معذور افراد کی صلاحیتوں کو ابھارکر بڑی کمپنیوں میں روزگار کے مواقعوں کی فراہمی۔ یوتھ 4 جابس

معذور افراد  کی صلاحیتوں کو ابھارکر بڑی   کمپنیوں  میں  روزگار  کے  مواقعوں کی  فراہمی۔ یوتھ 4 جابس

Wednesday November 04, 2015,

7 min Read

9 ماہ کی عمر میں ہی ملکہ ریڈی پوليو سے متاثر ہو گیی تھی۔ عمر کے ساتھ ساتھ اس کی پریشانیاں بھی بڑی ہونے لگیں۔ پوليو سے متاثرہ ملکہ اور اس کے خاندان پر ایک کے بعد ایک مصیبتیں آتی چلی گئیں۔ پیسے کی تنگی، والد کو فالج اور ماں کو کینسر ہو جانے پر خاندان معاشی طور پر تباہ ہوگیا۔ لیکن زندگی کے تمام اتار چڑھاو کا مقابلہ کرتے ہوئے آج ملکہ اپنے اور اپنے خاندان کا سر فخر سے اونچا کر رہی ہے۔ ملکہ اگر چہ جسمانی طور پر معذور ہے، لیکن اس کے خواب معذور نہیں تھے۔ وہ جسمانی طور پر ضرور معذور تھی، لیکن اس کے ارادے زندگی میں کچھ کر گزرنے کا حوصلہ دیتے رہے۔ جسمانی طور پر صحتمند انسان عام زندگی کی پریشانیوں کو تو جیسے تیسے برداشت کر لیتا ہے، لیکن وہی پریشانیاں کسی معذور کے لئے دوگنی ہو جاتی ہیں۔ ملکہ نے زندگی میں کبھی ہار نہیں مانی۔ پڑھائی میں ایمانداری سے محنت کی اور اپنے اندر چھپی ہوی صلاحیتوں کو نکھارا اور معذور ہونے کے باوجود ایک کامیاب انسان بن پائی۔ ملکہ آج ایک ٹرینر کے طور پر ہر ماہ 12 ہزار روپے کما رہی ہے۔ آندھرا پردیش میں وہ سرکاری پراجکٹ آی جی ایم ایم میں بطور ٹرینر کام کررہی ہے۔ ملکہ کا ادارا یوتھ 4 جابس  اور نہ جانے کتنے معذور افراد کے لئے امید کی کرن کی طرح کام انجام دے رہا ہے۔ یوتھ 4 جابس مارکیٹ سے منسلک مانگ کو نظر میں رکھتے ہوئے ان کی صلاحیتوں میں نکھار لاتا ہے جس کے بعد سماج کے غریب اور نچلے طبقے کے معذور نوجوانوں کو عام درخواست دہندگان کی طرح مواقع حاصل ہوتے ہیں۔


سال 2011 کی مردم شماری کے مطابق ملک میں 2.68 کروڑ معذور ہیں جو ملک کی کل آبادی کے 2.21 فیصد ہے۔ان 41 لاکھ نوجوان ہیں جن کی عمر 19 سے 29 کے درمیان ہے۔ اس میں دو فیصد ہی تعلیم یافتہ ہیں اوران میں صرف ایک فیصد ہی روزگار سے منسلک ہے ۔ کیا اتنی بڑی آبادی کو صرف اس وجہ موقع نہیں مل سکتا ہے کیونکہ وہ تربیت یا پھر روزگار کے لئے فٹ نہیں ہے ایسا نہیں ہے، اسی سوال کا جواب ہے یوتھ فار جابس یہ ایک غیر منافع بخش تنظیم ہے۔ تین سال قبل اس تنظیم نے معذور افراد کی صلاحیتوں میں بہتری لانے اپنی سرگرمیوں کا آغاز کیا تھا۔ یوتھ 4 جابس کی پہل کی وجہ سے آج ہزاروں معذور نوجوانوں کے خواب پورے ہو رہے ہیں۔ یوتھ 4 جابس معذور نوجوانوں کی مہارت کو فروغ دیتا ہے اور ملک کی بڑی کمپنیوں میں ملازمت دلوانے میں مدد کرتا ہے۔ یوتھ 4 جابس روزگار پروگرام اس طرح تیار کیا گیا ہے کہ اس کی ٹریننگ کے بعد روزگار ملنے کے موقع زیادہ ہو جاتے ہیں۔ یوتھ 4 جابس قومی اور بین الاقوامی کمپنیوں کو معذور لیکن تربیت یافتہ نوجوانوں کو روزگار دینے کے لئے سما جی زمہ داری کا احساس دلاتا ہے۔ آیے ملاقات کرتے ہیں یوتھ 4 جابس کی میرا شینائے سے جنہوں نے معذور افراد کے لیے روزگار کو لے کر امکانات کو محسوس کیا اور اس غیر منافع بخش تنظیم کی شروعات کی۔یوتھ 4 جابس ایسے نوجوانوں کی مہارت میں اضافہ کرتا ہے جو دیہی علاقوں سے آتے ہیں اور تعلیم یافتہ ہوتے ہیں۔ مختلف طرح کے معذوروں کو نظر میں رکھتے ہوئے تنظیم نے ٹریننگ ماڈیول تیار کیا ہے۔ گزشتہ تین سالوں میں اس تنظیم نے طویل سفر طے کیا۔ جہاں آغاز میں اس کا ایک مرکز ہوا کرتا تھا آج اس کے 18 تربیتی مراکز ہیں جو 9 ریاستوں میں پھیلے ہوے ہیں۔ یوتھ 4 جابس کی بانی میرا شیناے اس ویژن کے بارے میں کہتی ہیں، 'یوتھ 4 جابس کا مقصد معذور لوگوں کو ملازمت دلاتے ہوے سماج کے مرکزی دھارے سے شامل کرنا ہے۔ وہ کہتی ہیں ہم دو طریقے سے کام کرتے ہیں۔ یوتھ 4 جابس ٹریننگ سینٹر قائم کرتا ہے۔ جو ان کی حوصلہ افزائی کرتا ہے، ٹریننگ دیتا ہے اور انہیں منظم روزگار دلاتا ہے۔ دوسری سطح پر ہمبین لاقوامی کمپنیوں کے ساتھ معاہدہ کرتے ہوے معزوروں کو شامل کرنے کے لئے واضح روڈ میپ تیار کرنے میں مدد کرتے ہیں۔ '

image


یوتھ 4 جابس کی ابتدائی مشکلات کے بارے میں شینائے کہتی ہیں، ابتدائی ایام جدوجہد سے بھرپور تھے۔وہ وقت آسان نہیں تھا ... سب کہا کرتے تھے یہ ممکن نہیں ہے۔ خاندان، نوجوانوں اور کمپنیوں کی سوچ ایک جیسی تھی۔ والدین کو لگتا تھا کہ ان کے بچے کسی کام کے قابل نہیں اور خود کفیل نہیں بن سکتے تو وہیں نوجوانوں میں خود اعتمادی کی سطح انتہائی کم تھی ۔ وہیں کمپنیاں معذوروں کی صلاحیتوں کے بارے میں غیر واقف تھی۔ '' نہیں کر سکتے ہیں کے نظریہ کو کر سکتے ہیں ''، میں تبدیل کرنے میں ہمیں بہت محنت کرنی پڑی۔ ہم نے ان اسٹک ہولڈرز کے ساتھ سخت محنت کی۔'

9 ریاستوں میں 18 ٹریننگ سینٹر

پہلے سال یوتھ 4 جابس کو واقعی بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ۔شیناے آگے کہتی ہیں، 'شروع میں ہم نے ایک ایسا ڈھانچہ تیار کرنا چاہا جسے بیرونی فنڈنگ ​​کی ضرورت نہ پڑے۔ ابتدائی فنڈنگ ​​ہمیں وادھوانی فاؤنڈیشن کے زریہ حاصل کی۔ جب ہمارا ڈھانچہ تیار ہو گیا تو ہماری مدد اکسس بینک فاؤنڈیشن نے کی۔ بینک کے منیجنگ ڈائریکٹر شکھا شرما نے ہمارے پروگرام کی ملک گیر سطح پر شروعات کی ۔ اکسس بینک کی مدد سے ہم نے ملک بھر میں معذور افراد کے مہارت کو بہتر بنانے کے لئے مراکز کھولے۔اس کے علاوہ ہمیں ٹیک مہندرا فاؤنڈیشن اور یونایٹڈ چنائی سے مالی امداد ملتی ہے۔''

تنظیم نے مختلف طرح کے معذوری کے لئے ٹریننگ پروگرام تیار کئے۔ شیناے بتاتی ہیں، 'مثال کے طور پر آپ کو خاموش بہرے ہیں انہیں خاص طرح کے ٹرینر کی ضرورت ہوتی ہے. پہلا قدم ٹریننگ سینٹر میں نوجوانوں کو جمع کرنا ہوتا ہے۔ کیونکہ نوجوان بکھرے ہوئے ہیں، ہم غیر منافع بخش تنظیموں، معذور تنظیموں، سرکاری اور دیہی تنظیموں کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں۔ ہمارے ٹریننگ سینٹر میں انگریزی بات چیت کے جنرل ماڈیول، کمپیوٹر،لایف اور سافٹ اسکلز پر کام کیا جاتا ہے اور اس کے بعد صنعتی شعبہ میں خاص مہارت پر توجہ دی جاتی ہے پھر جاکر انہیں آن جاب ٹریننگ دی جاتی ہے۔ نوجوانوں کو ان کی تعلیمی صورت حال اور توقعات کے مطابق تربیت دی جاتی ہے۔ پڑھے لکھے نوجوانوں کو سروس سیکٹر میں ملازمت ملتی ہے تو وہیں کم پڑھے لکھے افراد کو پ روڈکشن کے میدان میں روزگار ملتا ہے۔'

image


7000 نوجوانوں کو ٹریننگ

اب تک یوتھ 4 جابس سات ہزار نوجوانوں کو تربیت دے چکا ہے۔ ان میں سے 65 فیصد منظم شعبے میں کام کر رہے ہیں ۔ ٹریننگ حاصل کرنے والوں میں 40 فیصد لڑکیاں شامل ہیں ۔ یوتھ 4 جابس 85 فیصد ایسے لوگوں کو ٹریننگ دیتا ہے جو دیہی علاقوں سے آتے ہیں۔

مستقبل کے بارے میں شیناے کہتی ہیں ہمارے اس ماڈل نے ملک کو ثابت کیا ہے کہ معذوری کے باوجود نوجوان منظم شعبہ میں باقاعدہ طور پر کام کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ ایسا کام بھی کر سکتے ہیں جس میں وہ براہ راست کسٹمر سے رابطہ کرنا ہوتا ہے ۔مثال کے طور پر کسی اسٹور میں کیشیر کا کام ،ہم مستقبل میں اپنے ٹریننگ سینٹر کو تمام ریاستوں میں قایم کرنا چاہتے ہیں جس سے آخر میں شہریوں اور کارپوریٹ گھرانوں میں بڑی تبدیلی دیکھنے کو ملے گی ، جو یہ سمجھ پائیں گے کہ معذور افراد بھی قیمتی سرمایہ ہے نہ کہ بوجھ۔ ایسا ہونے سے معذور نوجوان افرادی قوت کی مین اسٹریم سے جڑ پائے گا۔ 'یوتھ 4 جابس اب تک چار قومی اور بین الاقوامی ایوارڈ جیت چکا ہے۔

image


شینائے دعویٰ کرتی ہے کہ جن کمپنیوں میں ان کے مراکز سے تربیتافتہ نوجوان کام کر رہے ہیں وہاں پیداوار میں 15 فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔

    Share on
    close