بتائی۔ اُن کا کہنا ہے کہ انھیں کئی لوگوں نے دھوکہ بھی دیا مگر وہ تفصیل بتانے سے گریزاں ہیں۔

” میں اکثر یہ بات لوگوں اور اسٹوڈنٹس سے کہتا ہوں جب مجھے ان سے مخاطبت کے لئے مدعو کیا جاتا ہے۔ میری زندگی کو مثال نہ بنائیں۔ یہ سب قسمت کا معاملہ رہا۔“

لیکن سنجیدگی سے جائزہ لیں تو کیا محض قسمت کی بات رہی؟ اگر ایسا ہی ہے تو پھر قسمت بہادروں کا ساتھ دیتی ہے۔ کیونکہ جیسا کہ راجہ کا ماننا ہے کہ اگر آپ اپنے خوابوں کی تعبیر چاہتے ہیں تو جوکھم لینا اہم ہے۔

”میرے پڑوسی اور دوست جو میرے ساتھ پروان چڑھے، وہ ہنوز وہیں ہیں جہاں تھے .... یا تو کسی کمپنی میں کلرکس کے طور پر ملازم ہیں یا پھر لیبر ہیں۔ بعض اوقات وہ میرے پاس آکر کچھ رقم کے طلب گار ہوتے ہیں جو میں دیتا ہوں۔ مگر وہ دنوں میں اُن کی حالت میری حالت سے بہتر تھی۔ اُن کے باپ کا جاب تھا، وہ اسکول جاتے تھے۔ میں نہیں جاسکا۔ لیکن آج، میں ہندوستان کے وی آئی پیز کے ساتھ یکساں ڈائس پر ہوتا ہوں۔ یہ صرف پیسہ کی وجہ سے نہیں ہے۔ اس کی وجہ وہ تمام محنت و مشقت اور سماجی درجہ ہے جو میں نے گزشتہ 35 برسوں میں حاصل کیا ہے،“ ان تاثرات کے ساتھ وہ زور دیتے ہیں کہ کس طرح اُن کے جوکھم کامیاب ہوئے۔

خاموش طبع ، غصیلا نوجوان شخص

راجہ کا دعویٰ ہے کہ اُن کو کبھی اپنی ذات کی بنیاد پر امتیاز کا سامنا نہیں ہوا۔ شاید وہ سیاسی طور پر درست کہہ رہے ہیں۔ لیکن بعض اوقات خاموشی، لفظوںسے کہیں بڑھ کر بیان کردیتی ہے۔

راجہ نائک اراکین ’ڈی آئی سی سی آئی‘ بنگلورو کے ساتھ۔

راجہ نائک اراکین ’ڈی آئی سی سی آئی‘ بنگلورو کے ساتھ۔


اس پر غور کریں۔ اُسی جگہ جہاں راجہ اور اُن کی فیملی بنگلورو میں ایسے مکان میں رہتے تھے جو اُن کے نئے آفس سے کہیں چھوٹا تھا، جہاں ہماری یہ ملاقات ہورہی ہے (یہ جدید Purple Haze مرکز ہے جس کا دن کے اوائل افتتاح کیا گیا)، راجہ چار منزلہ عمارت تعمیر کرنے میں کامیاب ہوئے جس میں ٹاپ فلور پر اُن کا دفتر اور نیچے اُن کا اسکول قائم ہے۔

یہ اسکول اس لئے شروع کیا گیا کیونکہ نہ صرف وہ اپنی تعلیم مکمل کرنے سے قاصر رہے، بلکہ اُن کی بہن کو داخلہ دینے سے انکار بھی ہوا۔ ”جب میرے پاس کچھ رقم جمع ہوئی تو میں نے ایک چھوٹا مکان کرایہ پر لیا، چند ٹیچروں کی خدمات حاصل کی اور نادار بچوں کے لئے نرسری اسکول شروع کیا،“ راجہ نے مجھے یہ بات بتائی۔ بہت واضح ہوا کہ نرم گفتار، نرم مزاج انٹریپرینر جس سے میں گفتگو کررہی تھی، وہ کبھی غصیلا نوجوان شخص ہوا کرتا تھا۔

سماج میں یہ تعصب بھی ہے کہ کسی نچلی ذات والے شخص کے ہاتھ کا کھانا یا پانی استعمال نہیں کرتے ہیں۔ لہٰذا راجہ نے فوڈ بزنس میں مہم جوئی کا فیصلہ کرلیا۔ اگرچہ طعام خانہ یا ریستوراں جو راجہ نے شروع کیا، وہ بند ہوچکا ہے، لیکن بوتلوں میں پینے کے پانی کا وینچر Jala Beverages مارکیٹ میں اچھا بزنس کررہا ہے۔

رومانی وقفہ

راجہ نائک اپنی بیوی انیتا کے ساتھ۔

راجہ نائک اپنی بیوی انیتا کے ساتھ۔


راجہ کے ہمہ بزنس وینچرز کے پس پردہ دیگر حرکیاتی قوت اُن کی لائف پارٹنر یعنی اُن کی بیوی انیتا ہے۔ ”میں مختلف کاروبار کی طرف مہم جوئی کرتا رہا کیونکہ مجھے معلوم تھا کہ کوئی ہے جو یہ سب بزنس کی دیکھ بھال کرسکے،“ راجہ نے یہ بات کہی۔ انیتا کسی جاب کے لئے راجہ کے اسکول آئی تھی جب وہ لگ بھگ 16 سال کی تھی۔ وہ بھی غریب دلت گھرانہ کی ترکِ اسکول کرنے والی طالبہ رہی ہے۔ انیتا کا باپ آٹورکشا ڈرائیور تھا۔ انیتا نے اسکول کے معاملوں میں تعاون شروع کیا اور بعد میں انتظامی اُمور سیکھ لئے۔

”ہم درحقیقت خفیہ شادی کی نیت سے فرار ہوئے اور مندر میں شادی کی۔ واحد گواہ ایک رکن اسکول اسٹاف تھا،“ راجہ نے یہ انکشاف کرتے ہوئے مزید کہا کہ آج بھی وہ کوئی باقاعدہ میریج سرٹفکیٹ کے حامل نہیں ہیں۔

خوشی بھرا انجام

ایک ہونہار دلت اسٹوڈنٹ کی حیدرآباد یونیورسٹی میں حالیہ خودکشی کے تعلق سے بہت کچھ لکھا گیا اور باتیں ہوئی ہیں، لیکن راجہ کی زندگانی جیسی کہانیاں ایسے لاکھوں لوگوں کے لئے امید جگاتے ہیں جو ہمارے جیسے امتیاز برتنے والے سماج کی وجہ سے مظلومی کا احساس رکھتے ہیں۔

” میں نے کوئی ریزرویشن کی سہولتوں سے استفادہ کرتے ہوئے ترقی نہیں کی۔ اور نا ہی میرے بچے کسی ریزرویشن کوٹہ کے تحت تعلیم پائے (اُن کو تین بیٹے ہیں)۔ میں نے انھیں میرے ہی اسکول میں رکھا کیونکہ میرا ماننا ہے کہ آپ کو بہتر تعلیم کے لئے کسی پُرشکوہ عمارت کی ضرورت نہیں۔ میرے نقطہ نظر سے اچھا اسکول وہ ہے جہاں اچھی انگریزی سکھائی جاتی ہے۔

راجہ کا کہنا ہے کہ وہ دلت کی حیثیت سے رعایتیں (concessions) نہیں، بلکہ کئی طرح کے میل جول (connections) کے طلب گار ہیں۔

” بدبختی ہے کہ میری کمیونٹی کے لوگ بس سرکاری نوکریوں کے پیچھے پڑے ہیں۔ وہ خودروزگار (self employment) پر مثبت انداز میں نظر نہیں ڈالتے ہیں۔ ’ڈی آئی سی سی آئی‘ میں ہماری کوشش ہے کہ انھیں اُن کے لئے دستیاب مواقع سے واقف کرائیں۔ ہم متلاشیانِ روزگار کی بجائے روزگار پیدا کرنے والے افراد چاہتے ہیں،“ راجہ نے ان تاثرات کا اظہار کیا۔

اگرچہ راجہ کو وہ کرشمہ جسے انھوں نے کم عمر نوجوان کی حیثیت سے پردہ¿ سیمیں پر دیکھا تھا، اُسے اپنی زندگی میں بدلنے کے لئے تین گھنٹوں سے بہت زیادہ وقت لگا، لیکن ہنوز اُن کا ایک بڑا خواب ہے۔ ”میں 100 کروڑ روپئے والے کلب میں شامل ہونا چاہتا ہوں۔ وہاں چند کمپنیاں ہیں۔ تو اُن سے بھی ملیں گے۔“

ہاں، وہ سماجی مساوات کا زبردست حامی ہے۔ راجہ کے لئے، جیسا کہ وہ خود کہتے ہیں، جب بزنس کا معاملہ ہو تو صرف پیسہ بولتا ہے۔

قلمکار : دپتی نائر

مترجم : عرفان جابری

Writer : Dipti Nair

Translator : Irfan Jabri