دنیا کی چار بڑی کمپنیاں' فرش سے فلک تک کا سفر

دنیا کی چار بڑی کمپنیاں' فرش سے فلک تک کا سفر

Monday November 30, 2015,

7 min Read

کوئی بھی نیا وینچر شروع کرنے سے پہلے کسی کے پاس کیا ہونا چاہئے؟ کوئی شاندار خیال یاتصور' بہترین ٹیم؟ یا سرمایہ؟ یہ وہ سوالات ہیں جو بنیادی اہمیت کے حامل ہیں ۔ ان کے جوابات پر ہی کسی بھی وینچر کی کامیابی کا انحصار ہوتا ہے۔ کوئی بھی انٹرپرائز شروع کرنے کے لئے پراجکٹ ' ٹیم اور سرمایہ کی سخت ترین ضرورت تو ہوتی ہی ہے۔ لیکن اس سے بڑھ کر جو زیادہ ضروری چیز ہے وہ ہے یقین ۔ یہ یقین ہی ہے جو ہر مشکل کو حل کرنے کی راہ ہموار کرتا ہے ۔ کئی بار یہ دیکھ کر حیرانی ہوتی ہے کہ آج جو کمپنیوں بڑی بنی ہیں' ساری دنیا میں شہرت رکھتی ہیں' ان کی کہانی میں بڑی سادگی ہے۔ آئیے جانتے ہیں کچھ ایسی ہی کہانیاں جو صفر سے سفر طئے کرتے ہوئے فرش سے فلک تک پہنچ گئیں ۔

1 ) فریڈ اسمتھ' فیڈرل ایکسپریس

فریڈ اسمتھ سال 1965 میں یالے یونیورسٹی سے گریجویٹ کی تعلیم بھی مکمل نہیں کر پائے۔ اپنی تعلیم کے دوران انہوں نے امریکہ میں بار برداری کے بارے میں معلومات حاصل کیں ۔ انہوں نے دیکھا کہ امریکہ میں بڑے پیمانے پر ایک جگہ سے دوسری جگہ سامان منتقل کرنے کے لئے آبی گزرگاہوں کا استعمال ہوتا ہے۔ جبکہ ٹرک سے چھوٹے اور ضروری اشیاء کے لئے ہوائی راستے کا استعمال کیا جاتا ہے ۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اس سے متعلق ہی کوئی کام کریں گے اور 1971 میں اپنی کمپنی قائم کر دی ۔ بد قسمتی کی بات یہ ہوئی کہ تین سال کی محنت کے بعد ان کی کمپنی فیڈرل ایکسپریس دیوالیہ قرار دی گئی ۔ اس کی وجہ تھی تیل کی زیادہ قیمتیں ۔ کمپنی کوصرف ایک ماہ میں 1 ملین ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا ۔ اسمتھ نے پیسہ جمع کرنے کے لئے بہت جگہ ہاتھ پاؤں مارے لیکن ان ہر جگہ انہیں مایوسی کا ہی سامنا کرنا پڑا ۔

image


ایسے موقع پر کوئی دوسرا شخص ہوتا تو وہ اپنی کمپنی کو بند کرتے ہوئے راہ فرار اختیار کرتا ۔ لیکن اسمتھ نے ہار نہیں مانی اور وہ ڈٹے رہے۔ کچھ کرنے کے ارادے سے وہ لاس ویگاس گئے اور اپنا کل سرمایہ5 ہزار ڈالر داؤ پر لگا دیا ۔ اس کے بعد فیڈرل ایکسپریس کے اکاؤنٹ میں 32 ہزار ڈالر آ گئے ۔ ان پیسوں سے نہ صرف کمپنی کے بحری جہازوں میں تیل بھرا جا سکتا تھا بلکہ وہ کچھ اور دن اپنے کام کو جاری رکھنے میں بھی کامیاب ہو سکے۔ جلد ہی کمپنی نے سرمایہ کاری بھی حاصل کر لی ۔ آج فیڈرل ایکسپریس دنیا بھر کے 220 سے زائد ممالک میں اپنا کاروبار چلا رہی ہے اور اس کی سالانہ آمدنی ہے 45 بلین ڈالرتک پہنچ گئی ہے ۔

2) فاروشیو لیمبورگینی' لیمبورگینی

فاروشیو و درحقیقت کاشت کار تھے 'جنہوں نے ٹریکٹر بنایا تھا ۔ ان کا کاروبار کافی بہترین چل رہا تھا اور وہ اٹلی کے دولت مند لوگوں میں سے ایک تھے۔ ان کے پاس بہت دوسری کاروں کے علاوہ فیراری بھی تھی جو اکثر خراب ہو جاتی تھی ۔ پیشہ سے میکانک فاروشیو نے جب اس کی جانچ کی تو پتہ چلا کہ فیراری میں وہی کلچ استعمال ہو رہا تھا جس کا استعمال انہوں نے اپنے ٹریکٹر میں کیا تھا ۔ کار کے کلچ کا مسئلہ نہ صرف انہیں درپیش تھا بلکہ ان کے جاننے والے اور لوگ جن کے پاس فیراری تھی وہ سب اسی مسئلہ سے پریشان تھے ۔ فاروشیو گاڑی کا یہ نقص دور کرنے کے لئے میکانک کے پاس گئے' تو وہ اسے ٹھیک کر دیتا یا پھر نیا لگا دیتا - اس کے باوجود ہر بار جب گاڑی کو تیز چلایا جاتا تو کلچ پھسل جاتا تھا اور وہ کام نہیں کرتا تھا ۔ بار بار میانک کے پاس جانے کی وجہ سے ان کا کافی وقت خراب ہوتا ۔ تب انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اس مسئلہ کو لے کر Enzo کی فیراری سے بات کریں گے اور اس کے لئے ان کو طویل انتظار بھی کرنا پڑا ۔ فاروشیو کی Enzo کی فیراری سے جب بات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ آپ کی گاڑی انتہائی خراب ہے ۔ Enzo نے فاروشیوسے کہا کہ آپ لیمبوروگینی ٹریکٹر چلانے کے قابل ہو اور تم فیراری جیسی گاڑی کو صحیح طریقے سے ہینڈل نہیں کرسکتے ۔ یہ وہ بات تھی جو فاروشیو کو گراں گزری ۔ اس وقت انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ ایک کامل کار بنائیں گے۔ اس طرح وجود میں آگئی ایک شاندار کار لیمبورگینی ۔

image


3) کرنل سینڈرس' کینٹکی فرائیڈ چکن

کرنل سینڈرس کو 65 سال کی عمر میں سوشل سیکورٹی چیک کے طور پر 99 ڈالر حاصل ہوئے ۔اس وقت انہوں نے زندگی میں کچھ بڑا کام کرنے کافیصلہ کیا ۔ ان کے دوستوں کو ان کا بنایا ہوا چکن کافی پسند تھا ۔ انہوں نے طے کیا کہ وہ اس پر کام کریں گے ۔ وہ کینٹکی کو چھوڑ کر امریکہ کے دوسرے شہر منتقل ہوئے اور اپنا خیال لوگوں کو فروخت کرنے کی کوشش کی ۔ وہ ریستوران مالکان سے کہتے کہ ان کے پاس چکن بنانے کاخاص طریقہ ہے جسے لوگ پسند کرتے ہیں اور وہ ان کو مفت میں یہ طریقہ بتانے کے لیے تیار ہیں بدلے میں جو بھی مال ان کافروخت ہوگا اس کا ایک حصہ ان کو دے دیں گے۔ لیکن انہیں کہیں بھی کامیابی نصیب نہیں ہوئی ۔ اس دوران انہوں نے تقریبا ایک ہزار لوگوں کے سامنے اپنا یہ خیال پیش کیا اور ہر جگہ انہیں مایوسی ہی کاسامنا کرنا پڑا ۔ باوجود اس کے انہوں نے ہار نہیں مانی ۔ آخر میں 1009 لوگوں سے ملنے کے بعد انہیں پہلی بار کامیابی حاصل ہوئی ۔ کامیابی کی اس پہلی منز ل کے بعد کرنل ہارٹ لینڈ سینڈرس نے لوگوں کے کھانے کی عادت واطوارکو نہ صرف اپنے ملک بلکہ دنیا بھر میں تبدیل کر دیا اور آج یہی مقبول کینٹکی فرائیڈ چکن' KFC کے طور پر ساری دنیا میں شہرت رکھتا ہے ۔

image


4) سوی چرو ہونڈا' ہونڈا موٹر کمپنی

سوی چرو ہونڈا ایک گیریج میں میکانک تھے۔ ان کا کام تھا ریسنگ کے لئے آنے والی گاڑیوں کو ٹیون کرنا ۔ ہونڈا نے '' ٹو کائی سیکھی'' 1937 میں قائم کی جو پسٹن کے رینگ بناتی تھی ۔ کمپنی میں بننے والے پسٹن کے رینگ ٹویٹا کمپنی کو سپلائی کئے جاتے تھے۔ لیکن خراب کوالٹی کی وجہ سے ٹویٹا نے پسٹن کے رینگ خریدنے سے انکار کر دیا ۔ اس کے بعد کمپنی نے ٹویٹا کے کوالٹی کنٹرول کے عمل کو سمجھا اور 1941 میں ہونڈا نے پھر بڑی سطح پر پسٹن کے رینگ بنانا شروع کردیا 'جسے ٹویٹا کمپنی بھی دوبارہ استعمال کرنے لگی ۔ ٹویٹانے ٹوکائی سیکھی میں 40 فیصد حصہ حاصل کر لیا لیکن ہونڈا نے صدر کے عہدے سے لے کر سینئر منیجنگ ڈائریکٹر تک کے عہدے اپنے پاس رکھ لئے ۔ 1944 کی جنگ میں امریکہ کے حملوں سے ٹوکائی سیکھی کا مینوفیکچرنگ پلانٹ تباہ وبرباد ہو گیا ۔ ہونڈا نے آخر کار ٹویٹا کو یہ کمپنی فروخت کر دی ۔ اس کے بعد سوی چرو ہونڈا نے 1946 میں ہونڈا تکنیکی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی بنیاد رکھی ۔ ابتدا میں 12 لوگوں کی مدد سے 172 مربع فٹ کے کمرے میں انہوں نے کام کرنا شروع کیا' جہاں پر ان کی ٹیم نے ایک خاص طرح کی موٹر بنانے کے کام کا آغاز کیا جسے گاہک اپنی سائیکل کے ساتھ جوڑکر سکتے تھے۔ تھوڑے ہی وقت میں ہونڈا موٹر کمپنی ترقی کرگئی ۔ 1964 تک اس کا شماردنیا میں سب سے زیادہ موٹر سائیکل بنانے والی کمپنیوں میں ہونے لگا ۔ اس کے بعد ہونڈا نے پک اپ ٹرک اور کار بنانے کے شعبہ میں بھی قدم رکھا ۔ آج یہ کمپنی ٹویٹا کیلئے بہت بڑا چیلنج بن گئی ہے ۔

image


ظاہر ہے یہ تمام کمپنیاں آج جس مقام پر ہیں ان کو یہاں تک پہنچنے کے لئے بہت بڑا عرصہ درکار ہوا' لیکن ان کے بانیوں کا یہی خیال تھا کہ یقین محکم کے ساتھ جو بھی کام کیا جائے اس میں کامیابی یقینی ہے۔ اپنے تصور پر ان کوکامل یقین بھی تھا ۔ خاص بات یہ ہے کہ ان لوگوں نے اپنے خیال یعنی ایڈیا کو حقیقت میں تبدیل کرنے کے لئے جاں فشانی سے کام لیا ۔

قلمکار:بشت ہریش

مترجم: شفیع قادری