بے سہارالوگوں کی پناہ گاہ ہے ’ابھے‘

بے سہارالوگوں  کی پناہ گاہ ہے ’ابھے‘

Monday January 18, 2016,

6 min Read

وہ مقام بے سہارا اور مجبور لوگوں کی نگہداشت کرنے والے دیگر عام ہومز سے کافی جدا ہے۔ تروواننت پورم میں ایک ایسی جگہ ہے جہاں آبرو ریزی کی شکار، گھریلو تشدد کی شکار اور نشہ خوری کی عادت سے نجات پانے والے لوگ اپنے پرانے دنوں کی بھیانک یادوں کو فراموش کرنے کی کوشش کے ساتھ تعلیم حاصل کرتے ہیں ، ملازمت پانے میں کامیاب ہوتے ہیں اور ایک بالکل نئی خود اعتمادی کے ساتھ قومی دھارے کی زندگی کا حصہ بنتے ہیں ۔

image


1980 کی دہائی میں ممتاز شاعرہ اور سماجی کارکن سگتھا کماری کی نگرانی میں محروموں کےلئے قائم کیاگیا’ابھے‘ نامی یہ ادارہ آئندہ ماہ اپنی تاسیس کے30 سال پورے کرنے جا رہا ہے۔ اتنے برسوں تک سماج کی خدمت کرنے کے بعد یہ تنظیم سیکڑوں بد حال لوگوں جن میں ملک کے کئی سنسنی خیز سیکس اسکینڈل کی شکار بھی شامل ہیں ، کی زندگی میں دوبارہ خوشیاں لانے کا دعویٰ کر سکتا ہے۔

اس نیک کام کرنے کے دوران پیسے اور مناسب سہولیات کی زبر دست کمی کے باوجود ابھے کی بانی سکریٹری سگتھا کماری کہتی ہیں کہ وہاں رہنے والے لوگوں کےچہرے پر آنے والی امید اور اعتماد کی چمک ان کے ادارے کی کامیابی کے حقیقی ثبوت ہیں ۔ ’سرسوتی سمان‘ سے سرفراز اس مشہور مصنفہ کاکہنا ہے کہ آنے والے دنوں میں ان کا ارادہ ریاست کے 14اضلاع میں ذہنی طور سے بیمار لوگوں کے لئے باز آباد کاری مرکز کھولنے کا ہے اور اس سمت میں قدم بڑھاتے ہوئے وہ ریاستی حکومت کو تجویز پیش کر چکی ہیں ۔

وہ کہتی ہیں :

’’30 سال گزر چکے ہیں اور اس مدت میں ہم سیکڑوں مجبور،محروم اور ذات سے باہر کئے گئے لوگوں کو ابھے (پناہ)دے چکے ہیں ۔ تمام کمیوں کے باوجود ہم کافی بڑی تعداد میں لوگوں کو ان کی زندگی کی مشکلوں سے لڑنے اور انہیں قومی دھارے کی زندگی میں واپس آنے میں مدد اور اعتماد دے پانے میں کامیاب رہے ہیں ۔ ‘‘

1985 میں کیرل کے مختلف سرکاری اسپتالوں میں بے حد بری حالت سے گزر رہے دماغی مریضوں کے لئے گہری تشویش کے درمیان قائم ہوا ’ابھے‘ ابتدائی دور میں صرف ان کے لئے ایک باز آباد کاری مرکز کے تصور کےطورپر سامنے آیا تھا۔ اب یہ ایک ایسا کثیر جہت ادارے کی شکل لےچکا ہے جو دماغی مریضوں کی باز آباد کاری کر رہا ہے، نشہ سے نجات کےمرکز کے روپ میں کام کر رہا ہے ،محروم لڑکیوں کو پناہ دے رہا ہے، کام کرنے والی خواتین کو رہنے کی جگہ مہیا کرا رہا ہے۔ سگتھا کماری، جنہیں ان کے معاونین پیار سے ’ٹیچر‘ کہہ کر پکارتے ہیں ، ایک دن اچانک تروواننت پورم کے دماغی اسپتال جا پہنچیں اور ’ابھے‘ کا جنم ہوا۔ سگتھا کماری کہتی ہیں ، ’’ہماری مداخلت سے پہلے کیرل کے دماغی اسپتال دنیا سے الگ تھلگ پاگل خانوں جیسے تھے۔ اسپتال کے اپنے دورے کے دوران میں نے جو دیکھا اسے بیان کرنے کےلئے میرے پاس الفاظ نہیں ہیں ۔ نیم برہنہ اورزخمی مریض درد اور بھوک پیاس سے کرراہ رہے تھے۔ انہیں بے حدگندے کمروں میں بند کرکے رکھا گیاتھا ۔ ان میں سے کئی لوگوں نے میرے پیر پکڑ لئے اور مجھ سے روتے ہوئے کھانا مانگا۔ ‘‘ 81سالہ شاعرہ کہتی ہیں کہ یہ ان کے ذریعہ کی گئی مسلسل کوششوں کا ہی نتیجہ ہے کہ ایسے اسپتال عوامی جانچ کے دائرہ میں آپائے ہیں اور ریاست کی ذہنی صحت کا منظر نامہ ایک صحت مند تبدیلی کا گواہ بن سکا ہے۔ ’ابھے‘ کی سہولیات کی توسیع ہوئی ہے اور 1992میں شہر کے باہری علاقے ملائنکیجو میں دس ایکڑ میں پھیلے ’ابھے گرامم‘ کا قیام ہوا۔

ابھے کی ہشت پہلو سرگرمیوں کا کلیدی مرکز ’ابھے گرامم‘ کا سنگ بنیاد تبت کے روحانی پیشوا دلائی لامہ کے ذریعہ رکھا گیا جن کے چھو لینے والے الفاظ اتنے برسوں سے ایسے لوگوں کےلئے ترغیب کا کام کرتے رہے ہیں ۔

وہ کہتی ہیں ، ’’دلائی لامہ کا کہنا تھا کہ اس زمین کو بے گھر اور سب سے بد قسمت لوگوں کےلئے پناہ گاہبنادو۔ میں نے اتنے برسوں تک ان کے ان الفاظ کو پورا کرنے کے لئے بہت سخت محنت کی ہے۔ ‘‘ ’ابھے‘ کے تحت چلنے والے اداروں میں ’کرم‘ ہے جو علاج کرا چکے اور ٹھیک ہو چکے دماغی مریضوں کے لئے ہے۔ ذہنی مریضوں کےلئے چھوٹی اور طویل مدت کےلئے ’شردھا بھونم‘ اور ذہنی صحت اور نشا سے نجات مرکز کی شکل میں کام کرنے والا ’متر‘ شامل ہے۔ ساتھ ہی بے سہارا لڑکیوں کےلئے چلنے والا ’ابھے بالا‘ لڑکیوں اور خواتین کے رہنے کےلئے جگہ مہیا کرانے والا ’اتھانی‘ شراب اور نشہ کرنے والوں کا علاج کرنے والا ’بودھی‘ اور ذہنی مریضوں کےلئے ’پکال ویڈو‘ شامل ہیں ۔ اس کے علاوہ یہاں خواتین کےلئے ایک 24گھنٹے کی ہیلپ لائن کے علاوہ خواتین کو مفت قانونی امداد بھی دی جاتی ہے۔ سگتھا کماری کہتی ہیں کہ 200سے بھی زائد افراد کو پناہ دینے والے اور 80 سے بھی زائد ملازمین پر مشتمل ’ابھے‘ کو اپنی سرگرمیوں کو جاری رکھنے میں رقم کی کمی سے سب سے زیادہ دوچار ہونا پڑتا ہے۔ وہ کہتی ہیں ، ’’ہم پوری طرح سے سرکاری گرانٹ اور لوگوں سے ملنے والے عطیات پر منحصر ہیں ۔ اب ہم چاہتے ہوئے بھی سہولیات کی کمی کے سبب مزید لوگوں کو اپنے پاس رکھنے میں ناکام ہو رہے ہیں ۔ اس کے علاوہ ہمارے ملازمین کو بھی بر وقت تنخواہ نہیں مل پا رہی ہے۔ ‘‘

وہ کہتی ہیں ،’’ابھے ایک مذہبی یا کمیونٹی ادارہ نہیں ہے۔ اور یہی اس کی طاقت اور کمزوری دونوں ہے۔ اگر ہم اسے کسی بھی مخصوص مذہب یا فرقہ کے ماتحت کر دیتے تو ہمیں کئی لاکھ روپئے مل گئے ہوتے۔ ‘‘ سگتھا کماری نےاب سے تین دہائی پہلے مغربی گھاٹ پر سائلنٹ ویلی میں تیار ہونے والے ایک آبی بجلی منصوبہ کی تجویز کے خلاف ایک مشتعل ماحولیاتی مہم کی قیادت کی تھی اور اس کے علاوہ وہ ارنملا میں ہوائی اڈے کے خلاف چلی حالیہ تحریک کی بھی قائد رہی ہیں ۔ اس شاعرہ کا کہنا ہے کہ وہ اپنے ’بچوں ‘ کے خوابوں کو شرمندۂ تعبیر کرنے کی کوشش کرنا جاری کھیں گی۔

مترجم : محمد وصی اللہ حسینی

Translation by : Mohd.Wasiullah Husaini