گلابی شہر میں منفرد تہذیبی پہل،شراب سے نہیں دودھ سے کرتے ہیں سال ِ نو کا آغاز

گلابی شہر میں منفرد تہذیبی پہل،شراب سے نہیں دودھ سے کرتے ہیں سال  ِ نو کا آغاز

Friday January 08, 2016,

5 min Read

ایک اچھا اور صحیح کام کس طرح عوامی حمایت حاصل کرتاہے ،اس کی ایک مثال ہے راجستھان کے دارالحکومت جے پور میں ’شراب سے نہیں دودھ سے کریں سال ِ نو کا آغاز‘ مہم۔تیرہ سال قبل ، پہلی بار عوامی تعاون سے 500لیٹر دودھ سے یہ اچھی روایت شروع کی گئی تھی۔یہ صحیح ہے کہ اس طرح کی مہمات کی حد ہے۔شراب کی تہذیب کے پیروکارکافی طاقت ور ہیں۔یہاں شراب بندی کے لئے راجستھان کے گاندھی کہے جانے والے گوکل بھائی بھٹ ،سدھ راج ڈھڈھا جیسے مجاہدین آزادی تاحیات جدوجہد کرتے رہے۔جنتاپارٹی کے سابق رکن اسمبلی گروشرن چھابڑانے تو غیرمعینہ مدت کی بھوک ہڑتال کرتے ہوئے حال ہی میں جان جاں آفریں کے سپرد کردی۔کچی بستیوں میں شراب سے برباد بیواؤں اور بچوں کی بد حالی آج بھی دیکھی جاسکتی ہے۔اس کے باوجود یہ کوشش متوازی تہذیب کامثبت نمونہ ہے۔

image


ایک دہائی سے زائد کا عرصہ گذرگیا۔راجستھان میں سرودے کے پیروکاروں اور طلباء وطالبات کی پہل پر ایک بہترین تہذیبی شروعات کی گئی ۔آج وہ مہم کی شکل میں تبدیل ہوگئی ہے۔ایک اچھااور صحیح کام کس طرح عوامی تائید حاصل کرتاہے یہ اس کا نمونہ ہے۔اس کے لئے بے لوث عزم اور ثابت قدمی کے جذبے سے لگے رہناہوتاہے۔

’’شراب سے نہیں دودھ سے کریں نئے سال کی شروعات‘‘ اب گاندھیائی اور اخلاقیات کے علمبرداروں کا ہی نعرہ نہیں رہ گیاہے ۔اس کو اپنی آنکھوں سے دیکھناچاہتے ہیں تو نئے سال پر دیکھیں جے پورمیں تقریباً ہربازار،محلے اور اہم سڑکوں پر بینر لگے مل جائیں گے۔نئے سال پر نوجوان لڑکے لڑکیاں ،مرد وخواتین ،بزرگ اسٹال سجائے ،دودھ پلاتے یہ پیغام دیتے نظر آجائیں گے۔’’شراب برباد کرتی ہے،دودھ مضبوط کرتاہے۔‘‘

وہ تیرہ سال پہلے ،جب اس کی شروعات ہوئی تھی اس سے پہلے نئے سال پر راجستھان یونیورسٹی کے باہر شراب میں دھت نوجوانوں کے سبب جواہر لعل نہرو روڈ پر جے ڈی اے سرکل سے گاندھی سرکل کا راستہ اتنا خطرناک ہوجاتاتھاکہ لوگ راستہ کاٹ کر نکل جانے میں ہی بھلائی سمجھتے تھے۔کچھ ایسے ہی ماحول میں سنت ونوبا کے ذریعےقائم کردہ ’پراکرتک چکتساکیندر‘،باپونگرکے اس وقت کے جنرل سکریٹری دھرم ویر کٹیوااور سرودے کے دیگر پیروکاروں نے طے کیاکہ ملک کی نوجوان نسل کو نشے کے اندھیرے میں لے جانے والی اس برائی کی مخالفت میں سرگرمی کی ضرورت ہے۔

image


گاندھی نظریے اور نشے کے خلاف شعورراجستھان میں آزادی کے شعور کے ساتھ وابستہ ہے۔راجستھان برٹش انڈیا کا جزو نہیں تھا،برطانیہ کے زیرسایہ ریاستوں میں منقسم تھا۔یہ وہ جاگیردارانہ ریاست ہے،جہاں سرکاری دعوت میں افیم چٹانا،شاہی خاندان اپنی شان سمجھتے ہیں۔کانگریس کے دائرہ کار اور اس کی قیادت میں آزادی کی تحریک برٹش انڈیا میں محدود تھی۔

ایسی حالت میں راجستھان میں تحریک ِ آزادی کاشعور جن تخلیقی کوششوں کی صورت میں پیدا ہوا ان میں کھادی ،نشہ بندی،انسداد چھوت چھات،ہریجن (دلت) کی ترقی،تعلیم کی نشر واشاعت اور کسان نیز درج فہرست قبائل کے جاگیرداری مخالف تحریک اہم تھی۔دھرم ویر کٹیوابھی چوں کہ شیکھاواٹی زمینداری مخالف شہید خاندانی روایت اور گاندھیائی پس منظر سے تعلق رکھتے ہیں ،اس لئے ان کی یہ پہل انتہائی فطری تھی۔راجستھان یونیورسٹی کے طلباء رہنمامہیندرشرمانے سیاست سے علاحدہ نوجوانوں میں عوامی بیداری،کردارسازی اور ثقافتی امور کے لئے ’راجستھان یو اچھاترسنستھا‘ قائم کی۔اس تنظیم نے ’انڈین استھماسوسائٹی ‘ کے ساتھ مل کر یونیورسٹی کے گیٹ پر اسٹال لگاکر ایک مہم چلائی ’شراب سے نہیں دودھ سے کریں گے نئے سال کی

image


شروعات‘۔یوراسٹوری کو مہیندر بتاتے ہیں:
’’اس وقت لوگوں کوسمجھاکر انھیں بلاکر دودھ پینے کے لئے گذارش کرناپڑتاتھا۔پہلی بار بمشکل 300لیٹر دودھ ہی پلاسکے۔باقی بچ گیا۔اب صورت ِ حال یہ ہے کہ پچھلی بار تقریباً 15ہزار اسکوراور20ہزار تھرماکول کے گلاس دودھ یہاں اس مرکز میں پلایاگیااور ہر سال یہ تعداد 500لیٹر بڑھ جاتی ہے۔عوامی نمائندے کسی جماعت یا ادارے کے ہوں ،یہاں اس مہم میں شامل ہوتے ہیں۔اب تو ’راجستھان کوآپریٹیو ڈیئری فیڈریشن‘ ہر سال اس میں تعاون کرنے لگاہے۔وہ تقسیم کے لئے دودھ میں مددکرتاہے۔اس کے علاوہ مختلف مال سے لے کر تجارتی یونینیں ،محلہ کمیٹیاں بھی نئے سال پر 31دسمبر شام سے یکم جنوری کے شروع تک دودھ تقسیم سے یہ پیغام دیتی ہیں۔ ‘‘

اس مہم نے گلابی شہر کی فضاکو کچھ اس طرح بدلاہے کہ جہاں دیگرشہروں میں سال ِ نو پر لڑکیاں اس ڈر سے گھر سے نہیں نکلتی ہیں کہ شراب میں مست کوئی ان کے ساتھ بدسلوکی نہ کرے،وہاں شراب نہیں دودھ سے کریں نئے سال کی شروعات ،پیغام بن گیاہے۔

image


نوجوان جس جوش اور جذبے سے اس مہم میں شامل ہوتے ہیں اسے دیکھ کر اس کوشش کی معنویت کو سمجھاجاسکتاہے۔نئے سال پر ہر سال سبھی شہروں میں جتنی شراب فروخت ہوتی ہے اور پی جاتی ہے، سال بھر کے کوٹے کے برابر ہوتی ہے۔یہ صحیح ہے کہ اس طرح کی مہمات کی حد ہے۔شراب کی تہذیب کے پیروکار اتنے مضبوط ہیں کہ یہاں شراب بندی کے لئے گوکل بھائی بھٹ،سدھ راج ڈھڈھا تاحیات جدوجہد کرتے رہے۔جنتاپارٹی سے 1977میں رکن اسمبلی رہے گروشرن چھابڑانے تو شراب بندی کے لئے غیرمعینہ مدت کی بھوک ہڑتال کرتے ہوئے حال ہی میںجاں نثار کردی۔کچی بستیوں میں شراب سے تباہ بیواؤں اور بچوں کی بد حالی آج بھی دیکھی جاسکتی ہے۔اس کے باوجود یہ کوشش متوازی تہذیب کامثبت نمونہ ہے۔

قلمکار : کمل سنگھ

مترجم : محمد وصی اللہ حسینی

Writer : Kamal Singh

Translation by : Mohd.Wasiullah Husaini