17 سالہ تُشارکا نام گنیز بُک آف ورلڈ ریکارڈس میں


17 سالہ تُشارکا نام گنیز بُک آف ورلڈ ریکارڈس میں

Tuesday January 26, 2016,

7 min Read

دنیا بھر میں مختلف لوگوں کو مختلف قسم کے شوق ہوتے ہیں جن میں پرانی چیزیں، پرانے سکے، نوٹ، ڈاک ٹکٹ یا پھر اہم لوگوں کے دستخط جمع کرنے کا شوق ہوتا ہے۔ لیکن جب یہ شوق کچھ الگ طرح کے جنون میں تبدیل ہوجاتا ہے تو ذخیرہ کنندہ کی شہرت بلندیوں تک پہنچنے میں زیادہ وقت نہیں لگتا ۔ شوقیہ طور پر شروع کی گئی ایسی ہی ایک سرگرمی نے ذخیرہ کنندہ کا نام گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈس میں درج کروادیا ہے۔ جی ہاں، یہ نام ہے دہلی کے 17 سالہ نوجوان تُشار لکھن پال کا جنہیں پنسلیں جمع کرنے کا انوکھا شوق ہے ۔ اپنے اس شوق کی وجہ سے انہوں نے تقریباً 20 ہزار پنسلیں جمع کر رکھی ہیں جس کی وجہ سے وہ آج دنیا بھر میں مشہور ہوچکے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک انتہائی دلچسپ بات یہ ہے ان کے اس پنسلوں کے ذخیرے میں ہندوستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے 60 سے زیادہ ملکوں میں تیار کردہ پنسلیں موجود ہیں۔

image



دہلی کے وسنت کُنج میں واقع دہلی پبلک اسکول میں بارہویں جماعت میں زیرِ تعلیم تشار لکھن پال نے حال ہی میں اروگوے کے امیلیو اریناس کے 72 ملکوں کی 16260 پنسلوں کے عالمی ریکارڈ کو توڑتے ہوئے 19824 پنسلوں کے اپنے ذخیرے کے ساتھ اول مقام پر اپنا نام درج کروانے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ 14 اپریل 1998 کو پیدا ہونے والے 17 سالہ تُشار کو اپنا ذخیرہ اندوزی کا شوق شروع کئے ابھی صرف 14 برس ہی گزرے ہیں اور امیلیو 1956 سے پنسلیں جمع کرنے کے شوق میں جُٹے ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ تُشار کے ذخیرے میں کوئی بھی دو پنسلیں ایک جیسی نہیں ہیں۔


یوراسٹوری سے ہوئی گفتگو میں تشار بتاتے ہیں کہ انہوں نے تقریباً تین برس کی عمر سے پنسلیں جمع کرنے کا کام شروع کیا تھا۔ تشار بتاتے ہیں،"جب میں چھوٹا بچہ تھا تب بھی میں مختلف اقسام کی پنسلوں کو لے کر کافی پرجوش رہا کرتا تھا اور جب کبھی مجھے تحفے میں کوئی پنسل ملتی تھی تو میں اسے اُٹھاکر اپنے ذخیرے میں رکھ دیتا تھا۔وقت کے ساتھ ساتھ میرا یہ شوق جنون میں تبدیل ہوتا گیا۔ اسی جنون کا نتیجہ ہے کہ آج میں اس مقام پر ہوں۔"

تُشار گزشتہ 6 برسوں سے لگاتار یعنی 2009 سےہر سال ہندوستان میں پنسلوں کا سب سے بڑا ذخیرہ کرنے والے شخص کی حیثیت سے اپنا نام لمکا بُک آن ریکارڈس میں اپنا نام درج کرواتے آرہے ہیں۔ تشار بتاتے ہیں،"30 جون 2014 کو میرے اس ذخیرے میں 60 سے زیادہ ممالک کی 14279 پنسلیں موجود تھیں جو ہندوستا ن میں سب سے زیادہ تعداد تھی۔ سب سے پہلے لمکا بک آف ریکارڈس نے 2009 میں میرے اس ذخیرے کو تسلیم کرتے ہوئے اپنی کتاب میں اسے پہلا مقام دیا۔ بعدازاں سال 2010،2011،2012،2013،2014 اور 2015 میں میرا نام لمکا بک آف ریکارڈس میں درج کیا گیا۔" تشار کے اس ذخیرے میں ایشیائی، افریقی، کیریبین، یوروپی، وسط مشرقی اور جنوبی و شمالی امریکہ کے علاوہ پیسیفک ممالک میں تیار کردہ پنسلیں بھی شامل ہیں۔

image


تشار کے اس ذخیرے میں عام پنسل سے لے کر غیر معمولی پنسلیں تک شامل ہیں۔ ان میں سے کئی پنسلیں تو ایسی ہیں جن کے بارے میں ہم تصور بھی نہیں کرسکتے اور یہ ناقابلِ یقین سائز اور شکلوں کی حامل ہیں۔ ان کے پاس موجود سب سے چھوٹی پنسل کا سائز صرف 25 ملی میٹر ہے جس کا قطر محض 2 ملی میٹر ہے اور سب سے بڑی پنسل کی لمبائی 548 سنٹی میٹر یعنی تقریباً 8 فٹ ہے اور اس کا قطر 29 سینٹی میٹر ہے۔ اپنے اس ذخیرے کو بارے میں بتاتے ہوئے تشار کہتے ہیں،" میرے اس ذخیرے میں مختلف رنگوں اور شکلوں کی پنسلوں کے علاوہ ہیروں سے جَڑی، مختلف خوشبوؤں والی، کئی مشہور شخصیات کا احساس کرواتی پنسلیں ، کئی پرانی عمارتوں کی شکل والی پنسلیں، مختلف پرچموں جیسی پنسلیں موجود ہیں۔ اس کے علاوہ میرے اس ذخیرے میں موسمی حرارت میں ہونے والی تبدیلی کو ظاہر کرنے والی پنسل، آسٹریلیا کے مخلتف شاہی گھرانوں کے تاج کی شکل والی پنسلوں کے علاوہ اسپائیڈر مین، بیٹ مین،ٹام اینڈ جیری جیسےکارٹونوں والی پنسلیں بھی موجود ہیں۔"

اپنے اس ذخیرے کی دیگر خصوصیات کے بارے میں یوراسٹوری سے بات کرتے ہوئے تشار کہتےہیں،"میرے پاس بیش قیمتی گولڈ پلیٹیڈ پنسل کے ساتھ ساتھ 'سوروسکی' سے جَڑی پنسل بھی ہے جو اپنے آپ میں نہایت انوکھی شئے ہے۔ میرے والدین نے مجھے پنسلوں کی اس جوڑی کو خریدنے کے لئے 400 پاؤنڈس خرچ کئے ہیں ۔ اس کے علاوہ میرے پاس اخبار اور ہاتھوں سے بنی ہوئی پنسلیں بھی موجود ہیں۔" ان سے کے علاوہ تشار کے پاس لکھنے کی اہلیت نہ رکھنے والے بچوں کے لئے خصوصی طور پر تیار کردہ کچھ نہایت خاص پنسلیں بھی موجود ہیں۔

image


لیکن اس پورے ذخیرے میں دو پنسلیں ایسی ہیں جنہیں تشار بے حد عزیز رکھتے ہیں ۔ ان پنسلوں کی ایک الگ کہانی ہے۔ ان پنسلوں کے بارے میں تشار بتاتےہیں،"زمانہ گزشتہ میں ان دو پنسلوں کو برطانیہ کی ملکہ الیزیبیتھ دوم اپنے لکھنے کے لئے استعمال کیا کرتی تھیں۔ اسی وجہ سے یہ دو پنسلیں مجھے بہت عزیز ہیں اور اس ذخیرے کی سب سے قیمتی پنسلوں میں شمار ہوتی ہیں۔"

فی الحال تشار کے اس ذخیرے میں دنیا کے تقریباً 67 ممالک میں تیار کردہ پنسلوں کا خزانہ ہے اور وہ اسے مزید بڑھانا چاہتے ہیں۔ تشار کہتے ہیں،"میرا خواب ہے کہ ایک دن میرے پاس دنیا کے نقشے پر موجود ہر ملک کی بنی ہوئی پنسل موجود ہو اور مجھے امید ہے کہ اپنے خاندان والوں اور خیر خواہوں کی بدولت میں ایسا کرنے میں کامیاب ہوجاؤں گا۔" ایک کمرشیل پائلٹ آشیش لکھن پال کے بیٹے تشار روزانہ انٹر نیٹ پر گھنٹوں عجیب و غریب اور انوکھی پنسلوں کی تلاش میں لگے رہتے ہیں اور پھر اپنے والدین کے تعاون سے وہ انہیں اپنے ذخیرے کا حصہ بناتے ہیں۔ تشار مزید کہتے ہیں،" میرے والدین جب بھی باہر جاتے تھے، لوٹتے ہوئے میرے ذخیرے کے لئے پنسلیں ضرور لاتے تھے۔ اس کے علاوہ میرے کئی دوست اور شناسا میرے اس خواب کی تکمیل کرنے میں اپنا پورا تعاون دیتے ہیں اور ان میں سے کوئی بھی جب کسی غیر ملک کا سفر کرتا ہے تو وہ میرے اس ذخیرے کے لئے کوئی نہ کوئی پنسل ضرور لاتا ہے۔"

اپنے اس ذخیرے کے بل بوتے پر تشار نے کچھ دن قبل 14 اکتوبر کو اروگوے کے ایمیلیو اریناس کے 16260 پنسلوں کے عالمی ریکارڈ کو توڑتے ہوئے گنیز بک میں اپنا نام درج کروایا ہے۔ تشار بتاتے ہیں،" گنیز بک آف ریکارڈس کے لندن میں مواقع دفتر میں میرے اس ذخیرے کو دنیا بھر میں پنسلوں کے سب سے بڑا ذخیرے کے طور پر تسلیم کیاگیا ہے۔ انہوں نے انے بے حد سخت پیمانوں کی بنیاد پر میرے تمام ذخیرے کی گنتی کرنے کے علاوہ پوری کاروائی کی ایک پنسل بنانے والی کمپنی کے نمائندہ، ایک سرکاری افسر اور عوامی زندگی سے وابستہ ایک معزز شہری ،ان تمام افراد کی ایک کمیٹی کی نگرانی میں ویڈیوگرافی اور فوٹوگرافی بھی کی ہے۔ اس کے بعد 14 اکتوبر کو انہوں نے اپنی ویب سائٹ پر بھی میرے اس ذخیرے کو 'پنسلوں کے سب سے بڑے عالمی ذخیرے ' کے طور پر مقام دیا ہے۔"

image


17 سالہ یہ نوجوان مستقبل میں اپنے اس جنون کو مزید وسعت دینا چاہتا ہے اور اس کا خواب کسی دن ایک پنسل میوزیم قائم کرنا ہے۔ تشار یوراسٹوری سے کہتےہیں،"میں ایک دن اپنے اس ذخیرے کو ایک میوزیم کی شکل دینا چاہتا ہوں ۔ اس سے قبل صرف یو۔کے میں ایک پنسل میوزیم موجود ہیں اور یہ دنیا میں اپنی نوعیت کا دوسرا میوزیم ہوگا جہاں بچے مختلف قسم کی پنسلوں کو دیکھ اور محسوس کرسکیں گے۔"



تحریر: نشانت گوئل

مترجم: خان حسنین عاقبؔ