گمنام شعراءسے اپیل : دیکھئے کہ منکشف ہورہا ہے ’عظیم ہندوستانی شعری مجموعہ ‘

ہندوستانی شاعری کو محفوظ کرنے اور گمنام شعرا کو منظرعام پر لانے کیلئے تین خواتین کی قابل ستائش مساعی

گمنام شعراءسے اپیل : دیکھئے کہ منکشف ہورہا ہے ’عظیم ہندوستانی شعری مجموعہ ‘

Friday May 13, 2016,

13 min Read


چونکہ نظمیں قوسِ قزح کی مانند ہوتی ہیں، وہ آپ کے ذہن سے تیزی سے غائب ہوجاتی ہیں۔

.... لانگسٹن ہیوز ، ’ دی بگ سی‘

روزمرہ کی گہماگہمی کے لحن اور صوتی توازن کے اعتبار سے ہم شاعری سے گھِرے ہیں مگر ہم اس سے خائف رہتے ہیں؛ حتیٰ کہ اس سے ڈرتے ہیں۔ پھر بھی ہم خلاصہ کو وضاحت سے پیش کرنے یا بس معنی و مقصد کو تلاش کرنے کی خاطر شاعری کی آغوش میں چلے جاتے ہیں۔ لیکن اگر آپ توجہ نہ دیتے ہوں تو یہ آپ کے تخیل سے فوری غائب ہوجاتی ہے، کیونکہ ’نظمیں قوسِ قزح‘ کی مانند ہوتی ہیں‘۔

مینل حضرت والا

مینل حضرت والا


مینل حضرت والا، شیکھا مالویا اور ایلن کومبیل اپنے اپنے طریقوں سے اسی قوس قزح کے ذریعے خوشی کے اپنے پیمانے بھر رہی تھیں، یہاں تک کہ انھوں نے شاعری کی اپنی چاہت کا (عظیم) ہندوستانی شعری مجموعہ کے ذریعے تبادلہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ دراصل شاعروں کا یکجا ہونا ہے جن کا ایقان ہے کہ الفاظ زندگیوں کی کایا پلٹ کرسکتے ہیں۔

عظیم ہندوستانی شعری مجموعہ جو غیرنفع بخش شعری مجموعہ کے طور پر 2013ءمیں بنگلور، ہندوستان میں تشکیل پایا، ملک بھر سے ایسے شاعرانہ کلام کو شائع کرنے کی سعی کرتا ہے جو اختراعی اور مختلف النوع ہوتے ہیں۔ شاعرہ، مصنفہ اور تحریر کی گرو مینل کہتی ہیں، ”ادارت، ترتیب و خاکہ اور اشاعت کے مربوط عمل کے ذریعے ادارہ کے ارکان ایک دوسرے کے تعاون سے خوبصورت شعری کتب، کہانیوں کے کتابچے اور منتخب شعری مجموعے پیش کرتا ہے۔“ اس کا ایقان ہے کہ ہر نظم سماج اور عظیم تر دنیا کے ساتھ رابطے کو شروع کرتی ہے۔ ”شعری مطالعات، ورکشاپس، اور لیکچر مظاہروں کے ذریعے ہم ایسی کمیونٹی کو فروغ دینا چاہتے ہیں جس میں فنکارانہ اظہار مثبت عمل کا موجب بنے۔“

’ شاعری معہ مشن‘ قرار دیتے ہوئے شریک بانیوں کا یہ بھی مقصد ہے کہ انگریزی میں تحریر کرنے والے ہندوستانی شاعروں کے فن پاروں کو جو آج کے قاری کیلئے کھوچکے ہیں، اس ہندوستانی شعری مجموعہ پراجکٹ کے ذریعے محفوظ کیا جائے (عصری ہندوستانی شاعری کا ذخیرہ ہورہا ہے)۔

اس ادارہ کے مطابق :

” ہندوستان انگریزی میں غیرمعمولی جدید شاعری کے اُبھار سے گزر رہا ہے۔ پھر بھی شاعروں کو تبادلے، بہتری، اور اپنے کلام کی اشاعت کیلئے مواقع محدود ہیں، اور قارئین کو انھیں دریافت کرنے کے مواقع بھی محدود ہیں۔ ہندوستان میں کوئی MFA پروگرام نہیں ہیں۔ بہت کم ورکشاپس ہوتے ہیں، اور سرپرستی کا کافی کم موقع ہے کہ شاعروں کو اپنے فن کو نکھارنے میں مدد کی جائے۔“

ہندوستان اور امریکہ دونوں جگہ سے تعلق والے شعراءکی حیثیت سے مینل، شیکھا اور ایلن ’سوشل انٹریپرینرز‘ بن گئی ہیں اور اس ویژن کو حقیقت کا روپ دینے کیلئے وقف ہیں۔

ٹکنالوجی سے ہم آہنگ دنیا میں شاعری

’اسٹانفرڈ اِگنائٹ‘ کی دو ہم جماعت دیپتی مینن (بانی ، One3One4) ، اور ابھیساریکا داس (ڈائریکٹر، KLoc Technologies) اس ادارہ کی جانب سے ایک ایپ بہ نام inPoetry پر مل کر کام کررہی ہیں، جو موجودہ طور پر beta mode میں ہے۔ یہ ہم عصر ہندوستانی شعراءکو کسی بھی جگہ راست طور پر اسمارٹ فون والے قارئین تک پہنچائے گا۔ One3One4 کا ویژن تخلیقی شعبے میں اختراعی موبائل ایپس بناتے ہوئے ’تغیر میں سحر‘ پیدا کرنا ہے۔ یہ اس کمپنی کا گیمنگ اور فیشن میں داخلے کے بعد تیسرا app ہے۔

شعری سرپرست کے طور پر مدد کے ساتھ پوئٹری ورکشاپ جاری ہے۔

شعری سرپرست کے طور پر مدد کے ساتھ پوئٹری ورکشاپ جاری ہے۔


’اسٹانفرڈ اِگنائٹ‘ انٹریپرینرز کیلئے ’boot camp‘ ہے جو گزشتہ دو سال بنگلور میں منعقد کیا گیا۔ مینل کی خدمات ’pitch panels‘ کیلئے رہتی ہیں جہاں اِگنائٹ کی اسٹوڈنٹ ٹیمیں اپنے اسٹارٹپ کے تخیل کو آگے بڑھانے کی مشق کرتے ہیں تاکہ سرمایہ داروں اور فنڈ فراہم کنندگان کو متاثر کیا جائے۔ وہ اپنی رائے دیتی ہیں اور ان ٹیموں کو اپنے معاملات کو نکھارنے میں مدد کرتی ہیں۔ دیپتی اور ابھیساریکا کی مینل سے ملاقات اسٹانفرڈ اِگنائٹ کے ایک ایونٹ میں ہوئی تھی۔ اتفاق سے مینل اور ابھیساریکا کو معلوم ہوا کہ وہ وائٹ فیلڈ کی یکساں ہا¶زنگ کمیونٹی میں رہتی ہیں! دیپتی کہتی ہیں، ”اس ایپ کو تیار کرنے اور نکھارنے کیلئے ہماری ملاقاتیں گھر میں فلٹر کافی کی پیالیوں اور بسکٹس کے ساتھ دوستانہ انداز میں ہوتی رہی ہیں“۔ نیز یہ کہ اس ایپ کا ابتدائی ورژن Android کیلئے ہے کیونکہ وہ ہی ہندوستان میں وسیع طور پر مستعمل ہے، اور ابھی ہم اینڈرائیڈ موبائل ڈیوائس رکھنے والوں کے نام جمع کررہے ہیں جو inPoetry کے ’بیٹا یوزرز‘ بننا چاہیں اور کسی ہندوستانی شاعر کی ایک نظم فی ہفتہ وصول کریں .... جو تمام متعلقین کیلئے فری سرویس ہوگی۔ مقصد یہ ہے کہ جدید ہندوستانی شاعری کے تعلق سے رائے حاصل کی جائے۔ اس ایپ پر پیش ہونے والی نظمیں مختصر اور موبائل فارمٹ میں پڑھنے کیلئے آسان رہیں گی، جو کسی بس کے انتظار یا قطار میں کھڑے رہتے ہوئے بھی بہ آسانی پڑھی جاسکیں گی۔

شیکھا کا کہنا ہے،

”آج کی ٹکنالوجی سے ہم آہنگ دنیا میں جہاں ہم میں سے کئی ٹویٹ کرتے ہیں، موقف سے آگاہ کرتے ہیں، اور الفاظ کا تبادلہ بھی کرتے ہیں، پیام رسانی مختصر مگر طاقتور بن چکی ہے۔ یہ اب الفاظ کی کفایت والا معاملہ ہوچکا ہے۔ اشتہاربازی سے وابستہ لوگ یہ بخوبی جانتے ہیں اور اُن کے فقرے نہایت توجہ کے ساتھ لکھے جاتے ہیں۔ یہ فقرے جنگل کی آگ کی مانند اثر رکھتے ہیں۔ ہم سب تسلیم کرتے ہیں کہ الفاظ سفیر ہوتے ہیں، بہت ہی طاقتور۔ درحقیقت، مجھے تو ایسے بعض فقروں میں شاعری نظر آتی ہے۔‘‘

” کسی کہانی، کوئی مختصر نثری تحریر یا نیوز آرٹیکل کے مقابل شاعری زیادہ تر معاملوں میں لفظوں کی کفایت رکھتی ہے۔ یہ چند مختصر بند میں کہانی کہہ سکتی ہے، کوئی پیام پیش کرسکتی ہے، اور آپ کو دنیا کے کسی گوشے سے واقف کرا سکتی ہے۔ یہ سچائی عیاں کرسکتی ہے۔ بہترین امر یہ ہے کہ اسے پڑھنے کیلئے آپ کے چند منٹ صَرف ہوتے ہیں۔“

وہ سمجھتی ہیں شاعری بطور صنف کے تعلق سے غلط فہمیاں ہیں کہ بہت مخصوص ہے، پیچیدہ اور عام فہمی سے بعید ہے، جو اسے لوگوں کو پوری طرح قبول کرنے میں مانع ہیں۔ وہ مزید کہتی ہیں: ”آج کے ڈیجیٹل دور میں کسی کے فن کے تبادلے کے متعدد طریقے ہیں اور ہندوستان میں کئی پبلشنگ ہا¶س ہیں جن کی توجہ خاص طور پر شاعری پر مرکوز ہے، جیسے Poetrywala۔ ہجو والی شاعری نے بھی دنیا بھر میں شدت پکڑ لی ہے، اور ساتھ ہی ادبی محفلوں اور سماجی تحریکات کا بھی معاملہ ہے جیسے ’100,000 شعراءبرائے تبدیلی‘ جو آج کے دور میں شاعری کی طاقت اور مطابقت کی پھر سے توثیق کرتا ہے۔ اور ہم یہ فراموش نہ کریں کہ ہمارے کئی رزمیے اور مثالی فن پارے شعرگوئی کے ساتھ تحریر ہیں۔ یہ قدیم وراثت ہے جو ہمارے ساتھ برقرار ہے اور برقرار رہے گی۔“

شیکھا مالویا اور ایلن کومبیل

شیکھا مالویا اور ایلن کومبیل



اس ادارہ نے دو کتابوں کی اشاعت کے ساتھ شروعت کی ہے، شیکھا کی ’Geography of Tongues‘ جس کی گزشتہ ڈسمبر میں رسم اجرائی ہوئی، اور مینل کی ’Bountiful Instrucitions for Enlightenment‘ جو نومبر میں پیش کردی گئی۔ اُن کی crowdfunding campaign انھیں اپنے مقبول لائیو ورکشاپس کو عملاً حرکیاتی ورکشاپس میں تبدیل کرنے کے قابل بنائے گا، جہاں وہ ہندوستان کی شاعری کو بروئے کار لاتے ہوئے دنیا بھر کے تخلیقی فن کو تحریک بخشیں گے۔ اس مہم کا ایک اور مقصد ioS app بھی تیار کرنا ہے۔

اس ادارہ کی تیسری کتاب بعنوان ’Histories of the Future Perfect‘ ایلن کی تصنیف رہے گی اور آئندہ سال منظرعام پر آجائے گی۔ ایلن اپنے مجموعہ کے تعلق سے کہتی ہیں، ”بعض نظمیں جو یادداشت سے متعلق ہیں، میں نے جامع کرتے ہوئے اس مقصد سے چھوٹی کردیئے کہ انھیں نیوٹران اسٹار جیسی بھاری بنایا جائے، جو احساس، جذبہ اور حرکت کی کثافت ہے۔ اس تجربے کے تعلق سے میں پُرجوش ہوں۔“

شاعری کی کشش

ہمہ رنگ شخصیت مگر دل سے شاعرہ مینل کو لکھنے اور پڑھنے کا شوق تب ہی سے ہے جب انھوں نے حروف تہجی سیکھے! ”میں چھ سال کی تھی جب میں نے میری پہلی ’کتاب‘ لکھی: چند مڑے ہوئے رنگین کاغذ جنھیں اسٹیپل سے جوڑا اور میرے والدین کے نام کیا۔ یہ پرندوں کے تعلق سے چھوٹی تک بندی والی نظموں سے بھری تھی۔ ایک نظم جس پر مجھے بہت فخر ہوا کچھ اس طرح رہی :

The eagle flies

Oh so high

I wish that I

could touch the sky.

وہ زیرلب مسکراہٹ کے ساتھ کہتی ہیں، ”میرے خیال میں اکثر بچوں میں اختراعیت کا جذبہ ہوتا ہے اور آرٹ اور کہانیاں اور دیگر اقسام کی بے ترتیب چیزیں بنانے کی طرف مائل ہوتے ہیں .... میرے معاملے میں ، میں کبھی نہیں رکی۔“

امریکہ میں جنم لینے اور پرورش پانے والی مینل ہندوستان کو 2010ءکے آس پاس منتقل ہوئیں۔ وہ ایوارڈ جیتنے والی طویل نظم ’Leaving India: My Family's Journey from Five Villages to Five Continents‘ (2009ئ)کی مصنفہ ہیں، جسے Alice Walker نے ”بے مثل“ اور ’واشنگٹن پوسٹ‘ کی جانب سے ”جذباتی دیانت داری“ قرار دیا ہے۔ وہ ’Out! Stories from the New Queer India‘ (2013ئ) کی ایڈیٹر بھی ہیں۔ وہ اسٹانفرڈ یونیورسٹی سے گرائجویٹ بنیں، کولمبیا یونیورسٹی میں فیلو رہیں، اور 2011ءفلبرائٹ۔ نہرو سینئر اسکالر بھی تھیں۔

ایلن بنگلورو کے کیوبن پارک میں پوئٹری ورکشاپ منعقد کرتی ہوئیں

ایلن بنگلورو کے کیوبن پارک میں پوئٹری ورکشاپ منعقد کرتی ہوئیں


شیکھا بھی جن کی پرورش یوکے، یو ایس میں ہوئی اور وہ ہندوستان کو 2008ءمیں منتقل ہوئیں، تب ہی سے شاعری اُن کی زندگی کا ادبی عشق رہا ہے جب وہ بچی تھیں۔ ”مجھے امریکی یا برطانوی یا ہندوستانی رہتے ہوئے کبھی انگریزی میں شاعری کا خیال نہیں آیا تھا۔ لیکن جتنا میں پڑھتی اور شاعری کا مطالعہ کرتی گئی، بالخصوص انگریزی میں ہندوستانی شاعری، مجھے اندازہ ہوا کہ خود ہماری انگریزی بولی بھی ہے، جو ہمارے شخصی تاریخوں، ثقافتوں اور جغرافیوں سے معلوم ہوتی ہے۔ چند برسوں تک میں اپنے کام اور شاعرہ بننے کے مقصد کے تعلق سے الجھن زدہ رہی۔ میرے افکار سے فرق کیونکر پڑنا چاہئے؟ میں شخصی افکار کو کس طرح آفاقی پہلو دے سکتی ہوں؟ ساتھ ہی مجھے انگریزی میں ہندوستانی شعراءکے شائع کردہ کتب ڈھونڈنے میں مشکل ہورہی تھی۔ اکثر تو طباعت سے محروم رہ گئے۔ جدید ہندوستانی شعراءکے تعلق سے کوئی علمی یا تنقیدی فن پارہ کو ڈھونڈنا مشکل تھا۔“

شیکھا کہتی ہیں کہ یہ سب باتیں اُن کے ذہن میں تھیں کہ جولائی 2012ءمیں انھیں شاعری پر ایک اخباری مضمون دیکھنے کو ملا۔ ”میں جیسے ہی ابتدائی سطور پڑھی میری نشست سے لگ بھگ اچھل پڑی: ’میری موت کے بعد میرے مسودوں، میرے مخطوطات کا کیا ہوگا؟ یہ سوال شاعر اروند کرشنا مہروترا کا تھا۔ وہ ڈبوں میں رکھ کر کیلوگرام کے حساب سے ردی والے کو فروخت کردیئے جائیں گے۔ اور کیا؟‘ “

وہ کہتی ہیں کہ اروند کا قول اُن کیلئے طمانچہ کے مانند ثابت ہوا۔ اس آرٹیکل نے ہندوستانی شاعری کو مناسب طور پر محفوظ کرنے کی ضرورت پر بات کی گئی، کہ متعدد مخطوطات ہیں جو یونہی پڑے ہیں، کہ کئی کتب طباعت سے محروم ہیں، جن میں پانچ تا دس سال قبل کی حالیہ کتب بھی ہیں۔ ”یہ سب میرے تخیل میں یکایک امنڈ آیا۔ یہاں میرے لئے کچھ کام سمجھ آیا جو میرے اپنے کام کے دائرے سے متجاوز تھا اور جس سے جدید ہندوستانی شاعری کی وراثت کی توقیر ہوئی۔ اور یہی کچھ ہے جس نے ( گریٹ ) انڈین پوئٹری پراجکٹ اور (عظیم) ہندوستانی شعری مجموعہ کی تشکیل کا حوصلہ بخشا۔“

ہندوستان میں مقیم امریکی ایلن کیلئے قلم چلانا ہمیشہ ہی اُن کی پہلی پسند رہی۔ ”میں نے میری پہلی نظم آٹھ سال کی عمر میں لکھی۔ اس کا عنوان ’ Mr. Moon, Mr. Moon‘ ، اور یہ Persephone کی کہانی پڑھنے پر میرے ردعمل پر بڑی حد تک مبنی تھی۔ ہمارے پاس رنگارنگ تصویری کتاب تھی جو کہانی بیان کرتی تھی، اور مجھے Demeter کی تصویر اچھی طرح یاد ہے ، جو اپنے کھوئے Persephone کو تلاش کرتے ہوئے آخرکار چاند سے اس کی مدد کرنے کی التجا کرتی ہے، کیونکہ اُس نے ضرور ہر چیز دیکھ رکھی ہے۔ مجھے لگا کہ چاند مجھے کچھ بھی کہہ سکتا ہے، اور وہ نظم بچہ کے چاند سے سلسلہ وار سوالات اور چاند کے تخیلی جوابات پر مشتمل تھی۔ میں وہ نظم موڑ کر میرے جین جیکٹ کی جیب میں رکھا کرتی تھی یہاں تک کہ سیاہی کا دھبہ پڑگیا اور کاغذ بودا ہوچلا تھا۔ مجھے یاد ہے وہ نظم میرے ذہن میں یکایک چلی آئی جبکہ میں اسکول سے گھر کو چلی جارہی تھی، جو بظاہر میرے خیالات کی بناوٹ اور اس کے ساتھ میرے بدن سے ہم آہنگی کے ساتھ ڈھل رہی تھی۔“

شاعرہ اور یوگا ٹیچر دونوں کی حیثیت سے اپنے پس منظر کے ساتھ ایلن کیلئے تحریر اور سانس ، اور، علحدہ طورپر سانس اور حرکت کے درمیان ہمیشہ ہی ربط رہا ہے۔

”کچھ عرصے سے میں حرکت اور تحریر کے خیال پر تجربہ کرتی رہی ہوں۔ اس کا کیا مطلب ہے، مثال کے طور پر، آیا حرکت بجائے خود اظہار خیال کرسکتی ہے؟ وہ کیا کہے گی؟ میں حرکت کے ساتھ سانس لیتے ہوئے لکھا کرتی ہوں۔ نظمیں وہی ہیں جو میں چھان بین کے بعد جمع کرتی ہوں۔“

ایلن یونیورسٹی آف شکاگو کی گرائجویٹ ہے، جہاں انھوں نے اپنے گرائجویشن کے تقاضوں کے حصہ کے طور پر ایک سال آسٹروفزکس کی پڑھائی کی۔ وہ اپنی تحریر کے عمل سے متعلق کہتی ہیں، ”قدریہ شاعری کیلئے میرا خبط واقعی وہیں نامعلوم خلاءمیں شروع ہوا۔ ہر سوال جس کے جوابات حاصل ہوتے ہیں ایسا لگتا ہے مزید پانچ سوالات کا دریچہ کھول دیتا ہے۔ اس نہج کا مجھے دوبارہ احساس Patanjali کے ’ Yoga Sutras ‘ پڑھنے پر ہوا۔ یہ سوتراز quantum physics ہیں، لیکن ہزاروں سال قبل اِدراک ہوچلا تھا۔ میں اسی پراسرار جگہ سے لکھتی ہوں۔“

تینوں شریک بانیوں کیلئے گزشتہ دو ماہ زیادہ تر اس ادارہ کو فروغ دینے اور چلانے کے کام سے نمٹنے میں صَرف ہوئے ہیں۔ مینل کے مطابق انٹریپرینرز کی حیثیت سے ہر روز نئی باتیں سیکھنے کو ملتی ہیں۔

”سیاہی تو میرے منھ کناروں سے بہتی ہے۔ میری جیسی خوشی کہیں نہیں۔ میں شاعری کو ہضم کرتا رہا ہوں۔“ مارک اسٹرانڈ کی یہ سطر شیکھا کی ویب سائٹ پر اس ’بھرپور کیفیت‘ کا موزوں طور پر خلاصہ کرتی ہے جسے یہ تینوں خواتین محسوس کررہی ہیں۔

................................................................

اس طرح کی مزید دلچسپ کہانیوں کیلئے یور راسٹوری کا ’فیس بک‘ صفحہ دیکھئے اور لائک کیجئے :

facebook

یہ بھی پڑھئے :

حیدرآباد میٹرو اسكائی واكس بسائیں گے آسمان میں چلنے والوں کی نئی دنیا

مہارشٹر ریاستی سِول سروس میں ٹاپ کرنے والی حنا انصاری چھوٹے گاؤں کے کسان خاندان کی بیٹی اور بہو

انڈیا کا ’پاور کپَل‘ : اِندور کی شوہر۔ بیوی جوڑی جس نے شاید دنیا کا سب سے موثر ایئر کنڈیشنر بنالیا ہے

ر±ک جانا نہیں تو کہیں ہار کے.... عبدالحکیم کی کامیابی کا راز!

ا±ردو ٹیچر سے فلاحی جہدکار بننے کا مثالی سفر...ایم اے رحمٰن

................................................................

قلمکار : دپتی نائر .... مترجم : عرفان جابری .... Writer: Dipti Nair .... Translator: Irfan Jabri