گرہستی کی گاڑی چلانے کے لئے کویتا نے تھام لی اسٹیئرنگ

جس نے کبھی گاؤں سے باہر نہیں رکھا قدم ، اس نے ممبئی کی سڑکوں سے کر لی  دوستی

گرہستی کی گاڑی چلانے کے لئے کویتا نے تھام لی اسٹیئرنگ

Monday April 18, 2016,

6 min Read

یوں تو خواتین کے لئے گھر کے ساتھ ساتھ آفس کی بھی ذمہ داری سنبھالنا اب ایسی بات نہیں رہ گئی ہے، جس پر بحث کہ جائے، لیکن ضرورت پڑنے پر کویتا نے جس پیشے کو اپنایا، وہ نہ صرف بحث کا موضوع بنا بلکہ دوسروں کے لئے حوصلہ افزائی کی کہانی بھی بن گیا ہے۔ ایک ایسی کہانی جو خراب سے خراب حالات کا سامنا کرنے اور اپنی خود داری نہ چھوڑنے کا سبق دیتی ہے۔

مراٹھواڑہ کے قحظ زدہ علاقے ناندیڑ کی رہنے کویتا شادی کے بعد ممبئی چلی آئی۔ اس بڑے شہر کو اپنانے میں اس کو تھوڑا وقت لگا۔ اس سے پہلے کویتا نے کبھی اپنے گاؤں سے باہر قدم نہیں رکھا تھا۔ گرہستی کی گاڑی ٹھیک ٹھاک چل رہی تھی، لیکن بیٹے کی پیدائش کے بعد گھر کے حالات بگڑنے لگے۔ بیٹے کے ذہنی طور پر بیمار ہونے کی وجہ سے شوہر کی زیادہ تر کمائی ہسپتال کا بل بھرنے میں ہی خرچ ہو جاتی تھی۔ بٹیا کی پڑھائی اور گھر کا باقی خرچ چلانے کے لئے پیسے کی فکر ستانے لگی۔ دسویں تک پڑھی کویتا چاہتی تو کوئی چھوٹی موٹی نوکری کر لیتی لیکن بچے کی حالت ایسی نہیں تھی کہ اسے گھر چھوڑ کر وہ آٹھ سے دس گھنٹے کی نوکری کر لیتی۔ دوسرا متبادل تھا جھاڑو- پونچھے کا کام، یہ کویتا کرنا نہیں چاہتی تھی۔ ایسے مشکل حالات میں آٹو ڈرائیور شوہر نے رکشہ چلانے کا مشورہ دیا۔ لیکن ممبئی جیسے شہر میں رکشہ چلانا، کویتا کے لئے ایورسٹ فتح کرنے سے کم نہیں تھا۔

image


کویتا کہتی ہے،

"میں نے کبھی اپنے گاؤں سے باہرقدم نہیں رکھا تھا۔ مجھے سائیکل چلانا بھی نہیں آتا تھا۔ اپنے گاؤں کی گلیوں کے راستے، مجھے ٹھیک سے یاد نہیں تھے۔ آج میں ممبئی کی سڑکوں پر بے دھڑک آٹو چلاتی ہوں۔ گھر کے اخراجات میں شوہر کا ساتھ دیتی ہوں۔ اپنے بیٹے کے علاج کی ذمہ داری ہے میرے کندھوں پر۔ میں نے حالات سے سمجھوتہ نہیں کیا۔ بلکہ اس کا ہمت کے ساتھ سامنا کیا۔ "

ممبئی سے ملحقہ تھانے شہر کے ورتك نگر کے ارد گرد کے علاقے میں صبح صبح ہی آپ کو کویتا کا آٹو نظرآجائے گا۔ صبح 7 بجے سے شام 5 بجے تک کویتا مسافروں کو ان کی منزل تک پہنچاتی ہے۔ ان کا گھر بھی اسی علاقے میں ہے۔ دوپہر کو کویتا گھر جاتی ہے، بچوں کے ساتھ کھانا کھاتی ہیں اور پھر آٹو لے کر نکل پڑتی ہیں۔ کویتا کو آٹو چلاتے تقریبا ایک سال ہو گیا ہے۔ ابتدائی دنوں کو یاد کر کویتا آج بھی جذباتی ہو جاتی ہے،

"اتنے بڑے شہر میں آٹو رکشہ چلانے کے خیال سے ہی مجھے ڈر لگتا تھا۔ لیکن آہستہ آہستہ میں نے خود کو تیار کیا۔ اپنے اندر کے خوف کا سامنا کیا اور 6 ماہ میں ہی رکشہ چلانا سیکھ لیا۔"
image


کویتا کے سامنے ایسی کئی مشکلات آئیں، جو کسی کی بھی ہمت توڑ سکتی تھی۔ کویتا نے جب اپنا فیصلہ پکا کر لیا تب ان کے شوہر انہیں رکشہ چلانا سکھانے لگے۔ لیکن یہ بھی کچھ لوگوں سے دیکھا نہیں گیا۔ یہ طے ہے کہ لیک سے ہٹ کر جب بھی کوئی کام کرے گا، اس کے پاؤں کھیںچو والوں کی بڑی تعداد ہوگی۔ کویتا کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ شوہر کا آٹو کرائے کا تھا اور کسی نے جا کر آٹو کے مالک کے کان بھر دیئے۔ پھر کیا تھا مالک نے آٹو واپس لے لیا۔ پھر کویتا کے شوہر نے دوسرے مالک سے بات کی، لیکن جیسے ہی اسے اس بات کا پتہ چلا کہ آٹو کا استعمال کویتا کے شوہر اس کے سکھانے کے لئے بھی کرتے ہیں، اس نے بھی اپنا آٹو واپس لے لیا۔ پر اس رسہ کشی میں کویتا کا اعتماد اور پکا ہوتا گیا۔ خود داری سے جینے اور شوہر کے ساتھ کام کرنے کے لئے کویتا نے دل ہی دل خود کو تیار کر لیا۔ ان کے شوہر نے تیسرا آٹو کرایہ پر لیا اور اس بار کویتا کو سیکھانے میں کامیاب رہے۔ محض 6 ماہ میں ہی کویتا نے رکشہ چلانا سیکھ لیا۔ لیکن کویتا کی مشکلیں ابھی ختم نہیں ہوئی تھیں۔ اس کا اصلی امتحان تو ابھی شروع ہوا تھا ۔۔

کویتا کہتی ہے،

"جب میں اپنا آٹو لے کر سڑکوں پر نکلی تو میں نے ایک ایسے پیشے میں قدم رکھا جس پر اب تک صرف مردوں کا ہی قبضہ تھا۔ ایسے میں کئی بار میرا مذاق بھی اڑایا جاتا تھا۔ کچھ رکشا ڈرائیور کہتے تھے کہ ہمارے دھندے میں عورتوں کی کوئی جگہ نہیں۔ یہ ہمارا حق چھین رہی ہیں۔ کچھ دیکھ کر ہنستے تھے۔ کچھ طعنے کستے تھے۔ لیکن کچھ مسافر ایسے بھی ملے جنہوں نے شاباشی دی۔ تعریف کی اور کہا۔ اچھا کام کر رہی ہو۔ "
image


آج کویتا گھر کے خرچ میں شوہر کا ساتھ دیتی ہے۔ اس کی بڑی لڑکی 8 سال کی ہے اور اسکول جاتی ہے۔ ماں باہر رہنے پر وہ چھوٹے بھائی کی دیکھ بھال بھی کرتی ہے۔ کویتا وقت نکال کر دوپہر میں گھر آ جاتی ہیں اور بچوں کو تھوڑا وقت دیتی ہے۔ ایسے میں بچوں کو ماں کا ساتھ بھی مل جاتا ہے اور وہ چھوٹے بیٹے کا بھی حال چال جان لیتی ہیں۔ گھر پر نہ رہنے پر کویتا کے پڑوسی بھی بچوں کی تھوڑی بہت دیکھ بھال کر لیتے ہیں۔ پہلے کویتا کے پاس کرائے کا رکشہ تھا، لیکن اب انہیں پرمٹ مل گیا ہے اور تھوڑے دنوں بعد رکشہ ان کا اپنا ہو جائے گا۔

حوصلے اور اعتماد سے بھری کویتا کی کہانی، سب کے لئے ایک مثال ہے۔ اس نے بتا دیا ہے کہ خراب سے خراب حالات کا سامنا کس طرح کیا جا سکتا ہے۔ بس ضروری ہے کے آپ کو اپنے اعتماد اور ہمت کو برقرار رکھیں۔ کویتا کی زندگی ایک سبق ہے ان کے لئے جو برے وقت میں غلط قدم اٹھا لیتے ہیں یا ٹوٹ جاتے ہیں۔ آج کویتا اپنے خاندان کے ساتھ خوش ہے اور آٹو کے اسٹیئرنگ کے ساتھ ساتھ وہ اپنی گرہستی کی گاڑی بھی بخوبی چلا رہی ہیں۔

قلمکار: شکھا چوہان۔۔۔ مترجم: زلیخا نظیر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کامیابی کی منزل تک پہنچنے والے ایسے ہی حوصلہ مند افراد کی کچھ اور کہانیاں پڑھنے کے لئے ’یور اسٹوری اُردو‘ کے فیس بک پیج پر جائیں اور ’لائک‘ کریں۔

FACE BOOK

کچھ اور کہانیاں پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں.

اردو یوراسٹوری ڈاٹ کوم