کل کی چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ آج ایک ریستوران کی مالک

'دی ٹیبل' کی شریک بانی ہیں گوری دیوی ديال ... ممبئی کے قلابہ میں ہے 'دی ٹیبل'... 'دی ٹیبل'نے کیا کمیونٹی کھانے کی میز کا آغاز ...

کل کی چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ آج ایک ریستوران کی مالک

Monday October 17, 2016,

6 min Read

وہ خطرے لینے والے انٹرپرائز سے جڑنا نہیں چاہتی تھیں، لیکن انہوں ایک ہی چیز ایسی پکڑی کہ وہ آج ایک کامیاب کاروباری ہیں۔ گوری دیوی ديال جو یونیورسٹی کالج لندن سے لاء گریجویٹ ہیں اور ایک چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ بھی ہیں، لیکن آج وہ ممبئی کے قلابہ میں چلنے والے مشہور ریستوران 'دی ٹیبل' کی مالک ہیں۔

image


جب سال 2008 میں گوری نے کچھ کام کرنےکے بارے میں سوچا توانہوں نے محسوس کیا کہ بہت سے نئے ریستوران کی ضرورت ہے۔ حالانکہ وہ اس وقت بہت سے قانونی اور مالی کام کاج سنبھال رہی تھی، جس کی انہوں نے تعلیم بھی حاصل کی تھی، لیکن ایک بار اس شعبے میں داخل کے بعد ان کے لئے واپس مڑنے کا سوال ہی نہیں تھا۔ تاہم اس وقت گوری کا کریئربلندی پر تھا کیونکہ وہ لندن میں پرائس واٹر ہاؤس كوپرس میں ٹیکس مشیر کے طور پر کام کرنے کے بعد كےپی ایم جی کے لئے کام کر رہی تھیں۔ وہ لندن میں تقریبا 8 سالوں تک رہیں۔ تب انہوں اور جے یوسف جو اب ان کے شوہر بھی ہیں نے فیصلہ لیا کہ وہ واپس ممبئی واپس آئیں گے۔ جس کے بعد گوری لندن سے اور جے یوسف سان فرانسسکو سے سال 2008 میں واپس ہندوستان لوٹ آئے۔ یہاں آکر دونوں نے ریستوران کے کاروبار میں قسمت آزمانے کا فیصلہ کیا۔ گوری مانتی ہیں کہ اس وقت ان کے لئے یہ ایک مشکل فیصلہ تھا۔ کیونکہ ان کو ہاسپٹالٹی کے میدان کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ پھر بھی وہ جے کے ساتھ مل کر کاروبار کے میدان میں قدم رکھنا چاہتی تھیں۔

image


آخر کار دونوں کی سوچ اور کوشش رنگ لائی اور 'دی ٹیبل'کا آغاز ہوا۔ قریب 23 سال امریکہ میں گزارنے والے 'جے' نے 14 سال سان فرانسسکو میں گزارے تھے وہ چاہتے تھے کہ وہ امریکہ کے فوڈ کلچر کو ہندوستان میں لائیں۔ انہیں مختلف طرح کی رسیپی اور مختلف ریستوران میں ملنے والے کھانے کے ذائقہ کاخاصا تجربہ تھا۔ اگر یہ کہا جائے کہ ان کو خاص طرح کے کھانے پسند تھے تو یہ کہنا غلط نہیں ہو گا۔ گوری ریستوران کھولنے سے پہلے ان گھبراہٹ کے لمحات کا ذکر کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ ان کی شادی دسمبر، 2010 میں ہوئی تھی اور انہوں نے شادی سے تین ہفتے پہلے ہی 'دی ٹیبل' کی شروعات کی تھی۔ گوری کے مطابق 'جے' کاروباری بننا چاہتے تھے جبکہ ان کے پاس اس کام کو لے کر نظریہ اور بھروسہ تھا۔ اس کے علاوہ مالی طور پر 'جے' خطرہ اٹھانے کے قابل تھے۔

'دی ٹیبل'کا آغاز کرنے کے پیچھے جو خیال تھا اس کے مطابق شہر میں ایسا ریستوران کھولا جائے جہاں نہ صرف تصوراتی، بہترین کھانا ملے بلکہ وہاں کے ماحول میں کافی کشادگی ہو۔ گوری کے مطابق وہ لوگ یہ نہیں چاہتے تھے کہ 'دی ٹیبل'کا استعمال کچھ خاص مواقع پر ہی ہو بلکہ وہ چاہتے تھے کہ لوگ کبھی بھی یہاں پر آئیں اور یہاں آکر آرام محسوس کر سکیں۔ ان لوگوں نے دوسرے ریستوران کی سے مختلف اور نئے طریقے سے لوگوں کے سامنے کھانا پروسنے کا کام شروع کیا۔ انہوں مہمانوں کو اس بات کے لئے حوصلہ افزائی کی کہ جیسے وہ خاندان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں ویسے ہی یہاں پر بھی کھانے کا آرڈر دیں۔

image


اس کے علاوہ یہ ان چنندہ ریستوران میں سے پہلا ریستوران تھا جس نے کمیونٹی کھانے کی میز کی شروعات کی۔ اس کے پیچھے یہ سوچ تھی کہ انجان لوگ ایک دوسرے کے ساتھ ایک بڑی سے میز پر بیٹھیں اور ان کے ساتھ کھانا کھا کر ایک دوسرے سے جان پہچان بڑھائیں۔ شروع شروع میں یہاں آنے والے گاہکوں میں اس چلن کو لے کر تھوڑی ہچکچاہٹ تھی، لیکن جلد ہی لوگ اس خیال کو پسند کرنے لگے۔

گوری نے تقریبا دس سال پہلے علی باغ میں ایک ایکڑ زمین خریدی تھی تاکہ وہ اپنا ویک اینڈ وہاں پر گزار سکے۔ ایک دن انہوں نے دیکھا کہ وہاں پر ڈھیر ساری پالک اگ آئی ہے تو ان کی سمجھ میں یہ نہیں آیا کہ وہ اس کا کیا کرے۔ جس کے بعد انہوں پالک کو اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کے گھر بھیج دیا باوجود اس کے کافی پالک پھر بھی بچ گئی۔ تب انہوں نے سوچا کہ کیوں نے اس کے ارد گرد کے ریستوران میں بھیج دیا جائے۔ جس کے بعد انہوں نے وہاں پر کئی طرح کی سبزیاں اگانے کا کام شروع کر دیا اور آج 'دی ٹیبل'اپنی ضروریات کی کچھ سبزیاں علی باغ کے اس فارم سے ہی منگاتا ہے۔ فی الحال گؤری کے اس فارم میں پالک، چوقندر، مولی، گاجر،، ٹماٹر اور کئی دوسری سبزیاں اگائی جاتی ہیں۔ 'دی ٹیبل' کے لئے فارم کا خیال بنیادی طور پر سان فرانسسکو کے ریستوران سے لیا گیا ہے۔ جہاں پر اپنے دماغ کے مطابق اور معیار کے مطابق ریستوران مالک سبزیاں اگاتے ہیں۔

image


آج گؤری کو اپنے فیصلے پر ناز ہے وہ کاروباری بننے سے کافی خوش ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ خود کا کاروبار ہونے سے کچھ بھی کرنے کی آزادی ملتی ہے۔ گوری کا کہنا ہے کہ کاروبار میں کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں، جن کو منظور کیا جا سکتا ہے لیکن کچھ ایسی بھی ہیں جن کو نہیں کرنا چاہئے۔ گوری کے مطابق جب وہ چارٹڈ اکاؤنٹنٹ تھی اس دوران وہ صرف ایک چیز میں ماہر تھی اور وہ تھا ٹیكسیشن کا شعبہ۔ وہ ایک بہت ہی شاندار شعبہ تھا جس میں انہوں نے مہارت بھی حاصل کر لی تھی۔ اس کے باوجود کچھ تھا جو ملازم اور خود کے کاربار میں فرق کرتا تھا۔ گوری کا کہنا ہے کہ اس کے بعد سے چیزیں کافی بدل گئی ہیں اس سے پہلے جہاں وہ ایک ملازم تھی وہیں آج وہ طویل فاصلہ طے کر مالک کے کردار میں ہیں۔ آج وہ اپنے یہاں کام کر رہے ملازمین کے کام اور کام کاج کے نظام کو دیکھ رہی ہیں۔

گوری کو اب تک یاد ہے کہ کس طرح ان کے خاندان والے پریشان ہو گئے جب انہوں نے اپنے شاندار کیریئر اور لندن میں چل رہی اچھی خاصی نوکری کو چھوڑ ممبئی واپس آنے کا فیصلہ لیا تھا۔ لیکن آج وہی لوگ ان کی اس کامیابی پر فخر کرتے ہیں۔ گوری کے والد خود ایک کاروباری تھے اور ان کی ماں آرٹسٹ۔ ان کی ایک بہن گرافک ڈیزائنر ہیں تو دوسری مصنف۔ یہ تمام لوگ گؤری کو کافی سمجھاتے رہے کہ وہ اس انٹرپرائز سے باہر آ جائیں لیکن گؤری کے اٹل ارادے کی وجہ سے ان لوگوں نے ہار مان لی۔ آج گوری ڈبل ذمہ داری ادا کر رہی ہیں۔ ایک طرف ان کے پاس اپنی ڈھائی سالہ بیٹی کی ذمہ داری ہے تو دوسری طرف انٹرپرائز سنبھالنے کا چیلنج۔ باوجود وہ دونوں چیزوں میں تال میل بٹھانا اچھی طرح سے جانتی ہیں۔ خاص بات یہ ہے کہ ان کے شوہر بھی اسی انٹرپرائز میں ہے اس لئے دونوں اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ ان میں سے کوئی ایک بچی کے پاس ضرور رہے۔

تحریر -سواستی مکھرجی

ترجمہ ایف ایم سلیم